Tuesday, October 31, 2017

First Time In Seventy Years A Saudi King Has Seen The Middle Easts' Geopolitics From Moscow

First Time In Seventy Years A Saudi King Has Seen The Middle Easts' Geopolitics From Moscow

مجیب خان
Saudi Arabia's king Salman and Russian President Vladimir Putin in Kremlin, Moscow

Saudi Arabia's King Salman and Iraqi Prime Minister Haider al-Abadi in Riyadh, Saudi Arabia

Devestation in Raqqa
    سعودی عرب کی تاریخ میں شاہ سلمان پہلے سعودی بادشاہ ہیں جنہوں نے روس کا دورہ کیا ہے۔ اور سعودی عرب اور روس کے درمیان تعلقات کی ایک نئی تاریخ کا آغاز کیا ہے۔ روس کے ساتھ تعلقات سے سعودی شاہ کو ایک مختلف angle سے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا ہو گا۔ 70 سال سے ہر سعودی بادشاہ  مڈل ایسٹ صرف واشنگٹن اور لندن سے دیکھا کرتے تھے۔ اور پھر ان کے ذہن کی تمام کھڑکیاں بند ہو جاتی تھیں۔ اب پہلی مرتبہ کسی سعودی بادشاہ نے مڈل ایسٹ کو ماسکو سے دیکھا ہے۔ شاہ سلمان کے ذہن کی بند کھڑیاں بھی کھل گئی ہوں گی۔ اندھیروں سے نکل کر مڈل ایسٹ کو دیکھا ہے۔ پہلی مرتبہ مڈل ایسٹ میں انسانیت کے احوال دیکھے ہیں۔ شیعہ سنی انسانیت کے لباس میں نظر آۓ ہوں گے۔ انسانیت جسے خدا نے ایجاد کیا ہے۔ انسانیت جو خدا کی مخلوق ہے۔ اور خدا اس کا خالق ہے۔ لیکن اس خدا کی مخلوق کو مڈل ایسٹ میں فساد، انتشار، داخلی لڑائیوں اور بیرونی جنگوں، غربت اور افلاس میں گھیرا دیکھا ہے۔ مڈل ایسٹ کو خدا نے بے پناہ دولت دی ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں ہر طرف غربت کیوں ہے؟ یہ سوال بھی شاہ کے ذہن میں ماسکو میں آیا ہو گا۔ مڈل ایسٹ کو ماسکو سے اور واشنگٹن اور لندن سے دیکھنے میں یہ فرق تھا۔ جب ذہن کھلتا ہے تو حالات سدھارنے کے بارے میں نئے خیالات بھی ذہن میں آتے ہیں۔ ماسکو سے واپس آنے کے بعد اس کھلے ذہن سے شاہ سلمان نے عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی کا ریاض میں خیر مقدم کیا تھا۔ عراق میں 40 سال ایک سنی حکومت تھی۔ لیکن ایسے حالات کبھی نہیں تھے۔ شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ سب کی عربی زبان تھی اور عرب کلچر تھا۔ لیکن غیر ملکیوں کے حملہ نے عراق کو شیعہ سنی فرقہ پرستی کی لڑائی میں تقسیم کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسی لڑائی تھی کہ جس میں کسی کی جیت تھی اور نہ ہی کسی شکست تھی۔ پھر اس لڑائی کو یہ رنگ دے دیا کہ مڈل ایسٹ میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ ایران  عراق اور شام کا ایک اتحاد بن رہا ہے۔ اور یمن بھی اس اتحاد میں شامل ہو رہا ہے۔ سنیوں کے خلاف یہ شیعاؤں کا اتحاد ہے۔ مڈل ایسٹ میں لڑائیوں کے اندر نئی لڑائی پیدا کی جا رہی تھی۔
   یہ لڑائیاں مڈل ایسٹ میں ان قوموں کے مفاد میں تھیں جن کے ہتھیاروں کی صنعت کا انحصار مڈل ایسٹ کی جنگوں پر تھا۔ جیسے سرد جنگ کے دور میں مغربی ملکوں کی صنعتی خوشحالی کا انحصار مڈل ایسٹ کے تیل پر تھا۔ اس لئے مڈل ایسٹ کا استحکام اور امن اس وقت ان کے مفاد کی ترجیحات میں تھا۔ لیکن اب صورت حال اس کے بر خلاف ہے۔ مفادات اب بدل گیے ہیں اور ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں۔ سعود یوں کے ذہن کی کھڑکیاں کیونکہ بند تھیں اور وہ مڈل ایسٹ کو صرف واشنگٹن اور لندن سے دیکھنے کے عادی تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنا ذہن کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ ان سے جو کہا جاتا تھا وہ کرنے لگتے تھے۔ انہیں جو بتایا جاتا تھا اس پر یقین کرنے لگتے تھے۔ ان کے اس کردار سے مڈل ایسٹ میں خلا آ گیا تھا۔ اور ایران اس خلا کو پر کرنے آ گے آیا تھا۔ کیونکہ ایران سے جو کہا جاتا تھا وہ کرتا نہیں تھا۔ اور ایران کو جو بتایا جاتا تھا وہ اس پر یقین نہیں کرتا تھا۔ ایران نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی تقسیم بھی ایک بڑی لڑائی تھی۔ ایران مڈل ایسٹ کو اس فرقہ پرستی کے راستے پر لے جانا نہیں چاہتا تھا۔ جبکہ سعودی عرب نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ پیشتر عرب ملکوں میں شیعہ ایک بڑی تعداد میں ہیں۔ اور یہ عرب ہیں۔ ان کی زبان اور ثقافت عرب ہے۔ لیکن شیعہ سنی کی تقسیم سے عرب نژاد شیعاؤں کو ایران کے قریب ہونے کی شہ دی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں عرب ان کا خطرناک سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ اور مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی کی تقسیم قبول کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے دور رس  نتائج کے بارے میں سوچ نہیں رہے ہیں۔
   شام میں ناکامی سے خلیج کے حکم رانوں کو بڑی رسوائی کا سامنا ہوا ہے۔ مڈل ایسٹ میں ان کی پوزیشن بھی کمزور ہوئی ہے۔ پھر ایران کے ایٹمی سمجھوتہ کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں خلیج کے ملک امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تنہا رہے گیے ہیں۔ جبکہ عالمی برادری، یورپی یونین، جرمنی فرانس برطانیہ روس چین ایران کے ایٹمی سمجھوتہ کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اور یہ ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر سعودی عرب نے اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کیا ہے۔ اور شاہ سلمان ماسکو پہنچ گیے تھے۔ شاہ سلمان کے ماسکو کے دورے کے بعد مڈل ایسٹ میں یہ اچانک تبدیلی تھی کہ عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی سعودی عرب پہنچ گیے تھے۔ اور ریاض میں وزیر اعظم حیدر العبادی نے  شاہ سلمان سے ملاقات میں عراق اور سعودی عرب میں اقتصادی، سیکورٹی اور سفارتی تعلقات کے فروغ اور خطہ میں امن اور استحکام کے لئے دونوں ملکوں میں قریبی تعاون کا اعادہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم العبادی کی سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلاف اور غلط فہمیاں دور کرنے میں بھی کوشش ہو گی۔ جن کا مڈل ایسٹ میں ایران کے خلاف اپنا ایک ایجنڈا تھا۔ وہ شاہ سلمان اور وزیر اعظم العبادی ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعاون کی باتوں سے بوکھلا گیے تھے۔ اس ملاقات پر امریکہ کی طرف سے یہ بیان آیا تھا کہ عراق اور سعودی عرب مل کر مڈل ایسٹ میں ایران کے اثر و رسوخ کو روک سکتے ہیں۔ حالانکہ صرف 48 گھنٹے قبل ایران کا عراق شام اور یمن میں بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ کی باتیں ہو رہی تھیں۔ پھر مڈل ایسٹ میں ایران کو شیعہ سنی محاذ آرا ئی فروغ دینے کا الزام دیا جا رہا تھا۔ ایران اور عراق Axis کا مقصد بتایا جا رہا تھا۔ مڈل ایسٹ میں ایران کو کار نر کرنے کوششیں ہو رہی تھیں۔ اور اب عراق اور سعودی عرب سے مل کر ایران کا عراق شام اور یمن میں اثر و رسوخ ختم کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ مڈل ایسٹ میں ایک درجن سے زیادہ جنگوں میں سب بھٹک گۓ ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ان جنگوں سے کیسے نکلا جاۓ۔ کبھی ایسا نظر آتا ہے کہ ان جنگوں سے نکلنے کے لئے بھی نئی جنگ کا راستہ دیکھا جا رہا ہے۔
   اسلامی انقلاب ایران کے 38 سالوں میں عرب سنی حکومتیں یہ ثبوت نہیں دے سکتی ہیں کہ ایران نے ان کے ملکوں میں اسلامی انقلاب پھیلانے کی مداخلت کی تھی۔ عرب سنی ملکوں میں عرب شیعاؤں کو حکومتوں کے خلاف اکسایا تھا۔ جس طرح 1991 میں امریکہ نے عراقی شیعاؤں کو صد ام حسین کی سنی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھا۔ اس وقت کسی سنی عرب حکومت نے امریکہ کی اس شرارت کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ لیکن امریکہ کی عراق میں سنی حکومت کے خلاف شیعاؤں کی حمایت کرنے کے باوجود ایران نے امریکہ سے تعلقات بحال کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ لیکن یہ سنی عرب حکمران ہیں جنہوں نے صرف اسرائیل کی ایران سے دشمنی میں ایران سے تعلقات خراب کرنے کو اہمیت دی ہے۔ اس خطہ کے دو ملکوں کو صرف اسرائیل کے مفاد میں تباہ کیا گیا ہے۔ عربوں میں لڑائیوں کا beneficiary اسرائیل ہے۔ جو اس خطہ کی ایٹمی طاقت ہے۔ اور اس کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ عربوں کی امریکہ کو اپنی گود میں بیٹھا کر اس خطہ میں توازن طاقت رکھنے کی سوچ ایک غلط فہمی ہے۔
   اس وقت مڈل ایسٹ کا جو نقشہ ہے۔ یہ نقشہ راتوں رات نہیں بنا ہے۔ اس کی تیاری 90 کی دہائی سے ہو رہی تھی۔ اسلامی انقلاب ایران کے بعد  پہلی مرتبہ 1997  میں تہران میں اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔ ایران نے اس کانفرنس میں اسلامی اتحاد اور یکجہتی فروغ دینے کی کوشش کی تھی۔ صد ام حسین کو بھی تہران کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ عراق پر اس وقت انسانی تاریخ کی بد ترین بندشیں لگی ہوئی تھیں۔ عراق کو جیسے انسانیت سے خارج کر دیا گیا تھا۔ صدر کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ ان کے قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈ ی بر گر تھے۔ ایران اور عراق دونوں امریکہ کی good book میں نہیں تھے۔ اسلامی سربراہوں کی تہران کانفرنس امریکہ کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہی تھی۔ تہران کو اسلامی ملکوں کی قیادت دی جا رہی تھی۔ اور تہران عراق کو قوموں کی برادری میں لا رہا تھا۔ قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈ ی بر گر یہ دیکھ کر بڑے پریشان ہو رہے تھے۔ امریکہ کی good book میں جو اسلامی ملک تھے ان کے ذریعہ تہران کانفرنس میں اسلامی اتحاد اور یکجہتی کو ناکام بنانے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ میں قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈ ی بر گر نے کہا کہ وہ تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس کو قریب سے واچ کر رہے تھے۔ میں نے یہ پریس بریفنگ دیکھی تھی۔ اور میں تہران اسلامی سربراہ کانفرنس کے بارے میں ان کی پریشانی کبھی نہیں بھولوں گا۔
   تہران کی اسلامی سربراہ کانفرنس کے 4 سال بعد نائن الیون کا واقعہ ہوا تھا۔ اور یہ واقعہ اسلامی ملکوں کے لئے Hell بن گیا ہے۔ اسلامی ملکوں کا اسلامی ملکوں کے خلاف Crusade ہو رہا ہے۔ سنیوں کا شیعاؤں کے خلاف Crusade ہو رہا ہے۔ کردوں  کا عراق ترکی اور شام کے خلاف Crusade ہو رہا ہے۔ سرد جنگ کے دور میں مڈل ایسٹ کے تیل پر مغرب کی اقتصادی خوشحالی اور ترقی کا انحصار تھا۔ اس لئے مڈل ایسٹ میں امن اور استحکام مغرب کی سلامتی کے مفاد میں تھا۔ نائن الیون کے بعد سے مڈل ایسٹ کے تیل پر مغرب کا انحصار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اور مڈل ایسٹ میں انتشار عدم استحکام اور جنگوں پر مغرب کی ہتھیاروں کی صنعت کا انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اور یہ صورت حال ہتھیاروں کی صنعتوں ک مفاد میں ہے۔ دہشت گردوں کو بھی ہتھیار فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والوں کو بھی ہتھیار فروخت کیے جا رہے ہیں۔ منافع کی جنگوں میں انسانی ہلاکتوں پر آنسو نہیں بہاۓ جاتے ہیں۔ صرف افسوس کیا جاتا ہے۔ اور لوگوں سے کہا جاتا ہے یہ جنگ ہے اور جنگ میں لوگ مرتے ہیں۔                                                                                                                                                                                                                                              

No comments:

Post a Comment