Sunday, May 21, 2017

Mr. President, Do Not Destroy The Infrastructure of American Foreign Policy Establishment

Transformation of America From Inventions To Investigations 

Mr. President, Do Not Destroy The Infrastructure of American Foreign Policy Establishment

مجیب خان
Prime Minister Netanyahu with Russian President Vladimir Putin, getting intelligence briefing   about Syria and ISIS

President Trump and Israeli Prime Minister Netanyahu, discussed Syria and exchange intelligence on ISIS 

U.S. President Donald Trump and Russian Foreign Minister Sergey Lavrov meet in The White House
     امریکہ کی سیاست میں 2016 کے انتخابات ایک زلزلہ کی طرح تھے۔ جس کے aftershock ابھی تک امریکہ کی سیاست میں دیکھے جا رہے ہیں۔ ایک نئی انتظامیہ اقتدار میں آ گئی ہے۔ لیکن کاروبار سیاست ابھی تک معمول کے مطابق نہیں آیا ہے۔ نئی انتظامیہ کے روزانہ  نئے اسکنڈل میڈیا کی سرخیاں ہوتے ہیں۔ اور ان اسکنڈل پر پھر سابق فوجی، سابق سی آئی اے اور ایف بی آئی ایجنٹ، اور Political opinion makers سارا دن تبصرے اور تجزیے کرتے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کو Tweet کرنے کی  شہ دیتے ہیں۔ اور پھر صدر کی Tweet پر تبصرے ہونے لگتے ہیں۔ جبکہ دونوں پارٹیوں کے لئے انتخابات میں روس کی مداخلت ایک بڑا موضوع ہے۔ اور اب دونوں پارٹیاں اس کی تہہ میں پہنچ کر یہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ امریکہ میں کن لوگوں کا اس میں کیا رول تھا؟ کانگرس اور سینیٹ کی کمیٹیاں اس کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ ایف بی آئی علیحدہ تحقیقات کر رہی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم کے کچھ لوگوں کے روس کے ساتھ رابطوں کے بارے میں علیحدہ تحقیقات ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتہ صدر ٹرمپ نے اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کی ایک رپورٹ پر جس میں صدر سے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کو برطرف کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے ان کی رپورٹ پر ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمس کومی کو برطرف کر دیا۔ اس فیصلے پر ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹس سینٹروں اور کانگرس مین کی طرف سے شدید رد عمل ہونے لگا۔ اور ایف بی آئی کی تحقیقات کے دوران ایجنسی کے ڈائریکٹر کی برطرفی کو مشکوک عزائم سمجھا گیا ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمس کومی نے ہلری کلنٹن کے ای میل اسکنڈل کی تحقیقات کے بعد جب ہلری کلنٹن پر کوئی فرد جرم عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تو ری پبلیکن پارٹی نے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے اس فیصلہ کی شدید مذمت کی تھی۔ اور انہیں برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن پھر صدارتی انتخاب سے صرف 11 دن قبل ڈائریکٹر جیمس کومی نے ہلری کلنٹن کی نئی ای میل دریافت ہونے کا انکشاف کر کے ایک دھماکہ کر دیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے عروج پر جیسے چاروں ٹا‏ئروں سے ہوا نکل گئی تھی۔ اور ہلری کلنٹن انتخاب ہار گئی تھیں۔ صدر اوبامہ نے صدارتی انتخاب سے صرف چند روز قبل  ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمس کومی کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی تھی۔ لیکن انہیں برطرف نہیں کیا تھا۔ حالانکہ ان کی پارٹی نے ایف بی آئی ڈائریکٹر کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس وقت ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمس کومی کے اس فیصلے کی تعریف کی تھی۔
