Sunday, October 15, 2017

Mr. President, When America Is Playing India’s Card Against Pakistan And India Is Playing Afghan's Card Against Pakistan, Then What Role Does Pakistan Have To Play?

Mr. President, When America Is Playing India’s Card Against Pakistan And India Is Playing Afghan's Card Against Pakistan, Then What Role Does Pakistan Have To Play? 

مجیب خان
Defense Secretary James Mattis and Prime Minister Modi 

Bombing and civilian deaths
 in Afghanistan
     سیکرٹیری دفاع James Mattis گزشتہ ماہ دہلی میں تھے۔ جہاں انہوں نے بھارتی وزیر دفاع اور وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کی افغان پالیسی اور افغانستان میں بھارت کے رول پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ بھارت نے اس خطہ کی صورت حال پر اپنے تحفظات پر بات کی تھی۔ بھارت کو افغانستان میں رول دینے کے جواب میں بھارت نے بھی امریکہ کو ایک رول دیا ہے کہ کسی طرح چین اور پاکستان کے درمیان CPAC معاہدہ پر عمل درامد کو روکا جاۓ۔ اور اس مقصد میں یہ گراؤنڈ دیا ہے کہ One Belt One Road شاہراہ متنازعہ علاقہ سے گزر کر جاتی ہے۔ سیکرٹیری دفاع اس بھارتی بریفنگ کے ساتھ واپس آۓ تھے۔ اور پھر سینٹ اور کانگرس کی آرمڈ سروسس کمیٹی کو سیکرٹیری دفاع James Mattis نے بتایا کہ "امریکہ One Belt One Road  کے اصولی طور پر خلاف ہے۔ کیونکہ ایک گلوبلائز ورلڈ میں پہلے ہی بہت Belts اور Roads ہیں۔ اور ایک ملک کو اپنا One Belt One Road نہیں بنانا چاہیے اور اس کے خلاف ہیں۔ جو پاکستان سے گزر رہی ہے۔ کیونکہ یہ ایک متنازعہ علاقہ سے گزرتی ہے۔" بھارت کے وزیر دفاع نے اس پروجیکٹ کو ختم کرانے کا assignment امریکہ کے سیکرٹیری دفاع کو دیا ہے۔ سیکرٹیری دفاع James Mattis کے بیان پر بھارت کا کوئی رد عمل نہیں تھا۔ پاکستان نے سیکرٹیری دفاع کے بیان سے اختلاف کیا تھا۔ جبکہ چین نے سیکرٹیری دفاع کے بیان کو مسترد کر دیا تھا۔ سینٹ اور کانگرس کی آرمڈ سروسس کمیٹی کے سامنے سیکرٹیری دفاع نے جس متنازعہ علاقہ کی بات کی ہے یہ کشمیر کا علاقہ ہے۔ جہاں کشمیری بھارت سے خود مختاری مانگ رہے ہیں۔ اور یہ بھارت میں رہنا نہیں چاہتے ہیں۔ کشمیر کا جو حصہ پاکستان میں ہے اور کشمیر کا کچھ حصہ چین میں ہے وہاں کشمیریوں کی خود مختاری کی ایسی کوئی تحریک نہیں ہے۔ کیونکہ CPAC کو بھارت اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا ہے۔ اس لئے بھارت نے سیکرٹیری دفاع کے بیان پر کوئی احتجاج نہیں کیا ہے۔ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کر لیا ہے۔ اور اس تنازعہ میں امریکہ کو ایک پارٹی بھی بنا لیا ہے۔ لیکن پاکستان نے جب بھی اقوام متحدہ میں کشمیر کے تنازعہ کی بات کی ہے یا امریکہ سے کشمیر کا تنازعہ حل کرانے میں مدد کرنے کا کہا ہے۔ بھارتی حکومت نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔ اور شملہ معاہدہ کا حوالہ دیا ہے کہ جس میں کشمیر کے تنازعہ کو دونوں ملکوں میں مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا کہا گیا تھا۔ اور اب بھارت نے امریکہ کی مدد حاصل کر لی ہے۔ اور امریکہ کو کشمیر کے تنازعہ کو صرف شاہراہ کی تعمیر تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس شاہراہ کے راستہ میں کشمیر بھی ایک تنازعہ ہے اور اس کی بات کرنا چاہیے۔
