Thursday, April 27, 2017

First Historical Verdict Against A Prime Minister In Office: Guilty Until Proven Innocent

First Historical Verdict Against A Prime Minister In Office:         
Guilty Until Proven Innocent

Two Judges Have Said The Prime Minister Is Dishonest, Incompetent, And Should Be Dismissed

مجیب خان  
  
Prime Minister Nawaz Sharif


"?Is it true that behind every great fortune there is a crime"

 Imran Khan Chairman  Pakistan Tehreek-i-Insaf
     وزیر اعظم میاں نواز شریف خاندان کے پانامہ کیس کرپشن پر سپریم کورٹ کی 5 رکنی بینچ نے ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا ہے۔ اس بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھو سہ اور جسٹس گلزار نے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے۔ اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کا کہا ہے۔ جبکہ تین ججوں نے اپنے فیصلے میں وزیر اعظم کے لئے لفظ نااہل استعمال نہیں کیا ہے۔ لیکن ان ججوں نے جو دس سوالات اٹھاۓ ہیں۔ وہ دراصل جسٹس سعید کھو سہ اور جسٹس گلزار کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان ججوں نے نواز شریف اور ان کے خاندان کے بیانات میں بہت سنجیدہ تضاد ات بتاۓ ہیں۔ ان ججوں نے یہ سوال کیے ہیں کہ سرمایہ کیسے جدہ، لندن اور قطر پہنچا؟ کم عمر بیٹوں نے نوے کی دہائی میں فلیٹس کیسے خریدے؟ حسن نواز نے کیسے ان کمپنیوں کو حاصل کیا؟ ان کمپنیوں کو چلانے کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا؟ حسن نواز نے میاں نواز شریف کو کہاں سے لاکھوں روپے تحفہ میں دئیے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ میاں نواز شریف خاندان کےخلاف کرپشن کیس میں صفائی میں اتنے ٹھوس ثبوت نہیں ہیں کہ جتنے شبہات پر مبنی تضاد ات ہیں۔ یہ تضاد ات دیکھ کر خود ان کے خاندان کے لوگ ایک دوسرے کے چہرے دیکھ رہے ہوں گے۔ تین ججوں نے اس لئے نواز شریف کو بری نہیں کیا ہے۔ اور نواز شریف کو ان سوالوں کے جواب دینے کا ایک موقعہ اور دیا ہے۔ اور سول اور ملڑی انٹیلی جنس کی ایک مشترکہ ٹیم سے ان سوالوں کے بارے مزید تحقیقات کرنے کا کہا ہے۔ اور 60 دن میں اس کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم  دیا ہے۔ ساڑھے پانچ سو صفحات کی رپورٹ پر پانچوں ججوں نے دستخط کیے ہیں۔ یہ فیصلہ تاہم مشترکہ نہیں ہے۔ دو ججوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو پانامہ کیس کرپشن میں Guilty قرار دیا ہے۔ لیکن تین ججوں کے فیصلے کو Guilty Until Proven Innocent   دیکھا جاۓ گا۔
    اس کیس میں ججوں پر بھاری ذمہ داری تھی۔ اور انہوں نے بڑے محتاط ہو کر یہ فیصلہ دیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی کے کارکن اور وزرا یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ اور یہ فیصلہ ان کے حق میں ہے۔ جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جسٹس کھو سہ اور جسٹس گلزار کا جو فیصلہ تھا اگر یہ بینچ کا مشترکہ فیصلہ ہوتا تو پاکستان میں پھر کیا ہوتا؟ وزیر اعظم کے خلاف دو ججوں کے فیصلہ پر حکومت کے وزرا کا رد عمل قوم نے دیکھا ہے کہ کس طرح سپریم کورٹ کے باہر یہ چیخ پکار رہے تھے۔ Low لہجہ پر اتر آۓ تھے۔ سول سوسائٹی کو بھول گیے تھے۔ اگر یہ پانچ ججوں کا متفقہ فیصلہ ہوتا تو سارے ملک کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ پاکستان سیاسی انتشار میں آ جاتا۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال پہلے ہی بہت نازک ہے۔ پانچ ججوں نے انتہائی غور خوص کے بعد اور ملک کے سیاسی حالات کو مد نظر رکھتے ہوۓ یہ اختلافی فیصلہ دیا ہے۔ اس فیصلہ میں ججوں نے سیاسی اور جمہوری عمل کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ اور ملک میں امن رکھنے میں فوج کی مدد کی ہے۔ بلاشبہ فوج بھی سپریم کورٹ سے یہ توقع کر رہی ہو گی کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ملک کا استحکام اور امن درہم برہم نہیں ہونا چاہیے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "پہلے فوج ملک کی سلامتی اور استحکام میں آ گے رہتی تھی۔ اور سپریم کورٹ اس کے پیچھے ہوتی تھی۔ اور اب سپریم کورٹ کو ملک کی سلامتی اور استحکام میں آ گے آنا ہو گا اور فوج اس کے پیچھے رہے گی۔" لہذا سپریم کورٹ نے ملک میں سیاسی تقسیم کو مد نظر رکھا ہے۔ حالات کا جائزہ لیا ہے اور اس کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔
    سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد میاں نواز شریف کی سیاست کا یہ آخری باب نظر آ رہا ہے۔ میاں نواز شریف JIT کے سامنے پیش ہونے کے بجاۓ جس میں ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے لوگ بھی ہوں گے شاید مستعفی ہونے کو ترجیح دیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی جگہ جو بھی آۓ گا وہ جلد یا آئندہ سال وقت پر انتخاب کر آۓ گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ایک نئی مثال ہو گی۔ میاں نواز شریف کو 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزام میں وزیر اعظم کے عہدہ سے برطرف کیا تھا۔ ان 24 سالوں میں نواز شریف بدلے نہیں تھے۔ اور 24 سال بعد اب انہیں کرپشن کے کیس میں سپریم کورٹ کا سا منا کرنا پڑا ہے۔ اس مرتبہ میاں نواز شریف اپنے سیاسی زوال کے خود ذمہ دار ہیں۔ اور وہ اپنے سیاسی زوال کا کسی کو الزام نہیں دے سکتے ہیں۔
    وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد آصف علی زر داری یہ مت سمجھیں کہ انہوں نے پیغمبروں کی طرح حکومت کی تھی۔ آصف علی زر داری پاکستان میں کرپشن کے چمپین ہیں۔ زر داری کو 60 ملین ڈالر کا ابھی حساب دینا ہے کہ یہ کہاں سے آۓ تھے؟ اور کہاں گیے ہیں؟ عوام زر داری اور ان کی پیپلز پارٹی کو اس وقت تک ووٹ نہیں دیں کہ جب تک زر داری 60 ملین ڈالر کا حساب نہیں دیتے ہیں۔ آصف علی زر داری کا دور اقتدار پاکستان کے عوام کے لئے Hell تھا۔ ان کے دور میں پاکستان کے حساس اداروں پر حملہ پاکستان پر حملہ تھے۔ ان حملوں میں فوج کے اعلی افسر مارے گیے تھے۔ ہزاروں بے گناہ شہری دہشت گردوں کے حملوں میں مارے گیے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا دور شاید کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے واقعات ہونے پر کسی وزیر نے اپنی ناکامی بتا کر وزارت سے استعفا نہیں دیا تھا۔ وزیر داخلہ وزارت کی کرسی سے چپکے رہے۔ افغانستان میں دو وزیروں نے اس ہفتہ اس لئے استعفا دے دیا کہ طالبان نے فوجی چھاؤنی پر حملہ کر کے  170 افغان فوجی ہلاک کر دئیے تھے۔ لیکن پاکستان میں ایسی مثال قائم نہیں کی گئی ہے۔
    فوج میں کرپشن کے خلاف کاروائی کرنے کی مثال قائم کی گئی ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے فوج میں بعض سینیئر افسروں کے خلاف کرپشن کے الزام میں کورٹ مارشل کیا تھا۔ اور انہیں سزائیں دی تھیں۔ صدر جنرل مشرف سابق ایڈ مرل کو جس نے لاکھوں ڈالر خرد برد کیے تھے اور اس نے امریکہ میں پناہ لے لی تھی۔ اسے امریکہ سے پکڑ کر پاکستان لاۓ تھے۔ اور اسے سزا دی تھی۔ اس کے اثاثے ضبط کر لئے تھے۔ اور اس سے خرد برد کے لاکھوں ڈالروں کا حساب لیا تھا۔ جنرل راحیل شریف نے بھی فوج کے بعض افسروں کو کرپشن کرنے پر برطرف کر دیا تھا۔ اور کچھ کو ان کے عہدوں سے Demoteکر دیا تھا۔ لیکن سیاستدانوں نے اپنے کلب میں ابھی تک ایسی مثال قائم نہیں کی ہے۔ عمران خان پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے سیاسی پارٹیوں میں کرپشن کے خلاف احتساب کی ابتدا کی ہے۔ اور اپنے آپ کو بھی احتساب کے لئے پیش کیا ہے۔ کرپشن ایک ایسی دیمک ہے جو اداروں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اس کا علاج ضروری ہے۔       
  

             

No comments:

Post a Comment