Wednesday, May 17, 2017

Afghanistan’s Military Solution Has Failed, The Trump Administration Must Adopt A New Afghan Policy, And First Will Have to Target Corruption, Powerful Drug Mafia, Warlords' War for Power, And Surge A Political Solution


Afghanistan’s Military Solution Has Failed, The Trump Administration Must Adopt A New Afghan Policy, And First Will Have to Target Corruption, Powerful Drug Mafia, Warlords' War for Power, And Surge A Political Solution

مجیب خان

No to War- Afghan Peace Volunteers 

Afghan Protests

Afghan Children

Afghan Pashto Dance Show

Concert for Afghan women to mark Peace day in Kabul, Afghan singer Farhad Darya

Afghanistan 2014 Election, Afghan People's participation in Political Process
  
     17 سال میں ٹرمپ انتظامیہ تیسری انتظامیہ ہے جس میں ایک نئی افغان حکمت عملی پر غور ہو رہا ہے۔ پینٹ گان نے افغانستان میں Surge کی تجویز دی ہے۔ اور 3 ہزار مزید فوجیں افغانستان بھیجنے کی درخواست کی ہے۔ اس سے قبل افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے بھی مزید فوجیں بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ اور اب کمانڈر انچیف صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے۔ اس وقت افغانستان میں8500 امریکی فوجیں ہیں۔ اور تقریباً 5 ہزار نیٹو فوجیں ہیں۔ امریکہ کے ساتھ نیٹو بھی مزید فوجیں بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔ یہ امریکہ کی تیسری انتظامیہ میں تیسرا Surge ہو گا۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ میں Surge کے نتائج ناکامی تھے۔ بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ اور افغان اور امریکی فوجی بھی خاصی تعداد میں مارے گیے تھے۔ طالبان کی سرگرمیوں میں بھی کمی نہیں ہوئی تھی۔ افغانستان کے حالات جوں کے توں تھے۔ Surge کے ذریعے طالبان کی سرگرمیاں ختم نہیں کی جا سکی ہیں۔ اسے آزمایا جا چکا ہے۔ پینٹ گان میں حکمت عملی کے ماہرین کو اب Surge کا متبادل ڈھونڈنا ہو گا۔ Exterminate صورت حال کا حل نہیں ہے۔ Reality کو تسلیم کرنے میں صورت حال کا دانشمندانہ حل نکل سکتا ہے۔ صدر بش نے یہ بڑا احمقانہ فیصلہ کیا تھا کہ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد انہیں افغان معاشرے کا حصہ ہونے کی Reality  تسلیم نہیں کیا تھا۔ بلکہ ان کا Exterminate کرنے کا فوجی عمل شروع کر دیا تھا۔ صدر بش Extermination کے عمل کو افغانستان میں جہاں چھوڑ کر گیے تھے۔ صدر اوبامہ اسے لے کر آگے بڑھے تھے۔ اور یہ   اوبامہ انتظامیہ کی بھی پالیسی بن گئی تھی۔ یہ سمجھ سے باہر تھا کہ ایک ایسی پالیسی جو افغانستان میں فیل ہو گئی تھی۔ اسے  جاری رکھنے کا مقصد کیا تھا؟ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ کی اقتدار کے آخری برس میں افغانستان میں دلچسپی تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ اور شام کی خانہ جنگی پر اوبامہ انتظامیہ کا فوکس بڑھ گیا تھا۔
