Friday, June 16, 2017

A Region of Permanent Wars, Conflicts, Conflagration, And Turmoil

  A Region of Permanent Wars, Conflicts, Conflagration, And Turmoil

    In The Middle East, Out of Six Trillion Dollars, Only Five Hundred Million Dollars, America Had
 Spent Wisely On The Projects of Democracy, Freedom, And Women Rights, While Rest General Peter Has Spent On General Paul

مجیب خان
Two US-made Israeli super sherman tanks patrolling in East Jerusalem, June1967, 6 day war 

Israeli troops guard captured Egyptian troops and Palestinians at the start of of 6 day war. June 5, 1967 

First Gulf war U.S. marines on patrol, a destroyed Iraqi tank and a charred corpse with burning oil 

War of Iraq and human destruction

    اگر Moses اور Jesus امریکہ کے صدر بن جائیں تو شاید وہ بھی یہ ہی کریں گے جو صدر بش، صدر اوبامہ کر رہے تھے اور ان سے پہلے جو کر رہے تھے۔ اور صدر ٹرمپ بھی اب اسی طرف آ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں سابق صدر کی مڈل ایسٹ پالیسی پر سخت تنقید کی تھی۔ اور ان کی پالیسیوں کو تباہی بتایا تھا۔ صدر ٹرمپ نے مڈل ایسٹ کی جنگوں سے امریکہ کو دور رکھنے کا کہا تھا۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کا کہا تھا۔ تاہم اس تنازعہ کو حل کرنے کی بات بھی کی تھی۔ لیکن پھر وائٹ ہاؤس کے Climate میں صدر ٹرمپ کو دنیا صدارتی انتخابی مہم کے Climate سے بہت مختلف نظر آئی تھی۔ صدر بش اور صدر اوبامہ نے مڈل ایسٹ کو جہاں چھوڑا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی مڈل ایسٹ  پالیسی کا آغاز بھی وہیں سے کیا ہے۔ فلسطین اسرائیل مڈل ایسٹ کا ایک بزرگ تنازعہ ہے۔ لہذا امریکہ کا ہر صدر سب سے پہلے اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں سے ملاقات کرتا ہے۔ اور اس تنازعہ کے حل کو اپنی انتظامیہ کی پہلی ترجیح بیان کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک خصوصی مڈل ایسٹ  Envoy نامزد کیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اور سب سے پہلے اسرائیل اور فلسطین کے رہنماؤں سے وائٹ ہاؤس میں ملاقاتیں کی ہیں۔ لیکن ان ملاقاتوں کے کوئی خاص نتائج سامنے نہیں آۓ ہیں۔
    لیکن جو نتائج سامنے آۓ ہیں۔ وہ سعودی عرب ریاض میں صدر ٹرمپ کی GCC ملکوں کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد سعودی عرب کا قطر کے ساتھ تمام تعلقات ختم کرنے کا اعلامیہ ہے۔ اور اس اعلامیہ کے ساتھ سعودی حکومت نے قطر کی ناکہ بندی کر دی ہے۔ GCC اور شمالی افریقہ کے بعض ملک بھی God Father کے فیصلے کے تابعداری کر رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے قطر کے خلاف اس فیصلہ کا سبب قطر کے حما س، اخوان المسلمون اور ایران کے ساتھ تعلقات بتاۓ ہیں۔ مڈل ایسٹ پہلے ہی خوفناک بحرانوں میں گھیرا ہوا ہے۔ اور اب ایک نئے بحران کا اس میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔  یہ سلسلہ مڈل ایسٹ میں 60 سال سے جاری ہے۔ جب نئی امریکی انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کے پرانے تنازعوں کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں کے نتائج ہمیشہ نئے تنازعہ پیدا ہونے کی صورت میں سامنے آۓ ہیں۔ اس سال 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے 50 سال ہو گیے ہیں۔ اور جو فلسطینی بچے اس وقت فلسطینی مہاجر کیمپوں میں پیدا ہوۓ تھے۔ وہ ان مہاجر کیمپوں میں اس سال 50  برس کے ہو گیے ہیں۔ اس سال اسرائیل اور مصر میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کو 39 سال ہو گیے ہیں۔ اس سال خلیج کی پہلی جنگ کو 26 سال ہو گیے ہیں۔ اس سال فلسطین اسرائیل اوسلو امن معاہدہ کو 24 سال (1993-2017 ) ہو گیے ہیں۔ اس سال عراق پر اینگلو امریکہ فوجی حملہ اور صد ام حسین کے اقتدار کے خاتمہ کے 14 سال ہو گیے ہیں۔ اس سال معمر قدافی کے اقتدار کا خاتمہ ہونے کے 6 سال ہو گیے ہیں۔ اس سال شام کی حکومت کے خلاف خانہ جنگی کو 7 سال ہو گیے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے سیاسی حالات Shape دینے میں ہر امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں اور فوجی کاروائیوں کا ایک رول ہے۔ مڈل ایسٹ کے دو ملکوں عراق اور لیبیا میں ڈکٹیٹروں کی حکومتیں فوجی حملوں کے نتیجہ میں ختم ہوئی تھیں۔ جبکہ شام میں ڈکٹیٹر کے خلاف باغیوں کی دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔ لیکن پھر مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت قبول کر لی تھی۔ اسرائیل کے نظریاتی رجعت پسندوں نے وزیر اعظم Yitzhak Rabin کو قتل کر دیا تھا۔ یہ وزیر اعظم رابن کا قتل نہیں تھا یہ امن کا قتل تھا۔ کیونکہ وزیر اعظم رابن نے فلسطینیوں کے ساتھ امن کا سمجھوتہ کیا تھا۔ وزیر اعظم رابن کے قتل کو 24 سال ہو گیے ہیں۔ اور 24 سال سے ہر امریکی انتظامیہ فلسطینیوں سے وزیر اعظم رابن کے قاتلوں سے امن مذاکرات کرنے کا اصرار کر رہی ہے۔
    مڈل ایسٹ میں مسلسل Turmoil میں امریکہ کی ہر انتظامیہ کی پالیسی کے “Finger Print” ہیں۔ مڈل ایسٹ میں کبھی ایسے حالات پیدا نہیں کیے تھے کہ جیسے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی تعمیر نو کے لئے یورپ میں حالات بناۓ گیے تھے۔ 1945 میں جنگ ختم ہوئی تھی اور 1960s میں یورپ دوبارہ ترقی یافتہ ہو گیا تھا۔ عراق کو تباہ کرنے کے بعد ابھی تک عراق کی تعمیر نو نہیں ہو سکی ہے۔ 14 سال ہو گیے ہیں اور عراق تباہ حال ہے۔ عراق کے ساتھ یہ صد ام حسین کے ظلم سے زیادہ بڑا ظلم ہے۔ مڈل ایسٹ کی تعمیر نو نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کی مڈل ایسٹ کو ہتھیار فروخت کرنے کی پالیسی کے ساتھ  مڈل ایسٹ کی تعمیر نو کبھی نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لئے جرمنی اور جاپان پر ہتھیار رکھنے  اور فوجی مہم جوئیوں کی سیاست میں حصہ لینے کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ لیکن عراق کی تعمیر نو کرنے کے بجاۓ امریکہ نے عراق کی نئی حکومت کے ساتھ سب سے پہلے کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کے سمجھوتہ کیے تھے۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ نے عراقی حکومت سے یہ نہیں کہا تھا کہ جو عراقی خاندان ہماری جنگ کے نتیجہ میں تباہ ہو گیے ہیں پہلے ان کے گھروں کو تعمیر کیا جاۓ۔ امریکہ کی اس پالیسی نے داعش کو جنم دیا ہے۔ اور عراقی حکومت کو کھربوں ڈالر کے ہتھیار اس  سے لڑنے کے لئے فروخت کیے جا رہے ہیں۔
    اس خطہ میں جب تک دولت کے بے پناہ وسائل ہیں۔ اس وقت تک اس خطہ کے لوگوں کو امن نہیں ملے گا۔ سعودی عوام کی یہ بد قسمتی ہے کہ حکمران دوسروں کے Proxy بن گیے ہیں۔ اور ان کے لئے جنگوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ جو کھربوں ڈالر انہیں ان پر خرچ کرنا چاہیے تھے وہ ہتھیاروں پر خرچ کر رہے ہیں۔ شاہ ایران نے بھی کھربوں ڈالر ہتھیاروں پر خرچ کیے تھے۔ لیکن یہ ہتھیار شاہ ایران کو نہیں بچا سکے تھے۔ صد ام حسین اور معمر قدافی کو بھی ہتھیار نہیں بچا سکے تھے۔ یہ صرف عوام ہیں جو اپنے رہنماؤں کے آ گے فرنٹ لائن بن جاتے ہیں اور انہیں بچاتے ہیں۔ قطر اور سعودی عرب دونوں امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں۔ قطر نے ایک بلین ڈالر خرچ کر کے امریکہ کو اپنی سر زمین پر ایشیا میں سب سے بڑا بحری اڈہ بنا کر دیا ہے۔ جہاں سے امریکہ افغانستان شام صومالیہ لیبیا اور دوسرے مقامات  پر القا عدہ اور داعش کے خلاف آپریشن کرتا ہے۔ 10 ہزار امریکی فوجی اس بیس پر مقیم ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے بیرونی دورے کا آغاز سعودی عرب سے کیا تھا۔ اس موقعہ پر سعودی حکومت نے ریاض میں اسلامی سربراہوں کو جمع کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے انہیں تاریخی خطبہ دیا تھا۔ یہ امریکہ اسلامی ملکوں کی کانفرنس تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ سعودی حکومت کو دراصل ہتھیار بیچنے آۓ تھے۔ شاہ سلمان نے آئندہ دس سال میں امریکہ سے تقریباً 400بلین ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔۔ اس معاہدہ کے نتیجہ میں امریکہ میں 18 ہزار نئی Job create ہوں گی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب امریکہ میں انفراسٹیکچر پر 40بلین ڈالر انویسٹ کرے گا۔ صدر ٹرمپ ان سعودی سمجھوتوں کے بھرے بریف کیس کے ساتھ  امریکہ واپس آۓ تھے۔ وائٹ ہاؤس میں ابھی یہ بریف کیس کھولا بھی نہیں تھا کہ سعودی عرب نے خلیج میں قطر کے ساتھ ایک نیا تنازعہ پیدا کر کے ٹرمپ انتظامیہ کا امتحان لینا شروع کر دیا کہ یہ اس تنازعہ میں کس کے ساتھ ہو گی۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پریس کے سامنے بیان دیتے ہوۓ سعودی عرب سے قطر کی ناکہ بندی ختم کرنے کا کہا تھا۔ انہوں نے کہا یہ رمضان کا مہینہ ہے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر امریکہ کے 10 ہزار فوجی بھی قطر میں ہیں۔ سعودی بات چیت سے قطر کے ساتھ اپنے تنازعہ کو حل کریں۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے اس بیان کے بعد صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پریس کے سامنے بیان میں پر زور لہجہ میں قطر سے دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور ان کی فنڈنگ فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ قطر کی حکومت کو صدر ٹرمپ کے بیان پر بڑی حیرت ہوئی تھی۔ قطر کے وزیر خارجہ ماسکو چلے گیے۔ ادھر پینٹ گان کو پریشانی یہ تھی کہ اس کے 10 ہزار فوجی قطر میں تھے۔ اور وہ بھی ناکہ بندی سے متاثر ہو رہے تھے۔ سعودی عرب کی واشنگٹن میں اپنی ایک لابی ہے جس پر یہ 60 ملین ڈالر خرچ کر رہا تھا۔ جبکہ اسرائیلی لابی بھی سعودی عرب کی پشت پر تھی۔ لہذا 600 پونڈ گوریلا لابی کے آگے صدر ٹرمپ کو جکھنا ہی تھا۔ یہ دیکھ کر قطر نے بش انتظامیہ میں اٹا رنی جنرل John Ashcroft کو hire کر لیا ہے۔ جنہوں نے نائن الیون کے بعد بش انتظامیہ میں دہشت گردی کی جنگ میں تمام کاروائیوں کی قانون کے دائرے میں رکھنے کی نگرانی کی تھی۔ John Ashcroft لا فرم پہلے 90 دن میں 2.5 ملین ڈالر Flat Fee وصول کرے گی۔ جو پہلے 90 دن کے اخراجات کے لئے ہوں گے۔ قطر کی لابی کرنے کے لئے John Ashcroft نے جسٹس ڈیپارٹمنٹ میں جو درخواست دی ہے اس میں اعلی سابق ایف بی آئی، امریکی انٹیلی جینس، وزارت خزانہ، ھوم لینڈ سیکورٹی حکام کو شامل کرنے کے لئے نام دئیے ہیں۔
    سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر واشنگٹن آۓ تھے۔ اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson سے ملاقات کی تھی۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ" قطرکی ناکہ بندی نہیں ہے۔ سعودی عرب کو اپنے فضائی حدود پر قانونی اختیار ہے۔ قطر کے لئے خشکی اور بحری راستے کھلے ہوۓ ہیں۔ اور وہ اپنے حدود سے آ اور جا سکتا ہے۔ اور اب یہ خبر آئی ہے کہ قطر نے امریکہ سے ایف35 طیارے خریدنے کا 12بلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ جس کے بعد سعودی قطر تنازعہ سے گرما گرمی نکل گئی ہے۔  یہ مڈل ایسٹ کا المیہ ہے۔            
Iraq's 2nd war 2003


Destruction of American back regime change war in Syria

Syrian war

American-Saudi war against Yemen  

Yemen Victim of rich countries aggression

Poor Yemenies



No comments:

Post a Comment