Sunday, July 23, 2017

Palestine And Kashmir: The World’s Half Century Old Conflicts, And New Relations Between India And Israel

      
Palestine And Kashmir: The World’s Half Century Old Conflicts, And New Relations Between India And Israel

مجیب خان

Prime Minister Benjamin Netanyahu and Prime Minister Narendra Modi

Heavy Indian Army's Presence in Kashmir

Kashmiri Youths fighting with Indian troops

Israeli Soldiers kidnap Palestinian woman in Jerusalem

Israeli Soldiers attacking a protester
    نریندر مودی کو اگر بھارت کا ایریل شرون کہا جاۓ تو یہ شاید مبالغہ آ رائی نہیں ہو گی۔ نریندر مودی بھارت کے پہلے وزیر اعظم ہیں۔ جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اور ایریل شرون اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے  2003 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ وزیر اعظم شرون ایک انتہائی قدامت پسند لیکوڈ پارٹی کے رکن تھے۔ فلسطینیوں کے کٹر دشمن تھے۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے اسرائیلی فوج میں جنرل تھے۔ فلسطینیوں کی نسلیں صابرہ اور شتیلہ فلسطینی مہاجر کیمپ کبھی نہیں بھولیں گی۔ جن پر جنرل ایریل شرون نے بلڈوزر چلاۓ تھے۔ فلسطینی مہاجر کیمپ گراؤنڈ زیرو ہو گیے تھے۔ ہر طرف انسانوں کا ملبہ بکھرا ہوا تھا۔ اور جنرل شرون اپنے اس پس منظر کے ساتھ بھارت کے دورے پر آۓ تھے۔ جو کسی اسرائیلی وزیر اعظم کا پہلا دورہ بھارت تھا۔ بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ اٹل بہاری با جپائی بھارت کے وزیر اعظم تھے۔ نریندرا مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ امریکہ میں جارج بش انتظامیہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اسٹیج سیٹ کرنے میں مصروف تھی۔ کشمیر پر بھارتی فوجی قبضہ کے خلاف کشمیریوں کی تحریک اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی فوجی قبضہ کے خلاف فلسطینیوں کی تحریک امریکہ پر نائن الیون کے حملے کے وقت تقریباً 50 برس کی ہو چکی تھیں۔ جنہیں مغربی طاقتوں نے 50 برس صرف اپنے سیاسی مقاصد اور علاقائی سیاست میں انتشار کے حالات برقرار رکھنے کے لئے زندہ رکھا تھا۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی حق خود مختاری کی جد و جہد عالمی قانون کے مطابق تھیں۔ اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں غیر ملکی فوجی تسلط میں محکوم لوگوں کی مسلح جد و جہد کو تسلیم کیا گیا ہے۔  لیکن امریکہ پر دہشت گردوں کا حملہ جیسے اسی مقصد میں تھا کہ فلسطینیوں کی جد و جہد کو دہشت گردی قرار دے  دیا جاۓ گا۔ اور فلسطین کا تنازعہ پھر کبھی حل نہیں ہو سکے  گا۔ فلسطینی جب بھی اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر آئیں گے انہیں دہشت گرد سمجھا جاۓ گا۔ لہذا ان حالات میں فلسطین کے تنازعہ کا حل ممکن نہیں تھا۔ دہشت گردی کی جنگ کو اتنا زیادہ پھیلا دیا تھا کہ اسے ختم کرنے میں 17 سال گزر گیے ہیں۔ اسرائیل کی اس حکمت عملی سے متاثر ہو کر بھارتی حکومت نے بھی کشمیریوں کی جد و جہد کو دہشت گردی کہنا شروع کر دیا۔ حالانکہ 2002 میں وزیر اعلی نریندرا مودی کے واچ میں گجرات میں انتہا پسند ہندوؤں کے مسلمانوں کے خلاف فسادات کو دہشت گردی نہیں کہا گیا تھا جس میں ایک ہزار مسلمان مارے گیے تھے۔ ان کی املاک اور کاروبار تباہ کر دئیے تھے۔ گجرات میں یہ فسادات غازہ میں اسرائیلی فوج کے خلاف فسادات سے مختلف نہیں تھے۔
    وزیر اعظم شرون کے دورہ بھارت کے بعد بھارتی حکومت کی پالیسی میں تبدیلی آئی تھی۔ دوسری طرف بش انتظامیہ کی بھارت پالیسی میں بھی نمایاں تبدیلی آئی تھی۔ افغانستان اور بھارت میں دہشت گردی کے واقعات پر بش انتظامیہ بھارت کے اعلامیوں سے اتفاق کرنے لگی تھی۔ بھارتی حکومت جب پاکستان کو بھارت میں دہشت گردی کرانے کے الزام دیتی تھی۔ اور پھر  بش انتظامیہ بھارت میں دہشت گردوں کو جانے سے روکنے  کے لئے پاکستان سے اصرار کرنے لگتی تھی۔ پاکستان نے طالبان کی انتہا پسندی کے خلاف 180 ڈگری سے یو ٹرن  لیا تھا۔ لیکن امریکہ 180 ڈگری یو ٹرن سے بھارت کے قریب ہو گیا تھا۔ واشنگٹن میں اسرائیلی لابی کا اس میں ایک رول تھا۔ حالانکہ افغانستان میں بھارت کو امریکہ کے مفاد کی پرواہ نہیں تھی۔ بھارت صرف اپنا مفاد دیکھ رہا تھا۔ افغانستان میں تاجک اور ازبک کو بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ پاکستان نے طالبان کی حمایت کی تھی۔ طالبان پشتون تھے۔ اور پشتون افغانستان میں اکثریت میں تھے۔ اور جنگ کی حکمت عملی یہ تھی کہ پشتونوں سے کوئی بات نہیں کی جاۓ گی جو طالبان تھے۔ صرف حامد کرزئی سے جو پشتون تھے اور افغانستان کے صدر تھے ان سے تعلقات ر کھے جائیں گے یا پشتون وار لارڈ سے بات کی جاۓ گی۔ جو افغانستان میں زیر زمین معیشت فروغ دے رہے تھے۔ امریکہ کی یہ افغان حکمت عملی بھارت کو suit کرتی تھی۔ جو افغانستان میں پاکستان کو شکست دے سکتی تھی۔ امریکہ اور نیٹو کو افغانستان میں بھارت کے مفادات کی تکمیل تک پھنسا کر رکھ سکتی تھی۔ دوسری طرف اسرائیلی کنٹرول میں امریکی میڈیا کے ذریعہ پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے کا پراپگنڈہ جاری تھا۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ اگر بھارت کو افغانستان کی اندرونی سیاست سے دور رکھتے تو شاید افغان جنگ کبھی اتنی طویل نہیں ہوتی۔ اور ویت نام جنگ کے بعد امریکہ کو ایک اور غریب ترین ملک میں ایسی شرمناک شکست کا سامنا کبھی نہیں ہوتا۔ امریکہ کو سب نے اپنے میں استعمال کیا ہے۔ لیکن پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہمیشہ تباہ ہوا ہے۔ امریکی کانگرس نے پاکستان پر بندشیں لگائی ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔
    وزیر اعظم ایریل شرون کے دورہ بھارت کے بعد وزیر داخلہ ایل کے ایڈ وانی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ اور پھر وزیر خارجہ جسونت سنگھ اسرائیل گیے تھے۔ جبکہ واشنگٹن میں بھارت کی قومی سلامتی امور کے مشیر بر جیش میسرا صدر بش کی قومی سلامتی امور کے مشیر اسٹیفن ہیڈ لے کے ساتھ امریکہ بھارت اسٹرٹیجک تعلقات کی بنیادیں رکھنے میں مصروف تھے۔ امریکہ اسرائیل بھارت ایک نیا Axis of Powers بن رہا تھا۔ جنوبی اور مغربی ایشیا کے مسائل میں یہ ایک نیا اضافہ ہو رہا تھا۔ بھارت کی فلسطین تنازعہ پر پالیسی تبدیل ہو رہی تھی۔ اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے 'غازہ' بنا دیا تھا۔ بھارت دنیا کی اور اسرائیل عرب دنیا کی بڑی جمہو رتیں تھیں۔ لیکن ان ملکوں میں انسانیت کے ساتھ بدترین سلوک ہو رہا تھا۔ ہر تیسرے کشمیری کو دہشت گرد ثابت کیا جا رہا تھا۔ جن کی پشت پنا ہی کرنے کا الزام پاکستان کو دیا جاتا تھا۔ دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بھی یہ ہی پالیسی تھی۔
    اسرائیل کو فلسطین کے مسئلہ پر اقوام متحدہ میں اس کے خلاف قرار دادوں میں بھارت کی حمایت چاہیے۔ اور مودی حکومت میں بھارت نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف تقریباً چھ قرار دادوں پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ہے۔ جس میں جولائی 2015 میں جنیوا میں اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں 2014 میں غازہ کی جنگ میں اسرائیل اور حما س کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی قرارداد پر بھارت نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اور اب بھارت بھی کشمیر کے مسئلہ پر اسرائیل سے favor چاہتا ہے۔ وزیر اعظم مودی مختلف ideas کے ساتھ پہلی مرتبہ اسرائیل کے دورے پر آۓ تھے۔ وزیر اعظم مودی کے ذہن پر CPEC  کشمیر اور پاکستان سوار ہے کہ کس طرح پاکستان میں عوام کے ذریعہ CPEC کو discredit کیا جاۓ۔ بھارت کے لئے کشمیر نہیں پاکستان مسئلہ ہے۔ جبکہ پاکستان کے لئے بھارت نہیں کشمیر مسئلہ ہے۔ اس لئے پاکستان نے بھارت کو MFN کا درجہ بھی دیا تھا۔ بھارت کا خوف یہ ہے کہ CPEC منصوبہ مکمل ہونے سے بھارت کہیں بھو ٹان یا نیپال نہ بن جاۓ۔ بھارتی قیادت کے یہ نفسیاتی خدشات ہیں۔ جن کا علاج دیکھنے وزیر اعظم مودی اسرائیل آۓ تھے۔ جبکہ اسرائیل کی پاکستان سے تعلقات قائم کرنے کی خواہش ہے۔ اور اسرائیل کی بھی CPEC میں شامل ہونے کی خواہش ہو گی۔ دنیا تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ لیکن بھارت Dead End پر کھڑا ہے۔

                            

No comments:

Post a Comment