“The
Iran Deal Is [Not] An Embarrassment To The United States”
President Trump, The Embarrassment To The United States Is, Sixty-Five Years Palestinians’ Are Living Under Brutal Israeli Military Occupation And There Is No Deal
President Trump, The Embarrassment To The United States Is, Sixty-Five Years Palestinians’ Are Living Under Brutal Israeli Military Occupation And There Is No Deal
مجیب خان
Israel's Prime Minister Netanyahu point to a redline on the graphic of a bomb used to represent Iran's nuclear program. UN General Assembly. Sept 27, 2012 |
This Israeli Occupation is the Embarrassment for civilize World |
Palestinian man stands in front of Israeli Defense Forces |
Israeli Defense Forces |
اقوام
متحدہ کے سالانہ اجلاس سے صدر ٹرمپ کے پہلے خطاب کو جو لوگ ایک زبردست خطاب کہہ
رہے ہیں۔ وہ امریکہ کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدر جارج بش کی “Axis of Evil”
تقریر کو ایک زبردست خطاب کہا تھا۔ لیکن اس خطاب کے امریکہ کے لئے تباہ کن نتائج
ہوۓ تھے۔ امریکہ کا عالمی امیج، امریکہ کی عالمی طاقت، امریکہ کے معاشی حالات پر بڑے
خراب اثرات ہوۓ تھے۔ افغانستان اور عراق جنگ میں امریکہ کو
ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ افغان اور عراق جنگ میں امریکہ کے 8 ہزار فوجی مارے
گیے تھے۔ جن میں بڑی اکثریت 20 کی عمروں کے امریکی فوجیوں کی تھی۔ جبکہ 30 ہزار
امریکی فوجی عمر بھر کے لئے مفلوج ہو گیے تھے۔ افغان اور عراق جنگ پر ایک ٹیریلین
ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ ان جنگوں کے نتیجہ میں امریکہ کا قرضہ ٹیریلین میں پہنچ گیا
تھا۔ لیکن جن لوگوں نے صدر بش کے اس خطاب پر سوگ کا اظہار کیا تھا وہ امریکہ کے
خیر خواہ تھے۔ جس نے صدر بش کو یہ تقریر لکھ کر دی تھی جس میں عراق ایران اور
شمالی کوریا کو “Axis of
Evil” کہا گیا تھا۔ اور ان ملکوں کی حکومتوں
کا خاتمہ کرنے کا کہا تھا۔ عراق میں حکومت تبدیل کر کے اس ملک کا جو حشر کیا گیا
ہے۔ تاریخ بھی اس فیصلہ کی ضرور مذمت کرے گی۔ لیکن امریکہ کی عظیم قدریں ان ملکوں
کے معیار پر آ گئی ہیں جن کی کوئی قدریں نہیں ہیں۔ اور اب صدر ٹرمپ نے بھی اقوام
متحدہ سے اپنے پہلے خطاب میں صدر بش کا لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ اور جس نے بھی
صدر ٹرمپ کی تقریر لکھی ہے اس نے صدر بش کا Axis of Evil کے Unfinish work کو
صدر ٹرمپ کی تقریر میں مکمل کرنے کا پیغام دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں
شمالی کوریا کے 25 ملین کی آبادی کے ملک کو بالکل ختم کرنے کا کہا ہے۔ یہ سن کر
شمالی کوریا کے لوگ ضرور دہل گیے ہوں گے۔ ان کی نگاہوں کے سامنے ہیرو شما اور ناگا
ساکی کے خوفناک مناظر آ گیے ہوں گے۔ جب امریکہ نے اپنے پہلے ایٹمی ہتھیاروں کا
تجربہ کیا تھا۔ ایسی دھمکی اگر مسٹر پو تن دیتے تو مغربی دارالحکومتوں میں طوفان آ
جاتا۔ لیکن یہ خصوصی طور پر نوٹ کیا جا رہا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے ہر امریکی
صدر دھمکیوں سے بھر پور مار دھاڑ کی باتیں کر رہا ہے۔ ڈپلومیسی کا مہذب زمانہ جیسے
اب ختم ہو گیا ہے۔
شمالی کوریا انتہائی کمزور اور چھوٹا ملک ہے۔ جس کے اطراف میں طاقتور دشمن
شمالی کوریا کا شکار کرنے کے انتظار میں بیٹھے ہوۓ ہیں۔ امریکہ اسرائیل کی سلامتی
کے خطروں کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہے لیکن شمالی کوریا کی سلامتی کے خطرے امریکہ کی
سمجھ میں نہیں آتے ہیں۔ اگر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی سلامتی کے خطروں کا ذرا بھی
احساس ہوتا تو صدر ٹرمپ اس طرح کی دھمکیاں نہیں دیتے اور 25 ملین کی آبادی کے ملک
کو بالکل ختم کرنے کی بات نہیں کرتے۔ شمالی کوریا کو امریکہ سے جن خطروں کا سامنا
ہے اس کی بات کرتے اور امریکہ کو شمالی کوریا سے جن خطروں کا سامنا ہے۔ اس سلسلے
میں کچھ give and take کی
تجویز دیتے۔ شمالی کوریا کی حکومت کو اس کی سرحدوں کے قریب امریکہ کی فوجوں میں
کمی کرنے اور دوسری فوجی سرگرمیاں منجمد کرنے کی پیشکش کرتے۔ اور پھر اس کے جواب
میں شمالی کوریا سے میزائلوں کے تجربے ختم کرنے کے لئے کہا جاتا۔ لیکن ٹرمپ
انتظامیہ نے امریکہ کی سلامتی سب سے پہلے اور شمالی کوریا سے کہا you go to hell ۔
25 ملین لوگوں کی اقتصادی زندگیاں miserable بنا کر اس تنازعہ کو حل کیا جاۓ
گا۔ دنیا میں کب لوگوں کی زندگیوں کو miserable نہیں بنایا ہے اور تنازعہ کو حل کر لیا گیا ہے۔
عراق، لیبیا، یمن، شام ان ملکوں کے لوگوں کے ساتھ Civilize World نے
حقیقت میں ظلم کیا ہے۔
Artificial مسئلوں کو بھر پور طاقت کے
استعمال سے حل کیا ہے۔ اور نتائج کا الزام دوسروں کو دیا ہے۔ تاریخ میں ایسی
انسانی تباہی کبھی نہیں ہوئی ہے۔
امریکی
میڈیا صدر ٹرمپ کے خلاف انتہائی Hostile ہے۔ اور صدر ٹرمپ اسے Fake News
کہتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ اور کانگرس ایران کے خلاف بہت Hostile ہے۔ اور اس Hostility میں
ایران کے بارے میں Distortion بہت
زیادہ ہے۔ اور حقائق سے بالکل لاعلمی ہے۔ ایران کے خلاف حقائق Distorted
کرنے کی مہم کے در پردہ اسرائیل اور سعودی عرب ہیں۔ صدر ٹرمپ کی America First
پالیسی میں Israel and Saudi
Arabia are First ۔ صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے 190
ملکوں کا بتایا کہ ایران انتہائی کر پٹ ہے۔ ایران مڈل ایسٹ میں مداخلت کر رہا ہے۔
ایران مڈل ایسٹ میں دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے۔ ایران یمن اور شام میں مداخلت کر
رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اور یہ ایران کے بارے میں Distortion ہے۔
اول تو آیت آللہ ؤں کی حکومت کرپٹ نہیں ہو سکتی ہے۔ ورنہ آیت اللہ ؤں کی ساکھ ایرانی عوام میں ختم ہو
جاۓ گی۔ دوم یہ کہ ایران 5 ہزار سال سے مڈل ایسٹ کا حصہ ہے۔ ایران کی قیادت اتنی
احمق نہیں ہے کہ وہ اپنے خطہ کو عدم استحکام کرے گی۔ اور ایران میں استحکام رہے
گا۔ یہ احمقانہ حرکتیں عرب بادشاہوں کی ہیں جو امریکہ کے اتحادی بن کر اپنے
ہمسائیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ایران نے عراق پر حملہ کر کے صد ام حسین کو اقتدار
سے نہیں ہٹایا تھا۔ اور عراق میں دہشت گردوں کے لئے راستہ نہیں بنایا تھا۔ ایران
نے لیبیا پر حملہ کر کے کرنل قدافی کو اقتدار سے نہیں ہٹایا تھا۔ قدافی حکومت جو
اوبامہ انتظامیہ فرانس اور برطانیہ کو یہ بتا رہی تھی کہ القا عدہ انہیں اقتدار سے
ہٹانے کی مہم کے در پردہ ہے۔ جو لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ اگر
اوبامہ انتظامیہ فرانس اور برطانیہ نے صدر قدافی کے دعووں کو کوئی اہمیت نہیں دی
تھی جو بعد میں بالکل درست ثابت ہوۓ تھے۔
تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اوبامہ انتظامیہ فرانس اور برطانیہ نے اسلامی ریاست کی
حمایت کی تھی۔ سعودی عرب اور اسرائیل بھی ان کے ساتھ شریک تھے۔ لیکن پھر یہ الزام
انہوں نے ایران کو دینا شروع کر دیا تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران اسلامی
دہشت گردوں کی بھی مدد کر رہے تھے اور امریکہ کو بھی کھربوں ڈالر اسلامی دہشت
گردوں سے لڑنے کے لئے دے رہے تھے۔ ایران نے
شام میں نام نہا د باغیوں کی شام کو کھنڈرات بنانے میں مدد نہیں کی تھی۔ جس
کا الزام ٹرمپ انتظامیہ اب ایران کو دے رہی ہے۔ یہ سازش ایران نے نہیں کی تھی کہ
ہو تیوں کو سعودی عرب پر حملہ کرنے کی شہ
دی تھی۔ یہ اوبامہ انتظامیہ تھی جس نے یمن
میں علی عبداللہ صالح حکومت کو 500 ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ صالح حکومت
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ اور یمن میں القا عدہ کے
خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد کر رہے تھے۔ لیکن عرب اسپرنگ کی لپیٹ میں صالح حکومت
بھی آ گئی تھی۔ صدر صالح کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ پھر اس دوران 500 ملین ڈالر کا
اسلحہ غائب ہو جانے کی خبر آئی تھی۔ یہ اسلحہ ہو تیوں کے پاس پہنچ گیا تھا۔ جنہیں
وہ سعود یوں کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔ اور Fake News یہ تھی کہ ایران ہو تیوں کو اسلحہ دے رہا تھا۔ اس
جنگ کو پلان اوبامہ انتظامیہ نے کیا تھا اور سعودی عرب کو یمن کے ساتھ ایک ایسی
جنگ میں پھنسا دیا ہے کہ اس سے نکلنے میں سعودی عرب کو ایک عرصہ لگ جاۓ گا۔ بالکل
اسی طرح بش انتظامیہ پاکستان کے لئے تین
طرف سے جنگ کو پلان کر کے گئی ہے۔ افغانستان سے بھی پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں۔
دہشت گردوں سے بھی پاکستان پر حملے کراۓ جا رہے ہیں۔ اور بھارت بھی پاکستان پر
حملے کر رہا ہے۔ جبکہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر Verbal حملے جاری ہیں
کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں اور پاکستان ان کا خاتمہ کرے۔
پاکستان کو ان حالات میں 13 سال ہو گیے ہیں۔ یمن کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ کے
حالات بھی اسی رخ میں جا رہے ہیں۔
شیعہ
سنی کا فساد بش انتظامیہ نے پھیلایا ہے۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مسئلہ تھا۔ جو
صدر بش نے عراق پر حملہ کر کے حل کیا تھا۔ لیکن پھر جمہوریت کو شیعاؤں کے لئے بنا
کر صدر بش نے سنیوں کو شیعاؤں سے لڑتے رہنے کی جنگ دے دی تھی۔ عراق میں شیعاؤں کو
جمہوریت دینے کے بارے میں سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی تھی۔ اور نہ ہی مذہبی
فرقہ پرستی کی بنیاد پر جمہوریت کا ایسا کوئی سیاسی نظریہ تھا۔ عراق میں شیعہ سنی
لڑائی کے نتیجے میں ISIS
ابھری ہے۔ یہ سب سنی تھے۔ سعودی عرب شیعاؤں کو سنیوں کے خلاف اکسانے کا الزام ایران
کو دے رہا ہے۔ لیکن ایران امریکہ اور سنی ملکوں کے ساتھ عراق اور شام میں ISIS کے
خلاف لڑ رہا تھا۔ اور صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ایران مڈل
ایسٹ میں دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے اور مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ یہ
صورت حال سے لاعلمی ہے۔ یا حقائق کا Distortion ہے۔ ایران کا مڈل ایسٹ کو عدم
استحکام کرنے میں کیا مفاد ہے؟
No comments:
Post a Comment