    گزشتہ کئی ماہ سے ری پبلیکن پارٹی کے حلقوں میں ڈائریکٹر ایف بی آئی پر عدم اعتماد کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ دونوں پارٹیوں کی طرف سے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کی برطرفی کی آوازیں سن کر صدر ٹرمپ نے ڈائریکٹر کو اب برطرف کر دیا ہے۔ لیکن اب دونوں پارٹیاں صدر ٹرمپ کے ڈائریکٹر جیمس کومی کو برطرف کرنے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کر رہی ہیں۔ کیونکہ ایف بی آئی امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم ٹیم کے کچھ لوگوں کی بھی تحقیقات کر رہی ہے جن کے روس کے ساتھ رابطہ تھے۔ ایک موقعہ پر صدر ٹرمپ نے ڈائریکٹر جیمس کومی سے پوچھا تھا کہ کیا وہ ان کی تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔ جس پر ڈائریکٹر نے کہا کہ وہ ان کی تحقیقات نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن پھر کانگرس کمیٹی کے سامنے اس تحقیقات کے بارے میں سوالوں کے دوران ڈائریکٹر جیمس کومی نے کانگرس سے مزید وسائل کے لئے درخواست کی تھی۔ اس پر صدر ٹرمپ کو یہ شبہ ہو گیا کہ اب اس تحقیقات میں انہیں بھی شامل کیا جا رہا تھا۔ اور ڈائریکٹر نے ان سے جھوٹ بولا تھا۔ اب اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کے ڈائریکٹر جیمس کومی کو برطرف کرنے کے فیصلے کو Obstruction of Justice کہا جا رہا ہے۔ اور صدر ٹرمپ کے اس ایکشن کا واٹر گیٹ اسکنڈل سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم آئین میں صدر کو ایف بی آئی ڈائریکٹر کو برطرف کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اور صدر کو تحقیقات ختم کرنے کا اختیار بھی ہے۔ اور اب امریکی میڈیا میں ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمس کومی کے ایک ممیو کا ذکر ہو رہا ہے۔ جس میں صدر ٹرمپ نے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر سے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ وہ جنرل Michael Flynn کے خلاف تحقیقات جلد ختم کر دیں گے۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے اس ممیو کو بھی Obstruction of Justice قرار دیا جا رہا ہے۔ اور دونوں پارٹیاں اسے ایک واضح Impeachment کیس بتا رہی ہیں۔ اور اب اس ممیو کی صداقت کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر سے ایسی کسی گفتگو کی تر دید کی ہے۔ ری پبلیکن پارٹی بھی اس ایشو پر تقسیم ہے۔
    مئی 10 کو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں روس کے وزیر خارجہ Sergey Lavrov اور واشنگٹن میں روس کے سفیر Sergey Kislyak سے ملاقات کی تھی۔ امریکی پریس کو اس ملاقات کو Cover کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ صرف روسی پریس کو وائٹ ہاؤس میں اسے Cover کرنے کی اجازت دی تھی۔ اور روسی پریس نے اس ملاقات کی تصویریں امریکی میڈیا کو جاری کی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے روس کے وزیر خارجہ اور روس کے سفیر سے تنہائی میں ملاقات کی تھی۔ وائٹ ہاؤس کے پریس ریلیز کے مطابق اس ملاقات میں شام کی صورت حال، ISIS کے خلاف فوجی آپریشن، شمالی کوریا، فلسطین اسرائیل تنازعہ، مشرق وسطی میں امن اور استحکام، اور یوکرین کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے روس کے وزیر خارجہ اور روسی سفیر کے ساتھ اپنی ملاقات کو بہت مفید بتایا تھا۔ مئی 19 کو صدر ٹرمپ کے بیرونی دورے پر روانہ ہونے سے صرف چند روز قبل یہ بریکنگ نیوز آئی کہ صدر ٹرمپ نے ایک انتہائی حساس اور اہم انٹیلی جینس روس کے وزیر خارجہ اور روسی سفیر سے ملاقات میں انہیں دی تھی۔ یہ انٹیلی جینس مشرق وسطی میں امریکہ کے ایک انتہائی قریبی اور با اعتماد اتحادی نے امریکہ کو دی تھی۔ جو اسلامی ریاست کے ایک منصوبہ کے بارے میں تھی۔ یہ انتہائی حساس انٹیلی جینس روس کو دینے پر میڈیا میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ سی آئی اے، ایف بی آئی اور فوج کے سابق ماہرین ٹی وی چینلز پر صدر ٹرمپ کے اس اقدام کو انتہائی خطرناک قرار دینے لگے۔ انہیں خدشہ یہ تھا کہ روس سے یہ انٹیلی جینس اب ایران کو مل جاۓ گی اور ایران سے پھر حزب اللہ کو مل جاۓ گی۔ اور جس ملک کی انٹیلی جینس نے یہ امریکہ کو دی ہے اس کے انٹیلی جینس ایجنٹ کی زندگی خطرے میں آ جاۓ گی۔ اور جو ملک دہشت گردی کے خلاف  جنگ میں امریکہ سے انٹیلی جینس کا تبادلہ کرتے ہیں۔ وہ اب محتاط رہیں گے۔ یہ خبر واشنگٹن پوسٹ نے دی تھی۔ اور پھر بعد میں اس ملک کا نام بتا دیا تھا جس نے یہ انتہائی حساس انٹیلی جینس امریکہ کو دی تھی۔ اور یہ اسرائیل تھا۔ یہ ظاہر ہونے کے بعد واشنگٹن میں اسرائیل کے سفیر نے ایک بیان میں کہا امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ اور اسرائیل اور امریکہ کے درمیان اہم انٹیلی جینس  کا تبادلہ جاری رہے گا۔
    اس انتہائی حساس انٹیلی جینس کی داستان یہ تھی کہ یہ انٹیلی جینس صدر پو تن نے اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یا ہو کو دی تھی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے پچھلے سال امریکہ کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران ماسکو کے 6 دورے کیے تھے۔ اور ان ملاقاتوں میں شام کی صورت حال پر صدر پو تن سے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے تھے۔ داعش اور دوسرے اسلامی دہشت گرد اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ تھے۔ ان ملاقاتوں میں صدر پو تن نے شام میں داعش اور دوسرے دہشت گرد اسلامی گروپوں کے بارے میں انٹیلی جینس وزیر اعظم نھتن یا ہو کو دیں تھیں۔ اور وزیر اعظم نھتن یا ہو بھی اپنی انٹیلی جینس صدر پو تن کو دیتے تھے۔ صدر اوبامہ کے ساتھ نھتن یا ہو حکومت کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں تھے۔ ٹرمپ  انتظامیہ میں نھتن یا ہو حکومت کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ وزیر اعظم نھتن یا ہو جب وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملے تھے۔ اس ملاقات میں شام کی صورت حال، داعش اور دوسرے اسلامی دہشت گروپوں کی شام میں سرگرمیوں پر بات ہوئی تھی۔ اور اس ملاقات میں وزیر اعظم نتھن یا ہو نے داعش کے بارے میں انٹلی جینس  صدر ٹرمپ کی دی تھیں۔ اور یہ انٹیلی جینس صدر پو تن نے انہیں دی تھی۔۔ صدر ٹرمپ جب روس کے وزیر خارجہ اور روس کے سفیر سے وائٹ ہاؤس میں ملے تھے۔ اور شام کی صورت حال اور داعش کے خلاف جنگ پر گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے یہ انٹیلی جینس روس کے وزیر خارجہ کو دے دی تھی۔ صدر ٹرمپ کے خیال میں یہ انٹیلی جینس روس کے لئے مدد گار ہو سکتی تھی۔ جو شام میں داعش اور دوسرے اسلامی دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کرنے کی کوششیں کر رہا تھا۔ لیکن امریکی میڈیا نے اسے انٹیلی جینس Leak کا کیس بنا دیا تھا۔ اور سیکورٹی اسٹبلشمینٹ کو ہلا دیا تھا۔
    یہ ساری ہنگامہ آ رائی اور تحقیقات کا سنسنی خیز ڈرامہ دراصل ٹرمپ انتظامیہ پر امریکہ کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے سے روکنے کے لئے ڈالا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پینٹ گان فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ اور انہیں امریکہ کے ڈیفنس اور سیکورٹی کی ذمہ داریاں دے دی ہیں۔ Finance اور Treasury وال اسٹریٹ کے Billionaires کو دے دیا ہے۔  لیکن خارجہ پالیسی کے فیصلے صدر ٹرمپ خود کر رہے ہیں۔ اور خارجہ پالیسی   اسٹبلشمینٹ میں انقلابی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پرانی سوچ کو Flush کر کے ایک نئی سوچ Inject کرنا چاہتے ہیں۔ اب میڈیا کے ذریعے اس کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے۔ اور Impeachment کی تلوار نکل آئی ہے۔ ڈرامہ سنسنی خیز ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقت کے اندر اب طاقت آزمائی ہو رہی ہے۔                            

No comments:

Post a Comment