Sunday, August 13, 2017

The Rule of Law Is The Democracy

The Rule of Law Is The Democracy

Nawaz Sharif’s Jihad Against The Supreme Court

مجیب خان
"People refused to accept court decision against me"

Nawaz Sharif

     میاں نواز شریف نے ایک بڑا عرصہ لندن میں گزارا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ لندن میں رہ کر انہوں نے یہ نہیں سیکھا کہ برطانیہ میں پارلیمانی نظام کس طرح کام کرتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اور لیڈر کس طرح Behave کرتے ہیں۔ ادارے اداروں کا احترام کس طرح کرتے ہیں۔ اور سول سوسائٹی کس طرح بنتی ہے۔ برطانیہ میں بھی وزیر اعظم کو ذاتی بحران کا سامنا ہوا ہے۔ لیکن معاملات عدالت میں پہنچنے سے پہلے طے کر لئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی غلطی کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ وزیر اعظم استعفا دے دیتے ہیں۔ معاملات کا پنڈ رہ با کس نہیں کھلتا ہے۔ ذاتی معاملات قومی بحران نہیں بنتے ہیں۔ برطانوی عوام نے وزیر اعظم ٹونی بلیر کو تین مرتبہ بھاری اکثریت سے منتخب کیا تھا۔ ٹونی بلیر نے کوئی کرپشن نہیں کیا تھا۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں صرف جھوٹ بولا تھا۔ پارلیمنٹ میں غلط بیانی کی تھی۔ امریکہ کے ساتھ انٹیلی جینس کی غلط رپورٹوں پر عراق کے خلاف فوجی کاروائی میں حصہ لیا تھا۔ صرف ان الزامات پر ان کی پارٹی نے انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا تھا۔ ٹونی بلیر نے بڑی کوشش کی تھی کہ وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوۓ تھے۔ دو سال نکال لئے تھے اور تین سال باقی رہے گیے تھے۔ لیکن پارٹی انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کے لئے متحد ہو گئی تھی۔ اور اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ آخر کار ٹونی بلیر کو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ پارلیمنٹ اور عوام سے صرف عراق کے بارے میں جھوٹ بولنے پر ان کا سیاسی کیریر Tarnish ہو گیا تھا۔ یہ سول سوسائٹی ہے۔ اور اس کے سول لیڈر ہیں۔ جو اپنے لیڈر کا پہلے خود احتساب کرتے ہیں۔ اور پارٹی کی سیاست روشن رکھتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کے جھوٹ بولنے پر خود احتساب کیا تھا۔ جمہوریت کے تقاضے پارٹی کے اصول ہوتے ہیں۔ ہم برطانیہ کی کالونی تھے۔ برطانیہ نے ہمیں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر دئیے تھے۔ بیورو کریسی کا ادارہ دیا تھا۔ فوج کا ادارہ دیا تھا۔ سیاسی لیڈروں نے ان اداروں میں Fit ہونا سیکھ لیا تھا۔ لیکن جمہوری اور عدلیہ کے اداروں میں Fit ہونا ان لیڈروں کے لئے ہمیشہ مشکل ثابت ہوا ہے۔ میاں نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جس طرح Behave کر رہے ہیں وہ سول سوسائٹی میں قانون کی با لا دستی اور جمہوریت میں احتساب کے اصولوں کے بالکل منافی ہے۔ احتساب کے بغیر جمہوریت آمریت سے زیادہ بدتر ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف عوام سے کہتے ہیں کہ " ایک عدالت نے اپنا فیصلہ دیا ہے۔ اور اب یہ عدالت پاکستان کے عوام کی عدالت ایک فیصلہ دے گی۔" اور نواز شریف پھر اجتماع سے پوچھتے ہیں کہ "انہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول ہے۔" اجتماع کا جواب تھا "نہیں"۔ یہ پاکستان کے لیڈر ہیں جو قانون کی با لا دستی کے دعوی کرتے ہیں لیکن عوام کو عدالتوں کے فیصلہ قبول نہ کرنے کا درس دیتے ہیں۔ میاں صاحب دنیا کے کن جمہوری ملکوں میں عدالتوں کے بغیر جمہوریت ہے؟
    پاکستان میں Facts Straight رکھنے کی کسی کو عادت نہیں ہے۔ سیاسی تاریخ کا کوئی مطالعہ نہیں کرتا ہے۔ شوشوں سے لوگوں کو گمراہ کرنا سب کی عادت بن گئی ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھ دوسروں نے بھی یہ کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم نے اقتدار کی میعاد کبھی پوری نہیں کی ہے۔ یہ Nonsense ہے۔ یہ فوج اور بیورو کریسی نہیں یہ میاں نواز شریف تھے جنہوں نے 90 کی دہائی میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو اقتدار کی میعاد پوری نہیں کرنے دی تھی۔ اور ان کی حکومت کے خلاف سازش کی تھی۔ مرحوم جنرل حمید گل اور اسامہ بن لادن کے ساتھ مل کر وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ وزیر اعظم رضا گیلانی کو کس نے اپنی حکومت کی میعاد پوری نہیں کرنے دی تھی؟ انہیں آصف زر داری اور اعتزاز احسن نے حکومت سے برطرف کرایا تھا۔ اعتزاز احسن وزیر اعظم گیلانی کے وکیل تھے۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم گیلانی کو سوئس حکومت سے آصف زر داری کے خلاف کرپشن کے کیس کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کے لئے خط لکھنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اعتزاز احسن نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آصف زر داری کیونکہ صدارت کی کرسی پر بیٹھے ہوۓ لہذا ان کے خلاف غیر ملکی حکومت سے تحقیقات کرانے کے لئے خط نہیں لکھا جا سکتا ہے۔ کورٹ کے اندر اعتزاز احسن کا یہ موقف تھا۔ لیکن کورٹ کی سیڑھیوں پر کیمروں کے سامنے اعتزاز احسن یہ کہتے تھے کہ خط لکھنے میں کوئی ہر ج نہیں تھا۔ اعتزاز احسن وزیر اعظم گیلانی کے وکیل تھے اور آصف علی زر داری اعتزاز احسن کے وکیل تھے۔ دونوں خط لکھا جاۓ یا نہیں لکھا جاۓ کی بحث کو طول دے رہے تھے۔ تاکہ سوئس قانون کے مطابق ایک مقررہ مدت کے بعد کیس دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا ہے۔ اور آصف زر داری کا کیس بھی اس قانون میں آ جاتا۔ وزیر اعظم گیلانی کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت میں ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ آصف علی زر داری نے اپنے خلاف کرپشن کے الزام میں دراصل یوسف رضا گیلانی کا صدقہ دیا تھا۔ گیلانی ملتان کے پیروں کے پیر تھے۔ گیلانی کو سات مرتبہ گلے لگا کر صدقہ دینے کے بعد چار سال ہو گیے ہیں پاکستان میں کسی کی زبان پر کرپشن کے بارے میں آصف علی زر داری کا نام نہیں ہے۔ کوئی آصف علی زر داری سے 60 ملین ڈالر کا حساب نہیں مانگ رہا ہے۔ یہ پاکستان میں وزیر اعظموں کے میعاد پوری نہ کرنے کی تاریخ ہے۔ جو وزیر اعظم اپنی میعاد پوری نہیں کر سکے ہیں انہیں خود اپنے آپ کو اس کا الزام دینا چاہیے۔
    اب جہاں تک میاں نواز شریف کے کیس کا تعلق ہے۔ اس میں بھی کسی کی کوئی سازش نہیں ہے۔ Offshore کمپنیوں کے بارے میں تمام ریکارڈ پا نا مہ  کی لا فرم Mossack Fonseca کی تحویل میں تھا۔ اور لا فرم کے ایک ملازم نے اسے Leak کیا تھا۔ اس میں میاں نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز اور صاحبزادی مریم نواز کے نام تھے۔ جو لندن میں عالیشان پراپرٹی خریدنے کے بارے میں تھے۔ اور یہ British Virgin Island کے ذریعہ خریدے گیے تھے۔ اور میاں نواز شریف کے بچوں کے نام تھے۔ جو اس وقت نابالغ تھے۔ پھر 2008 میں انہوں نے فلیٹ کو گروی رکھ کر 7 ملین پونڈ کا قرضہ سوئس بنک کے ذیلی Deutsche Bank سے لیا تھا۔ پا نا مہ فائلیں دیکھنے سے قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں ہونے کے ثبوت ملتے  تھے۔ پا نا مہ فائلیں صرف شریف خاندان کے بارے میں نہیں تھیں۔ اس میں Iceland کے وزیر اعظم کا نام بھی تھا۔ جنہوں نے پا نا مہ پیپرز میں اپنا نام دیکھ کر وزیر اعظم کے عہدے سے استعفا دے دیا تھا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن کا نام بھی تھا۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا۔ اور حکومت کو ٹیکس ادا کر دئیے تھے۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے پا نا مہ پیپر ز کے بارے میں تحقیقات کرانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ نواز شریف نے یہ نہیں سوچا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے ان کے خلا ف کرپشن کے جو کیس عدالتوں میں تھے اور انہیں واپس لے لیا تھا۔ ان کے سارے ثبوت پا نا مہ پیپر ز میں تھے۔
    اس لئے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ پر جو عالمی رد عمل تھا۔ وہ ایسا نہیں تھا جو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر ہوا تھا۔ دنیا بھر میں بڑے وکلا نے اس فیصلہ کی خامیاں بتائی تھیں۔ حالانکہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا۔ لیکن عالمی میڈیا میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو سراہا یا گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ادا ریہ میں ججوں کے فیصلہ کو درست فیصلہ کہا ہے۔ برطانیہ کے اخبار گارجین نے بھی پا نا مہ پیپرز کی روشنی میں عدالت کے فیصلہ کو غلط نہیں کہا ہے۔ شاید سپریم کورٹ کے ججوں نے اس کیس کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہو گا کہ فیصلہ میاں نواز شریف کے حق میں کیسے کیا جاۓ؟ لیکن انہیں ہر زاویہ سے تمام شواہد میاں نواز شریف کے خلاف نظر آتے تھے۔ مریم نواز شریف نے جس Font کو استعمال کیا تھا اور اس سے ٹائپ دستاویز کورٹ کو دی تھیں۔ جن پر 2004 کی تاریخ تھی۔ اس کے بارے میں چند گھنٹوں کے اندر Micro soft کمپنی کی طرف سے یہ تردید آئی تھی کہ اس Font کا 2004 میں کوئی وجود نہیں تھا۔ Micro soft نے 2007 میں پہلی بار اسے Window Vista میں استعمال کیا تھا۔ Micro soft کمپنی کی اس تردید کے بعد جج حضرات کس طرح Fraud Documents پر نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیتے۔ پاکستان کے وکلا خود یہ بتائیں۔ ان میں سے کل وہ جج بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ پاکستان تھا اگر امریکہ اور یورپ کے کسی ملک میں یہ ہوتا تو جج Fraud Documents بنانے والے کو جیل بھیج  دیتا۔ پاکستان میں اس کیس کے Facts کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ 70 سال میں پاکستان میں کسی وزیر اعظم نے کیونکہ کبھی اپنی میعاد پوری نہیں کی ہے۔ لہذا صرف اس ذہن سے میاں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کو دیکھا جا رہا ہے۔
     میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے بارے میں Documents پاکستان کے اداروں نے دریافت نہیں کیے تھے۔ یہ پا نامہ کی لا فرم میں محفوظ تھے اور وہاں سے Leak ہوۓ تھے۔ اور ان کے Authentic  نہ ہونے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا۔ نواز شریف عوام کے سامنے مظلوم بن رہے ہیں۔ اور ان سے اپنے بے گناہ ہونے کو ثابت کروا رہے ہیں۔ لیکن وہ عوام کے سامنے کبھی کھلی کتاب کی طرح نہیں آ سکتے ہیں اور عوام کو یہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے سب سے زیادہ دولت اس وقت بنائی تھی کہ جب وہ حکومت میں نہیں تھے۔ ان کی Income اربوں میں ہوتی تھی۔ اور جب بھی وہ حکومت میں آۓ ہیں ان کی Income گر کر ہزاروں میں آ جاتی تھی۔ اور وہ خود کو غریب محسوس کرنے لگتے تھے۔ اس لئے نواز شریف پاکستان کے غریبوں کا لیڈر ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ میاں نواز شریف لوگوں کو عدالتوں کے فیصلہ قبول نہیں کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ لیکن وہ اور ان کی پارٹی قانون کی بالا دستی کے نعرے لگاتی ہے۔ فوج اور عدالتیں جمہوریت کا حصہ ہیں اور یہ عوام کے ادارے ہیں۔ عوام ہمیشہ عوام رہیں گے لیکن سیاسی لیڈر آتے جاتے رہیں گے۔        

No comments:

Post a Comment