Friday, September 29, 2017

In Pakistan Islamist Terrorists Are Weakening, While In India Hindu Extremism Is Strengthening And Becoming Category Five

In Pakistan Islamist Terrorists Are Weakening, While In India Hindu Extremism Is Strengthening And Becoming Category Five

مجیب خان
Indian Foreign Minister Sushma Swaraj, addressing UN General Asembly"today India is a recognized IT superpower in the world, and Pakistan is recognized only as the pre-eminent export  factory for terror   

Hindu extremists are strengthening in India

We are in the 21st century and yet there is still no dignity for women as they have to go out in the open to defecate and they have to wait for darkness to fall." P.M Modi 15 Aug 2014
   اسے بھارت کی روایت سمجھا جاۓ یا اسے بھارتی رہنماؤں کی عادت کہا جاۓ کہ یہ ہر سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ سیشن میں آتے ہیں۔ اور پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور بھارت کے اندر دہلی سے آزادی حاصل کرنے کی جو شورش ہے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہیں۔ پاکستان کو خوب برا بھلا کہتے ہیں۔ دنیا کے سامنے پاکستان کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سال بھی اقوام متحدہ کے 72ویں سالانہ سیشن میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی کے Podium سے پاکستان کو برا بھلا کہنے اور الزامات دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ 21ویں صدی کا اقوام متحدہ کا یہ 16واں سیشن تھا۔ صرف 21ویں صدی کے آغاز سے 56ویں سیشن سے 2017 میں 72ویں سیشن تک ہر بھارتی حکومت کے وزیر اعظم یا وزیر خارجہ جنرل اسمبلی کے سیشن میں پاکستان کے خلاف الزامات سے بھرے تھیلے لاتے تھے۔ اور پھر Podium سے ان میں الزامات سے بھرا کچرا پاکستان پر پھینکتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً 20ویں صدی کے نصف میں جنرل اسمبلی کے 47ویں سیشن سے جاری ہے۔ اس وقت بھارتی رہنما تنازعہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے خلاف تقریر کرتے تھے۔ اور پاکستان کو جنوبی ایشیا کو بڑی طاقتوں کی سرد جنگ کا محاذ بنانے کا الزام بھی دیتے تھے۔ اس وقت سے ایشیا، افریقہ، لا طین امریکہ اور یورپ کے جو سفارت کار بھارتی رہنماؤں کو جنرل اسمبلی کے سالانہ سیشن میں سن رہے ہیں۔ جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھارتی رہنما جب پاکستان سے آغاز کرتے ہیں تو یہ سفارت کار کہتے ہوں گے “Here you go again” ہر سال پاکستان کے بارے میں صرف پرانی شکایتیں Recycle کی جاتی ہیں۔ جنرل اسمبلی کے موجودہ سیشن سے خطاب میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا دنیا پاکستان کو “Pre-eminent export factory for terror” سمجھتی ہے۔ لیکن دنیا بھارتی رہنماؤں سے جب یہ سنتی ہو گی تو ضرور یہ سوچتی ہو گی کہ بھارتی حکومت کیا کر رہی ہے؟ آخر بھارتی حکومت اپنے خطہ سے دہشت گردی ختم کرنے میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کرتی ہے؟ بھارت کے بعد پاکستان جنوبی ایشیا کا بڑا ملک ہے۔ اور یہ دونوں ملک اس خطہ کو بدل سکتے ہیں۔ اس خطہ کو جنگوں سے نکال سکتے ہیں۔ بھارتی رہنما شکایتیں بہت کرتے ہیں۔ لیکن ان کی شکایتوں کے جو اسباب ہیں۔ ان کا ازالہ کرنے میں مشکل فیصلے کرنے سے ڈرتے ہیں۔ حالانکہ مشکل فیصلوں میں ان کی شکایتوں کا علاج ہے۔ اب یہ اپنا علاج خود کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان کا علاج کروانا چاہتے ہیں۔ صرف شکایتوں کے اسباب پر دھرنا دئیے بھیٹے ہیں۔ اور ہر عالمی پلیٹ فارم کے Podium سے صرف شکایتیں کر تے رہتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر تنازعہ کو حل کرنے میں ہتھیاروں کو تیار دیکھا جا رہا ہے۔ اس صورت میں امن میں لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان جو نیو کلیر طاقتیں ہیں اگر اپنے تنازعوں کے ایک پرامن سیاسی حل میں پیش رفت سے دنیا میں لوگوں کا امن میں اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔
    بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا “We are completely engaged in fighting Poverty, Alas our neighbor Pakistan seems only engaged in fighting us.” وزیر خارجہ نے یہ بیان دے کر عالمی برادری کو گمراہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ سوراج جنرل اسمبلی میں جس وقت خطاب کر رہی تھیں۔ اس وقت امریکہ کے وزیر دفاع جیمس Mattis دہلی میں تھے۔ اور بھارت کو فا ئٹر طیارے اور ڈرون فروخت کرنے کا معاہدہ ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ بھارت کی نیوی کو جدید ہتھیاروں سے مسلح کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ جبکہ بھارت کے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے حالیہ واشنگٹن کے دورے میں صدر ٹرمپ سے ملاقات میں بھارت کو کھربوں ڈالر کا فوجی سامان فروخت کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس کے بعد وزیر اعظم مودی کے اسرائیل کے دورے میں اسرائیلی حکومت نے بھی بھارت کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب کیا بھارت ان ہتھیاروں کو غربت کے خلاف لڑائی میں استعمال کرے گا؟ یا بھارت کا ان ہتھیاروں سے اپنے ملک کی غربت پاکستان میں دھکیلنے کا منصوبہ ہے؟ پھر بھارت کی اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کو خریدنے میں دلچسپی سے چین کی بھی جنوبی ایشیا میں دلچسپی بڑھے گی۔ پھر چین بھارت کے ہتھیاروں پر اپنے امن کی پالیسیوں کا غلبہ ر کھے گا۔ اور اس صورت میں پاکستان بھی چین سے تعاون کرے گا۔ کیونکہ غربت کا خاتمہ امن کی پالیسیوں میں ہے۔ غریبوں کے ملک کو دنیا بھر کے ہتھیاروں کا warehouse بنانے سے غربت ختم نہیں کی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کو غربت میں چھوڑ کر صرف بھارت سے غربت ختم کرنے کا منصوبہ خود غرض مفاد پرستی ہو گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی اور مشرقی یورپ کے ملکوں نے جو اس جنگ میں بالکل تباہ ہو گیے تھے۔ تعمیر نو collective concept کے تحت کی تھی۔ اور پھر یورپ میں collective security کے تحت امن اور استحکام بھی رکھا تھا۔ اقتصادی تعمیر نو میں مغربی یورپ نے مشرقی کو پیچھے نہیں رکھا تھا۔ بھارت security چاہتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ collective security میں یقین نہیں رکھتا ہے۔ پاکستان تنہا one billion بھارتیوں اور 22 ملین افغانوں کو security فراہم نہیں کر سکتا ہے۔ اور وہ بھی ان حالات میں کہ جب بھارت اور افغانستان پاکستان کو security کے مسئلوں میں گھیرے ہوۓ ہیں۔
   بھارت کے داخلی سیاسی حالات انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسندی خطرناک بنتی جا رہی ہے۔ اور بھارت کی موجودہ حکومت میں ہندو انتہا پسندی ایک طاقتور فورس بن رہی ہے۔ مسلمانوں کو گاۓ ذبحہ کرنے پر ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو ذبحہ کر رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کے نظریات سے جو اختلاف کرتے ہیں انہیں دھمکیاں ملنے لگتی ہیں۔ اور ہراس کیا جاتا ہے۔ آزادی صحافت پر ہندو انتہا پسندوں نے حملے کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ لبرل اور سیکولر صحافیوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس ماہ تری پورہ میں ٹیلی ویژن نیوز رپورٹر کو قتل کیا ہے۔ اس واقعہ سے چند روز قبل کیرا لہ میں ٹیلی ویژن آفس پر حملہ ہوا تھا۔ گزشتہ ماہ Bengaluru میں ایک نامور خاتون صحافی  Gauri Lankesh کو ان کی رہائش گاہ کے باہر قتل کر دیا تھا۔ بھارت میں یہ داخلی دہشت گردی ہے۔ جو مودی حکومت میں ابھر کر بھارت کی سیاست میں داخل ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیر خارجہ سشما سوراج یہ تاثر دے رہی تھیں کہ جیسے بھارت میں بہت اچھا ہو رہا ہے۔ اور یہ پاکستان  ہے جہاں سب کچھ برا ہو رہا ہے۔ اس لئے بھارت کو دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سپر پاور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور پاکستان کو صرف دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کی فیکٹری کہا جاتا ہے۔ عالمی اسٹیج پر کھڑے ہو کر یہ صرف پاکستان کو بدنام کرنے کی گری ہوئی ذہنیت ہے۔ وزیر خارجہ کی ان باتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار نہ کرنے پر تکلیف پہنچی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی نئی افغان پالیسی میں کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت میں امریکہ کو تقریباً  30 بلین ڈالر کا خسارہ ہوا ہے اور بھارت کو اس تجارت میں منافع سے افغانستان میں خرچ کرنا چاہیے۔ اور افغانستان میں امن کے لئے رول ادا کرنا چاہیے۔ بھارت کو شاید یہ قبول نہیں ہے۔ افغانستان کے ریڈار پر بھارت پاکستان کو رکھنا چاہتا ہے۔
   وزیر خارجہ سشما سوراج نے بڑے فخر سے بھارت کو  دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سپر پاور تسلیم کرنے کا ذکر کیا ہے۔ لیکن 2010 میں اقوام متحدہ کی بھارت میں Toilet کے نظام پر رپورٹ کے بارے میں جس میں کہا گیا تھا کہ یہ تصور کرنا ایک المیہ ہے کہ بھارت میں جو اب خاصا دولت مند ملک ہو گیا ہے جس میں تقریباً  آبادی کے نصف لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں۔ لیکن تقریباً  نصف آبادی Toilet کے مرتبہ اور بنیادی ضرورت سے محروم ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 563.73 ملین موبائل فون ہیں۔ جو آبادی کے تقریباً 41 فیصد کو خوش رکھتے ہیں۔ لیکن تقریباً 366 ملین لوگوں کو یا آبادی کے صرف 31 فیصد کو 2008 میں sanitation کی بہتر رسائی حاصل تھی۔ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ 2010 میں آئی تھی۔ لیکن ان سات سالوں میں بھارت میں Toilet کا نظام ابھی تک sanitation کے عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ اس عرصہ میں بھارت کے دفاعی اخراجات  2010 میں 38.17 بلین سے 2016 میں 50.7 بلین ہو گیے ہیں۔ لیکن sanitation کے نظام میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ عورتوں کو Toilet جانے کے لئے رات کی تاریکی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں طلاقیں صرف اس وجہ سے ہو رہی ہیں کہ شوہر اپنی بیویوں کو Toilet فراہم نہیں کر سکتے تھے۔
   دنیا میں بھارت کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سپر پاور تسلیم کیا جاتا ہے جیسا کہ وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا ہے۔ لیکن بھارت کے sanitation نظام کو دنیا ابھی تک تیسری دنیا کا بدترین نظام سمجھتی ہے۔ بھارت کے خراب sanitation نظام کا بھی پاکستان کے ساتھ  تعلقات میں ایک رول ہے۔ بھارتی رہنماؤں کے ذہن  آلودہ  ہو گیے ہیں۔ اور وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگتے ہیں۔ 21ویں صدی کے پہلے 16 سال صرف پاکستان کو گرانے اور جھکانے میں گزر گیے ہیں۔ اور بھارت اس میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ Hegemony کا تصور اب ختم ہو گیا ہے۔ کیونکہ جب خطہ کے دو ملک ایٹمی طاقت بن جاتے ہیں تو پھر خطہ میں Balance of Power آ جاتا ہے۔ شاید اس لئے اسرائیل ایران کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے پاس 200 کے قریب نیو کلیر بم ہیں۔ مڈل ایسٹ کے تمام ملک امریکہ اور نیٹو کی مدد سے تباہ کر دئیے گیے ہیں۔ خطہ میں اسرائیل کی Hegemony کے روشن امکان ہیں؟ لیکن بھارت کی Hegemony کی تمام تدبیریں الٹی ہو رہی ہیں۔ اور بھارت کو چین اور پاکستان کی Hegemony اس کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ اس لئے بھی بھارت امریکہ کے قریب تر ہو رہا ہے۔ اور اپنے Sanitation نظام کو بہتر بنانے کے بجاۓ ہتھیاروں پر زیادہ خرچ کر رہا ہے۔         

Public Urinal in Mumbai

                       

No comments:

Post a Comment