Tuesday, June 27, 2017

“I Just Don’t Want A Poor Person In My Cabinet”

         
“I Just Don’t Want A Poor Person In My Cabinet”

Is Underneath The War On Terror A Real War of The Rich And Poor?

مجیب خان
Poverty in Saudi Arabia

Poor Family in Saudi Arabia

Saudi King meets with other Arab leaders

US President Donald Trump and Saudi Arabia's King Salman at the Saudi Royal Court

    امریکہ میں یہ سوال اٹھ رہے تھے کہ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں تقریباً سب millionaire and billionaire ہیں۔ کسی نے کہا معیشت کا انچارج بھی millionaire  کو بنایا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ Iowa میں اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب میں اس سوال کے جواب میں کہا "کیونکہ ہمیں ایسی سوچ رکھنے والے چاہیں۔ کیونکہ وہ ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہیں دولت نہیں چاہیے۔"
                          
“These are people that are great, brilliant business 
minds, and that’s what we need, that’s what we have to have so the world doesn’t take advantages of us. We can’t have the world taking advantage of us anymore. And I love all people, rich or poor, but in those particular positions I just don’t want a poor person. Does that make sense? Does that make sense? If you insist, I’ll do it, but I like it better this way.” (Cedar Rap ids, Iowa presidential rally remarks about his cabinet, June 21, 2017)

ویسے تو امریکہ کے انتخابات میں صرف وہ ہی حصہ لیتے ہیں جو filthy rich ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبار ایسے امیدوار بھی  منتخب ہو جاتے ہیں جو صرف rich ہوتے ہیں۔ اور filthy rich کو شکست دے دیتے ہیں۔ یہ شاید پہلا موقعہ ہے کہ filthy rich امریکہ میں اقتدار میں آۓ ہیں۔ اور انتظامیہ پر ان کا کنٹرول ہو گیا ہے۔  صدر ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں filthy rich نامزد کیے ہیں۔ اور عوام سے یہ کہا ہے کہ وہ ان کے اقتصادی حالات بہتر بنائیں گے۔ عوام کو صدر ٹرمپ پر اعتماد ہے۔ اور وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ہیں۔ تاہم قابل ذکر یہ ہے کہ خلفہ راشدین کے دور کے بعد ایک غیر اسلامی ملک میں سربراہ مملکت سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ آخر کوئی غریب کابینہ میں کیوں شامل نہیں ہے؟ کابینہ میں سارے امیر ترین کیوں ہیں؟ لوگوں نے صدر ٹرمپ کا جواب سن لیا ہے۔ اور خاموش ہو گیے ہیں۔ اب انہیں بھی آزمانے کے لئے وقت دے رہے ہیں۔
    انتخابات کا جب موسم آتا ہے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے امیدوار صرف عوام کے لئے کام کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اور پھر منتخب ہونے کے بعد یہ “Deep State” کے مفاد میں کام کرنے لگتے ہیں۔ صدر جارج بش اور صدر اوبامہ دونوں کو عوام نے دو مرتبہ منتخب کیا تھا۔ اور دونوں مرتبہ منتخب ہونے کے بعد یہ “Deep State” کی سیاست کرتے رہے۔ جنہوں نے انہیں منتخب کیا تھا۔ ان کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ صدر بش کے اٹھ سال دور اقتدار کے اختتام پر لوگ انتہائی بدترین معاشی حالات میں تھے۔ بیروزگاری 10 فیصد تھی۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت بڑھ گیا تھا۔ مڈل کلاس تقریباً غائب ہو گئی تھی۔ صدر بش عوام کو خوشحالی دینے کے وعدہ کے ساتھ آۓ تھے۔ لیکن انہیں جنگیں اور غربت دے کر گیے تھے۔ پھر صدر اوبامہ کو جنہوں نے ووٹ دئیے تھے۔ ان کی زندگیاں صدر اوبامہ کے آٹھ سال دور اقتدار کے بعد جیسے منجمد ہو گئی تھیں۔ یہ آگے بڑھ سکے تھے۔ اور نہ ہی پیچھے گیے تھے بلکہ جہاں تھے وہیں رہے گیے تھے۔ امریکہ میں آج بھی غربت اتنی زیادہ  ہے کہ 40 ملین لوگ حکومت کی مدد کے سہارے پر زندہ ہیں۔
    نائن الیون ڈرامہ کے اصل victims غریب ملک اور غریب عوام ہیں۔ اور اس ڈرامہ کے beneficial مالدار ملک ان کی کمپنیاں، کارپوریشن اور دولت مند طبقہ ہے۔ ان 17 سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان وسیع فرق آیا ہے۔ اور یہ فرق افغانستان میں بھی آیا ہے۔ جہاں وار لارڈ زیادہ مالدار اور طاقتور ہو گیے ہیں۔ اور غریب افغان غریب دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ اور یورپ میں لوگ امیر اور غریب کے درمیان اس وسیع فرق سے سرکش اور انارکسٹ ہو رہے ہیں۔ اس لئے امیر اور غریب کے درمیان جنگ کے حالات کو روکنے کے لئے لوگوں کی توجہ اسلامی دہشت گردی پر مرکوز کی جا رہی ۔ صدر ٹرمپ نے مسلمانوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا۔ لیکن جن millionaires اور billionaires عرب حکم رانوں  کے ساتھ صدر ٹرمپ ان کے محلوں میں ضیافتیں کھا رہے تھے۔ انہوں نے اپنے عوام کو دہشت گردی کا راستہ دکھایا تھا۔ صدر ٹرمپ نے صرف بادشاہوں، شہزادوں، اور عبدالفتح سی سی سے  ملاقاتیں کی ہیں۔ اور وہ کیا چاہتے ہیں انہیں سنا ہے۔ لیکن ان کے غریب عوام کس حال میں ہیں۔ ان پر کیا گزر رہی ہے۔ آزادی نہ ہونے سے ان کا دم گھٹ رہا ہے۔ افلاس اور بھوک کا پھندا ان کے گلے میں پڑا ہے۔ ان کے لئے یہ دہشت گردی کی layers ہیں جس میں وہ اپنے آپ کو زندہ ر کھے ہوۓ ہیں۔ ایک طرف ریاست کے اداروں کے خوف و ہراس دہشت گردی ہے۔ دوسری طرف اسلامی انتہا پسندوں کی دہشت گردی ہے۔ تیسری طرف غربت اور بیروزگاری انتہا پر ہے۔ تھینک ٹینک اور دوسرے عالمی اداروں کی رپورٹوں میں دہشت گردی کے اسباب میں غربت کو ایک بڑا سبب بتایا گیا ہے۔ اور یہ خصوصی طور پر نوٹ بھی کیا جا رہا ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ سے غربت پھیلائی جا رہی ہے۔ جو سب سے زیادہ غریب ملک ہیں وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سب سے بڑے محاذ بنے ہوۓ ہیں۔ افغانستان، عراق، صومالیہ، مالی، یمن، شام اور لیبیا کو دہشت گردی کی جنگ  کے محاذ بنا کر انہیں غریب کر دیا ہے۔ عراق اور لیبیا دولت مند ملک تھے۔ شام ایک موڈ ریٹ معاشرہ تھا۔ ان ملکوں کو تباہ کر کے انسانیت کے خلاف crime of the century  ہیں۔
    صدر براک اوبامہ امریکہ کے پہلے بلیک صدر تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے اپنی پالیسیوں اور فیصلوں میں افریقہ کو وہ مقام نہیں دیا تھا جو ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ نے انہیں یہ مقام دیا تھا۔ لیبیا افریقہ کا ایک اہم ملک تھا۔ قدافی حکومت افریقہ کی ترقی کو خصوصی اہمیت دیتی تھی۔ اس حکومت نے عیسائی افریقہ اور مسلم افریقہ میں کبھی تفریق نہیں کی تھی۔ اس لئے افریقہ کے رہنما صدر نیلسن منڈیلا کی قیادت میں لیبیا پر فضائی بندش کی خلاف کر کے طرابلس آۓ تھے۔ لیبیا کے ہمسایہ ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں بیروزگار نوجوان لیبیا کی پیٹروکیمیکل صنعت میں کام کرنے آتے تھے۔ اور اپنے ملکوں میں اپنی فیملی کو پالتے تھے۔ اس کے علاوہ قدافی حکومت افریقہ میں تعلیم اور انفرا اسٹکچر میں بھی انویسٹ کر رہی تھی۔ لیکن یہ لیبیا کو اسلامی دہشت گردوں کے حوالے کرنے کا premeditated plan تھا۔ صدر اوبامہ نے افریقہ کے کسی سربراہ سے صدر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے بارے میں مشورہ نہیں کیا تھا۔ صرف یورپی ملکوں برطانیہ اور فرانس سے مشورہ کیا تھا۔ اور سعودی عرب اور خلیج کے حکم رانوں کو فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔ قدافی کی صدارت پر امریکہ کی قیادت میں نیٹو کی بمباری افریقہ کے ملکوں بالخصوص لیبیا کے قریبی ہمسائیوں کے لئے بالکل ایسا تھا جیسے امریکہ پر نائن الیون کا حملہ تھا۔ اس حملہ کے نتیجہ میں لاکھوں افریقی خاندانوں کی زندگی بدل دی تھی۔ لیبیا کی پیٹرو انڈسٹری جن کی پرورش کر رہی تھی۔ قدافی حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد ان کے گھروں میں فاقہ پڑنے لگے تھے۔ دنیا کی امیر ترین قوموں نے دنیا کے انتہائی غریب ترین قوموں کے ساتھ یہ ظلم کیا تھا۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکہ کے پہلے بلیک پریذیڈنٹ کا اس میں مرکزی رول تھا۔ اس horrific blunder کے نتیجہ میں لیبیا کے ہمسایہ میں افریقی پیٹرو انڈسٹری سے یہ دہشت گردی کی انڈسٹری میں بھرتی ہو گیے تھے۔ اس ایک مہلک فیصلہ کے نتیجہ میں لیبیا میں نئی دہشت گرد تنظیمیں، مالی اور نائجر میں نئے دہشت گرد گروپوں کا قیام اور پھر دہشت گردی کا فروغ ہوا تھا۔ بلاشبہ ڈالروں کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان گروپوں کی پرورش کون کر رہا تھا۔ یہ راز کی بات ہے۔ اگر یہ study کی جاۓ کہ عراق پر حملہ کرنے کے لئے 20 سال اور 30 سال کے نوجوانوں کو فوج اور بالخصوص  بلیک واٹر میں کس طرح بھرتی کیا گیا تھا۔ جو زیادہ تر ہائی اسکول dropout تھے۔ اور بیروزگار تھے۔ اور ISIS کس طرح اسی عمروں کے مسلمان نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے۔ تو اس میں بڑی مماثلت دکھائی دے گی۔  
Poverty in Egypt


Poverty in Yemen

Poverty and War in Yemen
                        

No comments:

Post a Comment