Thursday, August 31, 2017

Another Doomed To Fail New Afghan Policy

Another Doomed To Fail New Afghan Policy

The Solution of Afghanistans' Problems Are Not Inside Pakistan; Focus Should Be on Afghanistan’s Internal Problems That Are Chronic Corruption In The Government And Contagious Ethnic Rivalry. Powerful Warlords Underground The Billion-Dollar Drug Economy

مجیب خان

Poppy Farm in Afghanistan

Warlord Rashid Dostum

A man counting money at Kabul market in Afghanistan

Record Opium harvest    
      صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی بھی سابقہ دو انتظامیہ کی گھسی پٹی افغان پالیسی سے مختلف نہیں ہے۔ اس پالیسی پر صدر ٹرمپ کے signature صرف نئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی دیکھنے کے بعد یہ نظر آ تا ہے کہ صدر ٹرمپ کے چار سال افغان جنگ میں اسی طرح گزر جائیں گے کہ جیسے صدر اوبامہ اور ان سے پہلے صدر بش کے آٹھ سال گزرے تھے۔ اور یہ افغان جنگ اب صدر ٹرمپ کی جنگ بن گئی ہے۔ ہر امریکی صدر کی نئی افغان پالیسی میں مستقبل کے صدر کے لئے ایک نئی افغان پالیسی بنانے کا موقعہ دیا جاتا ہے اور امریکہ کے 46 ویں اور شاید 47 ویں صدر کی بھی افغان جنگ پر نئی افغان پالیسی ہو گی۔ بش انتظامیہ میں اس جنگ کے architect نے حکمت عملی اس طرح ڈیزائن کی ہے کہ ایشیا کے وسط میں اس جنگ کو ختم کرنے میں کم از کم نصف صدی گزر جاۓ۔ اور اس خطہ کے تمام اہم ملکوں کے عصاب پر افغان جنگ کو رکھا جاۓ۔ ذرا غور کرنے کی بات ہے کہ امریکہ جیسی فوجی طاقت plus نیٹو کے 26 ملک 17 سال سے صرف طالبان کو شکست دینے کی جنگ میں خود شکست کا سامنا کر رہے ہیں۔ جنگ کے علاوہ افغانستان کے مسئلہ کا جیسے اور کوئی حل نہیں ہے۔ اور یہ صدر بش کی signature افغان پالیسی تھی کہ طالبان کو شکست دینے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ طالبان کو کب اور کیسے شکست دی جاۓ گی۔ بش انتظامیہ کے جواب یہ ہوتا تھا کہ طالبان سے کوئی بات نہیں ہو گی۔ اور جنگ جاری رہے گی۔ لہذا یہ جنگ صدر اوبامہ کی انتظامیہ میں بھی جاری رہی اور اب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں بھی افغان جنگ جاری رکھنے کا پلان ہے۔ صدر بش افغان جنگ چھوڑ کر عراق میں ایک نئی جنگ شروع کرنے چلے گیے تھے۔ کیونکہ صدر بش کو یہ بتایا گیا تھا کہ صدا م حسین طالبان سے زیادہ بڑا خطرہ تھے۔ افغان سیکورٹی فورسز ز کی تربیت مکمل ہونے کے بعد صدر اوبامہ افغانستان ان کے حوالے کر کے لیبیا پھر یمن اور شام میں حکومتیں تبدیل کرنے کی جنگوں میں حصہ لینے چلے گیے تھے۔ تاہم صدر اوبامہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف ڈرون حملے جاری رکھے تھے۔ لیکن ڈرون حملوں میں اتنے طالبان نہیں مرتے تھے کہ جتنے بے گناہ شہری ہلاک ہوتے تھے۔ اور جب بھی افغان شہری امریکی حملوں میں مرتے تھے۔ طالبان gain کرتے تھے۔ اور امریکہ loose کرتا تھا۔ ڈرون حملے دراصل طالبان کو strength دیتے تھے۔ انہیں کمزور نہیں کر رہے تھے۔ لیکن امریکہ میں جنہوں نے یہ افغان پالیسی بنائی تھی انہیں جب طالبان مضبوط ہوتے نظر آنے لگتے تھے۔ تو وہ یہ کہنے لگتے تھے کہ طالبان کی safe heavens پاکستان میں ہیں۔
