Monday, July 3, 2017

Modi’s First Meeting With President Trump, And First Visit To Israel

Modi’s First Meeting With President Trump, And First Visit To Israel 

مجیب خان
Prime Minister Narendra Modi and President Donald Trump



President Trump love Tweeting and Prime Minister Modi Love Hugging

President Obama and Prime minister Modi


  
      جنوری میں صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ نے جب وزیر اعظم نریندر مودی کو فون کیا تھا۔ تو اس کے بعد وائٹ ہاؤس کے اعلامیہ میں یہ کہا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ اس سال کے آخر میں وزیر اعظم مودی سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔ تاہم اس وقت دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن اب اچانک یہ خبر آئی کہ وزیر اعظم مودی 26 جون کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ وزیر اعظم مودی 25 جون کو واشنگٹن پہنچے تھے۔ 26 جون کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے تقریباً 20 منٹ وزیر اعظم مودی سے تنہائی میں ملاقات کی اور پھر دونوں رہنماؤں نے اپنے معاونین کے ساتھ ایک گھنٹہ چالیس منٹ ملاقات کی تھی۔ اسی روز شام کو صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کو ڈنر دیا تھا۔ اور 27 جون کی صبح وزیر اعظم مودی نیدرلینڈ چلے گیے۔
     صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کے درمیان یہ ملاقات انتہائی short notice پر ہوئی تھی۔ لہذا اس ملاقات کے لئے پہلے سے کوئی ایجنڈا تیار نہیں کیا گیا تھا۔ اس لئے جن موضوع پر بیان سامنے آۓ ہیں وہ recycles تھے۔ جو صدر اوبامہ اور وزیر اعظم مودی کے درمیان ملاقاتوں میں سامنے آ چکے ہیں۔ اور اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وزیر اعظم مودی نے حسب عادت پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈوں کی بات کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے کہا پاکستان کو دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں زیادہ کوششیں کرنا چاہیں۔ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ صدر اوبامہ نے پاکستان میں مقیم کشمیری رہنما حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔ اور اس پر بندشیں لگا دی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کی درخواست پر ایک دوسرے کشمیری رہنما سید صلاح الد ین کو عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اور اس پر بھی امریکہ کی بندشیں لگ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں دہشت گردی کا موضوع بھی زیر غور آیا تھا۔ پاکستان پر طالبان کی حمایت کرنے کا وہ ہی گھسا پٹا الزام جس میں بھارت اور امریکہ ابھی تک اٹکے ہوئیے ہیں۔ ان الزام بازیوں سے نکل ہی نہیں رہے ہیں۔ بھارت کے پاس افغان صورت حال کا کوئی حل ہے اور نہ امریکہ کے پاس اس کے حل کی کوئی نئی تجویز ہے۔ یہ سلسلہ صدر جارج بش کے دور سے جاری ہے۔ اس وقت وزیر اعظم اٹل بہاری با جپائی بھی پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈوں کی باتیں کرتے تھے۔ اور کراس با ڈر دہشت گردی کے الزام پاکستان کو دیتے تھے۔ پھر وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بھی پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈوں ہونے کے الزام دینے کی بھارتی پالیسی جاری رکھی تھی۔ اور اس بھارتی موقف پر صدر اوبامہ کے وائٹ ہاؤس سے بھی بیان دلواۓ جاتے تھے۔ اور وزیر اعظم مودی نے بھی اسی بھارتی پالیسی کو جاری رکھا ہے۔ "کچھ مت کرو دہشت گردی کے الزام صرف پاکستان کو دیتے رہو" دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھرتی فوج کی دہشت گردی کا سبب بھی پاکستان کو سمجھے گی۔
