Coup d’état Against
Prime Minister Nawaz Sharif Brought By Sons And Daughter
مجیب خان
اس
مرتبہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے خلاف خود Coup d’état لا
رہے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی اندرونی سازش ہے اور نہ بیرونی سازش ہے۔ بلکہ میاں نواز
شریف نے اپنے خاندان کے ساتھ مل کر خود اپنے خلاف سازش کی ہے۔ خدا کا شکر ہے اس
میں فوج کا کوئی رول نہیں ہے۔ صرف میاں
نواز شریف کا اپنا رول ہے۔ خدا نے دو سال قبل انتخاب میں دھاندلیاں ہونے کے خلاف
دھرنے سے میاں نواز شریف کو شاید یہ دن دکھانے کے لئے بچا لیا تھا۔ اسلام آباد میں
ایک ماہ تک جنہوں نے دھرنا دیا تھا۔ اور انہیں پھر خالی ہاتھ دھرنا چھوڑ کر جانا
پڑا تھا۔ خدا نے ان کے ہاتھوں میں پا نا مہ پیپر جیسے تحفہ دے دیا ہے۔ جن میں
انتخابی دھاندلیوں سے زیادہ بڑی بدعنوانیاں ہیں۔ منی لانڈرنگ کی تفصیل ہے۔ کاروبار
میں اعداد و شمار خرد برد کرنے کا طریقہ ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پا نا مہ
پیپرز بھی اسی طرح مسترد کر دئیے تھے کہ جس طرح JIT کی رپورٹ مسترد کر
دی ہے۔ لیکن پھر پا نا مہ پیپرز میں میاں نواز شریف خاندان کے کرپشن منی، لانڈرنگ،
کاروبار خریدنے اور فروخت میں لاکھوں ڈالروں کی ہیرا پھیری کی صفائی میں بیان دینے
وزیر اعظم نواز شریف قومی اسمبلی میں آۓ تھے۔ اور پا نا مہ پیپرز میں انکشاف کی
وضاحت کی تھی۔ اراکین قومی اسمبلی کو انہوں نے بتایا کہ لندن میں پراپرٹی کیسے خریدی
گئی تھیں۔ انہیں خریدنے کے لئے دولت کہاں سے آئی تھی۔ نئی کمپنیاں کیسے خریدی گئی
تھیں اور کیسے فروخت کی تھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر وزیر اعظم نے بڑے اعتماد سے
پرزور اور جذباتی لہجے میں کہا تھا کہ وہ
ان تمام الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور کمیشن کا
جو فیصلہ ہو گا اسے قبول کریں گے۔ سیاست اور کاروبار میں اگر پہلا فیصلہ درست ہو
گا تو پھر بعد کے فیصلے بھی درست ہوتے جائیں گے۔ میاں نواز شریف نے کاروبار میں شاید
پہلا فیصلہ درست کیا ہے اس لئے کاروبار چمک رہے ہیں۔ لیکن سیاست میں پہلا فیصلہ
کیونکہ جنرل ضیا الحق کے ساتھ کیا تھا۔ اس لئے میاں نواز شریف کا ہر سیاسی فیصلہ
غلط ہو رہا ہے۔ اور ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے۔
JIT کی
8 ہزار صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ کو garbage کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تلخ حقائق
قبول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ حالانکہ JIT کی رپورٹ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں
کے کمیشن کی رپورٹ کا continuation ہے۔
یہ رپورٹ اپریل میں کئی ماہ کی تحقیقات کے بعد آئی تھی۔ جس میں سپریم کورٹ کے دو ججوں
نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ ان ججوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار
دیا تھا۔ اور اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ " نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے کے
قابل نہیں ہیں۔" جبکہ تین ججوں نے ان دو ججوں کے فیصلے سے اختلاف نہیں کیا
تھا۔ ان ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا " وزیر اعظم نے جو ثبوت فراہم کیے
ہیں وہ ناکا فی ہیں۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے بیانات میں سنجیدہ تضاد ات پاۓ