     صدر ٹرمپ نے افغانستان کے دروں میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف mother of all bomb استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ افغانستان میں امریکی کمانڈر جان نکل سن نے اسے استعمال کیا تھا۔ Mother of all bomb سے صرف 90 طالبان مرے تھے۔ لیکن پھر 72 گھنٹوں کے اندر طالبان نے فوجی بیر ک پر حملہ کر کے 150 افغان فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ جنہیں امریکہ نے کئی سال تک تربیت دی تھی۔ اور ان کو تربیت دینے پر ہزاروں ڈالر خرچ کیے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ افغان فوجی کسی کے شوہر تھے۔ بچوں کے باپ تھے۔ کسی ماں باپ کے بیٹے تھے۔ کسی کے بھائی تھے۔ اور اپنے خاندان کی پروش کا واحد ذریعہ بھی تھے۔ ایک غلط فیصلہ کے نتیجے میں 150 افغان خاندانوں کی زندگیاں تباہ ہو گئی تھیں۔ اب اس حملہ کا پاکستان میں طالبان کی safe heavens سے کیا تعلق تھا؟ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ 17 سال میں ایسے ہزاروں واقعات ہوۓ تھے۔ افغان آبادی کابل حکومت کے خلاف ہونے لگی تھی۔ اور غیرملکی فوجوں سے انہیں نفرت ہو گئی تھی۔ امریکی کمانڈر ابھی تک افغان معاشرے کی قبائلی نفسیات نہیں سمجھ سکے ہیں۔ انتقام قبائلیوں کی فطرت میں ہے۔ جب بھی امریکہ اور نیٹو کے حملوں میں افغان شہری ہلاک ہوۓ ہیں۔ افغانوں نے اس کا انتقام لیا ہے۔ افغان فوج کے اندر فوجیوں نے امریکی فوج پر حملے کیے ہیں۔ متعدد افغان فوجی منحرف ہو گیے تھے اور طالبان سے مل گیے تھے۔ اور انہوں نے طالبان کے ساتھ کابل حکومت اور امریکی فوج کے خلاف کاروائیاں شروع کر دی تھیں۔ اب اس صورت حال کا پاکستان میں نام نہاد طالبان کے safe heavens سے کیا تعلق تھا۔ یہ افغانستان کی داخلی صورت حال تھی۔ جس نے افغانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔
     16 سال میں بش اور اوبامہ انتظامیہ نے اپنی افغان پالیسی میں افغانستان کے اندرونی سیا سی انتشار اور ان داخلی قوتوں کو کبھی اہمیت نہیں تھی جو افغانستان کو عدم استحکام کے حالات میں ر کھے ہوۓ ہیں۔ اور امریکہ کی افغان پالیسی میں صرف طالبان اور پاکستان کو فوکس کیا جاتا ہے۔ اور افغانستان کے اندرونی سیاسی انتشار کو نظر انداز کر کے جنگ صرف جیتنے کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ جب سرحدوں پر جنگ لڑی جاتی ہے ملک کے اندر اتحاد  امن اور استحکام کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن افغانستان کی مختلف قو میتوں میں اتحاد  ہے نہ امن اور استحکام ہے ہر طرف سے صرف جنگ کو جاری رکھا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں تین لاکھ افغان فوج جسے امریکہ نے تربیت دی ہے کمزور رہے گی۔ طالبان افغان فوج سے بھی لڑ رہے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو فوج سے بھی لڑ رہے ہیں۔ اگر یہ صورت ہے تو پھر طالبان کو افغان فوج تسلیم کر لیا جاۓ اور ان سے امن استحکام اور افغان قوم کو متحد کرنے کا  کام کیوں نہیں لیا جاۓ۔ طالبان کی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں افغانستان کے داخلی سیاسی انتشار کا پاکستان میں نام نہاد طالبان کی safe heavens سے زیادہ بڑا رول ہے۔ 17 سال سے امریکہ نے افغانستان کی اس داخلی صورت حال کو بالکل فوکس نہیں کیا ہے۔ بلکہ افغانستان کی اس داخلی سیاسی صورت حال کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہرایا ہے۔ امریکہ کی افغان پالیسی کا یہ approach افغانستان میں امریکی فوجی شکست کا سبب ہے۔ جب تک امریکہ کا غلط approach درست نہیں ہو گا افغانستان کے حالات بھی کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔
     افغان حکومت میں chronic corruption کا خاتمہ کرنے پر امریکہ کی کسی بھی انتظامیہ نے اس طرح زور نہیں دیا کہ جیسے پاکستان سے طالبان کی safe heavens کا خاتمہ کرنے کا اصرار کیا جاتا ہے۔ افغان حکومت کا chronic corruption طالبان کا نیا مذہب بن گیا ہے۔ افغانستان کے داخلی سیاسی انتشار کا دوسرا بڑا مسئلہ طاقتور قبائلی وار لارڈ ز ہیں۔ جو اتنے ہی corrupt ہیں جتنی افغان حکومت ہے۔ یہ وار لارڈ ز افغانستان میں امن استحکام اور ایک سیاسی جمہوری عمل کو اپنی طاقت کی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہاں ان کی سوچ عرب بادشاہوں کی سوچ سے مختلف نہیں ہے۔ طالبان کی حکومت نے افغانستان سے وار لارڈ ز کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا لیکن امریکہ نے افغانستان میں وار لارڈ ز کو اسی طرح بحال کیا ہے کہ جس طرح مصر میں فوجی آمریت کو بحال کیا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو فوجوں کی موجودگی میں افغان وار لارڈ ز کی بلین ڈالر زیر زمین منشیات کی معیشت کو فروغ دیا گیا ہے۔ افغان وار لارڈ ز کی منشیات کی تجارت پاکستان میں طالبان کی safe heavens سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ لیکن امریکی انتظامیہ نے اپنی نئی افغان پالیسی میں اسے کبھی ایک سنجیدہ مسئلہ نہیں سمجھا ہے۔ وار لارڈ ز کی یہ زیر زمین معیشت سیاسی جرائم پیشہ ور پیدا کر رہی ہے۔ اور پھر وار لارڈ ز انہیں اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال کرتے ہیں۔ افغان وار لارڈ ز بھی اتنے ہی ظالم ہیں اور تشدد میں یقین رکھتے ہیں کہ جتنے طالبان ہیں۔ طالبان کے ظلم اور بربریت کا خاتمہ ہونے کے بعد اب وار لارڈ ز کی بربریت کا نظام رائج ہو گیا ہے۔ طالبان کی ایک بہت بڑی تعداد وار لارڈ ز کے اس نظام میں convert ہو گئی ہے۔ افغانستان کے جن علاقوں میں وار لارڈ ز کی مضبوط گرفت ہے۔ وہ طالبان کے لئے safe heavens ہیں۔ طالبان وار لارڈ ز کی ملیشیا بھی ہیں۔ کابل حکومت کا ان علاقوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ امریکہ کی افغان پالیسی میں بھی ایسے علاقوں کو کابل حکومت کے کنٹرول میں لانے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ اور نہ ہی وار لارڈ ز کی زیر زمین بلین ڈالر معیشت کو dismantle کرنے کے لئے کہا ہے۔ اگر امریکہ کی افغان پالیسی میں ان ایشو ز کو address نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کی افغان پالیسی بڑی dubious ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی میں بھی وار لارڈ ز کے کرائم ختم کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
     افغانستان میں تیسرا بڑا مسئلہ ethnic rivalry تا جک اور ازبک کا پشتونوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنا ہوا ہے۔ صدر اشرف غنی پشتون ہیں۔ اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ تا جک ہیں۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ جان کیری کی انتھک کوششوں سے یہ ایک مخلوط حکومت بن گئی ہے۔ لیکن دونوں میں اختلافات خاصے  شدید ہیں۔ اور اس ethnic تقسیم کی وجہ سے سیاسی حالات اور زیادہ پیچیدہ ہو گیے ہیں۔ افغانستان میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام کا سبب صرف طالبان ہی نہیں ہیں۔ بلکہ دوسرے عناصر اور عوامل بھی ہیں۔ افغان ثقافتیں جب تک متحد نہیں ہوں گی۔ افغانستان کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے۔ حکومت اور اس کے اداروں کو موثر بنایا جاۓ۔ سیکورٹی اداروں کو ethnic بنیادوں پر استعمال نہیں کیا جاۓ۔ بیرونی فوجی کوششیں اگر افغانستان کو امن دے سکتی تھیں تو 17 سال ایک بہت بڑا عرصہ تھا۔ اور یہ کوششیں فیل ہو چکی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی سابقہ انتظامیہ کی طرح افغانستان کے تمام مسائل کا حل پاکستان کے اندر دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں اگر طالبان کی safe heavens  ختم ہو جائیں تو افغانستان میں امن آ جاۓ گا۔ یہ حقائق سے منہ موڑنے کا بہانہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو افغانستان کے اندرونی سیاسی حالات کو ٹھیک کرنے پر سب سے پہلے توجہ دینا ہو گی۔ فوجی آپریشن کے بارے میں بعد میں سوچنا ہو گا۔ 17 سال فوجی آپریشن افغانستان کو کوئی حل نہیں دے سکے ہیں۔                  

No comments:

Post a Comment