Tuesday, August 8, 2017

The Rising Trend of Unilateral Sanctions Is The Sign of Weakness

The Rising Trend of Unilateral Sanctions Is The Sign of Weakness

Is This The Last Weapon To Win The World?

مجیب خان

Iran unable to get life-saving drugs due to sanctions

Iraq under ten years sanctions

Iraqi hospital under sanctions of the century

     دنیا کو اس وقت دو بڑے خطروں کا سامنا ہے۔ ایک شمالی کوریا کے ایٹمی میزائلوں کا خطرہ ہے اور دوسرا امریکہ کا unilateral sanctions کا By hook or by crook  نفاذ ہے۔ جو کسی مہلک  ہتھیار سے کم نہیں ہیں۔ انسانیت کے لئے یہ دونوں خطرناک ہتھیار ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایٹمی میزائل استعمال ہونے سے لوگ اسی وقت ہلاک  ہو جائیں گے۔ جبکہ sanctions کا نفاذ ہونے سے لوگ سسک  کر مرنے لگتے ہیں۔ جیسے دنیا نے عراق میں sanctions کے خوفناک نتائج دیکھے ہیں۔ پانچ لاکھ معصوم عراقی بچے پیدائش کے ابتدائی چند دنوں میں ہلاک ہوگیے تھے۔ کیونکہ sanctions کی وجہ سے ہسپتالوں میں ادویات کی شدید قلت ہو گئی تھی۔ اور میڈیکل کی سہولتوں کا فقدان ہو گیا تھا۔ 10 سال تک sanctions لگا کر لوگوں کی سماجی زندگیاں تباہ کرنے کی بجاۓ میزائلوں کے استعمال سے عراق کا مسئلہ 10 دن میں حل ہو سکتا تھا۔ حالانکہ کے آخر میں امریکہ نے عراق کا مسئلہ ہتھیاروں کے استعمال ہی سے حل کیا تھا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد unilateral sanctions ایک مہلک سیاسی ہتھیار بن گیا ہے۔ جسے امریکہ نے تقریباً ایک درجن سے زیادہ ملکوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔ بلکہ بعض حالات میں امریکہ نے sanctions اور ہتھیار دونوں کا استعمال کیا ہے۔ جیسے عراق پر 10 سال تک sanctions لگائی گئی تھیں اور14 سال سے عراق میں جنگی ہتھیاروں کا استعمال ہو رہا ہے۔ اسی طرح شام میں حکومت کے خلاف صدر اوبامہ نے sanctions لگائی تھیں۔ لیکن حکومت کے مخالفین کو ہتھیاروں سے مسلح کرنے میں شام کے مسئلہ کا حل دیکھا تھا۔ 6 سال بعد امریکہ کی اس پالیسی کے یہ نتائج تھے کہ 3 لاکھ بے گناہ شامی ہلاک ہو گیے تھے۔ 2 ملین شامی بے گھر ہو گیے تھے۔ ہزاروں خاندان برباد ہو گیے تھے۔ اور شام کھنڈرات بن گیا۔ ایک خوبصورت ملک کو اس طرح تباہ کیا گیا ہے۔ لیکن جو اس کے ذمہ دار ہیں انہیں sanctions کون کرے گا؟
    2016 کے صدارتی انتخاب میں روس کی meddling پر کانگرس میں دونوں پارٹیوں ڈیمو کریٹس اور ری پبلیکن نے سختsanctions  کا قانون بھاری اکثریت سے منظور کیا ہے کہ صدر ٹرمپ بھی اسے ویٹو نہیں کر سکتے ہیں۔ اس قانون کے ذریعہ کانگرس نے صدر ٹرمپ کی روس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اپنے قبضہ میں کر لی ہے۔ اور صدر ٹرمپ کو روس کے خلاف کانگرس کی sanctions پر عملدرامد کرنے کا پابند کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے نا رضامندی سے اس قانون پر دستخط کیے ہیں۔ روس کے خلاف اس قانون پر دستخط کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے امریکہ اور روس کے تعلقات کو انتہائی خطرناک بتایا ہے۔ روس کے خلاف یہ امریکہ کی پہلی اور شاید آخری sanctions نہیں ہے۔ صدر اوبامہ نے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ یو کر ین کے مسئلہ پر روس کے خلاف علیحدہ sanctions لگائی تھیں۔ صدر پو تن نے Crimea کو روس میں شامل کر لیا ہے۔ سرد جنگ میں روس اور یو کر ین ایک ملک تھے۔ Crimea پچاس کی دہائی میں روس نے یو کر ین  کو دے دیا تھا۔ یو کر ین کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد صدر پو تن نے Crimea دوبارہ روس میں شامل کر لیا تھا۔ سوویت صدر برزنیف  یو کر ین میں پیدا ہوۓ تھے۔ اور 18 سال ( 1964-1982 )  سوویت یونین کے صدر تھے۔ یو کر ین میں روسیوں کی ایک بہت بڑی آبادی ہے۔ اسی طرح روس میں یو کرینین رہتے ہیں۔ دونوں ثقافتوں میں گہرے رشتے تھے جنہیں نیٹو کی سیاست نے ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ اور امریکہ اور یورپی طاقتوں کو روس کے خلاف محاذ بنانے کا موقعہ مل گیا ہے۔
    کانگرس نے روس کے خلاف sanctions کا جو قانون منظور کیا ہے اس میں ایران اور شمالی کوریا کو بھی شامل کیا ہے۔ ایران پر امریکہ کی یہ نئی sanctions ہیں۔ جبکہ کانگرس کی پرانی sanctions بدستور لگی ہوئی ہیں۔ ایران پر نئی sanctions اس کے میزائل تجربوں کا سبب بتایا ہے۔ اور شمالی کوریا کے خلاف sanctions کی وجہ بھی یہ ہی بتائی ہے۔ تاہم ایران پر جو sanctions 80 کی دہائی سے لگی ہوئی ہیں ان کا تعلق ایران کے ایٹمی پروگرام سے نہیں تھا۔ ایران کے نیو کلیر پروگرام کے مسئلہ پر صدر بش نے sanctions لگائی تھیں۔ اس کے علاوہ کانگرس نے بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف sanctions لگائی تھیں۔ یورپی یونین نے بھی ایران پر sanctions لگائی تھیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایران کے خلاف sanctions کی قرارداد منظور کی تھی۔ ایران کو ہر طرف سے sanctions میں گھیرا لیا گیا تھا۔ لیکن ایران نے جب اپنے نیو کلیر پروگرام پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔  اور اپنے ایٹمی پروگرام کی تمام سرگرمیاں معطل کر دی ہیں تو اصولی طور پرsanctions بھی ختم ہو جاتیں۔ لیکن صدر اوبامہ نے اس سمجھوتہ کے تحت کچھ ایگزیکٹو sanctions ختم کر دی تھیں۔ اور کچھ برقرار رکھی تھیں۔ لیکن کانگرس نے ایران پر اپنی sanctions برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بلکہ ایران پر شام اور یمن میں مداخلت کے الزام میں نئی sanctions لگانے کے لئے کہا تھا۔ سلامتی کونسل نے ایران کے خلاف sanctions ختم کر دی تھیں۔ ایران پر امریکہ کی sanctions کے سیاسی مقاصد ہیں اور یہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مفاد میں لگائی گئی ہیں اور انہیں برقرار رکھا جا رہا ہے۔ ایران کو بھی اپنا دفاع کرنا ہے۔ جس طرح سعودی عرب اور اسرائیل کو اپنے دفاع میں ہتھیاروں کو جمع کرنے کا حق ہے۔
    دنیا کے 180 ملکوں کو ایران سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ ملک ایران سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ ایران کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات ہمیشہ عوام کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ امریکہ کے مفادات میں عوام نہیں، کمپنیوں کارپوریشن اور ہتھیاروں کی تجارت کی اہمیت  ہے۔ صدارتی انتخاب میں meddling امریکہ کا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا کے 190 ملکوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن روس کی نام نہاد meddling کی وجہ سے دنیا میں tension بڑھ گئی ہے۔ جنگی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔  ہتھیاروں کو دنیا کی سیاست میں مرکزی رول دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے  صدارتی انتخاب میں اسرائیل نے بھی meddling کی ہے۔ برطانیہ نے بھی meddling کی ہے۔ روس کی meddling  کے ابھی تک کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آۓ ہیں۔ لیکن صدر پو تن کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ اور اس فیصلے کو دنیا سے بھی تسلیم کروایا جا رہا ہے۔ دنیا کے ہر شہری کی طرح صدر پو تن کی بھی یہ راۓ ہو سکتی تھی کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے لئے ایک بہتر صدر ہو سکتے ہیں۔ صدر پو تن کے خیال میں ڈونالڈ ٹرمپ America First, Trade, Immigration جیسے ایشو ز میں Hawkish ہیں۔ صدر پو تن کی سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن سے کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اور وہ ہلری کلنٹن کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں ہلری کلنٹن Wars of regime change  اور Long war of Terror میں زیادہ Hawkish تھیں۔ یہ صدر پو تن کی راۓ ہو سکتی تھی لیکن اسے صدارتی انتخاب میں meddling نہیں کہا جا سکتا ہے۔
    امریکہ نے دنیا میں جنگوں کو جس طرح پھیلایا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا کی ہر حکومت نے امریکہ کے 2016 کے صدارتی انتخاب میں خصوصی دلچسپی کے ذریعہ meddling کی ہے۔ صدر اوبامہ 2008 میں اپنی صدارتی مہم کے دوران فرانس اور جرمنی گیے تھے۔ اور وہاں جیسے انتخابی ریلی سے خطاب کیا تھا۔ جرمنی اور فرانس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سینیٹر اوبامہ کو سننے آۓ تھے۔ کیونکہ صدر اوبامہ اس وقت جنگوں کے خلاف تھے۔ دنیا کے عوام امریکی صدر سے امن کا پیغام اور عہد چاہتے تھے۔ فرانس اور جرمنی کے لوگ بارک اوبامہ کو امریکہ کا صدر دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن غیر ملکی حکومتوں یا لوگوں کی یہ خواہش امریکہ کے انتخاب میں meddling نہیں تھی۔ فرانس کے حالیہ صدارتی انتخاب میں بھی روس کی meddling کی خبریں امریکی میڈ یا میں آئی تھیں۔ لیکن فرانس کی حکومت کو اس کے کوئی واضح ثبوت نہیں ملے تھے۔ لہذا فرانس کی حکومت نے روس کی meddling کا chapter closed کر دیا۔ روس کے ساتھ فرانس کے تعلقات خطرناک ہونے سے بچ گیے۔ لیکن امریکہ میں meddling  سے جیسے Political earthquake آ گیا ہے۔ کانگرس اور انتظامیہ میں تناؤ کی صورت ہے۔ Meddling  کے مسئلہ پر کانگرس کا رول زیادہ سخت ہو گیا ہے۔ روس کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پالیسی کانگرس نے صدر ٹرمپ سے لے لی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ روس کے ساتھ جو بھی معاملات طے کرے گی اس میں آخری فیصلہ کانگرس کرے گی۔ امریکہ میں ہر سیاست کے پیچھے ایک سیاست ہوتی ہے۔       



Tehran: the end of sanctions brings hope for economic growth
                 

No comments:

Post a Comment