Saturday, June 10, 2017

Saudi Arabia’s Blockade of Qatar Is Like Saddam Hussein’s Occupation of Kuwait

Saudi Arabia’s Blockade of Qatar Is Like Saddam Hussein’s Occupation of Kuwait  

America, Saudi Arabia, And Israel Are Supporting Terrorists In Syria For Last Seven Years, What’s Wrong, If Qatar Supporting Hamas 
On Humanitarian Grounds. Gaza Is Like Auschwitz Camp

Last Six Decades Saudi Arabia Was Supporting The Muslim
 Brotherhood In The Middle East Against Socialist, Nationalist Regimes, And Movements; America Was Also Benefiting From Their Islamic Movement

Calling Them Terrorists Is Not The Solution, America Should Dialogue With Muslim Brotherhood, As America Had Dialogue With IRA

مجیب خان
President Trump dancing with Saudi King Salman
President Bush dancing with Saudi Royals


Yemeni militants 

Free Syrian Army Fighters backed by America, Saudi Arabia and GCC
     صد ام حسین کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ہمسائیوں اور امریکہ کے قریبی اتحادیوں کے لئے ایک بڑا خطرہ تھے۔ اپنے ہمسائیوں کو دھمکیاں دیتے تھے۔ اور مڈل ایسٹ پر صد ام حسین اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل نے مڈل ایسٹ میں صد ام حسین کا یہ رول سعودی عرب کو دے دیا ہے۔ تاہم صد ام حسین نے اپنے کسی ہمسایہ  کو کبھی Bully  نہیں کیا تھا۔ صد ام حسین نے ایران سے جنگ لڑی تھی اور اب سعودی حکومت ایران سے جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔ سعودی حکمران اپنے ہمسائیوں کو Bully  کر رہے ہیں۔ کسی کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ اتحاد بنا کر شام کو بالکل تباہ کر دیا ہے۔ گزشتہ سال سعودی شاہ سلمان نے مصر کی امداد اس لئے بند کر دی تھی کہ مصر نے سلامتی کونسل میں شام کے خلاف قرار داد کی حمایت میں ووٹ نہیں دیا تھا۔ اور اب قطر سے سعودی شاہ سلمان نے فوری طور پر تمام تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قطر کی ائر لائن کے لائنسس منسوخ کر دئیے ہیں۔ قطر کا مکمل Blockade کر دیا ہے۔ سعودی شاہ سلمان کے اس فیصلہ کی وجہ یہ تھی کہہ قطر نے ایران سے تعلقات بحال ر کھے ہیں۔ اور قطر حما س اور اخوان المسلمون کی حمایت کر رہا ہے۔ اور انہیں فنڈ بھیی دے رہا ہے۔ اسرائیل ان تنظیموں کو دہشت گرد تنظیمیں سمجھتا ہے۔ اور سعودی حکومت اسرائیل کے فیصلے سے اتفاق کرتی ہے۔ امریکہ نے بھی حما س اور اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ قطر کو سعودی اپنے پیچھے لائن میں لانے کے لئے Bully کر رہے ہیں۔ قطر خود مختار ملک ہے۔ اور قطر کو یہ اختیار ہے کہہ وہ کس کے ساتھ تعلقات ر کھے اور کس کے ساتھ تعلقات نہیں ر کھے۔ سعودی حکومت کو قطر کی پالیسیوں کو اپنے مفادد میں بنانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ صد ام حسین کا اپنے کسی ہمسایہ کے ساتھ یہ رویہ نہیں تھا۔ سعودی اسرائیل کی گود میں بیٹھے ہیں اور امریکہ ان کی پشت پر کھڑا ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنے ہمسائیوں کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ سعودی عرب نے بحرین میں اپنی فوجیں بھیجی تھیں۔ اور امیر بحرین کی فوجوں کے ساتھ عرب اسپرنگ میں حصہ لینے والوں کی تحریک کو کچل دیا تھا۔ کئی ہزار لوگ اس فوجی آپریشن میں مارے گیے تھے۔ سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا ہے۔ یمن کے خلاف اس جا حا ریت کو چار سال ہو گیے ہیں۔ دس ہزار بے گناہ شہری جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں مارے گیے ہیں۔ اسکولوں اور ہسپتالوں پر بمباری کی گئی ہے۔ جو جنگی جرائم ہیں۔ لیکن کیونکہ  “All Mighty Israel” ان کی پشت پر ہے۔ اس لئے دنیا کی کوئی طاقت ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ہے۔ یمن میں جنگی جرائم ہونے کیی تحقیقات بھی روک دی گئی ہے۔
   اور اب سعودی عرب اور اسرائیل ٹرمپ انتظامیہ کی مدد سے ایران کو بھی عراق اور شام بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس کی ابتدا تہران میں پارلیمنٹ اور آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر دہشت گردوں کے حملوں سے ہو گئی ہے۔ اور اس کا الزام ISIS کو دیا ہے۔ یہ ISIS کس کی ایجاد ہے؟ اسے کس عرب ملک میں منظم کیا گیا ہے؟ کس نے انہیں فوجی نوعیتت کے ہتھیار اور ملٹری ٹرک فراہم کیے ہیں؟ یہ 30 ہزار تربیت یافتہ فوجیوں کا لشکر تھا۔ جس نے موصل اور شام کے ایکک بڑے حصہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور اپنی اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ قطر کویت بحرین عراق ار دن میں ایک بڑی تعداد میں امریکی فوجیں بیٹھی ہیں۔ امریکہ کی ملٹری انٹیلی جینس بھی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے امریکہ کو ISIS کے وجودد میں آنے کے بارے میں علم نہیں تھا۔ اور اب ISIS سے ایران کو عدم استحکام کرنے کا کام لیا جاۓ گا؟ لیکن جن کے یہہ Evil عزائم ہیں انہیں یہ غلط فہمی نہیں ہونا چاہیے کہ ایران عراق لیبیا شام اور یمن نہیں  ہے۔ امریکہ نے جو سبق عراقق لیبیا اور شام سے نہیں سیکھا ہے۔ ایران انہیں ضرور سبق سیکھا دے گا۔ امریکہ نے آخر 50 برس سرد جنگ  میں اپنےے نظریاتی دشمنوں کے ساتھ رہنا سیکھا تھا۔ امریکی حکام ان سے ملتے تھے۔ ان کے ساتھ ڈنر بھی کھاتے تھے۔ اور ڈنر کھانے کے بعد انہیں اپنا نظریاتی دشمن بھی کہتے تھے۔ امریکہ نے اسرائیلیوں اور سعود یوں کو صرف ہتھیار استعمال کرنا سکھایا ہے۔ لیکن دشمنوں کے ساتھ ڈنر کھانا نہیں سکھایا ہے۔
   امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے مڈل ایسٹ کے دورے میں سعود یوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کھڑے ہو کر ایران کے خلاف ان کے موقف میں دھمکی آمیز زبان استعمال کی تھی۔ اور انہیں مڈل ایسٹ میں ایک نئی جنگ شروع کرنے کا پیغام دیا تھا۔ 70 سال سے امریکہ کا ہر صدر مڈل ایسٹ میں یہ کام کر رہا ہے۔ اگر مڈل ایسٹ کے بارے میں 99 فیصد امریکہ کی اپنی پالیسی ہوتی تو عراق میں 9 ہزار امریکی فوجی کبھی نہیں مرتے جن کی عمریں 30 کے درمیان تھیں۔ امریکہ کی  99 فیصد مڈل ایسٹ پالیسی اسرائیل کی ہے۔ اس لئے امریکہ نے ہمیشہ جنگوں کی پالیسی مڈل ایسٹ پر مسلط رکھی ہے۔ اور امن ک ی پالیسی کو مڈل ایسٹ پر کبھی مسلط نہیں کیا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر بھی امریکہ نے مکمل عملدرامد نہیں کیا تھا۔ اسرائیل کو صرف امن دینے کی حد تک اس معاہدہ پر عملدرامد کرایا تھا۔ اس معاہدہ سے مڈل ایسٹ میں جنگوں کے دروازے بند نہیں کیے تھے۔ بلکہ کھلے ر کھے تھے۔
  سعودی حکومت 50 کے عشرہ سے Muslim Brotherhood کی حمایت کر رہی تھی۔ انہیں فنڈ بھی دئیے جاتے   تھے۔ اور یہ سعودی حکومت کی پالیسی تھی۔ کیونکہ عرب دنیا میں سوشلسٹ، سیکولر اور قوم پرستوں کاا فروغ ہو رہا تھا۔ بادشاہوں کے تختہ الٹ رہے تھے۔ مصر میں جمال عبدالناصر بادشاہت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آ گیے تھے۔ شام میں حافظ لا اسد ، عراق میں صد ام حسین اور لیبیا میں کرنل معمر قدافی اقتدار میں آ گیے تھے۔ جبکہ دوسرے عرب ملکوں میں بھی سوشلسٹ قوم پرستی کے رجحانات بڑی تیزی سے پھیل رہے تھے۔ مڈل ایسٹ میں ان تبدیلیوں کو اس وقت سرد جنگ کی نظریاتی سیاست میں دیکھا جاتا تھا۔ لہذا Muslim Brotherhood کوو عرب سوشلسٹ قوم پرست قیادتوں کو Counter کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور یہ مصر شام لیبیا عراقق اور عرب دنیا میں سوشلسٹ قوم پرست حکومتوں کے خلاف ایک منظم مزاحمتی فورس تھی۔ اس وقت امریکہ  نےے Muslim Brotherhood کو دہشت گرد تنظیم نہیں کہا تھا۔ ان کے امریکہ آنے پر کبھی پابندی بھی نہیں تھی۔۔ افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف  جہاد  میں حصہ لینے عرب دنیا سے Muslim Brotherhood  بڑی تعداد میں آۓ تھے۔ سعودی عرب نے افغان جہاد میں ان کی مالی مدد کی تھی۔ ‏‏‏Muslim Brotherhood نےے افغانستان کو اسلامی ریاست بنانے میں طالبان کی مدد کی تھی۔ سعودی عرب اور GCC ملکوں نے طالبان کی قیادت میں افغانستان میں اسلامی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا۔ گزشتہ برسوں میں سعودی عرب کے مقابلے میں Muslim Brotherhood کی سوچ میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے اپنی تنظیم میں سیاسی اصلاحات بھی کیی ہیں۔ یہ تقریباً ہر عرب ملک میں ہیں۔ اور عرب دنیا میں جب بھی جمہوریت آۓ گی اور انتخابات ہوں گے یہ بھاریی اکثریت سے کامیاب ہوں گے اور اقتدار میں آ جائیں گے۔ جیسے یہ مصر میں 60 فیصد ووٹوں سے کامیاب ہوۓ تھے۔ محمد مرسی کی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ مصر کے تعلقات برقرار ر کھے تھے۔ اسرائیلی صدر شمون پرس نے محمد مرسی کو مصر کا پہلا منتخب جمہوری  صدر بننے پر مبارک باد دی تھی۔ اور انہیں اسرائیل کے دورہ کی دعوت دی تھی۔ ‏Muslim Brotherhood اور اسرائیل کے درمیان رابطوں کا دروازہ کھل رہا تھا۔ مڈلل ایسٹ کی سیاست کا یہ نیا نقشہ سعودی عرب کے مفاد میں نہیں تھا۔ لہذا سعودی عرب نے اسرائیل سے سمجھوتہہ کر لیا مصر میں محمد مرسی کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ حالات پھر وہیں آ گیے جہاں پہلے تھے۔ مڈل ایسٹ میں سیاسی عمل ان دو ملکوں کا قیدی بنا ہوا ہے۔ اور امریکہ ان دو ملکوں کے لئے Sharif کا کردار بنا ہوا ہے۔ یہہ ملک اب امریکہ سے مڈل ایسٹ کے ہر ملک سے Muslim Brotherhood کا مکمل خاتمہ کرانا چاہتے ہیں۔ جسس میں حما س اور حزب اللہ بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے لئے مڈل ایسٹ میں 6 Million لوگوں کوو  مارنا ہو گا۔
   امریکہ کو مڈل ایسٹ میں “Made in U.S.A” فیصلے کرنا ہوں گا۔ اور ان ملکوں کی سننے کے بجاۓ اپنے ضمیر سے سوچنا ہو گا۔ مڈل ایسٹ جو پہلے اسرائیل اور اب سعودی سیاسی فیصلوں کا قیدی بنا ہوا ہے۔ اسے انن کی قید سے آزاد کرانا ہو گا۔ Muslim Brotherhood حما س اور حزب اللہ  داعش النصرہ  القا عدہ نہیں ہیں۔۔ Muslim Brotherhood میں بڑی تعداد میں امریکی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں کی یونیورسٹیوں سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ اور ان سے ڈائیلاگ کرنے کاا اب وقت آ گیا ہے۔ انہیں سیاسی عمل کا حصہ بنایا جاۓ۔ جس طرح امریکہ نے IRA کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔۔ اور انہیں دہشت گردی ترک کر کے سیاسی عمل میں آنے پر آمادہ  کیا تھا۔ حالانکہ IRA ان گروپوں سے زیادہہ خوفناک گروپ تھا۔ ایسے لوگوں سے اگر ڈائیلاگ کیے جائیں تو وہ جلد اپنی سوچ تبدیل کر لیتے ہیں اور معقولیتت کے راستہ پر آ جاتے ہیں۔ آج شمالی آئرلینڈ  میں امن ہے۔ اور IRA کے پرانے دہشت گرد ملک کی سیاست میںں نئے سیاستدان ہیں۔ مڈل ایسٹ میں انتہا پسندی ختم کرنے کے ساتھ  سیاسی عمل کے دروازے بھی کھولیں جائیں۔۔ سیاسی ڈائیلاگ کا عمل شروع کیا جاۓ۔                                                                                                                                                               

No comments:

Post a Comment