Friday, June 30, 2017

The Rise of Tribalism In Saudi Arabia’s Defense Policy

The Rise of Tribalism In Saudi Arabia’s Defense Policy  

Do Not Expect Good Results From The Bad Decisions

مجیب خان   
Emir Qatar Sheikh Tamim, President Trump and King Salman

Emir of Qatar and President Vladimir Putin

President Donald Trump and Prince Mohammed

Deputy Crown Prince Mohammed and President Obama
    سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کا قطر کے ساتھ سلوک کچھ ایسا ہے کہ جیسے یہ ان کا renegade صوبہ ہے۔ اس نے اپنی آزاد پالیسیاں اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لیکن قطر ایک خود مختار ملک ہے۔ قطر نے دوسرے خلیجی ملکوں کے مقابلے میں مختلف اور آزاد پالیسیاں اختیار کی ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ چھوٹا ملک دنیا کے نقشہ پر بڑا نظر آ رہا ہے۔ اس کے گیس کے وسیع ذخائر ہیں اور الجزیرہ ٹی وی کی دور دراز ملکوں تک نشریات نے اس کا امیج بنایا ہے۔ مڈل ایسٹ میں سیاسی بیداری پھیلانے میں الجزیرہ ٹی وی کی نشریات کا ایک بڑا اور اہم رول ہے۔ اس خطہ کے لوگ الجزیرہ کی نشریات سے خاصہ متاثر ہیں۔ سعودی عرب اور خلیجی حکومتیں الجزیرہ کی نشریات سے خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے ملکوں میں الجزیرہ پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن یہ چینل عرب عوام میں اتنا زیادہ مقبول تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں مختلف ذریعہ سے اسے دیکھتے تھے۔ عرب عوام میں سیاسی بیداری کی سو نامی عرب اسپرنگ میں دیکھی گئی تھی۔ جس نے اس خطہ میں رائج آمرانہ نظام کو جڑوں سے ہلا دیا تھا۔ فاشسٹ عرب حکم رانوں، fake اسرائیلی ڈیموکریسی اور دوغلی امریکی قدروں نے مل کر عرب اسپرنگ کو سبوتاژ کر دیا تھا۔ عرب عوام کو اس کی قیمت اپنے حکم رانوں کی جیلوں میں موت کی صورت میں دینا پڑی تھی۔ امریکہ نے عرب اسپرنگ سے عرب حکم رانوں کو بچانے کی قیمت کھربوں میں وصول کی تھی۔ اسرائیل کو خوفزدہ عرب حکم رانوں کے ہاتھ تھامنے کے تعلقات قائم کرنے کا سنہرا موقعہ مل گیا تھا۔ عرب عوام دہشت گرد ہیں۔ یا عرب صحراؤں میں camel اور donkey ہیں۔
    قطر کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ملکوں نے 13 نکات قطر کی حکومت کو دئیے ہیں۔ اور قطر کو ان نکات کے جواب دینے کے لئے 10   دن دئیے ہیں۔ ان نکات میں پہلا مطالبہ قطر سے الجزیرہ ٹی وی بند کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اس کے بعد قطر سے ترکی کی فوجوں کو نکالنے کے لئے کہا ہے۔ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے اور Muslim Brotherhood سے رابطہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ قطر سے چار خلیجی ملکوں کے شہریوں کی قطری شہریت منسوخ کرنے اور انہیں قطر سے نکالنے کا کہا ہے۔ جسے یہ خلیجی ملک ان کے داخلی معاملات میں قطر کی مداخلت سمجھتے ہیں۔ قطر سے ان تمام لوگوں کو جو چار خلیجی ملکوں کو دہشت گردی کے الزام میں مطلوب ہیں انہیں فوری طور پر ان کے حوالے کرنے کا کہا گیا ہے۔ اور قطر سے کہا گیا ہے کہ امریکہ نے جنہیں دہشت گرد گروپوں میں شمار کیا ہے ان کی فنڈنگ بند کی جاۓ۔ ان شخصیتوں کے بارے میں تفصیلی فہرست فراہم کی جاۓ جنہیں قطر نے فنڈ دئیے ہیں۔ یہ مطالبے کچھ ایسے ہیں کہ جیسے چور تھانیدار سے مطالبہ کر رہا ہے کہ چوری کا مال کس میں تقسیم کیا ہے ان کے نام بتاۓ جائیں۔ حالانکہ جنہیں سعودی حکومت نے فنڈ دینا بند کر دئیے تھے۔ پھر قطر نے انہیں فنڈ فراہم کرنا شروع کر دئیے تھے۔ اس لئے سعودی حکومت بھی ان ناموں سے ضرور واقف ہو گی۔ سعودی عرب، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات نہ صرف شام کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردوں کی فنڈنگ بھی کر رہے ہیں۔ اور اب ایک دوسرے کو دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے کے الزام بھی دے رہے ہیں۔
    اکیسویں صدی میں اظہار نشریات پر تالے ڈالنے کا مطالبہ انتہائی نا معقول ہے۔ سعودی عرب کے مغربی اتحادی بھی یہ مطالبہ تسلیم کرنے کے لئے قطر پر دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ کیونکہ یہ ان کی جمہوری اور آزادی کی قدروں کے خلاف ہو گا۔ بلکہ یہ ملک سعودی عرب کو الجزیرہ ٹی وی کے مقابلے پر اپنا ٹی وی چینل شروع کرنے کا مشورہ دیں گے۔ سعودی عرب نے قطر سے ترکی کی فوجوں کو نکالنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ملکوں نے قطر سے امریکہ برطانیہ اور فرانس کی فوجیں نکالنے کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ لیکن ایک اسلامی ملک ترکی کی فوجیں قطر سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سعودی عرب نے 40 اسلامی ملکوں کی فوج  بنائی ہے۔ اس کا  ہیڈ کوارٹر سعودی عرب میں ہے۔ اب اگر قطر سے امریکہ برطانیہ اور فرانس کی فوجیں نکالنے اور ان کی جگہ 40 اسلامی ملکوں کی فوج یہاں تعین کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تو شاید 40 اسلامی ملک بھی اس کی حمایت کرتے۔ سعودی عرب نے امریکہ سے 400بلین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے جو معاہدے کیے وہ کس مقصد کے لئے ہیں۔
    با ظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ سعودی حکومت میں فیصلے کرنے میں ذہنی استحکام نہیں ہے۔ شاہ سلمان فیصلے کرتے ہیں اور انہیں بدل دیتے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ صدر اوبامہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ تھا۔ اور صدر ٹرمپ کے ساتھ  سعودی عرب کے اچھے تعلقات ہیں۔ حالانکہ صدر اوبامہ کے ساتھ بھی سعودی عرب کے تعلقات اتنے ہی اچھے تھے۔ مرحوم شاہ عبداللہ نے صدر اوبامہ کی بھی بڑی خاطر تواضع  کی تھی۔ انہیں بھی سعودی اعزاز سے نوازا تھا۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ میں صدر اوبامہ شاہ سلمان کے ساتھ کھڑے تھے۔ لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ صدر اوبامہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ سعودی عرب ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ اور یہ بہت قدامت پسند معاشرہ ہے۔ سعودی عرب کی دفاعی اور خارجہ پالیسی میں اس کی قبائلی ذہنیت بہت واضح نظر آتی ہے۔ قطر کے ساتھ سعودی عرب کی محاذ رائی قبائلی نوعیت کی ہے۔ یمن کے ساتھ جنگ میں سعودی عرب نے چار سال میں تقریباً 500 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اور 500 ملین ڈالر خرچ کر کے سعودی عرب نے یمن میں صرف بیماریاں پھیلائی ہیں۔ جن میں Cholera بھی شامل ہے۔ اور اب اس بیماری کے علاج کے لئے سعودی حکومت نے 66 ملین ڈالر یمن کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ احمقانہ قبائلی مہم جوئیاں ہیں۔ جن سے ناکامیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔
    سعودی حکومت کا یہ فیصلہ کیسا تھا کہ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کا اقتدار قبول کرنے کے بعد شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے جنگ شروع کر دی تھی۔ اور یہ جنگ بھی اسلامی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ لڑی جا رہی تھی۔ سعودی عرب الجزیرہ ٹی وی کو بند کرانا چاہتا ہے لیکن اس کی نشریات کے ذریعہ شام کے لوگوں کو آزادی دلانے کی حمایت کی جا رہی تھی۔ دنیا میں جنگیں امریکہ کا ایک کاروبار ہے۔ جنگوں سے امریکہ کی معیشت اچھی ہو جاتی ہے۔ لہذا امریکہ نے خلیج کے ڈکٹیٹروں کے ساتھ اتحاد بنا کر شام کے ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کی جنگ شروع کر دی۔ 7 سال ہو گیے ہیں لیکن ابھی تک یہ کچھ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ البتہ شام انہوں نے تباہ کر دیا ہے۔ خاندان برباد کر دئیے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کے گھر اجڑ گیے ہیں۔ بچوں کا مستقبل انہوں نے تاریک بنا دیا ہے۔ دو ملین لوگ مارے گیے ہیں۔ تین ملین لوگ بے گھر ہو گیے ہیں۔ خطہ میں نفرتیں، دشمنیاں اور تقسیم بڑھ گئی ہے۔ سعودی عرب کے واچ میں مسلمانوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے۔ نسلیں اس تاریخ کو ہمیشہ یاد ر کھے گی۔
    تاریخ کے اس اہم موڑ پر سعودی عرب میں قیادت اب عبدالعزیز السعود کی تیسری نسل کو منتقل ہونے جا رہی ہے۔ شاہ سلمان نے ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد سے برطرف کر دیا اور اپنے 31 سالہ بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کیا ہے۔ شاہ سلمان نے اپنے دوسرے بیٹے  خالد بن سلمان کو جو 20s کی عمر میں ہے واشنگٹن میں سعودی عرب کا سفیر نامزد کیا ہے۔ جبکہ وزیر داخلہ شاہ نے اپنے 33 سالہ بھانجے عبدالعزیز بن سعود بن نائف کو بنایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو فون کر کے ولی عہد بننے کی مبارک باد دی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد Hawkish  ہیں۔ وزیر دفاع  بننے کے بعد شہزادہ محمد نے یمن کے خلاف جنگ کی ابتدا کی تھی۔  گزشتہ ماہ ولی عہد شہزادہ محمد نے ایران کو دھمکی دی تھی کہ وہ جنگ ایران کی سرزمین پر لے جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ ولی عہد شہزادہ محمد کے ان خیالات سے بہت متاثر ہوۓ ہوں گے۔ سعودی عرب نے ایک نئی محاذ رائی قطر کے ساتھ شروع کر دی ہے۔ سعودی حکومت خود اپنے فیصلوں سے مسائل کے بھنور میں گھرتی جا رہی ہے۔ عبدالعزیز السعود کی پہلی اور تیسری نسل نے تقریباً  70 سال سعودی عرب پر حکمرانی کی ہے۔ اور اب السعود خاندان کی تیسری نسل کے لئے آزمائش کا کٹھن وقت آ گیا ہے۔ Kingdom کی بقا اب اس نسل کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس نسل نے سعودی عرب کو اسی راستہ پر رکھا تو Kingdom کا مستقبل سوالیہ رہے گا۔ آئندہ پانچ دس سال میں Kingdom کو آئینی اور پارلیمانی بنانے کے لئے آوازیں اٹھیں گی۔ جیسے برطانیہ جاپان اور یورپ میں آئینی بادشاہتیں ہیں۔ حکومت کا نظام عوام چلاتے ہیں۔ اور یہ بہت کامیاب تجربہ ہے۔ مڈل ایسٹ میں حکومتیں تبدیل کرنے سے سیاسی حالات نہیں بدلے ہیں۔ لیکن اس خطہ کے سیاسی نظام کو بدلنے سے سیاسی حالات میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 31 سال کے ہیں اور وہ 50 سال تک سعودی عرب کے شاہ ہوں گے۔  
Deputy Crown Prince Mohammed Bin Salman


King Salman
                

No comments:

Post a Comment