Tuesday, May 2, 2017

Mr. Trump, Tear Down This Military Wall Between The Two Koreas, Let The Cousins of The South Talk To The Cousins of The North

Mr. Trump, Tear Down This Military Wall Between The Two Koreas, Let The Cousins of The South Talk To The Cousins of The North  

People Are The Best Ambassadors of Peace

مجیب خان
South Korean Park Yang-gon and his North Korean brother Park Yang

Korea to hold reunions of war- divided families 

South Korean families greeted by relatives from North Korea

North Korean woman kisses her South Korean father
    شمالی کوریا کی ایٹمی سرگرمیوں کے خلاف اس وقت جتنا دباؤ شمالی کوریا اور چین پر ہے۔ تقریباً اتنا ہی دباؤ امریکہ پر بھی ہے کہ ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جاۓ کہ جس سے خطہ کے حالات قابو سے باہر ہو جائیں اور پھر انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہو جاۓ۔ چین کے وزیر خارجہ Wang yi نے کہا ہے کہ "انہیں یقین ہے کہ امریکہ آ بناۓ کوریا میں صورت حال کے سفارتی حل کو ترجیح دے گا۔ وزیر خارجہ Wang نے رپورٹروں کو بتایا کہ تاہم امریکی حکام نے یہ واضح کر دیا ہے کہ فوجی اسٹرائک ابھی تک ایک Option ہے۔ لیکن انہیں یقین ہے کہ واشنگٹن کشیدگی کو کئی طرفہ مذاکرات  کے ذریعے اسے خطرناک صورت اختیار کرنے سے روکنے کو ترجیح دے گا" وزیر خارجہ Wang نے کہا "ہم دیکھ رہے ہیں کہ صورت حال خاصی کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت معاملات جتنے کشیدہ ہیں ہمیں اتنا ہی پر امن رہتے ہوۓ ڈائیلاگ کے لئے موقعوں اور ممکنات کو ڈھونڈنا ہو گا"۔ بلاشبہ چین کی تمام تر کوششیں خطہ کے حالات قابو میں رکھنے کے لئے بہت سنجیدہ ہوں گی۔ اور چین شمالی کوریا کے مسئلہ کو صرف ڈائیلاگ سے حل کرنے کی حمایت کرے گا۔ چین کے موقف سے جاپان اور جنوبی کوریا بھی اتفاق کریں گے۔ جنوبی کوریا اور جاپان اپنے ہمساۓ میں شمالی کوریا کو شام بنانا نہیں چاہیں گے۔
   شمالی کوریا کے نیو کلیر ہتھیاروں  کے مسئلہ کا فوجی حل  کسی کو قبول نہیں ہو گا۔ جبکہ عراق کی مثال بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسٹ ایشیا کا کوئی ایک ملک بھی شمالی کوریا پر فوجی حملہ کی حمایت نہیں کرے گا۔ ایسٹ ایشیا کے لوگوں نے بڑی محنت کے بعد اقتصادی ترقی میں اپنا ایک مقام بنایا ہے۔ اور وہ یہ دیکھنا نہیں چاہیں گے کہ ایسٹ ایشیا بھی مڈل ایسٹ بن جاۓ۔ امریکہ کا یہ اصرار غلط ہے کہ چین کا شمالی کوریا پر خاصا اثر و رسوخ ہے۔ اور وہ شمالی کوریا پر دباؤ ڈالے اور اس کے خلاف اپنے اقتصادی ہتھیار استعمال کرے۔ اور شمالی کوریا پر اتنا دباؤ ڈالے کہ یہ ایٹمی ہتھیار بنانا ترک کر دے۔ لیکن شمالی کوریا کا مسئلہ ون وے اسٹریٹ نہیں ہے۔ اس خطہ میں یہ امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں ہیں جو شمالی کوریا کو اپنی سلامتی میں ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار کے لئے مجبور کر رہی ہیں۔ جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ امریکہ کا فوجی اتحاد فروغ دیا جا رہا ہے۔ شمالی کوریا کے قریب امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف اس خطہ میں جاپان کو نیول پاور بنانے میں امریکہ معاونت کر رہا ہے۔ اور جاپان کے ساتھ بھی امریکہ کی مشترکہ مشقیں جاری ہیں۔ امریکہ کی یہ جنگجو نہ سرگرمیاں چین کے مفادات اور شمالی کوریا کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہی ہیں۔ جنوبی کوریا میں چین کی مخالفت کے باوجود امریکہ نے میزائل ڈیفنس شیلڈ نصب کی ہے۔ امریکہ کے یہ Actions ہیں۔ جن کا Reaction شمالی کوریا کی قیادت کے فیصلوں میں نظر آ رہا ہے۔ جنگ کے حالات بنانے کے لئے امریکہ کی پالیسیاں ماحول کو Instigate کرتی ہیں۔ اس صورت حال میں شمالی کوریا کی جگہ اگر امریکہ ہوتا تو وہ بھی اپنی سلامتی میں ایسے ہی اقدام کرتا جو شمالی کوریا کی قیادت کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
   2016 کے صدارتی انتخابات ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن کے درمیان دراصل جنگوں کے خلاف ایک ریفرینڈم تھا۔ ہلری کلنٹن نے عراق جنگ، لیبیا جنگ اور شام میں جنگ کی حمایت کی تھی۔ جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے صدر بش کی عراق جنگ اور صدر اوبامہ  کی لیبیا جنگ اور شام میں جنگ کی پالیسی پر شدید تنقید کی تھی۔ اور اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ مڈل ایسٹ میں جنگیں ختم کریں گے۔ اور مڈل ایسٹ کو استحکام دینے کے اقدام کریں گے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں میں دنیا میں امن اور استحکام کے سلسلے میں کوئی فیصلے نہیں ہوۓ ہیں۔ بش اور اوبامہ دور کی جنگیں بدستور جاری ہیں۔ انہیں ختم کرنے کے بارے میں اقدامات 100 دنوں میں سامنے نہیں آۓ ہیں۔ بلکہ صدر ٹرمپ کے حکم پر شام میں اسد حکومت کے خلاف 59 Tomahawk میزائل گراۓ گیے تھے۔ ایک میزائل 1.5 ملین ڈالر کا تھا۔ تقریباً 89 ملین ڈالر کے میزائل چند سیکنڈ میں گرا دئیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی حلف وفا داری کی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کا مڈل ایسٹ میں جنگوں پر امریکہ نے 6 ٹیریلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اور وہ 6 ٹیریلین ڈالر سے تین مرتبہ امریکہ کی تعمیر نو کر سکتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ  افغانستان پرNon Atom Bomb  جو تمام بموں کی ماں تھا گرایا تھا۔ اور یہ 16 ملین ڈالر کا بم تھا۔ 16 ملین ڈالر کے اس بم سے داعش کے صرف 94 دہشت گردوں کے مرنے کی خبر سنائی تھی۔ عراق میں موصل  کو داعش کے قبضہ سے آزاد کرانے کی جنگ میں امریکہ کی بمباری سے تقریباً تین سو عراقی شہری ہلاک ہوۓ تھے۔ جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی۔ اگست 2014 سے مارچ 2017 کے دوران عراق اور شام میں داعش کے خلاف  امریکہ کی قیادت میں اتحاد کے آپریشن میں 3000 سویلین مارے گیے ہیں۔
   امریکی میڈیا میں شمالی کوریا کے مسئلہ پر صرف انتظامیہ اور پینٹاگان کا موقف پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسٹ ایشیا کے ملکوں میں راۓ عامہ شمالی کوریا کے مسئلہ کو کس طرح دیکھ رہی ہے۔ اس خطہ میں حکومتیں شمالی کوریا کے مسئلہ کا کیا حل دیکھ رہی ہیں۔ شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی پالیسی سے انہیں اختلاف ہے یا اتفاق امریکی میڈیا میں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا ہے۔ حالانکہ خطہ کی حکومتیں اور لوگ امریکہ کے ایکشن سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ جنوبی کوریا میں صدارتی انتخاب ہو رہے ہیں۔ اور امریکہ کو جنوبی کوریا میں نئی حکومت آنے کا انتظار کرنے کے بجاۓ اپنے فیصلے جنوبی کوریا پر مسلط کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ جنوبی کوریا کے لوگ ان کی سرزمین پر میزائل ڈیفنس شیلڈ نصب کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن امریکہ ان پر جنگ مسلط کرنے پر بضد ہے۔ اسی طرح جاپان کے لوگ ان کے ملک میں امریکہ کے فوجی اڈوں کے خلاف ہیں۔ اور یہ فوجی اڈے ختم کرنے کے لئے جاپانی مظاہرے اور احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن امریکہ نے ہمیشہ جنگوں اور فوجی اڈوں کو عوام کے جمہوری حقوق پر فوقیت دی ہے۔ اور اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ شمالی کوریا کا مسئلہ جنگ سے حل کرتی ہے یا اس مسئلہ کا حل دریافت کرنے میں چین کی تجویزوں پر عمل کرے گی۔ چین کے وزیر خارجہ Wang Yi نے گزشتہ ہفتہ شمالی کوریا کے مسئلہ پر سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد تنازعہ کے تمام فریقین کو محتاط ہونے کا کہا ہے کہ "طاقت کا استعمال اختلافات کو دور نہیں کرتا ہے اور یہ صرف بڑی تباہیوں کی طرف لے جاۓ گا۔"                                                                                  

No comments:

Post a Comment