جاتے ہیں۔ لندن کی 4 جائیدادوں سے متعلق بیان میں تضاد بے ایمانی ظاہر کرتی ہے۔
لندن میں جائیدادیں حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بتایا ہے۔" فیصلہ میں لکھا ہے کہ
" یہ نہیں بتایا ہے کہ جدہ فیکٹری فروخت کر کے بیٹوں نے کاروبار شروع کیا،
لندن کی جائیداد خریدیں، قطر میں کسی سرمایہ کاری کا اشارہ یا جائیداد کے تبادلے
کا بھی نہیں بتایا ہے۔ دونوں بیٹوں کے کاروبار کے لئے جدہ فیکٹری کی فروخت کو فنڈز
کا ذریعہ بتایا ہے۔ لندن کے فیلٹس سے متعلق وزیر اعظم کا بیان ان کے بچوں کے بیان
سے متضاد ہے۔" سپریم کورٹ کے ان تین ججوں نے پا نا مہ کیس سے متعلق معاملے کی
مزید تحقیقات کے لئے کہا تھا۔ ان ججوں نے وزیر اعظم کو ایک موقعہ اور دیتے ہوۓ 12
سوالوں کے جواب مانگے تھے۔ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل
دینے کے لئے کہا تھا۔ چیف جسٹس نے ان پانچ ججوں کی سفارش پر JIT تشکیل دیا تھا۔
اور 60 دن میں اپنی تحقیقات مکمل کر کے اس کی رپورٹ سپریم کورٹ کو دینے کا کہا
تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق JIT نے 60 دن میں اپنی تحقیقات مکمل
کرنے کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے حوالے کر دی ہے۔
JIT کی رپورٹ
کا لب لباب بھی سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل کمیشن کی رپورٹ اور فیصلے سے
مطابقت رکھتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے اور خاندان کے اوپر کرپشن اور منی
لانڈرنگ کے الزامات میں صفائی پیش کرنے اور ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گیے ہیں۔
بلکہ کچھ نئے انکشاف بھی سامنے آۓ ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف دوبئی میں اپنے بیٹے
کی کمپنی کے pay roll پر
تھے۔ اور 10 ہزار ریال ماہانہ وصول کرتے تھے۔ اور اس بارے میں وزیر اعظم نے کسی کو
نہیں بتایا تھا۔ اپنی اس آمدنی کو وزارت خزانہ اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے چھپایا
تھا۔ وزیر اعظم پاکستان میں عوام کے payroll پر تھے اور دوبئی میں بیٹے کی
کمپنی کے payroll پر
تھے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں جہاں اخلاقی اور قانونی قدروں کا بلند معیار ہوتا ہے۔
یہ انکشاف ہونے پر وزیر اعظم کو استعفا دینا پڑتا۔
سپریم
کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل کمیشن اور JIT کی رپورٹیں اب سپریم کورٹ کے
سامنے ہیں۔ اس کیس میں ایک صاف ستھرے جمہوری عمل کے لئے سپریم کورٹ کے کردار کا
تعین ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ برسراقتدار وزیر اعظم اور ان کا خاندان
کرپشن، منی لانڈرنگ اور کاروبار کے بارے میں نمبروں کا فراڈ کرنے میں ملوث ہونے کا
کیس سپریم کورٹ میں آیا ہے۔ اس کیس میں پانچ جج پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔ اس
کیس میں سپریم کورٹ کے دوسرے جج اپنے ساتھی ججوں کے فیصلے کو نظر انداز یا
مسترد نہیں کریں گے۔ یہ سپریم کورٹ ایک
اعلی ادارہ کی ساکھ کا سوال ہے۔ ملک کو صاف ستھرا معاشرہ اب فوج نہیں قانون کی
بالا دستی قائم کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بن گئی ہے۔
جمہوریت کسی سیاسی خاندان کی ہوتی ہے۔ اور نہ ہی سیاسی خاندان جمہوری ادارے
ہوتے ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں جو جمہوری عمل میں سیاسی اداروں کا درجہ
رکھتی ہیں۔ سیاسی خاندان سے وابستہ شخصیتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن پارٹی کا
وجود رہتا ہے۔ پا نا مہ کیس کا مسلم لیگ ن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ان کے خاندان
کی کرپشن کا ذاتی کیس ہے۔ جس میں حقائق کو جھوٹ سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی
ہے۔ لیکن یہ Google کی
دنیا ہے۔ جس میں جھوٹ حقائق پر غالب نہیں آ سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے اراکین کو خوش
آمدانہ مشورے دینے کے بجاۓ حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ اور قانون جمہوریت کے تقاضے
پورے کرنا چاہیے۔ یہ سیاسی شخصیتوں کا کرپشن ہے جس نے جمہوریت کو ہمیشہ نقصان
پہنچا یا ہے اور فوج بعد میں آئی ہے۔ لیکن فوج کو جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا ذمہ
دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ شاید اس مرتبہ فوج یہ الزام لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور
ملک کے اعلی ترین قانون کی حکمرانی کے ادارے کو جمہوریت سے کرپشن ختم کرنے کی ذمہ
داری دی گئی ہے۔
ٹونی بلیر برطانوی عوام کے انتہائی مقبول وزیر اعظم
تھے۔ عوام نے انہیں تین مرتبہ منتخب کیا تھا۔ لیکن عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے
میں وزیر اعظم ٹونی بلیر نے صدر بش کے ساتھ مل کر جھوٹ بولا تھا۔ اور برطانیہ کو
عراق کے خلاف جنگ میں لے گیے تھے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر نے پارلیمنٹ کو گمراہ کیا
تھا۔ برطانوی عوام سے غلط بیانی کی تھی۔ لیکن پھر عراق پر حملہ کے بعد جو حقائق
سامنے آۓ تھے۔ اس میں صدر بش اور ٹونی بلیر کا جھوٹا پراپگنڈہ دنیا کے سامنے آ گیا
تھا۔ عراق میں مہلک ہتھیار نام کے ہتھیار کہیں نہیں تھے۔ لیبر پارٹی نے وزیر اعظم
بلیر سے پارلیمنٹ میں ان کی عراق پالیسی پر سخت سوال کرنا شروع کر دئیے تھے۔ عراق
پر حملے کو غیر قانونی کہا جا رہا تھا۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں وزیر
اعظم بلیر کے رول کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کرنے کے مطالبے ہونے لگے تھے۔
برطانیہ میں نئے انتخاب بھی قریب آ رہے تھے۔ وزیر اعظم بلیر تیسری مرتبہ امیدوار
تھے۔ تاہم لیبر پارٹی نے انتخاب جیتنے کے لئے ٹونی بلیر کی مخالفت نہیں کی تھی۔
اور عوام میں ان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھا تے ہوۓ لیبر پارٹی نے تیسری مرتبہ بھاری
اکثریت سے یہ انتخاب جیت لیا تھا۔ ٹونی بلیر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گیے تھے۔
لیکن عراق جنگ کے سیاہ بادل ان کی حکومت پر چھاۓ ہوۓ تھے۔ لیبر پارٹی کے اراکین
وزیر اعظم بلیر سے استعفا دینے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ وزیر اعظم بلیر اپنی معیاد
پوری کرنا چاہتے تھے۔ لیکن لیبر پارٹی کے مسلسل دباؤ کے نتیجے میں انہیں استعفا
دینا پڑا اور حکومت گورڈن براؤن کے حوالے کر دی۔ حالانکہ وزیر اعظم بلیر کے ابھی
تین سال باقی تھے۔ اس مسئلہ پر پارٹی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ ٹونی بلیر گروپ نہیں
بنا تھا۔ یہ جمہوریت ہے۔ جس میں پارٹی
اپنے رہنما کا احتساب کرتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں جمہوری اداروں کا درجہ رکھتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment