Trump’s Road Rage With Kim Jong-Un
America’s Inconsistent Policies From Administration To Administration
مجیب خان
President Trump and North Korea's Supreme Leader Kim Jong-Un |
آ
بناۓ کوریا کے بارے میں یہ امریکہ کی پالیسی ہے جو دو دہائیوں سے زیادہ شمالی کوریا کو اپنی سلامتی کے لئے ایٹمی
ہتھیاروں پر انحصار کرنے کی شہ دے رہی ہے۔ یہ امریکہ کے علم میں بھی ہو گا۔ شمالی
کوریا کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لئے کامیاب پالیسی یہ ہوتی کہ امریکہ
اپنی کوریا پالیسی تبدیل کرتا۔ اس خطہ میں کشیدگی کے حالات ختم کرتا۔ فوجی
سرگرمیاں بند کرتا۔ اور پھر دنیا دیکھتی کہ شمالی کوریا کی حکومت کس طرح behave
کرتی ہے۔ سرد جنگ کے دور میں امریکہ نے جاپان کو فوجی طاقت بننے کا مشورہ کبھی
نہیں دیا تھا۔ جاپان ایک بڑی اقتصادی طاقت تھا۔ جاپان کی اقتصادی طاقت سے اس خطہ
کے ملکوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یہ اس خطہ کا status quo بن
گیا تھا۔ لیکن پھر سرد جنگ ختم ہونے کے بعد دنیا بھر میں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں
میں اچانک جو تیزی آئی تھی۔ نیٹو کو سرد جنگ سے نکال کر دنیا میں گرم جنگوں کے لئے
ایک نیا عالمی رول دیا جا رہا تھا۔ اور اندیشہ یہ ہے کہ کسی موقعہ پر جاپان بھی
نیٹو میں شامل ہو گا؟ جاپان کا فوجی بجٹ بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپان کو نیول پاور بننے
کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ جنوبی کوریا میں میزائل ڈیفنس شیلڈ نصب کی جا رہی ہیں۔ یہ
تمام فوجی سرگرمیاں امریکہ کی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے علاوہ جنگیں بھی جاری ہیں۔
شمالی کوریا امریکہ کے ریڈار پر ہے۔ امریکہ کی فوجیں اس کی سرحدوں پر بیٹھی ہیں۔
50 کی دہائی میں امریکہ نے کوریا پر حملہ کیا تھا۔ دو ملین لوگ اس جنگ میں مار
دئیے تھے۔ یہ صورت حال ہے اور حقائق ہیں جس نے شمالی کوریا کو نیو کلیر میزائلوں سے
اپنے عوام کا دفاع کرنا دکھایا ہے۔ شام، عراق، لیبیا، یمن کی مثالیں بھی شمالی
کوریا کے سامنے ہیں۔ ان ملکوں کو دنیا کا کوئی قانون بھی نہیں بچا سکا ہے۔ جب بم
ان ملکوں پر گر رہے تھے۔ کسی نے انہیں روکا نہیں تھا۔ دنیا Big screen پر
یہ تماشا دیکھتی رہی۔ ملک تباہ ہو گیے۔ خاندان اجڑ گیے۔ لاکھوں بے گناہ لوگ مار
دئیے۔ کیوں؟ اور کس لئے؟ کسی نے پوچھا بھی نہیں۔ امریکہ میں ہر چار یا آٹھ سال بعد
انتظامیہ بدل جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ اکثر پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں۔ سابقہ
انتظامیہ میں جو سمجھوتے، معاہدے ہوتے ہیں۔ نئی انتظامیہ ان سے اختلاف کرنے لگتی
ہے۔ اہم ایشو ز پر اتحادیوں کے ساتھ جو ہم آہنگی ہوتی ہے۔ وہ بھی بدل جاتی ہے۔ جیسے
عراق میں مہلک ہتھیار اصل مسئلہ تھے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں صدا م حسین کو
اقتدار سے ہٹانے کا نہیں کہا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسپکٹروں نے عراق کو مہلک
ہتھیاروں سے صاف کر دیا تھا۔ اور سلامتی کونسل کا مشن پورا ہو گیا تھا۔ لیکن بش
انتظامیہ میں عراق میں حکومت کی تبدیلی امریکہ کی نئی پالیسی بن گئی تھی۔ امریکہ
کی کانگرس خود مختار ملکوں میں حکومت تبدیل کرنے کا قانون منظور کرنے لگی تھی۔ اور
انتظامیہ عالمی قانون پر اپنی کانگرس کے قانون کو فوقیت دینے لگی تھی۔ بش انتظامیہ
نے عراق پر Preemptive
حملہ کر کے صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹا دیا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صدا م
حسین نے شاید ایسی خلاف ورزیاں نہیں کی تھیں کہ جتنی بش انتظامیہ نے نہ صرف عراق
کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ اقوام متحدہ کے
خود مختار ملکوں کی آزادی بقا اور سلامتی کے قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔ اور عراق
پر Preemptive
حملہ بھی غیر قانونی تھا۔ 14 سال ہو گیے ہیں لیکن عراق ابھی تک ایک ملک دوبارہ
نہیں بن سکا ہے۔
صدر
کرنل قد افی نے اپنے ملک کو عراق بننے سے بچانے کے لئے اپنے تمام مہلک ہتھیار
امریکہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ جس کے بعد بش انتظامیہ نے لیبیا کے بارے میں امریکہ
کی پالیسی تبدیل کر دی تھی۔ قد ا فی حکومت کے خلاف کاروائی کرنے کی پالیسی ترک کر
دی تھی۔ اور لیبیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال ہو گیے تھے۔ لیبیا دوبارہ عالمی
برادری میں آ گیا تھا۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ میں بش انتظامیہ کی لیبیا پالیسی پھر
تبدیل ہو گئی تھی۔ اور اب لیبیا میں حکومت تبدیل کرنے کی اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی
بن گئی تھی۔ بش انتظامیہ میں صدر قد ا فی سے ان کے اقتدار میں رہنے کے بارے میں جو
وعدہ کیے گیے تھے۔ اور جو یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں۔ انہیں اوبامہ انتظامیہ نے Null and void کر
دیا تھا۔ اور لیبیا پر Preemptive
حملہ کر کے قد ا فی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ یہ قوموں کی آزادی اور خود مختاری کے
عالمی قوانین کی امریکہ نے ایک اور خلاف ورزی کی تھی۔ اوبامہ انتظامیہ کے اس فیصلے
کے نتیجہ میں ہزاروں اور لاکھوں لیبیا کے شہریوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی
ہیں۔ لیبیا کا امن اور استحکام تہس نہس کر دیا۔ اور اب 6 سال ہو گیے ہیں لیبیا
ابھی تک دوبارہ ایک پر امن ملک نہیں بن سکا ہے۔ شام میں حکومت تبدیل کرنے کا کام
دہشت گردوں کے ذریعے لیا گیا تھا۔ جو زیادہ تر وہابی اور سلافسسٹ تھے۔ جنہوں نے
شام کی ایک قدیم تاریخ کو تباہ و برباد کر دیا۔ اسلامی ملکوں سے اسلامی دہشت گردوں
کا خاتمہ کرنے کے لئے کہا جا رہا تھا۔ اور اوبامہ انتظامیہ نے شام میں ایک سیکولر
اور لبرل حکومت کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ اتحاد بنایا تھا۔ اور ان پر
اسد حکومت کے Rebels کا
لیبل لگا دیا تھا۔ سعودی عرب شام میں دہشت گردی کو Finance کر رہا تھا۔ سی آئی
اے اردن میں نام نہاد باغیوں کو تربیت دے رہی تھی اور اسلحہ فراہم کیا جا رہا تھا۔
ISIS کس
نے بنائی تھی۔ یہ 30 ہزار دہشت گردوں کا لشکر تھا۔ لیکن امریکہ کی کسی خفیہ ایجنسی
کو اس کا کوئی علم نہیں تھا؟ شام کی تباہی انسانیت کی تباہی تھی۔ اس میں امریکہ کے
رول کو دنیا شاید کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ میں شام کی یہ پالیسی تبدل
ہو گئی ہے۔ جس کے بعد صورت حال بہتر ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
ایران
کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ملٹری ایکشن بھی اوبامہ انتظامیہ کے ریڈار پر تھا۔ نتھن
یا ہو حکومت نے اس حملہ کی تیاری کر لی تھی۔ لیکن شام میں ناکامی دیکھ کر اوبامہ انتظامیہ کی ایران پالیسی بدل
گئی تھی۔ ادھر یورپی یونین، اقوام متحدہ، چین اور روس میں ایران کے ایٹمی پروگرام
کا مسئلہ پرامن سفارتی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق ہو گیا تھا۔ تاہم ایران
کے ساتھ مذاکرات میں اوبامہ انتظامیہ نے ایران میں انسانی حقوق، حکومت کے مخالفین
کے ساتھ بر تاؤ، پریس کی آزادی جیسے ایشو
ایران کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر مذاکرات میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن
روس چین اور یورپی یونین نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ اور ان ایشو ز کو علیحدہ
رکھا تھا۔ کیونکہ عراق میں مسئلہ صرف مہلک ہتھیاروں کا تھا۔ لیکن امریکہ نے عراق
کے داخلی سیاسی ایشو ز کو شامل کر کے اسے عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا مسئلہ بنا
دیا تھا۔ لہذا ایران کے داخلی ایشو ز کو داخلی رکھا گیا تھا۔ اس لئے ایران کے
ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ کو یہ سمجھوتہ قبول نہیں
ہے اور اس سمجھوتے کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ کانگرس میں بھی اس سمجھوتہ کی مخالفت ہے۔
کانگرس نے ایران کے خلاف نئی پابندیاں لگانے کا قانون منظور کیا ہے۔ کانگرس اور
انتظامیہ لابیوں اور مخصوص غیرملکی مفادات کے اثر و رسوخ میں کام کرتی ہیں۔ اس لئے
دنیا کے اتنے مسائل حل نہیں ہو سکے ہیں کہ جتنے نئے تنازعہ دنیا کے لئے پیدا کیے
گیے ہیں۔ حالیہ برسوں میں امریکہ کے فیصلوں میں inconsistency بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں امریکہ پر اعتماد کرنے کی ساکھ 25 فیصد رہے گئی
ہے۔ اس لئے چین اپنی ساکھ کو امریکہ کی ساکھ کے ساتھ منسلک کر کے شمالی کوریا کے مسئلے میں خراب کرنا نہیں چاہتا
ہے۔ کیونکہ امریکہ کے اس خطہ میں ہر انتظامیہ کے نئے مفادات اور مقاصد ہو تے ہیں۔
اور دنیا کے لئے یہ مسئلہ شمالی کوریا کے ایٹمی میزائلوں کے مسئلہ سے زیادہ خطرناک
ہے۔
ReplyDeleteExcellent post. I used to be checking constantly this blog and I'm inspired! Very useful info specifically the remaining part :) I handle such info much. I used to be looking for this particular info for a very long time. Thanks and good luck. aol.com mail login