    صدر حامد کرزئی کے دور اقتدار میں طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی جنگ تھی۔ لیکن اب صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختیارات کی محاذ آ رائی ہو رہی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کو افغان حکومت میں اس بدنظمی سے مایوسی ہوئی تھی۔ دوسری طرف افغان فوج اور سیکورٹی فورسز کو طالبان اور وار لارڈ کی ملیشیا کی شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔ افغانستان کے بعض صوبوں اور قصبوں میں افغان فوجی طالبان کے آگے ہتھیار پھینک کر بھاگ گیے تھے۔ پیشتر فوجیوں اور سیکورٹی فورسز کے اہل کاروں کو حکومت نے تنخواہیں بھی نہیں دی تھیں۔ اور یہ طالبان کے ساتھ لڑائی میں اپنی جانیں دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ تقریباً تین چار ہزار افغان فوجی اور سیکورٹی فورسز کے لوگ طالبان کا خاتمہ کرنے کی لڑائی میں اب تک مارے جا چکے ہیں۔ افغانستان میں جب یہ حالات ہیں تو اس صورت حال کا حل پھر کیا ہے؟ ٹرمپ انتظامیہ کی اس صورت حال میں اسٹرٹیجی کیا ہو سکتی ہے؟ افغان حکومت Politically incompetent اور Administratively weak or corrupt ہے۔ ملا عمر کی طالبان تحریک ختم ہو گئی ہے۔ اور اب جو نام نہاد  طالبان ہیں۔ وہ وار لارڈ کے پراکسی ہیں۔ منشیات مافیا کے پراکسی ہیں۔ کچھ طالبان خلیج کی حکومتوں کے پراکسی ہیں۔ ازبک اور تاجک وار لارڈ کی ملیشیا بن گیے ہیں اور یہ بھارت کے پراکسی ہیں۔ اور یہ سب اپنے پراکسی کی لڑائیوں کو Finance کرتے ہیں۔ اور نام نہاد طالبان کو اپنے مقاصد میں استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ پیشہ ور طالبان ہیں۔ تاہم ملا عمرکی تحریک کے مٹھی بھر طالبان ہیں۔ جن کے ساتھ ماسکو میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کا افغانستان میں بہت محدود اثر و رسوخ ہے۔ اس لئے اب ISIS کو ایک بڑی فورس بنا کر افغانستان میں آگے لایا جا رہا ہے۔
    پاکستان کو افغانستان کا اتنا زیادہ تلخ تجربہ ہوا ہے کہ اب اگر کوئی  بلین ڈالر کی پیشکش پاکستان کو کرے کہ وہ افغانستان کو بچانے کی لڑائی لڑے تو پاکستان شکریہ  کے  ساتھ  انکار کر کے اپنا دروازہ بند کر دے گا۔ پاکستان کو اب طالبان سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ ہی کابل حکومت میں کوئی مفاد ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغانوں کی جنگ کو پاکستان نے اپنی جنگ بنا لیا تھا۔ اور افغانوں کی مدد کی تھی۔ انہیں اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ پاکستان آج ان کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہوا ہے۔ دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا لیبل آج پاکستان پر لگ رہا ہے۔ اور اب افغان فوجیں پاکستان پر حملہ کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی فوجیں پاکستان پر گولہ باری کر رہی ہیں۔ ایران کی حکومت بھی پاکستان کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ خلیج کی اسلامی حکومتیں بھی پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان یا تو خود کشی کر لے یا افغانوں سے دور بھاگے۔ لہذا اس صورت حال میں امریکہ کا افغانستان میں مدد کے لئے پاکستان کی طرف دیکھنا بے مقصد ہو گا۔ پاکستان کے پاس افغانستان میں امریکہ کی غلط پالیسیوں کے نتائج کا علاج نہیں ہے۔
    بش انتظامیہ نے افغانستان میں پہلی غلطی کی تھی۔ اور پھر اس غلطی کو دوسری غلطی سے درست کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور اس وقت سے افغانستان میں غلطیوں کو غلطی سے درست کرنے کا جوا کھیلا جا رہا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے بھی 8 سال تک افغانستان میں بش انتظامیہ کی غلطیوں کو جاری رکھا تھا۔ صدر ٹرمپ کو اب سابقہ دو انتظامیہ کی غلط اور ناکام پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہو گا۔ طالبان کے بجاۓ پہلے افغان وار لارڈ، طاقتور منشیات مافیا، اور کرپشن کو فوکس کرنا ہو گا۔ افغان وار لارڈ پر سخت اقتصادی بندشیں لگانا ہوں گی ۔ منشیات مافیا کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ انتہائی کرپٹ وار لارڈ کو اقوام متحدہ کے ذریعے بلیک لسٹ کرنا ہو گا۔ وار لارڈ کی ملیشیا ختم کرنا ہوں گی۔ اور افغان نیشنل آرمی اور سیکورٹی فورسز کو زیادہ منظم اور موثر بنانا ہو گا۔ انہیں پابندی سے اچھی تنخواہیں دی جائیں۔ اور انہیں افغانستان کے اندر امن اور استحکام کے لئے فرنٹ لائن بنایا جاۓ۔ طالبان کی داخلی اور غیر ملکی Finance سختی سے بند کی جاۓ۔ جو افراد اور حکومتیں طالبان کو فنڈ فراہم کریں انہیں بھی طالبان قرار دیا جاۓ اور ان کے خلاف بھی کاروائی کی جاۓ۔ صدر بش نے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف فوجی کاروائی صرف اس لئے کی تھی کہ طالبان نے القا عدہ کے دہشت گردوں کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی۔ اور اب اس اصول کے تحت ان حکومتوں کے خلاف بھی کاروائی کی جاۓ جو طالبان کو فنڈ فراہم کر رہے ہیں۔ افغانستان میں Elders کو جو امن اور استحکام کے شدت سے حامی ہیں۔ انہیں سپورٹ کیا جاۓ۔ اور انہیں آ گے لایا جاۓ۔ یہ کرپشن بھی ختم کر سکتے ہیں۔
    حکمت یار گلبدین ایک عرصہ سے روپوش تھے۔ ان کی حزب اسلامی جماعت کو بھی انتہا پسند قرار دیا گیا تھا۔ ملا عمر کے ساتھ حکمت یار گلبدین کو دریافت کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر کا انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ با لا آخر حکمت یار گلبدین نے انتہا پسندی ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اب افغان حکومت کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اور افغانستان کے سیاسی عمل میں شامل ہو گیے ہیں۔ طالبان کو سیاسی عمل کا حصہ بنانے کا  صرف یہ راستہ ہے۔ 17 سال میں امریکہ نے ایک دن بھی افغانستان میں سیاسی کوششوں کو اہمیت نہیں دی ہے۔ حالانکہ افغانستان کو ایک سیاسی حکومت دی ہے۔ انتخابات کا سیاسی عمل شروع کیا ہے۔ پارلیمنٹ بنائی ہے۔ قانون بنائیں ہیں۔ لیکن افغانستان میں سیاسی عمل فوجی آپریشن کے ماتحت رکھا ہے۔ فوجی آپریشن فروغ دئیے ہیں۔ اور افغان فوج اور سیکورٹی فورسز کو بھی صرف افغانوں سے لڑتے رہنے کی تربیت دی ہے۔ اور نتائج بھی اس تربیت کے مطابق سامنے آ رہے ہیں۔
    صدر ٹرمپ افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے اگر واقعی سنجیدہ ہیں۔ تو صدر ٹرمپ کو افغانستان میں فوجی Surge کی بجاۓ Political surge کا آغاز کرنا ہو گا۔ امریکہ کو طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنا ہوں گے۔ افغانستان میں امریکی کمانڈروں کو طالبان سے رابطہ بحال کرنا ہوں گے۔ ان کے ساتھ ملوث ہونا ہو گا۔ اور انہیں افغانستان کے سیاسی عمل میں شامل ہونے کی ترغیب دی جاۓ۔ 17 سال سے امریکہ اور نیٹو کے فوجی آپریشن نے افغانستان کو سول سوسائٹی نہیں بنا یا ہے۔ لیکن  ایک سیاسی عمل افغانستان کو شاید سول سوسائٹی بننے میں مدد کر سکتا ہے۔               

No comments:

Post a Comment