Are Israeli Zionist Policies Nurturing Anti-Israelism And Neo-Nazism?
مجیب خان
ناز یوں کی شکست اور ان کا خاتمہ ہونے کو 70 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن Nazism آج بھی زندہ ہے۔ جن قوموں نے ناز یوں کو شکست دی تھی اور ان کا خاتمہ کیا تھا۔ آج ان ہی ملکوں میں Nazism کا ارتقا ہو رہا ہے۔ نازی آج بھی دنیا کی سیاست کا موضوع ہیں۔ 70 سال گزرنے کے باوجود لفظ نازی آج بھی خاصا مقبول ہے۔ یورپ اور امریکہ میں نوجوان Neo-Nazi Movement سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ کسی اسلامی ملک میں اسلامی نازی تحریک کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی لبرل اور قوم پرست نازی ہیں۔ حما س اور حزب اللہ جیسی اسرائیل مخالف تنظیموں کے Neo-Nazis سے کوئی رابطے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی سیاسی اتحاد ہے۔ اسلامی ملکوں میں Anti-Semitism نہیں ہے۔ لیکن Anti-Israelism ہے۔ اور اس کا سبب عربوں کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت ہے۔ عرب اسرائیل جنگیں اور فلسطین اسرائیل تنازعہ ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کا ظلم اور بربریت ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر کے نئی یہودی بستیاں آباد کرنا ہے۔ اسرائیل کی یہ پالیسیاں ہیں جنہوں نے ذہنوں میں ناز یوں کی تاریخ کو زندہ رکھا ہے۔ اسرائیل کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں نازی ا زم کو فروغ مل رہا ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ اگر 60s میں حل ہو جاتا تو اسرائیل کے لئے سیاسی حالات آج بہت مختلف ہوتے۔ لیکن اسرائیل نے جارحانہ پالیسیوں کو فروغ دینے میں اپنا مفاد دیکھا تھا۔ ان کے دور رس نتائج کے بارے میں کبھی غور نہیں کیا تھا۔ Neo Nazis کا فروغ ان نتائج میں سے ایک ہے۔
جبکہ
عرب اسلامی ملکوں میں Anti-Israelism
فلسطین اسرائیل تنازعہ کی وجہ ہے۔ لیکن اس صورت حال کا ازالہ کرنے کے بجاۓ اسرائیل
نے امریکہ اور یورپ میں اسے اپنی طاقت بڑھانے میں استحصال کیا تھا۔ تقریباً 68 سال
سے یہ اسرائیلی پالیسی تھی۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ میں ایشیا افریقہ اور لا طین
امریکہ کے غیر اسلامی ملکوں کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ جن کی ایک بڑی اکثریت
فلسطینیوں کے کا ز کی حمایت کرتی تھی۔ اسرائیل
نے اپنے آپ کو اقوام متحدہ کے Elite ملکوں میں محدود کر لیا تھا۔ جو
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مفاد کا دفاع کرتے تھے۔ اس لئے اسرائیل اقوام متحدہ
میں ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ کے
ملکوں میں Isolate ہو
گیا تھا۔ اور اب یہ کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ایک محاذ بنا
ہوا ہے۔ لیکن اس محاذ کے باوجود Elite ملکوں نے اقوام متحدہ میں اسرائیل
کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہونے دی تھی۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ابھی تک
اسرائیل سے عملدرامد نہیں کرایا جا سکا ہے۔ عربوں کے جن علاقوں پر اسرائیل نے 50
سال قبل قبضہ کیا تھا۔ وہ علاقہ ابھی تک اسرائیل کے قبضہ میں ہیں۔ اسرائیلی
حکومتوں نے مقامی عرب آبادی کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے وہ نازی جرمنی میں یہودیوں
کے ساتھ ناز یوں کے بر تاؤ کی یاد دلاتا ہے۔۔ اسرائیلی رہنماؤں نے اپنی حکومت کی
غلط پالیسیوں کو کبھی درست کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اور نہ ہی Anti-Israel
بڑھتے ہوۓ رجحانات کو روکنے کے لئے کوئی اقدام کیے تھے۔ Neo-Nazism کا
سد باب کرنے کا کام Elite
حکومتوں کے قانون ساز اداروں پر چھوڑ دیا تھا۔ اسرائیل نے Anti-Israelism اور
Neo-Nazism کے فروغ میں اپنی پالیسیوں کے رول کا کبھی اعتراف نہیں کیا تھا۔
عرب
دنیا میں اسرائیل کے خلاف لوگوں کو اکسانے کا الزام صد ام حسین کو دیا جاتا تھا۔
اور صد ام حسین کے اقتدار میں رہنے کو اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا
تھا۔ اس کے ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ جب تک
صد ام حسین عراق میں اقتدار میں ہیں۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل نہیں ہو
سکتا ہے۔ پھر بش انتظامیہ نے اپنی فوجیں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے
عراق بھیجی تھیں۔ صد ام حسین کا اقتدار ختم ہو گیا تھا۔ لیکن مڈل ایسٹ کے حالات
اور زیادہ خراب ہو گیے تھے۔ Anti-Israelism مڈل
ایسٹ کی ہر گلی میں دیکھا جا سکتا تھا۔ صد ام حسین کے بعد پھر لیبیا میں صدر کرنل
قدافی کو اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ
کہا جانے لگا۔ امریکہ فرانس اور برطانیہ نے فوجی آپریشن کر کے صدر قدافی کو بھی
اقتدار سے ہٹا دیا۔ اسرائیل کی 6 ملین کی آبادی کی سلامتی کے لئے 7ملین لیبیا کے
اور 38
ملین عراق کے لوگوں کی سلامتی کو خطرہ میں ڈال دیا تھا۔ لیکن صد ام حسین اور کرنل
قدافی کے جانے سے Anti-Israelism میں
کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ پھر اسرائیل کی سرحد پر شام کو عدم استحکام کرنے کی کھدائی
شروع ہو گئی تھی۔ دنیا بھر کے اسلامی دہشت
گردوں کو اس کھدائی میں حصہ لینے کے دعوت نامہ جا رہے تھے۔ لیکن اسرائیل نے صدر
اوبامہ کو شام کو عدم استحکام کرنے سے نہیں روکا تھا۔ نہ ہی اسرائیل کی سرحد کے
قریب اسلامی دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھا تھا۔ بلاشبہ شام کے عدم استحکام ہونے سے
لبنان کے 6 ملین اور ایران کے 80 ملین لوگوں کی سلامتی خطرے میں آ رہی تھی۔ امریکہ
کے لوگوں کی سلامتی کے لئے صدر بش 8 ہزار میل دور اپنی فوج لے کرعراق گیے تھے۔
لیکن ایران اپنے عوام کی سلامتی میں 800 میل پر شام کو عدم استحکام سے بچانے گیا
تھا۔ جہاں داعش کی پشت پنا ہی زیادہ نظر آ رہی تھی۔ لیکن اس کے خلاف صرف شور بہت
تھا۔ جبکہ شام میں عدم استحکام لبنان میں حزب اللہ کے دروازہ پر تھا۔ اور اب نتھن
یاہو حکومت واویلا کر رہی ہے کہ شام میں ایران کا فوجی اڈہ قائم ہو گیا ہے۔ کیا
عراق میں امریکہ کا فوجی اڈہ نہیں ہے؟ ایران کے لئے اس کی سرحد کے قریب امریکہ یا
اسرائیل کا فوجی اڈہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وزیر اعظم نتھن یاہو کے حکم پر
ٹرمپ انتظامیہ ایران کو بھی عدم استحکام کرنے پر کام کر رہی ہے؟
ہنری
کیسنگر امریکی خارجہ پالیسی کے فادر سمجھے جاتے ہیں۔ ہنری کیسنگر تقریباً دو
دہائیوں 60s اور
70s میں
امریکہ کی خارجہ پالیسی پر چھاۓ ہوۓ تھے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے اتحادیوں اور
امریکہ کے دشمنوں کا سیاسی نقشہ بھی ہنری کیسنگر نے تشکیل دیا تھا۔ ہنری کیسنگر کے
مڈل ایسٹ پیس پروسس کا چرچا بہت تھا۔ اس سلسلے میں ہنری کیسنگر عرب ملکوں کے دورے
کرتے تھے۔ عرب حکمرانوں سے مڈل ایسٹ پیس پروسس پر تبادلہ خیال کرتے تھے اور ان کے
خیالات اپنے بریف کیس میں بھر کر واپس آ جاتے تھے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں ہنری کیسنگر
کے پیس پروسس مشن کے Zero
نتائج ہوتے تھے۔ اسرائیلی عوام کو امن دیا تھا اور نہ ہی عرب عوام کو اسرائیلی فوجی
قبضہ سے نجات ملی تھی۔ ہنری کیسنگر کے پیس پروسس مشن پر امریکی عوام کے ٹیکس ڈالر
خرچ ہوتے تھے۔ انہیں بھی ہنری کیسنگر پیس مشن کے کوئی مثبت نتائج نظر نہیں آۓ تھے۔
Anti-Israelism کے
پھیلتے ہوۓ رجحانات کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف Neo-Nazism کے
فروغ کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ Anti-Israelism اور Neo-Nazism
اسرائیلی عوام کے لئے اصل خطرہ تھے۔ لیکن اسرائیلی حکومت کے لئے صد ام حسین، کرنل
قدافی، ایران، حما س اور حزب اللہ زیادہ بڑا خطرہ تھے۔ اسرائیلی حکومت نے چھوٹے
خطروں کو بہت بڑے خطرے بنا دئیے تھے۔ اور اسرائیلی عوام کے لئے جو بڑے خطرے تھے
اسرائیلی حکومت نے ان سے منہ موڑ لیا تھا۔ ہنری کیسنگر کے مڈل ایسٹ امن مشن صرف
مشن تھے۔ ہنری کیسنگر اب 90 سال کے ہو گیے اور مڈل ایسٹ کو جنگوں کے ذریعے امن دینے
کی کوشش کی جا رہی ہے۔۔ تاہم Zionist مضبوط ہو گیے ہیں۔ اور مڈل ایسٹ اب ان کے منصوبوں کے مطابق تبدیل
ہو رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment