Lust of Power And Greed of Wealth Is The Common Politics of The Elite
Class
The Army Has Always Protected The Corrupt Leaders By Overthrowing Them From Power, First Time Army Handed over Corrupt Leaders To The Supreme Court For Accountability
مجیب خان
سیاسی
حکومتوں میں سیاستدانوں کا کرپشن جب ان کی گردن تک پہنچ جاتا تھا۔ فوج پھر اقتدار
میں آ جاتی تھی اور انہیں احتساب سے بچا لیتی تھی۔ کر پٹ سیاستدان فوجی حکومت کے
ساتھ مل جاتے تھے۔ اس سے تعاون کرنے لگتے تھے۔ اس طرح فوج دس سال اقتدار کر لیتی
تھی۔ پھر لوگ جب فوجی حکومت سے Bored ہو جاتے تھے۔ سیاستدان پھر اقتدار
میں آ جاتے تھے۔ اور فوج کو بچا لیتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ان تمام سیاستدانوں
سے بالکل مختلف تھے۔ ایوب خان کی کابینہ میں وزیر کے عہدے سے لے کر وزیر اعظم تک
ذوالفقار علی بھٹو پر کرپشن یا منی لانڈرنگ کرنے کا ایک نقطہ کے برابر بھی یہ داغ
نہیں تھے۔ اس لئے پاکستان کے تمام کرپٹ، چکر باز، Bullshit لیڈر ایک پلیٹ
فارم پر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف متحد ہو گیے تھے۔ یہ سیاسی کرپشن کی تاریخ ہے۔
لیکن یہ پہلی مرتبہ ایک نئی مثال قائم ہوئی ہے کہ فوج نے کرپٹ وزیر اعظم کا تختہ الٹ کر اسے نہیں
بچایا ہے۔ زر داری کو بھی حکومت کرنے کا موقعہ دیا تھا۔ پاکستان انتہائی بدترین
حالات میں آ گیا تھا لوگ زر داری حکومت میں کرپشن اور انتظامی لاقانونیت سے پناہ
مانگ رہے تھے۔ فوج نے اپنے اداروں اور افسروں پر حملوں کو برداشت کیا تھا لیکن زر داری
حکومت کو اقتدار سے نہیں ہٹایا تھا۔ زر داری کو اقتدار سے ہٹانے کا مطلب پیپلز
پارٹی کو چوتھی بار اقتدار میں آنے کا موقعہ فراہم کرنا ہوتا۔ زر داری کو اقتدار
کی میعاد پوری کرنے کا موقعہ دینے سے پیپلز پارٹی کے لئے چار انتخاب تک ناکامی
مقدر بن گئی ہے۔ اسی طرح نواز شریف کو بھی برداشت کیا تھا۔ اور نواز شریف کو اپنی
حکومت کی میعاد پوری کرنے کا موقعہ دیا
تھا۔ لیکن کسی کے ذہن و گمان میں پا نا مہ نہیں ہو گا کہ وزیر اعظم نواز شریف جو
انتخاب میں دھاندلیاں کرانے کے الزامات میں بچ گیے تھے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے
کرپشن کے جو ثبوت پا نا مہ پیپر ز جاری کر کے دئیے تھے۔ اس میں وزیر اعظم کا بچنا
ناممکن نظر آ تا تھا۔ کیونکہ یہ پا نا مہ کی لا فرم نے جاری کیے تھے۔ اور اس میں
بعض دوسرے ملکوں کی سیاسی شخصیتوں کے نام بھی تھے۔ اس لئے پا نا مہ پیپر ز کے bona fide نہ
ہو نے پر کسی کو شبہ نہیں تھا۔ نواز شریف خاندان کے منی لا نڈرنگ اعداد و شمار کی ہیرا پھیری اور کرپشن کے بارے
میں پا نا مہ پیپر ز ایک مکمل Encyclopedia تھے۔ فوج اقتدار پر قبضہ کر کے جو
حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اقتدار پر قبضہ کے بغیر فوج نے حاصل کر لیا تھا۔ میاں
نواز شریف نا اہل ہو گیے ہیں۔ زر داری کی سیاست کا سورج اب کبھی طلوع نہیں ہو گا۔
الطاف حسین کی سیاسی اذانیں اب پاکستان میں کبھی نہیں سنائی دیں گی۔ جمہوریت کی
سلامتی قومی سلامتی بن گئی ہے۔ اور یہ بھی فوج کی ذمہ داریوں کا حصہ بن گئی ہیں۔ یہ
بڑی خوش آئند بات ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف یا حمایت میں فیصلہ دینے کے لئے
فوج کا ججوں پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ فوج نے اس عدالتی عمل سے اپنے ادارے کو دور
رکھا تھا۔ پاکستان میں جو یہ باتیں کر رہے ہیں کہ کسی بھی وزیر اعظم کو اپنی میعاد
پوری کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا ہے۔ اول تو یہ کہنا غلط ہے۔ وزیر اعظم کی میعاد
پوری نہ ہونے کی ایک سو ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن جمہوریت میں اہم بات یہ
دیکھی جاتی ہے کہ وزیر اعظم کی سیا سی پارٹی کو اقتدار کی میعاد پوری کرنے کا موقعہ
دیا گیا ہے یا نہیں۔ دنیا کے بے شمار پارلیمانی جمہوری نظام میں وزیر اعظم کو اپنی
میعاد پوری ہو نے سے پہلے اقتدار چھوڑنا پڑا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن
کی حکومت برقرار ہے۔ اور اسے اقتدار کی میعاد پوری کرنے سے کسی نے نہیں روکا ہے۔
تاہم غیر جمہوری بات یہ ہے کہ وزارت اعظمی وراثت بن گئی ہے اور نئے وزیر اعظم کا
انتخاب کرنے کے فیصلہ سے پارٹی کو دور رکھا ہے۔
آصف علی
زر داری اور میاں نواز شریف نے اپنے آپ کو کبھی احتساب کے لئے پیش نہیں کیا تھا۔
اور اپنے پہلے اور دوسرے دور اقتدار میں
انہوں نے جو کرپشن کیے تھے۔ ان کے داغ دھبوں کے ساتھ یہ تیسری مرتبہ پھر اقتدار
میں آ گیے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے ان پر کرپشن کے
الزام میں عدالتوں میں جو مقدمات تھے وہ 2007 میں صدر جارج بش کی سفارش پر ختم کر
دئیے تھے۔ اور انہیں معافی دے دی تھی۔ آصف زر داری اور نواز شریف نے معافی قبول کر
لی تھی۔ اور لوگوں نے انہیں کندھوں پر اٹھا لیا تھا۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ
انہیں جنرل کا فیصلہ قبول تھا لیکن عدالت کا فیصلہ انہیں قبول نہیں ہے۔ میاں نواز
شریف نے اپنے خلاف کرپشن کے کیس کو شاید سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ JIT کے
سامنے پیش ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے میڈیا کو بتایا کہ "میں نے اللہ کو
حاضر و ناظر کہہ کر سب سچ سچ بتا دیا ہے۔" یہ سن کر اللہ کو بھی ضرورغصہ آ یا
ہو گا کہ میرا نام لے کر اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرتے ہو۔ اور اس مرتبہ یہ اللہ کا
حکم ہے کہ میاں نواز شریف اپنے اقتدار کی میعاد پوری نہیں کر سکے۔
عدالت کے سامنے Fraud کے
کیس میں Forged Documents سے
الزامات غلط ثابت نہیں کیے جاتے ہیں۔ 1998 میں {صدر} بل کلنٹن نے Arkansas کی
یو ایس ایسٹرن ڈسٹرکٹ کورٹ میں اپنے ایک سکینڈل کیس میں Testimony کے
دوران غلط بیانی کی تھی۔ 1999 میں مانیکا لو سنکی سکینڈل کیس کے دوران جج کو پتہ
چلا کہ بل کلنٹن نے 1998 میں سکینڈل کیس میں جان بوجھ کر Testimony میں
جھوٹ بولا تھا۔ اور توہین عدالت کی تھی۔ خاتون فیڈرل جج نے انہیں 90,000 ڈالر جرمانہ کیا تھا۔ اور اس کیس کو Arkansas سپریم کورٹ کی Professional Conduct کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔ بل کلنٹن کے پاس Arkansas میں لا لائیسنس
تھا۔ Arkansas
سپریم کورٹ نے اپریل 2000 میں بل کلنٹن کا Arkansas Law License معطل کر دیا
تھا۔ جنوری 2001 میں بل کلنٹن 5 سال کے لئے لائیسنس معطل ہونے اور 25000 ڈالر
جرمانہ ادا کرنے پر آ مادہ ہو گیے تھے۔ حالانکہ بل کلنٹن ریاست Arkansas کے
اٹارنی جنرل رہے چکے تھے۔ اور دو مرتبہ ریاست کے گورنر بھی تھے۔ اور اس وقت امریکہ
کے صدر تھے۔ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہونے کی یہ مثال ہے۔ 8 سال صدر رہنے کے
بعد صدر کلنٹن جب وائٹ ہاؤس سے گیے تھے تو
تقریباً 12 ملین ڈالر کے مقروض تھے۔ اس میں وکیلوں کی فیس تھی۔ یہ قرضہ ادا کرنے
کے لئے انہیں خاصی محنت کرنا پڑی تھی۔ اور
اس وقت ان کے اثاثوں کی مالیت 10 سے 50 ملین کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
مریم
نواز شریف جو میاں نواز شریف کی صاحبزادی ہیں، JIT کے سامنے اپنی
صفائی میں سوالوں کے جواب دینے کے لئے اہم Documents کے ساتھ پیش ہوئی تھیں۔ جس میں ان
کے مطابق انہیں کمپنیوں کا Trustee
بتایا گیا تھا۔ اور ان کمپنیوں کے Trustee کی حیثیت سے لندن میں فلیٹ خریدے گیے
تھے۔ اور ان Documents کی
تاریخ فروری 2006 تھی۔ اور معلوم یہ ہوتا تھا Microsoft Calibri
پروگرام Font تھا۔ لیکن دنیا
واقعی سکڑ کر ایک ویلج بن گئی ہے کہ صرف چند گھنٹوں میں دنیا بھر میں یہ خبر پھیل
گئی تھی کہ پاکستان میں مریم نواز شریف نے جو Font استعمال کیا
ہے۔ اسے 2007 میں رائج کیا گیا تھا۔ اور Documents کے Forged ہونے کا شبہ ہو
گیا تھا۔ Wikipedia کے
مطابق Calibri Font 2004 میں
بنایا گیا تھا۔ اور اسے عوام کے لئے جنوری 2007 میں Windows Vista کے
ساتھ جاری کیا گیا تھا۔ مریم نواز شریف کی تصویر کے ساتھ یہ خبر دنیا بھر میں تقریباً
تمام بڑے اخبارات میں شائع ہو ئی تھی۔ اور مریم نواز شریف کے Forged Documents
تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش کرنے کو وزیر اعظم نواز شریف کا زوال بتایا تھا۔ عالمی
میڈیا یہ فیصلہ دے چکا تھا۔
اب JIT کی
رپورٹ کو سپریم کورٹ کے جج اگر نظر انداز کر دیتے اور نواز شریف اور ان کے خاندان
پر کرپشن کے الزامات ثابت نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ دیتے تو دنیا میں پاکستان کی
سپریم کورٹ کی ساکھ کے بارے میں کیا راۓ عامہ ہوتی؟ اور ججوں کے بارے میں عالمی اخبارات
کے ادارئیے کیا لکھتے؟ اگر کچھ جج چاہتے ہوں گے کہ نواز شریف، ان کے صاحبزادوں اور
صاحبزادی کی حمایت میں فیصلہ دیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ نواز شریف ان کے صاحبزادوں
اور صاحبزادی کے بیانات میں معمولی نہیں بلکہ زبردست تضاد ات تھے۔ ان کے بیانات
میں جھوٹ صاف نظر آ رہا تھا۔ Forged
Documents سے Fraud کو غلط ثابت
کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنا بھی ایک Art ہوتا ہے۔ لیکن
نواز شریف صاحبزادے صاحبزادی سب جھوٹ میں ایک دوسرے سے Collaborate کر
رہے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپنے خلاف قتل کے کیس میں خود بھی
دلائل دئیے تھے۔ اور اپنا کیس بڑے ٹھوس دلائل کے ساتھ ججوں کے سامنے پیش کیا تھا۔
جس سے سپریم کورٹ کے کچھ جج اتفاق بھی کرتے تھے۔ جنہیں پھر جنرل ضیا الحق کو بینچ
سے ہٹانا پڑا تھا۔ لیکن نواز شریف کو ایسی صورت کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ نواز شریف
اپنے خلاف کرپشن کے کیس میں ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کر سکے تھے۔ ججوں اور تحقیقاتی
ٹیم کے حکام نے ان سے جو سوال کیے تھے۔ وہ اپنے جواب سے انہیں convince
نہیں کر سکے تھے۔ بلکہ میاں نواز شریف نے ایسے جواب دئیے تھے جن سے ججوں اور
تحقیقاتی ٹیم کے حکام کے ذہنوں میں میاں نواز شریف کے کرپٹ ہونے کے شبہات یقینی ہو
گیے تھے۔
پاکستان
کی تاریخ یہ نہیں کہ کسی وزیر اعظم نے اپنے اقتدار کی میعاد پوری نہیں کی ہے ۔
بلکہ اصل تاریخ یہ ہے کہ کرپشن سیاستدانوں کی سیاست بن گیا ہے۔ جب تک وہ کرپشن
نہیں کریں گے اس وقت تک وہ اپنے آپ کو ایک اچھا سیاستدان نہیں سمجھیں گے۔ میاں
نواز شریف تین مرتبہ اقتدار میں آ ۓ تھے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی تین مرتبہ
اقتدار میں آ ئی تھی۔ لیکن کرپشن ان کی جمہوریت تھی۔ اس لئے انہوں نے اقتدار میں
آنے کے بعد سب سے پہلے کرپشن کے بارے میں کبھی “Zero Tolerance” پالیسی نہیں
اختیار کی ہے۔
No comments:
Post a Comment