Thursday, August 24, 2017

Army Rule In The White House: Strict Discipline

Army Rule In The White House: Strict Discipline

Mentally Unstable President Trump Is Better Than President Bush, Who Said "'I Am Driven With A Mission From God. George, go and end the tyranny in Iraq.’ And I did.”

مجیب خان

White House Chief of Staff John Kelly

National Security advisor H.R.mcMaster and President Trump

Defence Secretary James Mattis 

   ایسا نظر آتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں کئی ماہ کی بد انتظامی کے بعد اب Military Rule آ گیا ہے۔ جنرل جان کیلی چیف ایڈمنسٹریٹر ہو گیے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف بن گیے ہیں۔ اور آرمی کا سخت ڈسپلن انہوں نے وائٹ ہاؤس میں  نافذ کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے سابق چیف آف اسٹاف نے استعفا دے دیا تھا۔  جو سابق ریپبلیکن نیشنل کمیٹی کے چیرمین تھے۔ ان کے علاوہ کئی اور ایڈ وائزر بھی چھوڑ کر چلے گیے ہیں۔ ان کے علاوہ ابھی چند اور صدر ٹرمپ کے ایڈ وائزر کے استعفا دینے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ اس وقت تین جنرل تین اہم عہدوں پر ہیں۔ پینٹ گان میں سیکریٹری ڈیفنس جنرل James Mattis ہیں۔ قومی سلامتی امور کے مشیر جنرل H.R.mcMaster ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں 7 ماہ سے نظم و ضبط نہ ہونے کے نتیجہ میں جنرل جان کیلی کو وائٹ ہاؤس میں چیف آف اسٹاف بنایا گیا ہے۔ جنرل جان کیلی ھوم لینڈ سیکورٹی کے سیکرٹیری تھے۔ اور ھوم لینڈ سیکورٹی میں ان کی شاندار کارکردگی دیکھ کر انہیں وائٹ ہاؤس کی انتظامی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے لایا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں گزشتہ 7 ماہ سے Leaks ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ وائٹ ہاؤس میں ہر نجی گفتگو اور پالیسی امور پر فیصلے Leaks ہو جاتے تھے۔ یہ کون Leak کرتا تھا۔ اس بارے میں وائٹ ہاؤس کے اسٹاف میں ری پبلیکن پارٹی کے کچھ insiders پر شبہ بتایا جا رہا تھا۔
   ڈونالڈ ٹرمپ کی پریزیڈنسی اس وقت ہر طرف سے شدید دباؤ میں ہے۔ پریزیڈنسی ایک سوالیہ ہے۔ واشنگٹن اسٹبلشمنٹ ڈونالڈ ٹرمپ کی پریزیڈنسی قبول نہیں کر رہا ہے۔ ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی کا جیسے ایک محاذ بنا ہوا ہے۔ کانگرس اور سینٹ کی دو کمیٹیاں اس وقت صدر ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کے روس کے ساتھ تعلقات کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ جبکہ جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے بھی ایک خصوصی کونسل کو نامزد کیا ہے۔ جو صدر بش اور صدر اوبامہ انتظامیہ میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر تھے۔ اور سابق فیڈرل پراسکیوٹر بھی تھے۔ گزشتہ دنوں ایف بی آئی نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق چیرمین کی رہائش گاہ پر دن کی روشنی آنے سے قبل چھاپہ مارا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ انہوں نے واشنگٹن میں روس کے سفیر سے ملاقاتیں کی تھیں۔ بعض روسی بزنس سرمایہ کاروں کے لئے لابی کی تھی۔ اور حکومت کو اس بارے میں بتایا نہیں تھا وغیرہ۔ اس تحقیقات میں صدر ٹرمپ کے داماد اور صاحبزادے بھی شامل ہیں۔ یہ سیاسی نوعیت کی تحقیقات ہیں۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ صدر ٹرمپ اگر صدارت سے استعفا دے دیں تو انہیں اور ان کے داماد  صاحبزادے کو immunity دے دی جاۓ گی۔ اس کے لئے  صدر ٹرمپ پر ہر طرح سے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ تاکہ صدر ٹرمپ واشنگٹن اسٹبلیشمنٹ سے سمجھوتہ کریں۔ امریکہ کا ہر صدر حلف اٹھانے کے بعد واشنگٹن اسٹبلیشمنٹ کے لئے کام کرتا ہے۔ صدارتی مہم کے دوران عوام سے جو وعدے کیے جاتے ہیں۔ وہ صرف وعدے رہتے ہیں۔ انہیں کبھی پورا نہیں کیا جاتا ہے۔ عوام انہیں بھول جاتے ہیں۔ اس لئے صدر بش دوبارہ منتخب ہو گیے تھے۔ اس لئے صدر اوبامہ دوبارہ منتخب ہو گیے تھے۔ حالانکہ عوام نے اوبامہ کو پہلی مرتبہ ان کے Hope اور Change کے وعدوں پر یقین کیا تھا۔ اور اوبامہ کو صدر منتخب کیا تھا۔ لیکن صدر اوبامہ کی پہلی مدت کی صدارت میں Hope کا وعدہ پورا ہوا تھا اور نہ ہی Change آئی تھی۔ اسی طرح صدر جارج بش نے بھی عوام سے جو وعدے کیے تھے۔ ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا تھا۔ افغان جنگ میں صدر بش کو کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں صدر بش نے جھوٹ بولا تھا۔ اور عراق پر حملہ کیا تھا۔ عراق جنگ امریکہ کے لئے Debacle ثابت ہوئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود صدر بش دوبارہ صدر منتخب ہو گیے تھے۔ واشنگٹن اسٹبلیشمنٹ اور کار پوریٹ میڈیا ایک فیل صدر کو کامیاب بنا دیتے ہیں۔ اور ایک کامیاب صدر کو فیل ثابت کر دیتے ہیں۔
   دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی تعمیر جن پالیسیوں پر کی گئی تھی۔ 70 سال بعد وہ تمام پالیسیاں اب Obsolete ہو چکی ہیں۔ اور صدر ٹرمپ اس سسٹم کو Dismantle کرنا چاہتے ہیں جو ان پالیسیوں کا Underwriter  ہے۔ داخلی امور میں عوام سے وعدے صرف اسی صورت میں پورے ہوں گے کہ جب “America First” ٹرمپ خارجہ پالیسی کا پہلا ستون ہو گا۔ سابقہ دو انتظامیہ نے 16 سال امریکہ کی سرحدوں سے ہزاروں میل دور اپنا 65 فیصد وقت فوجی مہم جوئیوں میں گزارا تھا۔ جس کے نتیجہ میں امریکہ میں سڑکیں پل ایرپورٹ ٹوٹے پڑے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کا یہ کہنا ہے کہ یہ کسی تیسری دنیا کے ایرپورٹ  پل اور سڑکیں نظر آتی ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے 500 ملین ڈالر مڈل ایسٹ کو آزادی اور ڈیمو کریسی میں ٹرانسفارم کرنے کے پروجیکٹ پر خرچ کیے تھے۔ اور یہ پروجیکٹ فیل ہو گیا تھا۔ جس کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے شام میں حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے پروجیکٹ پر باغیوں کو تربیت دینے پر 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اسی طرح بش انتظامیہ نے افغان اور عراق جنگوں پر تقریباً ایک ٹیریلین ڈالر خرچ کیے تھے۔ کانگرس نے  Blank Cheques انتظامیہ کو دے دئیے تھے۔ امریکہ آج 20 ٹیریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ اس طرح  بش اور اوبامہ انتظامیہ نے ایک ٹیریلین ڈالر صرف امریکہ کی  ناکامیوں میں انویسٹ کیے تھے۔
    صدر ٹرمپ کے داخلی پروجیکٹس پر کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ لیکن ہر طرف سے مزاحمت امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ڈیفنس بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن دنیا بھر میں مہم جوئیوں سے Retreat کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ تاہم اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بجٹ میں کمی کر دی ہے۔ امریکہ کے فارن ایڈ بجٹ بھی کم کر دیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اسٹاف میں بھی حیرت انگیز کمی کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو اقتدار میں 8 ماہ ہو گیے ہیں۔ لیکن اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ڈپٹی سیکرٹیری اور اسسٹنٹ سیکرٹیریوں کی ابھی تک تقرر یاں نہیں ہوئی ہیں۔ صدر ٹرمپ روس کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ اور روس کو امریکہ کا دشمن نہیں سمجھتے ہیں۔ کانگرس اور امریکی میڈیا میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ  صدر پو تن کی مذمت کرنے سے گریز کیوں کر رہے ہیں؟ ٹرمپ انتظامیہ کے امریکہ کے قدیم یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں بھی زیادہ گرمجوشی نہیں ہے۔ جبکہ مڈل ایسٹ کے حالات میں  کچھ بہتری نظر آ رہی ہے۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ کی مڈل ایسٹ کو مسلسل عدم استحکام کرنے کی پالیسی اب تبدیل ہو گئی ہے۔ مڈل ایسٹ میں ISIS کا زور ٹوٹا ہے۔ بعض حلقوں کی اب تشویش یہ ہے کہ ISIS ایران کے بڑھتے ہوۓ اثرو رسوخ کا مقابلہ کر سکتی تھی۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ اور صدر پو تن میں شام اور عراق سے ISIS کا مکمل خاتمہ کرنے پر اتفاق اور تعاون ہے۔ سعودی عرب اور قطر کے درمیان کشیدگی پر صدر ٹرمپ کا کردار منفرد اور مثالی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے بڑے پر زور طور پر سعودی عرب کی حمایت میں قطر سے دہشت گردوں کی حمایت ترک کرنے کا کہا تھا۔ پہلا تاثر یہ تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ حالانکہ قطر میں امریکہ کی سب سے بڑی نیول بیس تھی۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کرانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson قطر اور سعودی عرب گیے تھے۔ شاہ سلمان سے سعودی عرب میں اور امیر قطر سے دوہا میں ملاقات  کی تھی۔ لیکن انہیں دونوں ملکوں میں مصالحت کرانے میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ پھر مڈل ایسٹ کے خصوصی سفیر بھی قطر اور سعودی عرب گیے تھے۔ اور دونوں ملکوں کے رہنماؤں سے ایک دوسرے کے بارے میں شکایتیں سن کر واپس آ گیے تھے۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ خاموش  ہو گئی تھی۔ اور سعودی عرب اور قطر کو اپنے اختلافات خود حل کرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ سعودی عرب اور قطر قبائلی معاشرے ہیں۔ قبائل آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ اور پھر ساتھ بیٹھ کر ایک ہی تھا لی میں کھانا کھانے لگتے ہیں۔ قطر کے ایک معزز قبائلی شیخ نے شاہ سلمان سے ان کے محل میں ملاقات کی ہے۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرمی کی شدت کچھ کم ہوئی ہے۔ شاہ سلمان نے```````````` قطر کے عازمین حج کے لئے سرحد کھولنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ سلمان نے اپنے خرچہ پر خصوصی سعودی طیارہ قطر سے عازمین حج کو مکہ لانے کے لئے بھیجا ہے۔ ہمسایہ ملکوں کے مابین تنازعہ میں غیر ملکی مداخلت دونوں ملکوں کو ہتھیاروں کے ساتھ آمنے سامنے کھڑا کر دیتی ہیں۔ اگر امریکہ سرگرمی کے ساتھ سعودی اور قطر کے درمیان تنازعہ میں ایک پارٹی بن جاتا اور سعودی عرب کی پشت پنا ہی کرنے لگتا تو حالات اور زیادہ بگڑ جاتے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بڑے دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے اور سعودی عرب اور قطر کے تنازعہ سے امریکہ کو دور رکھا ہے۔
    ٹرمپ انتظامیہ میں خارجہ پالیسی کے اقدامات سے بلاشبہ واشنگٹن اسٹبلشمنٹ بوکھلا ہٹ میں آ گیا ہے۔ بعض سینیٹر ز اور کانگرس مین نے صدر ٹرمپ کو mentally unstable  کہنا شروع کر دیا ہے اور اس کے ساتھ صدر ٹرمپ کو صدارت کے عہدہ کے لئے Unfit قرار دے کر انہیں صدر کے عہدہ سے ہٹانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے 18 ماہ صدارتی مہم ری پبلیکن پارٹی کی مدد کے بغیر خود چلائی تھی۔ اور پرائمریز میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ ایک Mentally unstable شخص ایسی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ صدر ٹرمپ کا باتیں کرنے ڈائیلاگ بولنے اور Tweet کرنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ یہ دیکھ کر واشنگٹن اسٹبلشمنٹ  ڈونالڈ ٹرمپ کو ایسے دیکھ رہا کہ جیسے Zoo  سے آۓ ہیں۔                              

No comments:

Post a Comment