He Is [Brat] Begging For War
مجیب خان
Kim Jong-Un Leader Of North Korea |
اقوام
متحدہ میں امریکہ کی سفیر Nikki
Haley نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان begging for war انہوں نے
سلامتی کونسل سے پینگ یونگ کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے اس پر سخت ترین
بندشیں لگانے پر زور دیا ہے۔ امریکی سفیر Nikki Haley نے کہا "امریکہ جنگ نہیں
چاہتا ہے۔ لیکن شمالی کوریا جب دھمکیاں دے رہا ہے۔ اور اس کے میزائلوں کا رخ
امریکہ کی طرف ہے۔ تو امریکہ اپنا دفاع کرے گا۔" امریکہ کے موقف میں یہ ایک
بڑی تبدیلی ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما begging for war اور امریکہ جنگ
سے بھاگ رہا ہے۔ 14 سال قبل اسی سلامتی کونسل میں صدر بش کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ
عراق کے خلاف begging for war اور عالمی برادری عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مسئلہ جنگ سے حل کرنے کی
مخالفت کر رہی تھی۔ صدر بش نے ستمبر 2002 میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں
جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ" اگر عالمی برادری عراق میں مہلک
ہتھیاروں کا خاتمہ نہیں کر سکتی ہے تو پھر امریکہ کرے گا۔" اس وقت صد ام حسین
ان کے وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں عراق کے سفیر یہ سچ بول رہے تھے کہ عراق میں
مہلک ہتھیاروں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اور انہیں بہت پہلے تباہ کر دیا گیا تھا۔
اور یہ دیکھنے کے لئے صدر صد ام حسین نے امریکی فوجی وفد کو عراق آنے کی پیشکش بھی
کی تھی۔ لیکن صدر بش نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ اور صرف جنگ کا راستہ
اختیار کیا تھا۔ فرانس جرمنی روس چین جنوبی افریقہ بھارت پاکستان انڈونیشیا ملیشیا
اور عالمی برادری کی ایک بہت بڑی تعداد عراق پر حملہ کے خلاف تھی۔ امریکہ کے عراق
پر حملہ کو ایک سیاہ دن کہا گیا تھا۔ اور اب شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان
عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود ایٹمی میزائلوں کے تجربے کر رہے ہیں۔ اور اس
فیصلے کو اپنے ملک کی قومی سلامتی میں اہم سمجھتے ہیں۔ شمالی کوریا کی قیادت کو یہ
خطرہ ہے کہ ایک دن امریکہ ان کے ملک پر حملہ کرے گا۔ جاپان اور جنوبی کوریا میں
امریکی فوجیں صرف اس انتظار میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ شمالی کوریا کی قیادت کا امریکہ سے خطرے کے بارے میں mind set ہے۔ اور صرف اس
خطرے کی وجہ سے شمالی کوریا اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی پالیسی سے کبھی دستبردار نہیں
ہو گا۔ شمالی کوریا کے لئے قومی سلامتی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اور عراق شام
اور لیبیا کی مثالوں نے شمالی کوریا کے موقف کو اور زیادہ پختہ کیا ہے۔ عراق شام
اور لیبیا کو کسی نے نہیں بچایا تھا۔ ان کے بھی دوست تھے۔ سلامتی کونسل بھی جارحیت
کے سامنے بالکل بے بس ہو گئی تھی۔ عالمی قانون کو ٹینک اور فوجی بوٹس روندتے چلے
گیے تھے۔ شمالی کوریا کی قیادت نے اس صورت حال سے سبق سیکھا ہے۔ اور شاید اس لئے بھی
شمالی کوریا اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے سوا کسی کو قابل بھرو سہ نہیں سمجھ رہا ہے۔ یہ
سوچ پیدا کرنے میں امریکہ کی پالیسیوں کا ایک بڑا رول ہے۔ Power پر اگر Wisdom کو
فوقیت دی جاتی تو آج شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا تنازعہ حل کرنے میں ان مشکلات
کا سامنا نہیں ہوتا اور امریکہ اسے خود حل
کر سکتا تھا۔ لیکن Wisdom پر Power کو
فوقیت دینے کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر تنازعہ کے حل میں ناکامی شکست بن رہی ہے۔
امریکہ کی 20 سال کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جاۓ تو یہ نظر آتا ہے کہ حالات
کو کشیدہ بنانے میں ہتھیاروں کی صنعت کا خاصا بڑا contribution ہے۔ غیر ضروری جنگیں ہتھیاروں کی صنعت کو زندہ
رکھنے کے لئے create کی
گئی ہیں۔ اور اس مقصد سے ایسے خطوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے کہ جہاں دولت کے کثیر
وسائل تھے۔ اور حکمرانوں کو آسانی سے manipulate کیا جا سکتا تھا۔ عرب خطہ پہلے ہی
عرب اسرائیل تنازعہ کی وجہ سے کشیدگی کے حالات کا قیدی بنا ہوا تھا۔ اور ان حالات
میں عربوں کی عربوں سے جنگ اور عربوں میں ایران کا خوف پیدا کر کے سعودی عرب،
کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں
کی شاپنگ مال بنا دیا ہے۔ یہ ملک اب برسوں اپنا تیل بیچیں گے اور ہتھیار خریدتے
رہیں گے۔ ایک طرف انہیں اندرونی کشیدگی سے خوفزدہ رکھا جاۓ گا اور دوسری طرف انہیں
عرب خطہ میں ایران کے اثر و رسوخ سے ہراس کیا جاۓ گا۔ حالانکہ ایران کی حکومت نے
متعدد بار اس سارے خطہ کو مہلک ہتھیاروں سے صاف خطہ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن
یہ امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ آج کا ایران 70 کے عشر ے سے بہت بہتر
ایران ہے کہ جب امریکہ نے شاہ ایران کو خلیج میں اپنا پولیس مین بنا کر عربوں کو
ایران کے ماتحت رکھا تھا۔ اور نہ صرف یہ بلکہ امریکہ نے ایران کو 4 نیو کلیر پاور
پلانٹ بھی فروخت کیے تھے۔ ایران کی اسلامی حکومت کا ایٹمی پروگرام دراصل شاہ ایران
کے دور کا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی نے نیو کلیر پاور
پلانٹ میں تالے ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن پھر ہتھیاروں کی صنعت کی لابی اور
ہتھیار فروخت کرنے والوں نے خلیج کے عرب حکمرانوں کے ساتھ مل کر ایران کے اسلامی
انقلاب کو سبوتاژ کرنے سازش کی اور صد ام حسین کو ایران پر حملہ کرنے کی شہ دی۔
سعودی عرب، کویت، بحرین متحدہ عرب امارات نے اس جنگ میں کھربوں ڈالر انویسٹ کیے
تھے۔ جس سے ہتھیار خرید کر صد ام حسین کی فوج کو دئیے جاتے تھے۔ یہ جنگ تقریباً 9 سال تک جاری رہی تھی۔ ایک ملین
ایرانی اور عراقی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ اس جنگ کے بعد ایرانی ملاؤں کو اپنی
سلامتی کے مفاد میں ایٹمی پاور پلانٹ کے تالے توڑنا پڑے تھے۔ ایٹمی پروگرام کو
فروغ دینے میں ایرانی ملاؤں نے ایران کی بقا دیکھی تھی۔ جن ملکوں کو ہر طرف سے خطروں
کا سامنا ہے۔ ان کی سلامتی اورsovereignty کی کوئی قانونی
ضمانت نہیں ہے۔ وہ ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتے جائیں گے۔ جس دن
عراق اور لیبیا نے ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عراق اور
لیبیا کی سلامتی اور sovereignty کے
خلاف سازش تیار ہو گئی تھی اور امریکہ اور نیٹو طاقتوں نے ان ملکوں پر حملہ کر کے
انہیں کھنڈرات بنا دیا۔
ایران کی اسلامی حکومت ایٹمی ہتھیار بنانے اور رکھنے کو مذہبی طور پر ممنوع
سمجھتی ہے۔ اس لئے ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے پر سمجھوتہ کیا ہے۔
اور اپنی تمام ایٹمی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ لیکن امریکی کانگرس نے اس سمجھوتے
کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اور سمجھوتے کے مطابق ایران پر سے اقتصادی بندشیں ختم کرنے
کے بجاۓ نئی بندشیں عائد کر دی ہیں۔ جبکہ ٹرمپ انتظامیہ اس سمجھوتے کو ختم کرنے کا
راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ اور ایران میں حکومت تبدیل کرنا بھی اس کے ایجنڈے میں شامل
ہے۔ امریکہ کی جب یہ سیاست بن گئی ہے کہ سابقہ انتظامیہ نے جو سمجھوتہ کیا تھا اس
کے برقرار رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ہے۔ نئی انتظامیہ انہیں ختم کر دیتی ہے یا
برقرار رکھتی ہے۔ جبکہ ایسے سمجھوتوں میں کانگرس کی اپنی ایک علیحدہ سیاست ہوتی
ہے۔ اگر کانگرس سمجھوتے کی حمایت میں نہیں ہوتی ہے تو یہ سمجھوتہ صرف انتظامیہ کے
آکسیجن پر ہوتے ہیں۔
ایسی
صورت میں شمالی کوریا کی قیادت اپنے ایٹمی پروگرام پر کیوں سمجھوتہ کرے گی؟ جبکہ
سمجھوتہ کو برقرار رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں ہو گی۔ ٹرمپ انتظامیہ سے شمالی کوریا
کی قیادت اگر ایٹمی پروگرام پر عملدرامد ختم کرنے کا سمجھوتہ کرتی ہے تو اس کی کیا
ضمانت ہو گی کہ نئی انتظامیہ بھی اسے جاری ر کھے گی۔ اور کانگرس کو بھی یہ سمجھوتہ
قبول ہو گا۔ شمالی کوریا پر سے بندشیں ختم ہوں گی یا برقرار رہیں گی؟ ہتھیاروں کی
صنعت کا مفاد اس میں ہے کہ شمالی کوریا سے خطرے کی فضا برقرار رہے اور اس خوف سے
جنوبی کوریا اور جاپان کھربوں ڈالر ہتھیاروں کو خریدنے پر خرچ کرتے رہیں۔ دنیا میں
امن اور انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہتھیاروں کی صنعتیں اور اس کی تجارت ہے۔
No comments:
Post a Comment