Thursday, October 5, 2017

Middle East, The New Front Of The Great Game

 Middle East, The New Front Of The Great Game 

مجیب خان
 
Iraqi vice president warns: Independent Kurdistan will be a second Israel. Kurds waving Israeli flag   


Bernard-Henri Levy meets with President Massoud Barzani of Kurdistan. Sept 25 2017 

Bernard-Henri Levy, Syrian's Islamic rebel 

Bernard-Henri Levy with Islamist rebels in Libya
  
    اسرائیل نے سب سے پہلے عراقی کرد ستان میں ریفرینڈم کا خیر مقدم کیا ہے۔ اور ایک آزاد کرد ستان ریاست کی حمایت کی ہے۔ ہاں- یہ وہ ہی اسرائیل ہے جو فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے خلاف ہے۔ فلسطینیوں کو حق خود مختاری دینے کے خلاف ہے۔ ‌فلسطینیوں کو بنیادی انسانی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی حقوق دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ لیکن عراقی کرد ستان کی آزاد ریاست کے قیام کی اسرائیلی حکومت نے حمایت کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل عراق کے ٹکڑے کرنے کی حمایت میں ہے۔ جیسا کہ یہ ایشو عراق پر اینگلو امریکی فوجی قبضہ کے دوران زیر بحث تھا کہ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جاۓ۔ ایک عراقی حصہ میں شیعاؤں کی ریاست قائم کر دی جاۓ اور دوسرے عراقی حصہ میں سنیوں کی حکومت بن جاۓ۔ اور تیسرا حصہ ایک آزاد عراقی کرد ستان کو دے دیا جاۓ۔ لیکن یہ امریکی منصوبہ قابل عمل نہیں ہو سکا تھا۔ اور اسے سرد خانہ میں رکھ دیا گیا تھا۔ مڈل ایسٹ کے تمام ملکوں نے عراق کو تقسیم کرنے کی مخالفت کی تھی۔ سنی اور شیعاؤں کی عراق کی یکجہتی کے بارے میں صرف ایک راۓ تھی۔ تاہم اسرائیل نے آزاد کرد ستان منصوبہ کی حمایت جاری رکھی تھی۔ اور خفیہ طور پر عراقی کرد وں کے ساتھ تعلقات کی پینگیں بڑھانی شروع کر دی تھیں۔ اسرائیلی حکومت کے مطابق تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار عراقی یہودی کرد اسرائیل میں مقیم ہیں۔ جو صد ام حسین کے دور میں کرد وں کے خلاف کاروائی کے نتیجہ میں عراق چھوڑ کر اسرائیل چلے گیے تھے۔ 2005 میں امریکی فوجی قبضہ کے دوران عراق کو جو آئین دیا گیا تھا اس میں عراق کے شمال میں کرد ستان ریجن کی Autonomous حیثیت تسلیم کی گئی تھی۔ اور اس ریجن کا تمام انتظام کرد ستان حکومت کو دیا گیا تھا۔ تاہم آئین میں کرد ستان ریجن کو عراقی وفاق کے ماتحت رکھا گیا تھا۔ عراق پر امریکہ کے فوجی قبضہ میں اس آئین کے ذریعہ دراصل آزاد کرد ستان کے لئے سنگ بنیاد رکھ دی گئی تھی۔
    عراق میں خانہ جنگی جاری تھی۔ ہر طرف بم پھٹ رہے تھے۔ امن و استحکام عراقیوں کے لئے ایک خواب تھا۔ لیکن عراق کے شمال میں کرد ستان امن استحکام اور اقتصادی خوشحالی کا ایک جزیرہ تھا۔ تجارت زوروں پر تھی۔ کاروبار چمک رہے تھے۔ عراق کا تیل کرد ستان فروخت کر رہا تھا۔ اور اس کی آمدنی کرد ستان کی ترقی میں انویسٹ کی جا رہی تھی۔ کرد ستان کی Autonomous حکومت کے اسرائیل کے ساتھ de facto تعلقات تھے۔ عراقی کرد ستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت شروع ہو گئی تھی۔ اسرائیل  کرد ستان سے تیل بھی خرید رہا تھا۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی نے ایران میں تین نیو کلیر سائنسدانوں کو قتل کرنے کے آپریشن کے لئے کرد ستان کو استعمال کیا تھا۔ اور اب ایران کو عدم استحکام کرنے میں اسرائیل کے لئے کرد ستان ایک اہم اسٹرٹیجک سرحد ہے۔ اگر کرد ستان ایک آزاد ملک بن جاتا ہے تو یہاں سے اسرائیل کو وسط ایشیا میں اپنے تجارتی اثر و رسوخ کو فروغ دینے کا راستہ مل جاۓ گا۔ اسرائیل نے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفاد میں اس خطہ کا نقشہ بنانے میں عالمی طاقتوں کو خاصا manipulate کیا ہے۔ پہلے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹایا۔ پھر عراق ایک عرصہ سے خانہ جنگی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ اور اب عراق کے ٹکرے کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر عراقی عوام کو کیا ملا ہے؟ اور کیا اس خطہ کے ملکوں کی سلامتی کے خطرے ختم ہو گیے ہیں؟ یا سلامتی کے خطرے اور زیادہ بڑھ گیے ہیں؟ صد ام حسین نے تقریباً 9 سال تک ایران سے جنگ لڑی تھی۔ لیکن اس جنگ کو سنیوں کی شیعاؤں سے جنگ نہیں بنایا تھا۔ عراق کو عدم استحکام کرنے سے جو مسائل پیدا ہو ۓ تھے۔ انہیں حل کرنے کے بجاۓ دنیا کی احمق قیادتوں نے لیبیا کو عدم استحکام کر دیا اور دنیا کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ لیبیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ افریقہ میں کرنل قدافی کا جو اثر و رسوخ تھا۔ اس میں ایک خلا آ گیا تھا۔ اور اس خلا کو اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو  پر کرنے آ گے آۓ ہیں۔ وزیر اعظم  نتھن یا ہو نے افریقی ملکوں کے حال ہی میں دورے  کیے ہیں۔ اسرائیل کے لئے افریقہ سے تجارت کے نئے موقعہ پیدا ہوۓ ہیں۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے افریقی یونین میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ یاد رہے کہ کرنل قد افی افریقی یونین کے بانی تھے۔ صدر قدافی نے افریقی یونین کے رکن ملکوں میں اپنے پیٹرو ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کی تھی۔ لیکن اسرائیل کی نظر افریقی ملکوں کے قدرتی وسائل اور ڈائمنڈ پر ہے۔ کرنل قدافی نے افریقی ملکوں کے قدرتی وسائل کا کبھی استحصال نہیں کیا تھا۔
   ایران کے اثر و رسوخ کا اتنا زیادہ پراپگنڈہ ہو رہا ہے کہ عرب حکمران خوفزدہ ہو کر اسرائیل سے مل گیے ہیں۔ ایران سے دشمنی نے سعودی عرب اور اسرائیل کو متحد کر دیا ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ جو مشرق وسطی میں تمام تنازعوں کی ماں ہے اسے بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ اور سب کی توجہ دنیا کے نئے تنازعوں پر مرکوز ہو گئی ہے۔ 2003 سے 2016 کے دوران اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں 4 لاکھ نئی یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں۔ شام کی خانہ جنگی میں داعش کے اثر و رسوخ اور شام کے علاقوں میں اسلامی ریاست قائم ہونے پر اسرائیل کو اتنی تشویش نہیں تھی کہ جتنی شام میں داعش کے خلاف ایران کی فوجی موجودگی پر اسرائیل کو پریشانی ہو رہی تھی۔ روس کی شام میں آمد کے بعد  خانہ جنگی کی دنیا بدل گئی تھی۔ روس ایران اور حزب اللہ نے شام کو استحکام دیا ہے۔ روس کی شام میں موجودگی سے ترکی کے حالات میں استحکام آیا ہے۔ جہاں بموں کے دھماکے ہو رہے تھے۔ عراق کے حالات بہتر ہونے کی امید نظر آ رہی ہے۔ مشرق وسطی کے حالات میں روس ایک credible player ثابت ہو رہا ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے لیکن روس کے ساتھ ترکی کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ روس کے شام میں آنے سے پہلے جو یہاں کبھی ممکن نہیں تھا وہ اب ممکن ہو گیا ہے۔ اسرائیل کی 69 سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ کو اسرائیل کی سرزمین پر اپنا فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حالانکہ اسرائیل آج دفاعی طور پر زیادہ طاقتور ہے۔ یہ امریکی ملٹری بیس یورپی کمانڈ (EUCOM) کے تحت ہو گی۔ اور یہ اسرائیل میں امریکہ کی مستقل ملٹری بیس ہو گی۔ دنیا افغانستان میں “Great game” کی باتیں کر رہی ہے۔ لیکن اکیسویں صدی کا اصل “Great game” مڈل ایسٹ میں ہو گا؟
    1990 میں کویت کو عراقی فوجوں سے آزاد کرانے کی جس جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ اس جنگ نے مڈل ایسٹ کو اب اتنی ساری جنگوں میں گھیر لیا ہے۔ صد ام حسین کویت کو عراق کا حصہ سمجھتے تھے۔ جسے برطانیہ نے عراق سے جدا کر کے ایک نیا ملک بنا دیا تھا۔ صد ام حسین کویت کو عراق کے وفاقی نظام میں شامل کر کے اسے ایک “Autonomous Region” بنانا چاہتے تھے۔ لیکن عالمی برادری نے صد ام حسین کے ان عزائم کو مسترد کر دیا تھا۔ اور انہیں مشرق وسطی کے لئے انتہائی خطرناک قرار دیا تھا۔ اور اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری کس منہ سے عراقی کرد ستان کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دے گی۔ اس وقت امریکہ نے کرد ستان کی آزاد ریاست کے حق میں ریفرینڈم کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عراق کی یکجہتی کی حمایت کی ہے۔ یورپی یونین کا موقف بھی امریکہ کے موقف سے مختلف نہیں ہے۔ تاہم اسرائیلی لابی کرد ستان کی آزاد ریاست کو تسلیم کرانے کے لئے بھر پور لابی کر رہی ہے۔ عراقی کرد ستان کی آزادی کے مسئلہ پر ترکی اور ایران نے مورچے سنبھال لئے ہیں۔ ترکی میں تقریباً 12 ملین کرد ہیں۔ جبکہ ایران میں 6 ملین کرد ہیں۔ شام میں 3.5 ملین کرد ہیں۔ عراقی حکومت نے عراقی کرد ستان میں دو انٹرنیشنل ایرپورٹ سے پروازوں کی آمد اور روانگی پر پابندی لگا دی ہے۔ ترکی نے عراقی کرد ستان سے تیل کی پائپ لائن بند کرنے اور اس کی تمام تجارت روکنے کی دھمکی دی ہے۔ مڈل ایسٹ میں ایک جنگ ختم نہیں ہوتی ہے کہ دوسری جنگ کی ابتدا ہونے لگتی ہے۔ جب تک مڈل ایسٹ میں یہ صورت رہے گی عالمی امن میں انتشار رہے گا۔         

No comments:

Post a Comment