Saturday, July 8, 2017

North Korea Is Surrounded By Hostile Powers

North Korea Is Surrounded By Hostile Powers, Which Want Regime Change And To Destroy The Peace of The Country As They Have Done In Other Parts of The World; The Missile Launching Is Self-Confidence Building To Defend The Country  

China Is Helping And Cooperating To Solve The North Korean Problem, But Behind China’s Back, America Is Selling $1.4 Billion US Dollars Worth of Weapons To Taiwan, And A Military Build Up In The South China Sea

مجیب خان
   
President Donald Trump, Japan's Prime Minister Shinzo Abe and President Moon Jae-in of South Korea

North Korea new Missile test 

North Korean Leader Kim Jong Un looking on a New missile launch 

President Xi Jinping and President Vladimir Putin
    نائن الیون کے بعد مسلسل جنگوں سے دنیا جس طرح خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس صورت حال سے لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی کوریا میں کم ال سنگ نے جو کم جونگ ان کے grandfather تھے۔ میزائلوں کے صرف 15 تجربے کیے تھے۔ اور یہ 60s اور 70s کا دور تھا۔ پھر کم ال سنگ کے صاحبزادے اور کم جونگ ان کے ڈیڈی کم جونگ ال نے 18 میزائلوں کے تجربے کیے تھے۔ اور یہ 80s اور 90s کا دور تھا۔ grandson کم جونگ ان کی دنیا اتنی زیادہ خطرناک ہو گئی ہے کہ اسے صرف اپنے بقا کے لئے 83 میزائلوں کے تجربے کرنا پڑے ہیں۔ کم جونگ ان کی دنیا کے مقابلے میں اس کے grandfather کی دنیا پھر بھی بہتر تھی۔ غریب اور کمزور ملکوں کو اس طرح Bully نہیں کیا جاتا تھا۔ بڑی سے بڑی طاقت کو چھوٹے اور کمزور ملکوں کو rape کرنے اور ان کی آزادی کو جو ان کی آبرو تھی اس طرح لوٹنے کا اختیار نہیں تھا جس طرح عراق لیبیا شام یمن صومالیہ اور دوسرے ملکوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس صورت حال میں بلاشبہ ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ اس لئے کم جونگ ان میزائلوں کے تجربے کرنے سے نہیں رک رہے ہیں۔ اور اس مرتبہ ICBM میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ اور جس دن کم جونگ ان کو یہ یقین ہو جاۓ گا کہ امریکہ کے حملہ کی صورت میں وہ اپنے ملک کا دفاع کرنے کے قابل ہو گیے ہیں۔ اور میزائلوں کے ذریعہ انہوں نے اسٹریٹجک توازن قائم کر لیا ہے۔ اس دن شاید وہ میزائلوں کے تجربے کرنا بند کر دیں۔  کم جونگ ان کے ڈیڈی کو صدر بش نے “axis of evil” کہا تھا۔ عراق ایران اور شمالی کوریا صدر بش کی axis of evil فہرست میں تھے۔ اور ان ملکوں کی حکومتیں تبدیل کرنے کا منصوبہ تھا۔ صدر بش صد ام حسین کے اس لئے بھی دشمن تھے کہ "صد ام حسین میرے ڈیڈی کو قتل کرانا چاہتے تھے۔" اور کم جونگ ان کو امریکہ سے اس لئے دشمنی ہے کہ امریکہ نے میرے ڈیڈی کو evil کہا تھا۔ اور صد ام حسین کے بعد میرے ڈیڈی کا نمبر تھا۔ امریکہ اب میرے پیچھے آ گیا ہے۔ اور امریکہ میں اب مجھے evil انسان کہا جا رہا ہے۔ اس بیک گراؤنڈ کی تہہ میں شمالی کوریا کے مسئلہ کا حل دیکھنے کے بجاۓ صدر ٹرمپ چین اور روس سے کہہ رہے ہیں کہ وہ شمالی کوریا کا بحران حل کرنے میں امریکہ سے تعاون کریں۔ حالانکہ شمالی کوریا کا بحران خود امریکہ نے اپنے لئے پیدا کیا ہے۔ لہذا امریکہ کو اس بحران کو حل کرنے میں چین اور روس سے تعاون کرنا چاہیے۔
    کم جونگ ان نے دسمبر 2011 میں شمالی کوریا کی قیادت سنبھالی تھی۔  شمالی کوریا کی یہ انتہائی کم عمر قیادت تھی۔ صدر بش کے عراق پر حملہ کے نتائج  کم جونگ ان دیکھ رہے تھے۔ امریکی فوج کی موجودگی میں صد ام حسین کو جس طرح پھانسی دلائی گئی تھی۔ اسے بھی کم جونگ ان نے دیکھا تھا۔ اس کے بعد لیبیا میں قدافی حکومت کے خلاف امریکہ اور نیٹو فوج کی کاروائی بھی کم جونگ ان نے دیکھی تھی۔ اور پھر صدر قدافی کو طرا بلس کی سٹرک پر جس طرح قتل کیا گیا تھا۔ کم جونگ ان نے اسے بھی دیکھا تھا۔ پھر 6 سال سے شام کی جنگ کے ہولناک مناظر بھی تھے۔ کہ کس طرح امریکہ ایک جمہوری قدروں کے ملک نے عرب ڈکٹیٹر اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت ملک کو کھنڈرات بنا دیا تھا۔ اور لاکھوں بے گناہ شہریوں کی زندگیوں کو تہس نہس کر دیا تھا۔ کم جونگ ان کی نگاہوں کے سامنے شام کی جنگ میں کوریا کی جنگ کے مناظر نظر آ رہے تھے۔ جنگ نے کوریا کو بھی اسی طرح کھنڈرات بنا دیا تھا۔ تین چار لاکھ لوگ کوریا کی جنگ میں مارے گیے تھے۔ 26 سالہ کم جونگ ان نے جنگوں میں انسانی تباہیوں کو دیکھ کر یہ تاثر لیا تھا کہ امریکہ ایک انتہائی خطرناک فوجی طاقت ہے۔ اور اسے یہ بھی بتایا جا رہا تھا کہ شمالی کوریا کے خلاف فوجی کاروائی بھی امریکہ کی ٹیبل پر ہے۔ کم جونگ ان نے 2011 سے 2017 کے درمیان 83 میزائلوں کے تجربے کیے ہیں۔
    شمالی کوریا کے لئے امریکہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ جو اسے تباہ کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ امریکہ اپنے ساتھ جاپان کو بھی ہتھیاروں سے مسلح کر کے شمالی کوریا پر حملہ کے لئے تیار کر رہا ہے۔ جاپان نے کوریا کو اپنی کالونی بنایا تھا۔ اور کوریا ئی عوام کے ساتھ غلاموں سے بدتر سلوک کیا تھا۔ شمالی کوریا کے خدشات myth نہیں ہیں۔ امریکہ کو اپنے آپ کو شمالی کوریا کی جگہ رکھ کر دیکھنا چاہیے کہ وہ ان حالات میں کیا کرتا؟ امریکہ نے شمالی کوریا کے مسئلہ کو بری طرح mishandle کیا ہے۔ حالانکہ شمالی کوریا میں ایک بہت کم عمر قیادت آئی تھی۔ اسے neutral کیا جا سکتا تھا۔ اس کے ذہن سے امریکہ کا خوف نکالا جاتا اور اسے یہ یقین دلایا جاتا کہ امریکہ شمالی کوریا کے استحکام اور سلامتی کو اسی قدر اہمیت دیتا ہے کہ جتنی اہمیت جنوبی کوریا کے استحکام کو دیتا ہے۔ شمالی کوریا کی نئی قیادت میں امریکہ کے بارے میں اعتماد پیدا کیا جاتا۔ اور پھر رفتہ رفتہ شمالی کوریا کو نیو کلیر اور میزائلوں کے تجربے کرنے کی سیاست سے نکالنے کی کوشش کی جاتی۔ لیکن There’s a will  There’s a way اگر will” نہیں ہے تو Plato کے پاس بھی کوئی حل نہیں ہے۔
    چین نے شمالی کوریا کو امریکہ کے لئے مسئلہ نہیں بنایا ہے۔ بلکہ امریکہ نے چین کے لئے شمالی کوریا کو مسئلہ بنایا ہے۔ شمالی کوریا کے ساتھ چین کے تعلقات ایسے ہی ہیں جیسے امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو کھربوں ڈالر کی امداد دیتا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو جو فوجی ٹیکنالوجی فراہم کی ہے اس سے اسرائیل مڈل ایسٹ کی ایک بڑی فوجی طاقت بن گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کا اسرائیل پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ امریکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی پالیسی کو تبدیل نہیں کرا سکا ہے۔ اور اسرائیل مسلسل نئی یہودی بستیاں تعمیر کرتا جا رہا ہے۔ چین بھی شمالی کوریا پر ایک حد تک اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتا ہے۔ شمالی کوریا ایک خود مختار ملک ہے۔ اور اسے اپنے ملک کے مفاد میں فیصلہ کرنے کا  اختیار ہے۔ پھر ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد سب سے پہلے تائیوان کے صدر کو فون کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے اس فیصلہ سے یہ عندیہ دیا تھا کہ امریکہ تائیوان کے بارے میں چالیس سال پرانی پالیسی جاری رکھنے کا پابند نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے پھر چین کے صدر شی جن پنگ کو فلوریڈا میں اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا تھا۔ دو دن صدر شی کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔ اور پھر امریکہ اور چین کے درمیان قریبی تعلقات کی اہمیت کا اعتراف کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے چین کے صدر شی کی شمالی کوریا کے مسئلہ کو حل کرنے کی انتھک کوششوں کو سراہا یا تھا۔ لیکن پھر صدر ٹرمپ نے تائیوان کو 1.4بلین ڈالر مالیت کا اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ South China Sea میں امریکی military build-up بھی جاری ہے۔ اور چین کے خلاف اتحاد بھی بنایا جا رہا ہے۔ فوجی مشقیں بھی ہو رہی ہیں۔ جنوبی کوریا میں چین اور روس کی مخالفت  کے باوجود THAAD  (Terminal High Altitude Area Defense) نصب کیا ہے۔ اس خطہ میں ایک طرف امریکہ کی یہ فوجی سرگرمیاں جاری ہیں اور دوسری طرف چین اور روس سے شمالی کوریا کے میزائلوں کے تجربے بند کرانے کا اصرار کیا جا رہا ہے۔ شمالی کوریا کا مسئلہ حل ہونے سے کیا اس خطہ میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں بند ہو جائیں گی؟                          

No comments:

Post a Comment