Twenty-Seven Years After The End of Cold War, People In The West Are The Biggest Loser
Middle Class Has Been Wiped Out, Labor Unions Have Been Crushed, Freedom Has Been Depreciated, Standard of Living Has Been Stagnant, Companies Are Profiting From Dollar A Day Labors In The Poorest Countries, And Americans Are Living On The Dollar Stores
Middle Class Has Been Wiped Out, Labor Unions Have Been Crushed, Freedom Has Been Depreciated, Standard of Living Has Been Stagnant, Companies Are Profiting From Dollar A Day Labors In The Poorest Countries, And Americans Are Living On The Dollar Stores
مجیب خان
اگر
روس کی Hacking کے
باوجود فرانس کے عوام کا ایک ایسے آزاد امیدوار کو فرانس کا صدر منتخب کرنے کا
فیصلہ درست ہے۔ جس کا فرانس کی سیاست میں کبھی کوئی رول نہیں تھا۔ تو پھر امریکہ
کے عوام کا ڈونالڈ ٹرمپ کو، جس کا امریکہ کی سیاست کا کوئی تجربہ نہیں ہے، صدر
منتخب کرنے کا فیصلہ غلط کیوں ہے؟ لوگ
انتخابات میں روس کی Hacking
دیکھ کر صدارتی امیدوار منتخب نہیں کرتے ہیں۔ اور فرانس کے صدارتی انتخاب کے نتائج
سے یہ ثابت ہو گیا ہے۔ نو منتخب صدر Emmanuel Macron 39
برس کے ہیں۔ اور فرانس کی تاریخ میں سب سے کم عمر صدر ہیں۔ Macron ایک سابق بنکار
ہیں۔ صدر Francois Hallende کے
اقتصادی اصلاحات کے مشیر بن گیے تھے۔ اور پھر 2014 سے 2016 تک اقتصادی وزیر تھے۔
نو منتخب صدر کا حکومت میں صرف یہ مختصر تجربہ تھا۔ صدر ٹرمپ کو حکومت اور سیاست
کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ بھی با ظاہر ایک آزاد صدارتی امیدوار تھے۔
لیکن ری پبلیکن پارٹی کا پلیٹ فارم صرف صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لئے استعمال
کیا تھا۔ ہلری کلنٹن اگر صدر اوبامہ کی کابینہ میں شامل نہیں ہوتیں تو شاید وہ
ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابلے میں زیادہ Formidable امیدوار ہوتیں۔ ہلری کلنٹن نے صدر
بش کی افغان اور عراق جنگوں کی حمایت کی تھی۔ اور پھر اوبامہ انتظامیہ میں
سیکریٹری آف اسٹیٹ بننے کے بعد لیبیا اور شام میں جنگ کی حمایت کی تھی۔ ہلری کلنٹن
کے اس ریکارڈ کو دیکھ کر امریکی عوام انہیں صدر منتخب کرنے کے بارے میں شیش و پنج
میں تھے۔ اور آخر میں انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے دونوں پارٹیوں کی پالیسیوں پر شدید تنقید سے خود کو ایک آزاد امیدوار
ثابت کیا تھا۔
امریکہ
کی طرح فرانس میں بھی کنز ویٹو ری پبلیکن کی حکومت میں صدر نکولس سر کو زی نے عراق
جنگ کی حمایت کی تھی۔ اور پھر صدر اوبامہ کے
ساتھ لیبیا پر حملہ کر کے قدافی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ ان فوجی مہم جوئیوں کے
نتیجہ میں صدر سر کو زی انتخاب ہار گیے تھے۔ سوشلسٹ پارٹی اقتدار میں آ گئی تھی۔
صدر Francois Hollande کی
حکومت نے صدر اوبامہ کے ساتھ شام میں ایک انتہائی خونی خانہ جنگی میں نام نہاد
باغیوں کی حمایت کی تھی۔ اس خانہ جنگی میں 4 لاکھ بے گناہ شامی مارے گیے ہیں۔ شام
کھنڈرات بن گیا ہے۔ لیکن صدر Hollande کی
حکومت باغیوں کی حمایت کرتی رہی۔ شام کی خانہ جنگی کے اثرات پھر فرانس میں دیکھے
جا رہے تھے۔ پیرس میں دہشت گردی کے واقعات ہونے لگے تھے۔ دوسری طرف شام لیبیا اور دوسرے
جنگ زدہ ملکوں سے لوگوں کی سو نامی یورپ میں پہنچنے لگی۔ لوگوں کی یہ سو نامی یورپ
کی حکومتوں کے لئے ایک نیا بحران بن گیا تھا۔ مقامی آبادی اسے قبول کرنے کے لئے
تیار نہیں تھی۔ امریکہ میں صدارتی انتخاب میں حکومت کی پالیسیوں کے خلاف شدید رد
عمل دیکھا گیا تھا۔ لوگ بش اور اوبامہ انتظامیہ میں مسلسل جنگوں سے سخت نالاں تھے۔
اور یہ صدارتی انتخاب دراصل حکومت کی
پالیسیوں کے بارے میں ایک ریفرینڈم تھا۔ اور فرانس کا صدارتی انتخاب بھی حکومت کی
پالیسیوں کے خلاف ریفرینڈم تھا۔ اور برسوں سے جو سیاسی جماعتیں سیاست پر غالب ہیں۔
ان کے خلاف عوام کا رد عمل تھا۔
سرد
جنگ ختم ہوۓ 27 سال ہو گیے ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ملکوں
کے لوگوں کو جمہوری آزادی ملی تھی۔ ان کی زندگیوں میں اقتصادی خوشحالی آئی تھی۔
لیکن پھر دوسری طرف سرمایہ دارا نہ مغربی ملکوں میں اس کے برعکس ہوا ہے۔ سرد جنگ
ختم ہونے سے مغربی ملکوں میں لوگوں کی اقتصادی خوشحالی میں انحطاط آیا ہے۔ اور
سیاسی آزادیاں Depreciate
ہوئی ہیں۔ لیبر یونین کو Crush کیا
گیا ہے۔ مغربی ملکوں میں سرد جنگ کے دور میں امیر اور غریب کے درمیان کبھی اتنا
وسیع فرق نہیں تھا کہ جتنی تیزی سے یہ فرق اب آیا ہے اور یہ مسلسل بڑھتا جا رہا
ہے۔ Elite class
پھیل گئی ہے اور Middle class کا
تقریباً صفایا ہو گیا ہے۔ مغربی ملکوں سے سرمایہ اور کمپنیاں ان ملکوں میں منتقل
ہو گئی ہیں جہاں لیبر سستی ہے۔ لیبر قوانین نہیں ہیں۔ سیاسی آزادیاں نہیں ہیں۔ اور
جہاں مطلق العنان حکومتیں لوگوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرتی ہیں۔ سرد جنگ میں
سرمایہ دارا نہ مغربی ملکوں کو کمیونسٹ کے مقابلے پر لیبر قوانین بنانے پڑے
تھے۔ بلکہ لیبر حقوق کچھ زیادہ دے دئیے
تھے۔ لیبر یونین بھی بہت با اثر تھیں۔ اور اب کمپنیاں اور کارپوریشن زیادہ با اثر
طاقتور ہو گئی ہیں۔ اور یہ اب لیبر کو ملنے والی مراعات رفتہ رفتہ ختم کرتی جا رہی
ہیں۔ جرمنی فرانس اور دوسرے یورپی یونین
ملکوں میں لیبر اصلاحات، لیبر مراعات ختم کرنے یا ان میں کمی کرنے کے خلاف
حکومتوں کو ور کرز کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ برطانیہ نے لیبر قوانین میں
تبدیلیاں کی ہیں۔ اور لیبر یونین کے اختیارات کو بہت محدود کر دیا ہے۔ امریکہ میں
نائن الیون کے بعد کمپنیوں اور کارپوریشنوں نے بڑی تعداد میں لوگوں کو بیروزگار کر
دیا تھا۔ نئی بھرتیوں کے دروازے ایک عرصہ تک بند ر کھے تھے۔ اور اس طرح لوگوں کو کم اجرت پر کام
کرنے کے لئے مجبور کر دیا تھا۔ جو لوگ 20 اور 25 سال سے کام کرنے کے بعد 35 اور 40
ڈالر فی گھنٹہ کماتے تھے۔ وہ 18 ڈالر فی گھنٹہ پر کا م کرنے کے لئے تیار ہو جاتے
تھے۔ اس طرح Middle class کو
ختم کیا جا رہا تھا۔ 2001 سے 2008 تک بش انتظامیہ نے لوگوں کی توجہ القا عدہ اور
بن لادن پر مرکوز کر دی تھی۔ اور عوام سے یہ کہا جا رہا تھا کہ بن لادن ہماری
اقتصادی خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اور دہشت گردی کی نام نہاد جنگ کے در پردہ
Elite class کو
فروغ دیا جا رہا تھا۔ دوسری طرف مالیاتی اداروں کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو دولت
بٹورنے کے موقعہ فراہم کر دئیے تھے۔ 2008 میں امریکہ کو زبردست مالیاتی بحران کا
سامنا کرنا پڑا تھا۔ بڑے بڑے بنک گرنے کے قریب کھڑے تھے۔ آ ٹو انڈسٹری انتہائی برے
حالات میں تھی۔ اور دیوالیہ ہو چکی تھی۔ لاکھوں لوگوں کے پینشن فنڈ اس مالیاتی
بحران میں ڈوب گیے تھے۔ جو امریکی 10 سال میں رٹائر ہرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
وہ 20 سال اور کام کرنے کا سوچنے لگے تھے۔ یہ مالیاتی لوٹ مار صرف امریکہ میں
دیکھی جا رہی تھی۔ بلکہ یورپ میں برطانیہ فرانس اٹلی اسپین یونان اور کئی دوسرے
ملکوں کے لوگوں کو بھی اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یونان میں لوگوں کی
زندگی بھر کے تمام اثاثے اس مالیاتی لوٹ مار میں ڈوب گیے تھے۔
صدر
اوبامہ نے بڑے مالیاتی اداروں اور بنکوں کو Bailout عوام کے ٹیکس
کے کھربوں سے کر لیا تھا۔ آ ٹو انڈسٹری کو بھی Bailout کر لیا تھا۔
لیکن Middle class کو
اپنی تقریروں میں صرف لفظوں کی حد تک زندہ رکھا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ میں بھی Elite class کے
ترجمان Media نے
لوگوں کی توجہ جنگوں پر لگاۓ رکھی تھی۔ القا عدہ کی جگہ ISIS نے لے لی تھی۔ Elite
ملکوں نے لیبیا شام اور عراق کو صرف اپنے مفاد میں تباہ اور برباد کیا ہے۔ ان
ملکوں میں بھی Middle class
بالکل تباہ کر دی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ اب Class war میں Merge ہو رہی ہے۔ اس
کی جھلکیاں امریکہ اور فرانس کے انتخابات میں نظر آ رہی ہیں۔ Old political parties اب Obsolete
ہوتی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال کا الزام اپنی پالیسیوں کو دینے کے بجاۓ روس کی
انتخابات میں Hacking اور
Meddling کو
دیا جا رہا ہے۔ اور عوام سے یہ کہا جا رہا ہے کہ روس نے ہمارے انتخابات میں مداخلت
کر کے امریکہ کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے
کہ 2000 کے صدارتی انتخاب میں Florida میں ووٹوں میں غبن
کر کے امریکہ کے جمہوری نظام کو زبردست نقصان پہنچایا تھا۔ اور یہ Hacking ری
پبلیکن پارٹی نے کی تھی۔ اور ڈیمو کریٹک پارٹی نے خاموشی سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔
No comments:
Post a Comment