Wednesday, April 19, 2017

The Unending Wars: Who Is Suffering The Most And Who Is Profiting More

The Unending Wars: Who Is Suffering The Most And Who Is Profiting More

Afghan War Started In The Eighties Against The Soviet Army, And Afghanistan Is Still In Wars

It has been thirty-seven years of
Civil War in Afghanistan. In Somalia, which war started in the nineties, has been in twenty-six years and Somalia is still in war
The First Iraq War Started in the nineties, and Iraq is still in war. It has been twenty-six years
The war in Syria, seven years. The war in Libya, seven years. The war in Yemen, three years

مجیب خان
A convoy of Soviet-armored vehicles crossing a bridge at the Soviet-Afghan border    

Congressman Charlie Wilson With Afghan Mujahideen

Operation Iraqi Freedom, March 20, 2003 

President Bush with Pilots and Crew members of the aircraft
Children of All Wars 
    افغان جنگ کا Part One سوویت فوجوں کے خلاف جہاد 80 کی دہائی پر چھایا ہوا تھا۔ جبکہ 90 کی دہائی میں داخلی افغان خانہ جنگی Part Two تھا۔ جن مجاہدین کو امریکہ نے تربیت، اسلحہ اور فنڈ فراہم کیے تھے۔ اور مغربی طاقتوں نے ان کی حمایت کی تھی۔ وہ مجاہدین مختلف گروپوں میں تقسیم ہو گیے تھے۔ اور ان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ افغان جنگ امریکہ کے 40 ویں صدر رونا لڈ ریگن کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ امریکہ کے 41 ویں صدر جارج ایچ بش کے دور میں یہ جنگ پھر داخلی خانہ جنگی بن گئی تھی۔ 21 سال بعد امریکہ کے 43 ویں صدر جارج ڈ بلو بش کے دور میں افغان جنگ کا Part Three شروع ہوا تھا۔ کابل میں طالبان حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے بش انتظامیہ نے امریکہ کی زمینی فوج کو استعمال نہیں کیا تھا۔ بلکہ طالبان کے مخالف ازبک اور تا جک وار لارڈ ز کو ڈالروں سے بھرے بریف کیس دئیے تھے۔ اور انہیں طالبان کی حکومت ختم کرنے اور ان کا مکمل خاتمہ کرنے کا مشن دیا تھا۔ اور ان کی مدد امریکہ کی فضائیہ نے کی تھی۔ جس نے کابل پر بمباری کی تھی۔ یہ ازبک اور تا جک وار لارڈ ز شام کے صدر اسد سے زیادہ خوفناک Butcher اور Animal تھے۔ طالبان مجاہدین نے نومبر 2001 میں کندوز کا محاصرہ ہونے کے بعد جنرل عبدالرشید دو ستم کے دستوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ جنرل دو ستم کے حکم پر انہیں پھر Sheberghan جیل بند Containers  میں لے جایا گیا تھا۔ راستہ میں ایک ہزار طالبان بند Containers میں ہوا اور پانی نہ ملنے سے مر گیے تھے۔ وہاں موجود بعض گواہوں نے بتایا تھا کہ یہاں امریکی فوجی بھی موجود تھے۔ ایک ہزار طالبان کے قتل عام کو Dasht-i-Leili Massacre کہا جاتا ہے۔ جنرل دو ستم کے فوجیوں نے انہیں ایک بڑے گڑھے میں پھینک کر اس پر مٹی ڈال دی تھی۔ انسانیت کے خلاف یہ کرائم کسی طرح بھی انسانیت کے خلاف Chemicals استعمال کرنے سے کم نہیں تھے۔
    طالبان حکومت ختم ہونے پر افغانوں نے مسرت کا اظہار کیا تھا۔ افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر ملکی فوجوں کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ اور امریکہ بہت آسانی سے اور بہت جلد یہ جنگ جیت سکتا تھا۔ لیکن بش انتظامیہ کا جنگ ختم کرنے کا جیسے ایجنڈا نہیں تھا۔ اور افغان جنگ کی منصوبہ بندی بھی اسی کے مطابق کی گئی تھی۔ جنگ  جیت کر ہارنے کے بعد یہ جنگ دوبارہ جیتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ امریکہ اور نیٹو اب افغانستان میں اس صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغانستان میں صدر بش کے Blunders کا صدر اوبامہ نے علاج کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس مرتبہ افغانستان فتح کرنے کے لئے صدر اوبامہ نے امریکی فوجوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ کر دی تھی۔ جبکہ نیٹو کی ساٹھ ہزار فوجیں اس کے علاوہ تھیں۔ اس کے علاوہ افغانستان پر 26000 ہزار بم اور میزائل بھی گراۓ تھے۔ لیکن صدر اوبامہ اس کے باوجود اس جنگ کو ناکامیوں سے نہیں نکال سکے تھے۔ امریکی اور نیٹو فوجیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ افغان جنگ کے دس سال بعد صدر اوبامہ نے افغانستان سے تمام فوجیں نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ صرف 8 ہزار امریکی فوجیں اور 5 ہزار نیٹو فوجیں افغان سیکورٹی فورس کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھی تھیں۔ لیکن یہ امریکہ کی افغان جنگ کی دوسری دہائی کے 7 سال ہیں اور افغانستان کے حالات بہتر ہونے کے کہیں کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
    امریکہ نے وار لارڈ ز کو اس جنگ میں اپنا اتحادی بنایا تھا۔ لیکن وہ بھی افغان جنگ جیت کر امریکہ کو نہیں دے سکے تھے۔ امریکہ نے تورہ بورہ میں ڈیزی کٹر بم گرا کر دیکھ لیا۔ امریکہ نے افغانستان میں فوجوں میں اضافہ کر کے اور فوجوں میں کمی کر کے دیکھ لیا ہے۔ لیکن افغانستان کے حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ امریکہ نے ڈرون  سے بم گرانے کا تجربہ بھی کر لیا ہے۔ لیکن طالبان افغانستان میں ابھی تک زندہ سلامت ہیں۔ اور افغانستان کے تقریباً ایک تہائ حصہ پر ان کا قبضہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں افغانستان کے دروں میں اسلامی ریاست کے کمپلیکس پر پہلا بم گرایا گیا ہے۔ جو 21 ہزار ٹن کا Non-Nuclear بم تھا۔ اور اسے Mother of All Bombs بتایا تھا۔ یہ 16 ملین ڈالر کا بم تھا۔ لیکن صرف 94 اسلامی ریاست کے دہشت گردوں کے مرنے کی خبر سنائی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں فوجی کامیابی نہیں ہونے پر پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے کا الزام دینے لگتے ہیں۔ اور پاکستان سے ان کے خلاف کاروائی کرنے کے مطالبہ ہونے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ افغانستان کے طالبان ہیں جنہوں نے پاکستان کو اپنی دہشت گردی دی ہے۔ افغانستان کے بعد پاکستان کو بھی عدم استحکام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور پاکستان کا ہمسایہ بھارت ان  کی حمایت کرتا ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اور پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تقریباً 11 سال سے پاکستان ان سے لڑ رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے قومی سلامتی امور کے مشیر میکماسٹر نے روس سے بھی طالبان کی حمایت ختم کرنے کا کہا ہے۔ یہ پالیسی بش انتظامیہ کی تھی۔ یہ پالیسی اوبامہ انتظامیہ کی تھی۔ اور اب یہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی بنتی نظر آ رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف قطر نے طالبان کو اپنا دفتر کھولنے کی اجازت دی ہے۔ قطر انہیں فنڈ ز دے رہا ہے۔ سعودی عرب بھی ان کی مالی مدد کر رہا ہے۔ تیسری طرف بھارت ہے۔ جو افغانستان میں انتشار اور عدم استحکام کو اپنے اسٹرٹیجک مقاصد میں استحصال کر رہا ہے۔ امریکہ کی تین انتظامیہ کی جب یہ پالیسی ہے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے در پردہ عزائم اور ایجنڈا کچھ اور نظر آنے لگتا ہے۔
    افغانستان کے بعد صومالیہ دوسرا قبائلی ملک تھا۔ جہاں 1991 سے دو بڑے قبائلی وار لارڈ محمد فرح ادید  Aideed اور علی مہدی محمد کے درمیان اقتدار کی لڑائی ہو رہی تھی۔ صومالیہ بھی ایک انتہائی غریب ملک تھا۔ 1992 میں تقریباً 4 لاکھ صومالی بیماری، فاقہ کشی اور خانہ جنگی کی وجہ سے  مارے گیے تھے۔ صدر جارج ایچ بش نے صومالیہ کو فوری طور پر غذائی اشیا فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکہ کی قیادت میں Operation Restore Hope منظور کیا تھا۔ اور ایک فاقہ کش ملک کی مدد کرنے کے لئے امریکہ کو غذائی اشیا کی فراہمی کا تحفظ کرنے کا اختیار دیا تھا۔ جس کے تحت امریکہ وار لارڈ ز کے خلاف کاروائی کر سکتا تھا۔ 1993 میں صومالی باغیوں نے امریکہ کے دو ہیلی کاپٹر گرا دئیے تھے۔ جس میں امریکہ کے 18 فوجی مارے گیے تھے۔ صومالیہ میں گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی تھی۔ اور کئی ہزار صومالی اس لڑائی میں مارے گیے تھے۔ 1994 میں امریکہ نے اپنا صومالی مشن ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس مشن پر امریکہ نے 1.7 بلین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اس مشن میں 43 امریکی فوجی مارے گیے تھے۔ اور 153 فوجی زخمی ہوۓ تھے۔ 2002 میں امریکہ کو یہ  اطلاع ملی تھی کہ القا عدہ کے جنگجو صومالیہ میں پناہ لے رہے تھے۔ اس اطلاع کے بعد امریکہ نے خطہ میں اپنا فوجی آپریشن بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ صومالیہ میں خانہ جنگی ابھی تک جاری ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے صومالی حکومت کی مدد کرنے اور صومالی فوج کو تربیت دینے کے لئے امریکی فوج صومالیہ  بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ صومالیہ میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
    عراق جنگ کو 14 سال ہو گیے ہیں۔ اور عراق ابھی تک عدم استحکام کے حالات سے نہیں نکل سکا ہے۔ 14 سال سے عراق میں ہر ماہ دو ہزار بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ امریکہ کے عراق پر حملہ سے ایک پوری نسل تباہ ہو گئی ہے۔ عراق اقتصادی ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایجوکیشن میں 50 سال پیچھے چلا گیا ہے۔ ایک ملک کے لوگوں کو ایک غیر قانونی جنگ کے ذریعہ اقتصادی ترقی اور ایجوکیشن میں پیچھے کرنا بھی انسانیت کے خلاف کرائم ہے۔ تقریباً دو ملین عراقی اس جنگ میں مارے گیے ہیں۔ اور چار ملین عراقی بے گھر ہو گیے ہیں۔ اس جنگ سے حاصل کیا ہوا ہے؟ یہ جنگ کس کے مفاد میں تھی؟ ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے تاریخ سے کہا ہے۔
    اوبامہ انتظامیہ اور مغربی ملکوں نے کیا سوچ کر شام میں فساد پھیلانے والوں کی حمایت کی تھی؟ انہوں نے مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب  جمہوری کا خاتمہ صرف اس لئے قبول کیا تھا کہ اس حکومت میں مصر میں اسلامی انتہا پسندوں کا فروغ ہو رہا تھا۔ جو اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہا تھا۔ اسرائیل اسلامی انتہا پسندوں میں گھرتا جا رہا تھا۔ لیکن پھر مصر میں ناکام ہونے والے اسلامی انتہا پسندوں کی شام میں اسد حکومت کے خلاف تحریک کی امریکہ اور مغربی ملکوں نے حمایت کی تھی۔ اسد حکومت سیکولر اور لبرل تھی۔ جس میں تمام مذہبی عقیدے امن اور آزادی سے رہتے تھے۔ ایک ایسی حکومت کے خلاف اوبامہ انتظامیہ نے اسلامی انتہا پسندوں کو فوقیت دی تھی۔ انہیں تربیت اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ اور دنیا کو 6 سال سے اس خونی خانہ جنگی سے Entertain کرایا تھا۔ القا عدہ، اسلامی ریاست، داعش، النصرہ جیسے دہشت گرد گروپ شام کو تباہ کر رہے تھے۔ اسد حکومت کے حامیوں، عیسا ئیوں اور Alawite شیعہ فرقہ کے لوگوں کا قتل عام کر رہے تھے۔ شام میں قدیم تاریخ کی تمام نشانیاں مٹا رہے تھے۔ اور اوبامہ انتظامیہ ان کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹی تھی۔ یہاں اسرائیل کا کیا مفاد تھا؟ چھ سال سے اسرائیل کی سرحد پر اسلامی انتہا پسندوں کو جمع کیا جا رہا تھا۔ اور اسرائیل کو اس پر کوئی پریشانی نہیں تھی۔
    اوبامہ انتظامیہ نے شام میں اسد حکومت کے خلاف نام نہاد ماڈریٹ اور Free Syrian Army کو تربیت اور اسلحہ بالکل اسی طرح دیا تھا۔ جیسے 80 کی دہائی میں صدر ریگن نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو تربیت اور اسلحہ دیا تھا۔ اور شام کو اس خطہ میں اب ایک دوسرا افغانستان بنا دیا ہے۔ نجیب اللہ کی حکومت کا زوال ہونے کے بعد افغانستان میں جہادی گروپ تقسیم ہو گیے تھے۔ اور ان میں اقتدار کی خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ شام میں اس وقت افغانستان سے زیادہ انتہا پسند گروپ ہیں۔ افغانستان میں صرف پاکستان براہ راست ملوث تھا۔ لیکن شام میں اس خطہ کا ہر ملک ملوث ہے۔ افغانستان کی طرح اگر شام میں بھی آئندہ 30 سال تک عدم استحکام اور داخلی خانہ جنگی جاری رہتی ہے۔ تو یہ اسرائیل کے مفاد میں ہو گا۔ آئندہ 30 سال میں اسرائیل کی آزادی کے 100 سال ہو جائیں گے۔ اور عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کے فوجی قبضہ کے 80 سال ہو جائیں گے۔ فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا خواب اس وقت تک پورا ہو گا یا نہیں؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران Regime Change کرنے کے حملے ایک نئی قسم کی دہشت گردی ہے۔ جس نے ملکوں کو تباہ کیا ہے۔ لوگوں کی زندگیاں اجڑ گئی ہیں۔ ان کا امن برباد ہو گیا ہے۔ دوسری طرف اس صورت حال کے نتیجہ میں سیکورٹی کی نئی کمپنیاں وجود میں آئی ہیں۔ ہتھیاروں کی صنعت میں زبردست Boom آیا ہے۔                                                                     

No comments:

Post a Comment