     سولہ سال میں دنیا میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ دنیا اب حقائق دیکھ رہی ہے۔ Nonsense الزام تراشیوں کو سن کر دنیا اب تھک گئی ہے۔ وزیر  اعظم مودی نے بھی اپنے حالیہ بیرونی دوروں میں اسے محسوس کیا ہو گا۔ اس لئے اس مرتبہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ مودی ملاقات میں پاکستان Headline news نہیں تھا۔ دہشت گردی مختصر موضوع تھا۔ اہم Topic ٹریڈ تھا۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی سے امریکی کمپنیوں کے لئے بھارت کی مارکیٹ کھولنے پر زور دیا ہے۔ امریکہ کو بھارت کے ساتھ تجارت میں زبردست خسارے کا سامنا ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے HI Visa کے بارے میں پہلے امریکی ور کر کو نوکری دینے کی پالیسی اختیار کرنے کا کہا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ میں کانگرس نے ہر سال ایک لاکھ HI Visa غیر ملکی ور کروں کو جاری کرنے کا قانون منظور کیا تھا۔ اور اس قانون کے تحت امریکی کمپنیاں سو فٹ ویر، کمپیوٹر ٹیکنالوجی، انجنیئر وغیرہ میں بھارت سے ور کروں کو Hire کرتی تھیں۔ اور انہیں پھر HI Visa پر امریکہ لایا جاتا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اب امریکی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ صرف امریکی ور کروں کو Hire کریں۔ انہیں تربیت دیں اور انہیں تمام مراعات کے ساتھ اچھی تنخواہیں دیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی سے مودی حکومت خوش نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی نے پہلے بھی ذاتی طور پر صدر ٹرمپ سے بھارتی ور کروں کے لئے HI Visa میں سہولت دینے کی درخواست کی ہے۔ بھارتی سو فٹ ویر کمپنیوں کو ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی کی وجہ سے خاصا نقصان ہو رہا ہے۔  وزیر اعظم مودی کے اس دورے میں HI Visa کے مسئلہ پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ بھارت میں HI Visa پروگرام کو abuse کیا گیا تھا۔ اور فراڈ بھی ہوا تھا۔ امریکی ایف بی آئی نے ایسے کئی کیس پکڑے تھے۔ ان کی تحقیقات ہوئی تھی۔ اور امریکہ میں کئی بھارتی کمپنیوں کو بھاری جرمانے ہوۓ تھے۔ اس لئے وزیر اعظم مودی نے اس مسئلہ پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا ہو گا۔
    بہرحال اہم سوال یہ ہے کہ اچانک اتنے short notice پر وزیر اعظم مودی کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت کیوں دی گئی تھی۔ سفارتی پروٹ کول  کے مطابق اعلی سطح پر اتنی اہم ملاقات کے لئے تیاری کی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے سفارت کار ملاقات کے لئے اہم ایشو تیار کرتے ہیں۔ اس کی تیاری میں خاصا وقت لگتا ہے۔ اب اس ہفتہ وزیر اعظم مودی اسرائیل کا دورہ کریں گے۔ اس دورہ کا اعلان مارچ میں ہوا تھا۔ پھر اپریل میں یہ خبر آئی تھی کہ اسرائیل 2بلین ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی بھارت کو فروخت کرے گا۔ وزیر اعظم مودی کے دورہ کے دوران میزائلوں کی فروخت اور پروڈکشن، ڈر ون اور ریڈار سسٹم بھارت میں بنانے کے لئے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم مودی کے دورے میں اسرائیل کے ساتھ پانی، زراعت، space ٹیکنالوجی کی فراہمی پر بھی معاہدے ہوں گے۔ بھارت کے ساتھ ان دفاعی معاہدوں کے ذریعہ اسرائیل اب بھارت کو جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے ملکوں میں اوپر آ رہا ہے۔ ادھر صدر ٹرمپ امریکہ کی ڈیفنس انڈسٹری کے لئے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فروخت کی مہم پر ہیں۔ صدر ٹرمپ نے تقریباً 400بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا دس سال کا معاہدہ سعودی عرب سے کیا ہے۔ جبکہ بحرین، کویت، قطر کو بھی کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے جائیں گے۔ تائیوان کو 1.4بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے جائیں گے۔ جنوبی کوریا کو بھی کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے جائیں گے۔ لہذا وزیر اعظم مودی کے دورہ اسرائیل سے قبل انہیں وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اور بھارت اسرائیل سے جو ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کرنے جا رہا تھا۔ صدر ٹرمپ نے وہ ہتھیار وزیر اعظم مودی کو اس دورے میں America First کی پالیسی کے تحت فروخت کرنے کا سمجھوتہ کیا ہے۔ جس میں 20 ڈرون بھی شامل ہیں۔ ان سمجھوتوں کے بعد صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم مودی کے ساتھ  پریس سے کہا

  “Thank you very much for ordering equipment from the United States. Always makes us feel very good, there’s nobody makes military equipment like we make military equipment.” 

No comments:

Post a Comment