Global Alliances Can Not Win The War And Can Not Keep The Peace
Politics, Peace, Prosperity Are Regional Issues, And Regional Alliances Can Play A Better Role
مجیب خان
"ASEAN Leaders join their hands as"economic community |
The Shanghai Cooperation Organization head of states and heads of observer states and governments |
African Union Summit |
Summit meeting between European Union and Latin American countries in Madrid, Spain |
امریکہ-
اٹلانٹک الائنس میں اختلافات کا پنڈو رہ با
کس اب کھل رہا ہے۔ اور یہ تعلقات با ظاہر Divorce کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس الائنس
میں امریکہ کے بعد جرمنی ایک بڑا ملک ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے میونخ میں
یورپی رہنماؤں سے خطاب میں کہا ہے کہ روایتی الائنس اب اتنے قابل بھرو سہ نہیں ہیں کہ جیسے یہ ایک زمانہ میں تھے۔ اور
یورپ کو اب اپنے مفادات پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اور ہمیں اپنی قسمت کے
فیصلے خود ہمیں کرنا ہوں گے۔" چانسلر مرکل نے کہا "وہ وقت اب گزر گیا کہ
جب ہم دوسروں پر مکمل بھرو سہ کرتے تھے۔ بریسلز میں نیٹو سربراہ کانفرنس کے دوران
بحث و تکرار اور پھر اٹلی میں G-7 کانفرنس میں شرکت کے بعد چانسلر
مرکل نے کہا کہ گزشتہ چند روز میں مجھے جو تجربہ ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے یہ کہنا
پڑا ہے۔" اس تکرار کی ابتدا صدر ٹرمپ نے کی تھی کہ جب اٹلی میں G-7
کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا "ہمیں جرمنی کے ساتھ وسیع تجارتی خسارہ ہو رہا
ہے۔ جبکہ وہ نیٹو اور ملٹری پر بھی بہت کم ادا کرتا ہے۔" صدر ٹرمپ نے کہا
"امریکہ کے ساتھ یہ بہت برا ہے۔ اور یہ تبدیل ہو گا۔" صدر ٹرمپ یورپ کے
دورے میں ہر جگہ جرمنی کے خلاف یہ باتیں کرتے
رہے۔ یورپی یونین کے حکام سے صدر ٹرمپ نے کہا جرمنی تجارت کے معاملے میں
بہت برا ہے۔" صدر ٹرمپ کے یورپی اتحادیوں کے بارے میں معاندانہ روئیے سے
امریکہ اور یورپ کے درمیان ایک نئی بحث و تکرار شروع ہو گئی ہے۔
ویسے
تو چانسلر مرکل سے قبل چانسلر Gerhard Schroder کے دور میں
امریکہ کے ساتھ جرمنی کے تعلقات میں زیادہ سرگرمی نہیں تھی۔ چانسلر Schroder کے صدر
پو تن کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ صدر پو تن نے سرد جنگ دور کا جرمنی کو 80بلین
ڈالر قرضہ ادا کر دیا تھا۔ جرمنی اور روس کے قریبی تعلقات کی وجہ سے روس نے یورپ
میں آئل اور گیس کی پائپ لائنوں کا جال بچھا دیا تھا۔ جرمنی روس کا ایک بڑا ٹریڈ نگ
پارٹنر تھا۔ پھر چانسلر مرکل کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی کے روس کے ساتھ تعلقات
قریبی ہونے کے بجاۓ نارمل ہو گیے تھے۔ چانسلر مرکل امریکہ سے قریب ہو گئی تھیں۔ نظریاتی
طور پر قدامت پسند تھیں۔ مشرقی جرمنی میں پیدا ہوئی تھیں۔ اور مشرقی جرمنی سوویت
بلاک میں تھا۔ انجیلا مرکل کمیونزم کے سخت خلاف تھیں۔ اس لیے بھی روس سے ان کی
مخاصمت پرانی تھی۔ اور روس کے بارے میں امریکہ کے موقف سے کبھی اختلاف نہیں کیا
تھا۔ ایڈورڈ سنوڈن نے جو خفیہ دستاویز جاری کی تھیں اس میں جرمن حکومت کی جاسوسی
کرنے اور چانسلر مرکل کے فون ٹیپ کرنے کے بارے میں اہم انکشاف ہوۓ تھے۔ لیکن
چانسلر مرکل نے اس پر کوئی شدید احتجاج نہیں کیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ سے اس کی
صرف وضاحت طلب کی تھی۔ صدر اوبامہ کی اس یقین دہانی کو چانسلر مرکل نے قبول کر لیا
تھا کہ آئندہ چانسلر کے فون ٹیپ نہیں کیے جائیں گے۔ اور جرمن حکومت کی خفیہ جاسوسی
نہیں کی جاۓ گی۔ امریکہ کے اس کردار میں چانسلر مرکل کو ضرور مشرقی جرمنی کی جھلک
نظر آئی ہو گی۔ جب کمیونسٹ حکومت میں یہ کام ہوتے تھے۔ بہرحال جرمنی اور امریکہ کے
تعلقات معمول کے رہے۔
نیٹو
اور G-7
ملکوں کے درمیان یہ اختلاف نئے نہیں ہیں۔ اور اب یہ ابل کر باہر آ گیے ہیں۔ 1999
میں یوگوسلاویہ کے خلاف نیٹو کی کاروائی کے دوران بعض رکن ملک یوگوسلاویہ پر بمباری
کے ٹارگٹ پر اختلاف کرتے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ جن ٹارگٹ کا انتخاب کرتے تھے۔
فرانس اکثر اس کی مخالفت کرتا تھا۔ نیٹو کے چارٹر کے مطابق ہر رکن ملک کو نیٹو کے
ٹارگٹ کی توثیق کرنا ہوتی تھی۔ یوگوسلاویہ کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران رکن ملکوں
میں اختلاف کی صورت میں امریکی جنرل کے حکم پر بمباری کی جاتی تھی۔ پھر افغانستان
میں جنگ طویل ہو جانے کی وجہ سے نیٹو ملکوں میں یہ اختلافات اور زیادہ گہرے ہو گیے تھے۔ بعض موقعوں پر امریکی اور نیٹو
کے یورپی کمانڈروں میں فوجی آپریشن پر ہم آہنگی نہ ہونے کی اطلاعات بھی تھیں۔
امریکہ اور برطانیہ کے بعض فوجی ایک دوسرے کی Cross firing کے
نتیجے میں مارے گیے تھے۔ اکثر اسے Friendly fire بھی کہا جاتا
تھا۔ اور پھر ان واقعات کی تحقیقات ہوتی تھی۔ امریکہ کی عالمی لیڈر شپ میں افغانستان
نیٹو کا پہلا بڑا فوجی آپریشن تھا۔ جو ایک فیل ریاست کے خلاف تھا۔ اور دنیا کا
انتہائی غریب ترین ملک تھا۔ ایک ایسے ملک میں نیٹو کا فوجی مشن بری طرح ناکام ہوا
ہے۔ اس ناکامی سے نیٹو کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ اور نیٹو ملکوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ نیٹو
کے بعض رکن ملکوں میں فوجی الائنس میں عدم دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ شاید اس لئے صدر
ٹرمپ نے بھی نیٹو کو Obsolete کہا
تھا۔ لیکن پینٹ گان بیوروکریسی کے اصرار پر صدر ٹرمپ نے نیٹو کی اہمیت کا اعتراف
کیا ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ نیٹو رکن ممالک اپنا Share ادا کریں۔ اور
بڑے دو ٹوک لفظوں میں صدر ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اب اپنے حصہ کے Share سے
زیادہ نیٹو پر خرچ نہیں کرے گا۔
عراق
کے خلاف Preemptive
فوجی کاروائی امریکہ اور برطانیہ کا مشترکہ مشن تھا۔ اور اس فوجی مشن کے تحت صد ام
حسین کو اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ عراق پر حملہ تک دونوں ملکوں میں بہت قریبی
رابطے اور ہم آہنگی تھی۔ عراق میں WMD کے بارے میں وزیر اعظم ٹونی بلیر
صدر بش کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں دلائل دیتے تھے۔ اور اسی طرح صدر بش ٹونی بلیر
کے جھوٹ کو سچ ثابت کیا کرتے تھے بلکہ ان کی کابینہ کے لوگ بھی اس میں شامل ہوتے
تھے۔ صد ام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد امریکی فوجوں نے بغداد پر قبضہ کر لیا
تھا۔ اور برطانوی فوجوں کو بغداد سے دور رکھا تھا۔ صدر بش نے عراق میں Paul Bremer کو
ایڈمنسٹریٹر نامزد کیا تھا۔ اور ایڈمنسٹریٹر نے اپنی جو کابینہ بنائی تھی اس کے
لئے وزیروں کو امریکہ سے Import کیا تھا۔ برطانیہ کو اس میں کوئی نمائندگی نہیں دی تھی۔ وزیر اعظم ٹونی
بلیر نے صدر بش سے بغداد میں عبوری حکومت میں برطانیہ کو شامل کرنے کے لئے کہا
