The Politics of Economic Sanctions Is A Weapon To Destroy The Country’s
Economy
مجیب خان
Economic impact of western sanctions on Iran's economy |
U.S and EU sanctions are punishing ordinary Syrians |
Iranian man selling bananas to make money |
A sick baby in a Baghdad hospital - September 1999 |
دنیا
میں امریکہ شاید واحد ملک ہے جس کی Two-tier خارجہ پالیسی ہے۔ ایک کانگرس کی
خارجہ پالیسی ہے۔ اور دوسری انتظامیہ کی خارجہ پالیسی ہے۔ کانگرس ایک با اثر ادارہ
ہے۔ لہذا اسے انتظامیہ کے خارجہ امور میں فیصلوں کو مسترد کرنے یا غیر موثر کرنے
کا اختیار ہے۔ تاہم پریذیڈنٹ بھی کانگرس کے فیصلہ کو ویٹو کر سکتا ہے۔ خارجہ امور
میں کانگرس کے “Activism” سے
انتظامیہ خارجہ امور میں اہم فیصلے کرنے میں اکثر Impotent ہو جاتی ہے۔ بعض
اوقات انتظامیہ عالمی تعلقات میں اپنے جن فیصلوں کو قومی مفاد میں دیکھتی ہے۔
کانگرس انہیں داخلی سیاست میں یا لابیوں کے مفادات کی سیاست میں اس کے برخلاف
دیکھتی ہے۔ یہ اوبامہ انتظامیہ میں دیکھا گیا تھا۔ اور اب یہ ٹرمپ انتظامیہ میں
بھی دیکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ کانگرس میں ری پبلیکن کی اکثریت ہے۔ لیکن اس کے
باوجود کانگرس خارجہ امور کو جیسے کنٹرول کر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے
کہ صدر ٹرمپ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں حیرت انگیز تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ سیکورٹی
امور میں پھنسی خارجہ پالیسی کو کمرشل مفادات میں ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں۔ ایران
کے ایٹمی پروگرام پر عالمی سمجھوتہ میں اوبامہ انتظامیہ کی شمولیت پر کانگرس کی
مخالفت اور ایران کے خلاف اقتصادی بندشوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ صرف مخصوص
ملکوں کے مفاد کی حمایت میں ہے۔ حالانکہ یہ سمجھوتہ امریکہ کی سیکورٹی کے مفاد میں
تھا۔ امریکہ کے یورپی اور نیٹو اتحادیوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کی
حمایت کی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران پر عائد پابندیاں ختم کر دی
ہیں۔ یورپی یونین نے بھی ایران پر سے بندشیں ختم کر دی ہیں۔ صدر اوبامہ نے ایران
پر سے کچھ ایگزیکٹو پابندیاں ہٹا لی تھیں۔ لیکن کانگرس نے ایران پر نئی اقتصادی بندشیں
لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک ملک کے خلاف مختلف ملکوں کے مفادات کی لابیوں کے
نتیجہ میں کتنی طرف سے بندشیں لگائی جاتی ہیں۔ ایران پر سیکورٹی کونسل کی اقتصادی
بندشیں تھیں۔ پھر پریذیڈنٹ امریکہ کی ایگزیکٹو آ ڈر بندشیں تھیں۔ اس کے بعد کانگرس
کا ایران پر بندشوں کا علیحدہ ایک قانون تھا۔ جبکہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد
امریکی سفارت کاروں کو یرغمالی بنانے کے بعد 1980s میں جو اقتصادی
بندشیں لگائی گئی تھیں وہ بھی ابھی تک لگی ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر کلنٹن
کی انتظامیہ میں صدر محمد خاطمی کے دور حکومت میں ایران کے ساتھ تعلقات استوار
کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ میڈیلین البرائٹ نے ایرانی قوم سے
1953 میں ڈاکٹر محمد مصدق کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں سی آئی اے کے رول پر
معافی مانگی تھی۔ اور سیکرٹیری البرائٹ تہران بھی گئی تھیں۔ لیکن ایران پر 1980s سے
امریکہ کی جو اقتصادی بندشیں لگی ہوئی تھیں انہیں ہٹا کر ایرانیوں کے ساتھ
خیرسگالی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ حالانکہ ایرانیوں پر اقتصادی بندشوں کا ظلم بھی
ایسا ہی تھا کہ جیسے ان پر شاہ کی آمریت مسلط کی گئی تھی۔
سرد
جنگ کو ختم ہوۓ 28 برس ہو گیے ہیں۔ لیکن امریکہ نے سوویت یونین پر اس وقت جو
اقتصادی بندشیں لگائی تھیں وہ ابھی تک لگی ہو ئی ہیں۔ اور ان بندشوں میں اصلاحات روس
پر نئی بندشیں لگا کر کی گئی ہیں۔ 1990s میں
صدر بورس یلسن کی حکومت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ اس وقت روس کے
اندرونی سیاسی اور اقتصادی حالات شدید انتشار میں تھے۔ روس میں انارکی پھیلی ہوئی
تھی۔ لوگوں کے پاس روز گار تھا اور نہ کھانے کے لئے پیسے تھے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں
دینے کے لئے خزانہ میں پیسے نہیں تھے۔ صدر بل کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ لیکن روس
کو ان برے حالات میں دیکھ کر بھی امریکہ نے روس پر سے سرد جنگ دور کی اقتصادی
بندشیں ختم نہیں کی تھیں۔ بلکہ روس کو آئی ایم ایف اور ور لڈ بنک کے قرضوں سے تیسری دنیا کے درجہ
کا ملک بنا دیا تھا۔ لیکن پھر دلچسپ بات یہ تھی کہ روس کو صنعتی ترقی یافتہ ملکوں
کے G-7 کلب
میں شامل کر لیا تھا۔ اور یہ G-8 کلب
بن گیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ روس کو نیٹو ہیڈ کوارٹر میں مستقل Observer کی
نشست دے دی تھی۔ لیکن امریکہ نے سرد جنگ دور کی اپنی اقتصادی بندشیں پھر بھی نہیں
ہٹائی تھیں۔ روس کی قیادت نے بھی ان بندشوں کو ہٹانے پر زیادہ زور نہیں دیا تھا۔
اور امریکہ کو سرد جنگ دور کی سوچوں میں چھوڑ دیا تھا۔ نائن الیون کو دہشت گردوں
کے امریکہ پر حملہ کے بعد صدر پو تن پہلے عالمی رہنما تھے جنہوں نے صدر بش کو فون
کیا تھا۔ اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ اور اس موقعہ پر صدر بش کو روس کے
مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ صدر بش کے ذہن میں عراق تھا۔ صد ام حسین کو اقتدار
سے ہٹانے کی انہوں نے قسم کھائی تھی۔ صدر پو تن کو مڈل ایسٹ میں حکومتیں تبدیل کرنے
کی جنگوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ صدر پو تن کے ذہن میں یورپ میں آئل اور
گیس کی پائپ لائنوں کے جال بچھانے کے منصوبے تھے۔ صدر بش کو عراق کے تیل پر قبضہ
کرنے کا موقعہ مل گیا تھا۔ اور صدر پو تن کو یورپ بھر کو آئل اور گیس کی فراہمی کے
سنہرے موقعہ مل گیے تھے۔
امریکہ مڈل ایسٹ اور افغانستان میں مصروف تھا۔ اور روس یورپ میں آئل اور
گیس کے تجارتی تعلقات فروغ دینے میں مصروف تھا۔ یورپ میں آئل کی مارکیٹ کے ایک بڑے
حصہ پر روس قابض ہو گیا تھا۔ اور اسی طرح گیس کی فراہمی میں بھی روس آگے آ گیا تھا۔ جرمنی میں سوشل
ڈیمو کریٹک پارٹی اقتدار میں تھی۔ اور Gerhard Schroeder چانسلر تھے۔
اور صدر پو تن کے چانسلر Schroeder سے
بہت قریبی اور ذاتی تعلقات تھے۔ صدر پو تن ان سے جرمنی میں بات کرتے تھے۔ دسمبر
2005 میں چانسلر Schroeder سیاست سے رٹائرڈ ہو گیے تھے۔ اور روس جرمن گیس پائپ لائن بورڈ کے چیرمین
ہو گیے تھے۔ سابق چانسلر Gerhard Schroeder روس کی سب سے بڑی قدرتی
گیس کمپنی کے بورڈ کے رکن ہو گیے تھے۔ اور ایک اندازے کے مطابق 2022 تک جرمنی کا
روس کے آئل اور گیس پر انحصار بہت بڑھ جاۓ گا۔ ایڈورڈ سنو ڈن نے سی آئی اے کی جو
خفیہ دستاویز جاری کی تھیں۔ ان میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے آفس اور ان کے فون
ٹیپ کرنے کے بارے میں بھی انکشاف ہوۓ تھے۔ اس کے ساتھ جرمن وزارتوں کے بھی فون ٹیپ
کیے جا رہے تھے۔ یہ اوبامہ انتظامیہ میں امریکہ کے ایک انتہائی قریبی اتحادی کے
ساتھ ہو رہا تھا۔ جرمن حکومت کے خفیہ طور پر فون ٹیپ کرنے اور جاسوسی اور عراق پر Preemptive
حملہ کے در پردہ آئل اور گیس کی پائپ لائنوں کی سیاست پوشیدہ تھی۔ اور روس کے خلاف
اب اقتصادی بندشوں کے ذریعہ یورپ میں پائپ
لائنوں سے آئل اور گیس نکلنے میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
آئل
اور گیس کی صنعت میں زبردست فروغ سے روس کے ریونیو بڑی تیزی سے دو گنے سے تین گنا
ہو گیے تھے۔ روس کی معیشت میں Boom آ رہا تھا۔ یورپ میں جرمنی روس کا
سب سے بڑا ٹریڈ نگ پارٹنر تھا۔ دوسرے
یورپی ملکوں کے ساتھ بھی روس کے تجارتی تعلقات میں فروغ ہو رہا تھا۔ روس اقتصادی
ترقی کے مضبوط ستونوں پر کھڑا ہو رہا تھا۔ جبکہ جنگوں نے امریکہ کے اقتصادی ترقی
کے ستونوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ 2008 میں امریکہ میں بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ
ہو رہے تھے۔ صنعتی اداروں میں تالے پڑ رہے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بیروزگار
ہو رہے تھے۔ امریکہ کو جب اقتصادی حالات خراب ہونے کا احساس ہوا تو روس کے ساتھ
امریکہ کے تعلقات میں تناؤ آنے لگا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ میں یہ تعلقات سرد جنگ
دور سے زیادہ خراب بتاۓ جا رہے تھے۔ روس کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت پر اوبامہ
انتظامیہ نے اقتصادی بندشوں سے بریک لگانا شروع کر دئیے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ روس کے
ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے۔ اور روس کے ساتھ امریکہ کے جو اختلاف ہیں انہیں بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن
امریکی سینٹ نے گزشتہ ہفتہ روس کے اہم معاشی شعبوں اور شخصیتوں پر 2016 کے امریکہ
کی انتخابی مہم میں مداخلت کرنے اور شام اور یوکرین میں روس کی جارحیت پر نئی
بندشیں لگانے کی قرار داد اکثریت سے منظور کی ہے۔ اور کانگرس سے بھی اسے منظور
کرنے کا کہا ہے۔ شام میں روس کی مداخلت کا الزام اصل حقائق کا Distortion ہے۔
دنیا 6 سال سے یہ دیکھ رہی ہے کہ شام کو کس کے ہتھیاروں اور کن کی دولت سے تباہ
کیا جا رہا تھا۔ کس نے کہاں مداخلت کی ہے یہ ایک لمبی بحث ہے۔
Unilateral Economic Sanctions
انسانی حقوق اور فری مارکیٹ اکنامی کی خلاف ورزی ہے۔ بالخصوص سیاسی مقاصد میں ان
کا نفاذ ایک خطرناک ہتھیار کی طرح ہے۔ دنیا نے ان بندشوں کے خوفناک نتائج عراق میں
دیکھے تھے۔ جہاں 5 لاکھ معصوم بچے پیدائش کے بعد چند ہفتوں میں مر جاتے تھے۔ ایک
طرف امریکہ اور یورپ ان کے سیاسی مفاد سے اختلاف کرنے والے ملکوں کے اقتصادی
بندشوں کے ذریعہ اپنے مارکیٹ کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف چین اور
بھارت جنہوں نے اپنے اوپر “Self-Economic
Sanctions” لگائی ہیں۔ اور غیرملکی کمپنیوں
کے لئے اپنی مارکیٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے ۔ ان سے یہ
بندشیں ختم کرنے کا کہا جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment