Thursday, May 25, 2017

Weapons Are The Mother of All Evil

Weapons Are The Mother of All Evil 

Perhaps, Allah Has Sent Donald Trump To Saudi Arabia To Unite The Islamic World, But How Can This Lucrative Arms Sale Agreement With Saudi Arabia Unite The Islamic World And Bring Peace In The Region? 

The Custodian of Islam’s Two Holiest Places Can Unite The Western World Against Saddam Hussein, Against Muammar Qaddafi, Against Syria, Against Yemen, Against Iran, But They Can’t Unite The Islamic World



مجیب خان
President Donald Trump addressing to the Arab Islamic American Summit in Riyadh, Saudi Arabia 

Arab Islamic American Summit in Saudi Arabia
    صدر ڈونالڈ ٹرمپ اسلام کی انتہائی مقدس سرزمین پر پیغمبر بن کر اسلامی دنیا کو اتحاد کا پیغام دینے اور دنیا میں امن سے رہنے کی ہدایت کرنے آۓ تھے۔ حرمین شریفین سعودی شاہ اسلامی دنیا کو متحد کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اللہ نے صدر ٹرمپ کو شاید یہ ہدایت کی تھی۔ صدر ٹرمپ کے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سخت برے خیالات بھی اللہ نے بدل دئیے تھے۔ مسلمانوں نے اللہ سے ڈونالڈ ٹرمپ کے ان کے بارے میں اور ان کے مذہب کے بارے میں خیالات تبدیل کرنے کے لئے دعائیں نہیں مانگی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز اسلام کی انتہائی مقدس سرزمین پر قدم رکھنے سے کیا ہے۔ ریاض میں 50 اسلامی ملکوں کے سربراہوں سے خطاب کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ انہیں لیکچر دینے نہیں آۓ ہیں۔ وہ انہیں امن اور انسانیت کا راستہ دکھانے آۓ ہیں۔ اس لئے یہ لیکچر نہیں Sermon تھا۔ صدر ٹرمپ نے اسلام کے بارے میں اچھی باتیں کی تھیں۔ مڈل ایسٹ کے بچوں کے ایک بہتر مستقبل کی بات کی تھی۔ 21 ویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں مڈل ایسٹ میں جس پیمانے پر خون خرابہ ہو رہا ہے۔ اسے ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے Sermon میں اسلامی ملکوں کے سربراہوں پر دہشت گردی ختم کرنے کے لئے خصوصی طور پر زور دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا "یہ لڑائی مختلف عقائد، مختلف فرقوں اور مختلف ثقافتوں کے درمیان لوگوں میں نہیں ہے۔ لیکن یہ لڑائی اچھائی اور بدی کے درمیان ہے۔ امریکہ اس لڑائی میں ان کی حمایت جاری ر کھے گا۔ مڈل ایسٹ کو انتہا پسندی سے لڑائی میں زیادہ سرگرمی سے رول ادا کرنا چاہیے۔"

“Drive them out. Drive them out of your places of worship. Drive them out of your holy land. Drive them out of this 
Earth.” Said President Donald Trump. 
      
 General Abdel Fattah el-Sisi came in Power in Egypt to Drive them out from Egypt. But President Obama drove them in Libya, drove them in Syria, drove them in training camps in Jordan.
America’s moral values, democratic principal, and rule of Law are no longer organic
  
    صدر ٹرمپ نے انتہا پسندی کو good or evil کے درمیان لڑائی بتایا ہے۔ لیکن good کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ امریکہ کی دو سابقہ انتظامیہ نے evil کے ساتھ مل کر good کو ختم کر دیا ہے۔ اور اس لڑائی میں ہر طرف اب evil نظرآ رہے ہیں۔ اور good کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ مڈل ایسٹ کے لوگوں نے یہ جنگیں اپنے اوپر خود مسلط نہیں کی ہیں۔ بلکہ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے اپنے مڈل ایسٹ کے اتحادیوں کے تعاون سے اس خطہ کے لوگوں پران جنگوں کو مسلط کیا ہے۔ اور یہاں کے لوگوں کی زندگیاں miserable بنا دی ہیں۔ Miserable ہونا بھی انتہا پسندی کی ایک قسم ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسلامی ملکوں کے رہنماؤں کو صرف ان کی ذمہ دار یوں کا احساس دلایا ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں امریکہ کی دو سابقہ انتظامیہ کی غیر ذمہ دارا نہ Hit and Run پالیسیوں کے نتائج کا ذکر نہیں کیا تھا۔ مڈل ایسٹ کے اصل اور بنیادی حقائق کو یہ سمجھ کر distort کر دیا کہ لوگوں کی یاد داشت ان کے مسائل میں گھرے رہنے کی وجہ سے کمزور ہوتی ہے۔ اور وہ بہت جلد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اگر اصل حقائق اور بنیادی اسباب کو مد ںظر رکھ کر sermon  دیتے تو یہ دلیل تسلیم کرنا ذرا آسان ہو جاتا کہ یہ لڑائی مختلف عقائد، مختلف فرقوں اور مختلف ثقافتوں کے درمیان نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے sermon میں عراق کی قدیم تاریخ اور ثقافت کا ذکر کیا تھا۔ عراق ایک تجارتی مرکز تھا۔ انتہائی خوبصورت ملک تھا۔ لیکن مارچ 2003 سے قبل عراق کے کیا حالات تھے؟ اور آج عراق کے کیا حالات ہیں؟ عراق کو ان حالات میں پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ عراق پر حملہ نے مڈل  ایسٹ کو evils دئیے ہیں۔ عراق پر حملہ کے نتائج کے بارے میں صد ام حسین کا ہر لفظ بالکل درست ثابت ہوا ہے۔ عراق کی سرزمین دریا اور فضائیں بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ Tigris اور Euphrates انسانی خون سے سرخ ہو گیے ہیں۔ اور صد ام حسین نے یہ ہی کہا تھا۔ مڈل ایسٹ میں صد ام حسین کے دور میں شیعہ سنی فرقہ پرستی کھبی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ سب عرب پہلے تھے اور شیعہ سنی عیسائی بعد میں تھے۔ عراقی شیعہ صد ام حسین کی فوج میں تھے۔ اور انہوں نے ایران سے 8 سال جنگ لڑی تھی۔ اور خلیج کی سنی حکومتیں اس جنگ میں صد ام حسین کی مدد کر رہی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود شیعہ سنی فرقہ پرستی نے عراق ایران جنگ کا نقشہ تبدیل نہیں کیا تھا۔ خلیج کی پہلی جنگ میں جارج ایچ بش نے عراق پر no fly zone کا نفاذ کیا تھا۔ لیکن شیعاؤں کے اکثریتی عراقی علاقوں کو اس پابندی سے مستثنی رکھا تھا۔ تاکہ شیعہ صد ام حسین کے خلاف بغاوت کریں گے۔ اس وقت سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے اپنے منہ بند ر کھے تھے۔ پھر 10 سال کے بعد جارج ڈ بلو بش نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ اور صد ام حسین کا اقتدار ختم کر دیا تھا۔ سنی عرب حکومتوں نے اس حملہ میں امریکہ سے تعاون کیا تھا۔ اس حملہ کے لئے اپنی سرزمین دی تھی۔ پھر جارج بش نے سنی عرب رہنماؤں کی طرف منہ کر کے ان سے کہا تھا کہ عراق میں ایک ہزار سال کے بعد شیعاؤں کو حکومت ملی ہے۔ جن کی عراق میں اکثریت تھی۔ سنی عرب رہنماؤں نے صدر بش سے اپنی کسی تشویش کا اظہار تک نہیں کیا تھا۔ اور اسے ہضم کر لیا تھا۔ سنی عرب حکمران صدر بش کے ساتھ ناچ رہے تھے۔
    عراق پر حملہ اس evil سوچ سے کیا گیا تھا کہ اس خطہ میں شیعہ سنی ایک نیا Crusade شروع ہو جاۓ گا جو اسلام کے دونوں فرقوں کو 1400 سال قبل کی دنیا میں لے جاۓ گا۔ اس لئے بش انتظامیہ نے صد ام حسین کے ساتھ ساری حکومت کو پھانسی دے دی تھی۔ وزارتوں فوج بیوروکریسی سے تمام عراقیوں کو نکال دیا تھا۔ امریکی راج قائم کر دیا تھا۔ بعث پارٹی سوشلسٹ اور سیکولر تھی۔ اس میں شیعہ سنی اور عیسائی سب شامل تھے۔ اس پارٹی کو اگر برقرار رکھا جاتا تو یہ پارٹی عراق میں انتخاب کے ذریعے اقتدار میں آسکتی تھی۔ اور اگر اقتدار میں نہیں بھی آتی تب بھی یہ پارٹی عراق کو مذہبی فرقہ پرستی میں تقسیم نہیں ہونے دیتی۔ امریکہ نے عراق کو tremendous نقصان پہنچا یا ہے۔ اور سنی عرب حکمران سائڈ لائن پر کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ حالانکہ ایران آج بھی اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں 20 سال پہلے تھا۔ لیکن یہ اسرائیلی پراپگنڈہ  ہے جو انہیں ایران سے نفسیاتی obsess کر رہا ہے۔
    ار دن کے شاہ عبداللہ نے یہ درست کہا ہے کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ "وہ مشرق وسطی کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔"  امریکہ کو مشرق وسطی میں کوئی کامیابی نہیں ہونے کا مطلب ہے کہ وہ مشرق وسطی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے۔ لبنان کی حکومت حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے لئے فرنٹ لائن سیکورٹی ملیشیا ہے۔ جس نے اسرائیل کے قبضہ سے لبنان کے علاقہ آزاد کراۓ ہیں۔ اور لبنانی عیسا ئیوں اور سنیوں کے لئے حزب اللہ کی قربانیاں ہیں۔ حزب اللہ عیسا ئیوں اور سنیوں کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ اور لبنان میں امن اور استحکام رکھنے میں یہ ایک اہم رول ادا کر رہی ہے۔ کیونکہ حزب اللہ نے تنہا اسرائیل سے جنگ لڑی تھی اور اسے لبنان سے نکالا تھا۔ اس لئے اسرائیل حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ اور اسرائیل کے دباؤ میں اب امریکہ نے بھی حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم تسلیم کر لیا ہے۔ پھر اسرائیل نے سعودی عرب کو خوش رکھنے کے لئے امریکہ سے کہہ کر یمن میں شہریوں کو ہلاک کرنے کے بارے  میں  تحقیقات رکو ادی ہے۔ یمن میں سعودی بمباری کے نتیجہ میں دو سو سے زیادہ بے گناہ شہری ہلاک ہوۓ تھے۔
    شام کو تباہ کرنے کا الزام اب ایران اور روس کو دیا جا رہا ہے۔ ریاض کانفرنس میں سعودی شاہ، سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور صدر ٹرمپ نے شام میں ایران اور حزب اللہ کی مداخلت کو شام تباہ ہونے کا سبب بتایا ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر ISIS کی شام میں دہشت گردی اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام کرنے کی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ جھوٹ اور hypocrisy شام کو تباہ کرنے کی تاریخ  نہیں بدل سکتے ہیں۔ 2011 سے 2015 تک شام کی خانہ جنگی صدر اوبامہ اور خلیج کے حکمرانوں کی سرپرستی میں ہو رہی تھی۔ سی آئی اے کے تربیتی کیمپ ار دن میں نام نہاد باغیوں کو تربیت دے رہے تھے۔ جن میں خاصی تعداد میں انتہا پسند اسلامی تنظیموں کے دہشت گرد بھی اسد حکومت کے باغی بن کر تربیت لے رہے تھے۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں شام کی خانہ جنگی میں فنڈنگ کر رہے تھے۔ اور یہ Facts ہیں۔ ایران اور حزب اللہ  اسد حکومت کو بچانے میں مدد کر رہے تھے۔ روس شام میں 2015 کے خزاں میں آیا تھا۔ اس وقت تک شام میں 4 لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے تھے۔ شام کھنڈرات بن چکا تھا۔ دو ملین شامی دنیا میں پناہ کے لئے در بدر گھوم رہے تھے۔ شامی بچوں اور عورتوں کی لاشیں بحر روم میں تیر رہی تھیں۔ یہ خانہ جنگی ڈکٹیٹر کے خلاف ایک انتہائی ظالمانہ بربریت تھی۔ ایک ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے سے پہلے اس بربریت کا خاتمہ انسانی فریضہ تھا۔
    ریاض کانفرنس میں یمن کی جنگ کے حقائق کے بارے میں بھی جھوٹ بولا گیا ہے۔ یمن میں علی عبداللہ صالح کی حکومت نائن الیون کے بعد القا عدہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادی تھی۔ امریکی فوج اور سی آئی اے 2001 سے 2011 تک یمن میں القا عدہ کے خلاف آپریشن کر رہے تھے۔ امریکہ کے اس آپریشن میں القا عدہ کے کئی سر کردہ رہنما مارے گیے تھے۔ پھرعرب اسپرنگ یمن پہنچ گیا تھا۔ علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف عوام سڑکوں پر آ گیے تھے۔ حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران یمن میں ایرانی مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے علی عبداللہ صالح حکومت کے آخری دنوں میں یمن کو 500 ملین ڈالر کے ہتھیار دئیے تھے۔ اس وقت صدر صالح حکومت ختم ہونے کا سی آئی اے کو ضرور ہو گیا ہو گا۔ صدر صالح حکومت کا جلد زوال ہو گیا تھا۔ صدر صالح نے اپنے خاندان کے ساتھ سعودی عرب میں پناہ لے لی تھی۔ صدر علی عبداللہ صالح زیدی  Zaydi) ( شیعہ تھے۔ اس دوران امریکی میڈیا میں یمن میں 500 ملین ڈالر کے ہتھیار غائب ہو جانے کی خبر آئی تھی۔ اگر یمن میں اس وقت ایران کا کوئی اثر و رسوخ ہوتا تو اوبامہ انتظامیہ ان ہتھیاروں کے غائب ہونے کا شبہ ایران پر کرتی۔ یہ ہتھیار ہوتیوں کے ہاتھوں میں تھے جن سے وہ سعودی عرب کے خلاف لڑ رہے تھے۔ جبکہ صدر اوبامہ نے سعودی عرب کو یمن میں ہوتیوں کے خلاف جنگ میں تقریباً 70 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ ان جنگوں میں کس کا فائدہ ہے اور کس کا نقصان ہے۔ ایران نے 80 کے عشرہ میں 8 سال جنگ لڑی تھی۔ اور ایران کو جنگ کے نقصانات کا تجربہ ہو چکا ہے۔ اور ایران جنگوں کی سیاست میں کبھی نہیں جاۓ گا۔ اسرائیل سعودی عرب اس خطہ میں ایک نئی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اور امریکہ کی ہتھیاروں کی صنعت کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ریاض میں عرب اسلامی امریکہ کانفرنس کے دوران سائڈ لائن پر سعودی عرب کو 350 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اور یہ اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔                                                                               

No comments:

Post a Comment