Thursday, July 13, 2017

The Pro-NATO Warmongers Brought The World Back To The 1980s, Then, US-Soviet Relations Were Bad On Soviet Meddling In Afghanistan

The Pro-NATO Warmongers Brought The World Back To The 1980s, Then, US-Soviet Relations Were Bad On Soviet Meddling In Afghanistan  

Now US-Russia Relations Are Bad On Russian Meddling In 2016 American Elections

مجیب خان
President Trump and President Putin

President Reagan and Soviet President Gorbachev


    صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور صدر ویلا دیمیر پو تن کی ہمبرگ جرمنی میں ملاقات کی فضا کچھ ایسی تھی کہ جیسے سرد جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ یا یہ سرد جنگ کا part two تھا۔ سوویت یونین ختم ہو گیا تھا۔ لیکن روس کو ابھی تک سرد جنگ کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ امریکہ ابھی تک سرد جنگ کی سوچوں میں ہے ۔ اور ان امریکی سوچوں میں صدر ریگن نے سوویت یونین کے ساتھ جن اختلافات کو جہاں چھوڑا تھا۔ ان کے خیال میں صدر ٹرمپ کو صدر پو تن سے ملاقات میں گفتگو کا آغاز وہاں سے کرنا چاہیے۔ اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ روس کے تعلقات پر بات کی جاۓ۔ اور جس طرح 1980s میں امریکہ اور سوویت یونین کے رہنماؤں کی ملاقاتوں میں نکارا گواۓ، انگولا اور افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت اہم ایشو ہوتے تھے۔ اسی طرح اب صدر ٹرمپ اور صدر پو تن کی ملاقات میں امریکہ کے جمہوری عمل میں روس کی مداخلت، شام، یوکرین اور افغانستان اہم ایشو تھے۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے سرد جنگ ختم نہیں کی تھی۔ سرد جنگ صرف سوویت یونین نے ختم کی تھی۔ اور مشرقی یورپی ملک وا رسا  پیکٹ سے نیٹو میں merge ہو گیے تھے۔ سرد جنگ اس حد تک ختم ہوئی تھی۔ سرد جنگ ذہنیت اپنی جگہ پر تھی۔ اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ سرد جنگ دور کے فوجی مفادات بھی برقرار تھے۔ نیٹو فوجی معاہدہ برقرار رکھنے کا فیصلہ در اصل ذہنوں میں سرد جنگ کو زندہ رکھنا تھا۔ مشرقی یورپ کے ملکوں کی نیٹو میں بھرتی ایسے ہو رہی تھی۔ جیسے جنگ شروع کرنے سے پہلے فوج میں بھرتی کی جاتی ہے۔ سوویت یونین ختم ہونے کے بعد امریکہ کے مقابلہ پر کوئی دوسری طاقت نہیں تھی۔ اور نہ ہی مغربی سرمایہ دارا نہ نظام خطرے میں تھا۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کے فوجی بجٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس وقت روس سیاسی عدم استحکام کے حالات کا سامنا کر رہا تھا۔ روس کی معیشت تباہ ہو چکی تھی۔ روس کے دفاعی بجٹ کے لئے خزانہ میں فنڈ نہیں تھے۔ روس کے فوجی ادارے انتشار میں تھے۔ فوجیوں کو تنخواہیں دینے کے لئے خزانہ میں فنڈ نہیں تھے۔ روس سیاسی، اقتصادی اور فوجی طور پر اس قدر برے حالات میں تھا۔ لیکن امریکہ نیٹو کو وسعت دے رہا تھا۔
    نائن الیون کے بارے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ “inside job” تھا۔ اس میں کچھ حقیقت نائن الیون کے بعد دنیا کے موجودہ سیاسی حالات میں نظر آتی ہے۔ دہشت گردی کےpretext  میں دنیا کو militarize کیا گیا ہے۔ دنیا میں فوجی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ نیٹو کا رول یورپ سے ایشیا میں آ گیا ہے۔ اور اب آسڑیلیا اور نیوزی لینڈ  کو بھی نیٹو میں شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔ نیٹو کو فروغ دینے کے ساتھ امریکہ نے دنیا بھر میں اپنے فوجی اڈوں کا علیحدہ ایک جال بچھا دیا ہے۔ اور اس وقت امریکہ کے دنیا میں تقریباً 800 فوجی اڈے ہیں۔ جو زیادہ تر ایشیا اور افریقہ میں ہیں۔ نائن الیون کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ جنگیں دہشت گردی کے نام پر شروع کی گئی تھیں۔ کچھ جنگیں مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کے لئے شروع کی گئی تھیں۔ کچھ جنگیں انسانیت کو ظالم ڈکٹیٹروں سے بچانے کے لئے شروع کی گئی تھیں۔ کچھ جنگیں Regime Change کرنے کے لئے شروع کی تھیں۔ اور کچھ جنگیں لوگوں کو فریڈم اور ڈیموکریسی دینے کے لئے شروع کی تھیں۔ پھر یہ جنگیں شروع کرنے کے بعد افغان حکومت کو طالبان کا خاتمہ کرنے کے لئے جنگ دے دی تھی۔ پاکستان کی حکومت کو افغانستان بھارت اور پاکستان میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی Do more جنگ دی گئی تھی۔ عراق میں Regime Change کرنے کے بعد نئی عراقی حکومت کو سنی ISIS کا خاتمہ کرنے کے لئے جنگ دے دی تھی۔ ایک جنگ سعودی حکومت اور خلیج کے حکمرانوں کو یمن میں ہوتیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے دے دی تھی۔ ایک جنگ ترکی کو بھی مل گئی تھی کہ دہشت گردوں سے لڑو۔ افریقہ میں مالی، نائجیریا، لیبیا اور مصر میں اسلامی انتہا پسندوں سے جنگ جاری ہے۔ ان جنگوں کو امریکہ Supervise اور نیٹو Manage کر رہے ہیں۔ امریکہ میں نائن الیون کی دہشت گردی میں 3 ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ جبکہ پاکستان میں دہشت گردی میں 50 ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل دہشت گردی کو فروغ دے رہی تھی۔ دہشت گردی ختم نہیں ہو رہی تھی۔  افغان جنگ ابھی تک جاری ہے اور 17 سال ہو گیے ہیں۔ عراق میں بھی  جنگ جاری ہے۔ اور14 سال ہو گیے ہیں۔ جو جنگیں صدر بش نے شروع کی تھیں انہیں صدر اوبامہ ختم نہیں کر سکے تھے۔ بلکہ صدر اوبامہ نے اپنی نئی جنگوں سے ان میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ South China Sea میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ایک نیا فوجی الائینس بن رہا ہے۔ امریکہ جاپان اور بھارت کی مشترکہ فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ امریکہ کی امن میں دلچسپی نہیں ہے۔ اور جنگوں میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ 17 سال کے حقائق دنیا کے سامنے ہیں۔ لوگ ان کا جائزہ لے کر خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جنگوں اور ہتھیاروں نے دنیا کو صد ام حسین کے مہلک ہتھیاروں کے دعووں سے زیادہ خطرناک بنا دیا ہے۔
    یو کر ین کا بحران پیدا کرنے کا مقصد کیا تھا؟ امریکہ نے یو کر ین میں meddling کی تھی۔ جس کے نتیجہ میں President Viktor Yanukovych کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ روس کی سرحد پر یہ “Casualty of Peace” تھا۔ یوکرین Cold War  ذہنیت کا بحران تھا۔ جسے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ وکٹوریا نیو لینڈ نے ایجاد کیا تھا۔ اور پھر یو کر ین کے مسئلہ کی pretext میں روس کو اقتصادی بندشوں میں گھیر لیا ہے۔ ان اقتصادی بندشوں کا مقصد روس کی معیشت کو نقصان پہنچانا ہے۔ روس کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ روس میں تیز تر اقتصادی ترقی کے بہت potentials ہیں۔ آئل اور گیس کے وسائل سے مالا مال ہے۔ روس جرمنی کے مقابلہ پر یورپ کی ایک بڑی اقتصادی طاقت ہو گا۔ یورپ میں فرانس برطانیہ اٹلی اور دوسرے یورپی ملکوں کی معیشت انحطاط کا شکار ہیں۔ امریکہ کی معیشت کو جنگیں آکسیجن فراہم کر رہی ہیں۔ اس لئے بھی جنگیں امریکہ کی ضرورت بن گئی ہیں۔ سرد جنگ ختم کرنے کے بعد روس نے دنیا میں کسی ملک کو Bully نہیں کیا ہے۔ نیٹو روس کی سرحدوں کے اطراف پہنچ گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود روس کا رد عمل پرامن ہے۔ اور امن میں اپنے دفاع کو اہمیت دی ہے۔
    صدر اوبامہ روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات 1980s کی دنیا میں چھوڑ کر گیے ہیں۔ جرمنی میں G-20 کانفرنس کے دوران سائڈ لائن پر صدر ٹرمپ اور صدر پو تن کے درمیان دو گھنٹے پندرہ منٹ کی ملاقات میں  2016 کے انتخابات میں روس کی meddling  کے مسئلہ کو اس طرح اٹھایا گیا تھا کہ جیسے 1980 میں صدر ریگن اور صدر گارباچوف کے درمیان ملاقات میں افغانستان میں سوویت یونین کی meddling کا مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ ٹرمپ- پو تن ملاقات کا دوسرا موضوع شام تھا۔ حالانکہ شام میں امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں نے جہادیوں اور دہشت گردوں کے ذریعہ meddling کی تھی۔ یہ شام کا داخلی معاملہ تھا۔ اور مداخلت عالمی قوانین کی ننگی جارحیت تھی۔ شام میں خانہ جنگی War against Humanity تھی۔ ایک ملین بے گناہ شامی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ تقریباً 3 ملین شامی بے گھر ہو گیے ہیں۔ شام Ground Zero ہو گیا ہے۔ 6 سال میں خانہ جنگی نے شام کو یہ حالات دئیے تھے۔ اور روس نے ان حالات کو دیکھ کر شام میں مداخلت کی تھی۔ اس لئے روس کی یہ مداخلت سرد جنگ میں سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت سے بہت مختلف تھی۔ روس کی بر وقت مداخلت نے شام کو بچایا ہے۔ اور انسانیت کو بچایا ہے۔ اور روس کے بارے میں یہ اصل حقائق ہیں۔ جنہیں Distort نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں جنگیں کس نے پھیلائی ہیں؟  یہ بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔                    

No comments:

Post a Comment