تھا۔ لیکن صدر بش نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ عراق جنگ میں برطانیہ کے تقریباً دو
ہزار فوجی مارے گیے تھے۔ جبکہ زخمی ہونے والے برطانوی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد
تھی۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن کے دور میں دونوں ملکوں کی قربت میں شگاف آ گیے تھے۔ افغانستان
سے برطانیہ نے جیسے خود کو بالکل علیحدہ کر لیا ہے۔ افغانستان کی صورت حال پر کچھ
عرصہ سے برطانیہ کا کوئی رد عمل نہیں آیا ہے۔
امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی ختم کرنے کی جنگ دہشت گردی فروغ دینے کی جنگ
ثابت ہو رہی ہے۔ جو اس جنگ میں امریکہ کے Allies کے گلے میں اٹک گئی ہے۔ دہشت گردی
جنوبی ایشیا سے مڈل ایسٹ اور پھر نار تھ افریقہ سے گزر کر یورپ کے وسط میں پہنچ
گئی ہے۔ یورپ کے لوگ جو اسامہ بن لادن کی زندگی میں کابل بغداد بیروت مو گا دیشو اور بعض دوسرے ملکوں میں دہشت گردی
کے خوفناک منظر اپنے ٹی وی کی اسکرین پر دیکھا کرتے تھے ۔ اسامہ بن لادن کے مرنے
کے بعد دہشت گردی کے یہ مناظر اب وہ اپنے شہروں میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا
ہے؟ جب دنیا کو اتنا زیادہ خطرناک بنا دیا گیا ہے۔ تو اس میں کسی پر بھرو سہ کرنا
دراصل خود کشی کرنا ہے۔ الائنس تباہی اور بربادی کی سیاست بن گیے ہیں۔ جو بھی
الائنس میں شامل ہوا ہے وہ تباہ ہوا ہے۔ ترکی داعش کے خلاف جنگ میں الائنس میں
شامل ہوا تھا۔ امریکہ نے ترکی کے کردوں کو داعش کے خلاف لڑنے کے لئے تربیت دی تھی
اور انہیں اسلحہ بھی دیا تھا۔ لیکن یہ کرد ترکی کی فوج پر حملہ کرنے لگے تھے۔ اور
ترکی میں بموں کے دھماکہ کرنے لگے تھے۔ جس پر صدر اردگان نے کہا کہ امریکہ نے ترکی
کی کمر میں چھرا گھونپا ہے۔ داعش عراق اور موصل میں مضبوط ہو رہی تھی۔ لیکن کرد
جنہیں امریکہ نے تربیت دی تھی وہ ترکی کو کمزور کر رہے تھے۔ ان کی دہشت گردی کے
نتیجے میں سینکڑوں ترکی کے بے گناہ لوگ مارے گیے تھے۔
کرنل
معمر قدافی نے بھی بھرو سہ کر لیا تھا اور اپنے تمام WMD امریکہ کے
حوالے کر دئیے تھے۔ کرنل قدافی کو بش انتظامیہ نے یہ یقین دلایا تھا کہ ان کے
اقتدار میں رہنے سے اب امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ
میں یہ Trust بے
معنی ہو گیا تھا۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ کرنل قدافی کو اقتدار سے ہٹا کر ISIS کے
حوالے کر دیا تھا۔ جنہوں نے طرا بلس کی سڑک پر قدافی کو ذبحہ کر کے لیبیا میں
اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ اور اب امریکہ اور اس کے Allies اسلامی ریاست
کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ Allies شام
کو بھی ایک دوسرا لیبیا بنا رہے تھے۔ لیکن اللہ نے روسیوں کو بھیج کر شام اسلامی
ریاست بننے سے بچا لیا ہے۔
جرمن
چانسلر انجیلا مرکل نے اب یہ اعتراف کیا ہے کہ ہمیں امریکہ پر بھرو سہ نہیں کرنا
چاہیے۔ ہمیں یورپ کے مفادات پر خود توجہ دینا چاہیے۔ Global Alliance
دنیا کو امن اور استحکام دینے میں ناکام ہو گیے ہیں۔ اور یہ Human Destruction اور Nation
States تباہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان
حالات میں امن استحکام اور مفادات علاقائی قیادتوں کی ذمہ داری بن گیے ہیں۔ اور اس کے لئے Regional Alliance کا
فروغ ضروری ہو گیا ہے۔ صرف Regional
Alliance اپنے Region کو امن اور
استحکام دے سکتے ہیں۔ لڑائی جھگڑوں کی سیاست سے اپنے Region کو دور رکھ سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment