Is A New Cold War Necessary? Or, Is Cold War A Luxury For Foreign Policy
Establishment?
RT Is Changing America And Europe, As CNN Had A Roll In Changing The Soviet Union And East Europe In The Eighties
مجیب خان
Bush - Putin Kennebunkport July 4th, 2007 |
US Secretary of State Condoleezza Rice greets Russian President Vladimir Putin |
US president Barack Obama and Russian President Vladimir Putin |
German Chancellor Angela Merkel and Russian President Vladimir Putin |
صدارتی
انتخاب میں روس کی مداخلت کو، جس کے ٹھوس ثبوت کی تلاش ابھی تک جاری ہے، بنیاد بنا
کر امریکہ نے روس کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اور روس پر امریکہ
کا نمبر ون دشمن ہونے کا ریڈ نشان لگا دیا ہے۔ تاہم امریکی عوام اس سارے ڈرامہ سے Fed up ہو
گیے ہیں۔ امریکی میڈیا میں روس کی مداخلت کے
بارے میں روزانہ نئے انکشاف ہوتے ہیں۔ لیکن امریکی عوام انہیں زیادہ
سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرح وہ بھی اسے Fake news
سمجھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم ٹیم کے بعض لوگوں کے واشنگٹن میں روس کے
سفیر سے رابطہ اور ملاقاتوں کے بارے میں بڑا شور ہے۔ لیکن ابھی تک یہ تعین نہیں ہو
سکا ہے کہ یہ خصوصی ملاقاتیں کس طرح صدارتی انتخاب میں مداخلت کا سبب بن رہی تھیں۔
یا یہ انتخاب میں مداخلت کے بجاۓ صرف کاروباری نوعیت کی ملاقاتیں تھیں۔ سفارت کار
اکثر سوسائٹی کی با اثر شخصیتوں اور راۓ عامہ بنانے والے دانشوروں سے ملتے ہیں۔ امریکی
کانگرس اور سینٹ کے اراکین بھی غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ
ڈنر بھی کھاتے ہیں۔ اسی طرح ماسکو میں امریکی سفیر بھی روس کے اپوزیشن رہنماؤں اور
بزنس کمیونٹی سے ملتے ہوں گے۔ لیکن صدر پو
تن کے لئے ہلری کلنٹن کے ہارنے یا ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے سے کیا فرق پڑے گا؟ جبکہ
صدر پو تن یہ دیکھ رہے تھے کہ صدر اوبامہ کا ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ
کرنے کے باوجود کانگرس اس سمجھوتہ کو قبول نہیں کر رہی تھی۔ اور اس سمجھوتہ کے
مطابق ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے لئے تیار نہیں تھی۔ لہذا ایسی صورت
میں صدر ٹرمپ روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کیا کر سکتے تھے؟ صدر پو تن کی
ڈونلڈ ٹرمپ میں صرف یہ دلچسپی ہو سکتی تھی کہ ہلری کلنٹن کے مقابلے میں ٹرمپ ذرا Soft تھے
اور ہلری کلنٹن بہت زیادہ Hawkish
تھیں۔ صدر پو تن مڈل ایسٹ میں جنگیں ختم کرنا چاہتے تھے۔ اور شام میں امن کی حمایت
میں تھے۔ اور یہ بہت ممکن ہے کہ ڈائریکٹر ایف بی آئی بھی ان خیالات سے اتفاق کرتے
ہوں گے جب ہی انہوں نے ہلری کلنٹن کو Extremely Irresponsible کہا تھا۔ اور امریکی ووٹروں کو یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ صدارت کے عہدہ کی اہل نہیں ہیں۔
ایف
بی آئی کے ڈائریکٹر جیمس کومی نے صدارتی انتخاب سے صرف 11 روز قبل ہلری کلنٹن کے
ای میل اسکینڈل سے متعلق کچھ نئی ای میل سامنے آنے کے بارے میں جو اعلان کیا تھا۔ اور
جس کے نتیجہ میں ہلری کلنٹن انتخاب ہار گئی تھیں۔ اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہ Fake
معلومات تھیں۔ اور اسے بھی روس کے کھاتے میں ڈال دیا ہے کہ یہ Fake معلومات روس نے دی تھی۔ کیا
ڈائریکٹر جیمس کومی کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ اسے عوام میں لے جانے سے پہلے اس
معلومات کی اچھی طرح چھان بین کرتے۔ اور دوسرے اداروں سے بھی اس پر صلاح مشورہ
کرتے۔ صدارتی انتخابی عمل کو شاید غیر ملکی Hacking سے اتنا نقصان
نہیں پہنچا ہے۔ کہ جتنا داخلی Intrigue سے جمہوری نظام ہل گیا ہے۔ عراق
میں WMD کے
بارے میں بھی سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے واچ میں Fake رپورٹیں دنیا
کو دی گئی تھیں۔ جس کے نتیجہ میں عراق میں انسانیت تہس نہس ہو گئی ہے۔ 7 ہزار
امریکی فوجی بھی مارے گیے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی احتساب نہیں ہے۔ روس کے سفیر سے
ملاقات کرنے والوں کا احتساب اس وقت زیادہ اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکہ کا سارا
کاروبار اس وقت اس تحقیقات کا قیدی بنا ہوا ہے کہ روس کے سفیر سے کون کیوں ملا
تھا۔ اور انتخابی نتائج تبدیل کرنے میں روس کا کیا رول تھا؟
بہرحال روس کو اب امریکہ کا نمبر ون دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ اور مڈل ایسٹ
میں گرم جنگیں ختم کرنے کے بعد امریکہ کا روس کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ شروع کرنے
کا منصوبہ ہے۔ اس لئے امریکہ نے روس کے خلاف سرد جنگ دور کی پرانی بندشیں ختم نہیں
کی تھیں بلکہ ان میں نئی بندشوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ روس کے ساتھ امریکہ کی بڑھتی
ہو ئی کشیدگی کا سبب کیا ہے؟ دنیا میں امریکہ کے تقریباً 800 فوجی اڈے ہیں۔ اور
روس نے اس کے مقابلے میں کہیں اپنے فوجی اڈے نہیں بناۓ ہیں۔ امریکہ اپنی جنگوں میں
خود دھنستا گیا ہے۔ روس کا ان جنگوں میں امریکہ کو پھنسانے کا کوئی رول نہیں ہے۔ وار
سا پیکٹ ہمیشہ کے لئے دفن کر کے روس میں Cold war mentality بھی ختم ہو گئی
تھی۔ یوکرین کا مسئلہ روس کے لئے Manufacture کیا گیا ہے۔ صدر پو
تن تنازعوں کی سیاست میں روس کا وقت برباد کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ شام کے تنازعہ میں
صدر پو تن صرف انسانیت کو بچانے کی غرض سے آۓ ہیں۔ جسے واشنگٹن میں سرد جنگ ذہنیت
سے دیکھا گیا تھا۔ صدر اوبامہ نے کہا تھا کہ روس اب شام میں دھنس جاۓ گا۔ حالانکہ
شام کی خانہ جنگی میں صدر اوبامہ سب کو لے کر ڈوب رہے تھے۔ دنیا کی سمجھ میں نہیں
آ رہا تھا کہ کون کس سے لڑ رہا تھا۔ صدر پو تن نے شام میں امریکہ کے ساتھ مل کر
دہشت گردی ختم کرنے اور شام میں امن کے لئے کام کرنے کا اظہار کیا تھا۔ اور شام
میں امریکی فوج کے ساتھ تعاون کیا تھا۔
امریکہ
میں روسیوں کا کھربوں ڈالر کا Investment ہے۔ سوویت ایمپائر کا خاتمہ ہونے کے بعد ریاست کے
اثاثوں کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی تھی۔ خاصی تعداد میں روسیوں نے ان اثاثوں کو
اونے پونے خریدا تھا۔ اور پھر اس سے کھربوں ڈالر بنا لئے تھے۔ آئل اور گیس کی صنعت
میں کمپنیوں کے مالک بن گیے تھے۔ روس میں ایک نیا Oligarch طبقہ ابھر آیا
تھا۔ پھر یہ اپنی دولت لے کر امریکہ اور لندن آ گیے تھے۔ امریکہ میں انہوں نے بڑے
کاروبار اور کمپنیاں خرید لی تھیں۔ Real estates خریدنے لگے تھے۔ اور ارب پتی اور
لکھ پتی ہو گیے تھے۔ نیویارک، نیو جرسی، فلوریڈا میامی میں روسیوں کی بہت بڑی آ
بادی ہے۔ میامی میں یہ بڑی بڑی Real estates کے مالک بن گیے ہیں۔ رائٹر نیوز
ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 63 روسیوں نے 98.4 ملین ڈالر کی مالیت کے 7
ٹرمپ لگژری ٹاور جنوبی فلوریڈا میں خریدے تھے۔ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ
ماسکو کی ایک اسٹیٹ کنسٹریکشن فرم کے سابق ایگزیکٹو تھے۔ جو ملٹری اور انٹیلی جینس
Facilities پر
کام کرتی تھی۔ اور اب یہ St.
Petersburg انویسمینٹ بنک کے بانی اور بنکنگ،
پراپرٹی اور الیکٹرونک کمپنیوں کے ایک گروپ کے معاون بانی تھے۔ جن کی ان شعبوں میں
خصوصی دلچسپی تھی۔
روس
کی فیڈرل کسٹم سروس کے مطابق 2014 میں امریکہ روس کے درمیان دو طرفہ تجارت 29.2بلین
ڈالر تھی۔ جس میں 2013 کے مقابلہ میں 7.2 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ روس کی امریکہ
برآمدات 18.5بلین ڈالر تھیں۔ جبکہ امریکہ کی روس برآمدات 10.7بلین ڈالر تھیں۔
گزشتہ سال جون تک امریکہ کے Treasuries میں روس کی Holdings
90.9بلین ڈالر پر پہنچ گئی تھیں۔ جبکہ 2015 میں امریکہ کے Treasuries میں
روس کی Holdings 72بلین
ڈالر تھیں۔ اور ایک سال کے عرصہ میں امریکہ کی معیشت میں روس کی انویسمینٹ میں 26
فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت جو ممالک امریکہ کا Debt hold
کرتے ہیں ان میں روس 16ویں نمبر پر ہے۔ چین جاپان اور آئرلینڈ بالترتیب پہلے دوسرے
اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ امریکہ روس انویسٹمینٹ فنڈ جو امریکہ نے 1995 میں قائم
تھا۔ اس فنڈ کے تحت روس کی معیشت میں نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا گیا تھا۔ 2005
تک روس کی 44 کمپنیوں میں تقریباً 300 ملین ڈالر انویسٹ کیے تھے۔
یہ
صدر پو تن کی انتھک محنت اور ان کی حکومت کی کارکردگی تھی۔ جس کے نتیجے میں روس کی
معیشت مستحکم تھی اور حیرت انگیز طور پر ترقی کی تھی۔ آئل اور گیس کی برآمدات میں
زبردست اضافہ ہوا تھا۔ اور روس آئل برآمد کرنے والے ملکوں میں سعودی عرب کے مقابلہ
پر آ گیا تھا۔ روس کے پاس خاصا سونا تھا اور زر مبادلہ کے ذخائر 400بلین ڈالر پر
پہنچ گیے تھے۔ اور زر مبادلہ کے ذخائر کو 400بلین ڈالر سے 500بلین ڈالر پر لے جانے
کا منصوبہ تھا۔ روس نے صدر پو تن کی قیادت میں ترقی ایسے مشکل حالات میں کی تھی کہ
جب نیٹو ملکوں کا فوجی اتحاد روس کے گرد اپنا حلقہ تنگ کر رہا تھا۔ اور روس پر
فوجی اخراجات میں اضافہ کرنے کا دباؤ پڑ رہا ہے۔ یوکرین کا تنازعہ روس نے خود اپنے
لئے پیدا نہیں کیا ہے۔ بلکہ یہ امریکہ نے Manufacture کیا ہے۔ یوکرین کے تنازعہ کی آ ڑ میں
امریکہ اور یورپی ملکوں نے روس پر اقتصادی بندشیں لگا کر روس کی تیزی سے ترقی کرتی
معیشت پر Brake لگائیں
ہیں۔ یہ یورپی ملک خود ایک شدید اقتصادی بحران کا سامنا کر رہے تھے۔ اٹلی اسپین
یونان دیوالیہ ہو رہے تھے۔ اور دیوالیہ ہونے کی وبا تیزی سے یورپ میں پھیل رہی
تھی۔ نیٹو ملکوں میں جنگوں میں امریکہ کی مسلسل ناکامیوں سے امریکہ کی ساکھ خراب ہو رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب
میں کامیابی نے امریکہ کی قدیم پالیسیوں کا نقشہ بدل دیا ہے۔ توڑ پھوڑ کا عمل شروع
ہو گیا ہے۔ دونوں پارٹیوں بالخصوص ری پبلیکن پارٹی میں جو روس کے ساتھ ایک نئی سرد
جنگ شروع کرنا چاہتے تھے۔ وہ اب کمزور ہو رہے ہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں
روس کی مداخلت کے ابھی تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آۓ ہیں۔ تاہم تحقیقات جاری ہے۔
روس
کا RT ٹی وی امریکہ اور یورپ کی سیاست تبدیل کرنے میں زبردست کردار ادا کر رہا
ہے۔ اور یہ دیکھ کر امریکہ اور یورپ کے سیاسی اسٹبلشمینٹ میں خاصی کھلبلی مچی ہوئی
ہے۔ RT ٹی
وی امریکہ اور یورپ کو اسی طرح تبدیل کر رہا ہے کہ جس طرح 80 کے عشرہ میں CNN نے
مشرقی یورپ اور سوویت یونین کو تبدیل کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔۔ جسے وہ
دوسروں کو تبدیل کرنے میں پسند کرتے تھے۔ اب وہ انہیں تبدیل کرنے میں پسند نہیں
ہے۔
No comments:
Post a Comment