    سیکرٹیری دفاع James Mattis نے دنیا میں جس Belt اور Road کی بات کی ہے وہ ہتھیاروں سے بھرے فوجی ٹرکوں کے استعمال کے لئے تھے۔ ٹیریلین ڈالر کا اسلحہ یہاں سے گزرتا تھا۔  یہ لوگوں کی زندگیوں میں اقتصادی ترقی اور خوشحالی لانے کے لئے نہیں تھے۔ دنیا میں یہ Belt اور Road خود اس کی گواہی دیتے ہیں۔ چین جس One Belt One Road کی تعمیر پر ٹیریلین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ یہ دنیا کے لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کرنے میں انویسٹمینٹ ہے۔ پاکستان پچھلی نصف صدی سے امریکہ کے لئے اور امریکہ کے ساتھ صرف لڑائیاں لڑتا رہا ہے۔ بیسویں صدی کی آخری لڑائی جو افغانستان میں لڑی گئی تھی۔ یہ لڑائی اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں بھی پاکستان کا پیچھا کر رہی ہے۔ اور پاکستان کو افغان جنگ سے نجات نہیں مل رہی ہے۔ افغانستان میں بش انتظامیہ کے احمقانہ فیصلوں کی سزا پاکستان بھگت رہا ہے۔ امریکہ نے جنگ جیتنے کے بعد ہاری ہے۔ طالبان کا اقتدار ختم ہو گیا تھا۔ اور افغانوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ افغانستان کی ہزار سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ افغان سرزمین پر غیر ملکی فوجوں کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ یہ دیکھ کر بش انتظامیہ کے حوصلے اتنے زیادہ بلند ہو گیے تھے کہ عراق میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ عراق کے چکر میں بش انتظامیہ افغانستان میں کامیابی کو استحکام دینے میں لا پرواہ ہو گئی تھی۔ جس دن امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ اسی دن افغانستان میں امریکہ کی کامیابی شکست میں بدل گئی تھی۔ پاکستان ایک awkward پوزیشن میں آ گیا تھا۔ امریکہ عراق جنگ میں دھنس گیا تھا۔ اور افغانستان میں طالبان نے امریکہ کو گھیر لیا تھا۔ کچھ عناصر تھے جو امریکہ کو افغانستان میں پھنسا کر رکھنا چاہتے تھے۔ اور کچھ عناصر افغانستان کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ 2008 کے بعد پاکستان کو انتہائی خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان کی بقا اور سلامتی خطرے میں آ گئی تھی۔ امریکہ اور نیٹو سائیڈ لائن پر کھڑے تھے اور پاکستانی ریاست کو سو ویت یونین بننے کا انتظار کر رہے تھے۔ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی کے اداروں نے بڑی قربانیوں اور انتھک کوششوں کے بعد پاکستان کو ان خطرناک حالات سے نکالا تھا۔ لیکن یہ کوششیں ابھی جاری ہیں۔ تاہم اس صورت حال کے باوجود پاکستان نے افغانستان میں ایک سیاسی حل کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھی تھیں۔ طالبان کو سیاسی مذاکرات کے لئے آمادہ کر لیا تھا۔ لیکن پھر امریکہ نے ڈرون حملہ میں طالبان کے بعض رہنما مار دئیے تھے۔ اور پاکستان جو طالبان کو مذاکرات کے لئے تیار کر رہا تھا۔ ڈرون حملوں نے ان کوششوں کو سبوتاژ کر دیا تھا۔ کئی مرتبہ یہ ہو چکا تھا۔ پاکستان نے جب بھی طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی کوشش کی امریکہ اور نیٹو کا فوجی آپریشن ہو جاتا تھا۔ جس میں افغان شہری مار دئیے جاتے تھے۔ اور ماحول پھر طالبان کے حملوں کے لئے بن جاتا تھا۔ اس سے پاکستان کی پوزیشن خراب ہوئی تھی۔ 17 سال میں یہ تیسری امریکی انتظامیہ ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ امریکہ طالبان کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے یا طالبان کے مسئلہ کا سیاسی حل چاہتا ہے۔ بش انتظامیہ کی پالیسی یہ تھی کہ طالبان سے کوئی بات نہیں ہو گی اور ان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رہے گی۔ بش انتظامیہ میں یا تو چوٹی کے احمق تھے یا افغان اور پاکستان کے رہنما احمق تھے۔ امریکہ ویت نام میں کمیونسٹوں کا خاتمہ ہونے تک جنگ جاری نہیں رکھ سکا تھا۔ طالبان کا خاتمہ کرنے کا مطلب پشتون آبادی کا خاتمہ کرنا تھا۔ جو ممکن نہیں تھا۔ پھر اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی یہ تھی کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لاۓ لیکن طالبان کے خلاف ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے۔ اس کے ساتھ افغان سیکورٹی فورس سے بھی طالبان کے خلاف آپریشن کرنے کا کام لیا جا رہا تھا۔ افغانوں کی افغانوں سے جنگ ہو رہی تھی۔ اس صورت میں جب افغان حکومت کچھ نہیں کر سکتی تھی تو پاکستان کیا کر سکتا تھا۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ  افغانستان میں اپنی پالیسی لے کر آئی ہے۔ اور پاکستان کو یہ دھمکی دی ہے کہ "یہ پاکستان کے لئے ایک آخری موقعہ ہے"  پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کرے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں پانچ ہزار مزید فوجی بھیجے ہیں۔ اور افغانستان میں امریکی کمانڈروں کو آپریشن کے مکمل اختیارات دے دئیے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق صرف ستمبر میں افغانستان میں 751 بم گراۓ گیے ہیں۔ جن میں شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ اور جب بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں تو شہریوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ انتہا پسند ہو جاتے ہیں۔ اور پھر حکومت، سیکورٹی فورس اور غیرملکی فوجوں کے خلاف انتہا پسندی کرنے لگتے ہیں۔ 17 سال سے افغانستان میں یہ سلسلہ جاری ہے۔  اس صورت حال سے طالبان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ افغان حکومت، سیکورٹی فورس اور غیر ملکی فوجی کمانڈر اس صورت حال سے Frustrate ہو کر پاکستان کو الزام دینے لگتے ہیں۔
   امریکہ اور اس کے Allies جس طرح افغانستان میں 16 سال سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر امریکہ اور یہ Allies نازی جرمنی کے خلاف اس طرح لڑتے تو شاید نازیوں کو بھی کبھی شکست نہیں ہوتی۔ نازیوں کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اتحادیوں کا صرف ایک مشن تھا کہ نازیوں کو شکست دی جاۓ۔ امریکہ نے نازیوں کے ساتھ روس میں اسٹالن کے خلاف کاروائی کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ سارے اتحادیوں کا صرف ایک مشن تھا کہ نازیوں کو شکست دی جاۓ۔ لیکن افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں ایسا نہیں ہے۔ افغان جنگ میں امریکہ کے جو اتحادی ہیں ان سب کا ایجنڈا مختلف ہے۔ بلکہ خود امریکہ کا ایجنڈا بھی بدلتا رہا ہے۔ امریکہ نے افغان جنگ کو AFPAK بنا دیا تھا۔ اور اس جنگ کو پھر پاکستان میں پہنچا دیا تھا۔ پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا اور اسے فرنٹ لائن پر رکھا گیا تھا۔ لیکن یہ اتحادی پاکستان کو عدم استحکام کر رہے تھے۔  بھارت بھی امریکہ کا اتحادی بن گیا تھا۔ لیکن افغانستان میں بھارت کا مشن کچھ اور تھا۔ افغانستان کی سرزمین سے بھارت کا مشن پاکستان میں انتشار پھیلانا تھا۔ اور بھارت اپنے اس ایجنڈے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ کچھ اتحادی افغانستان میں نیٹو کی بری طرح شکست دیکھنا چاہتے تھے۔ تاکہ نیٹو کے پھر اس طرح ٹکڑے ہو جائیں جیسے افغانستان میں سو ویت یونین کی شکست کے بعد اس کے ٹکڑے ہو گیے تھے۔ امریکہ کے عرب اتحادی افغانستان کے ذریعہ وسط ایشیا کو عدم استحکام کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ بھی طالبان کا مکمل خاتمہ نہیں چاہتے تھے۔ خود امریکہ میں بعض افغانستان میں طالبان کی اسلامی انتہا پسندی کے اثرات چین کے صوبہ سنکیانگ میں پھیلتا دیکھنا چاہتے تھے۔ جہاں ایک بڑی مسلم آبادی تھی۔ افغان جنگ میں اتحادیوں کو صرف ایک ایجنڈے پر رکھنے کی ذمہ داری امریکہ کی تھی۔ بش انتظامیہ نے انتہائی لا پرواہی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا تھا۔ اور اس جنگ میں ہر اتحادی کو اپنا ایجنڈہ فروغ دینے کا موقعہ ملا تھا۔ اس لیے افغانستان میں سب اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو گیے ہیں لیکن ناکامی صرف یہ ہے کہ افغانستان کے 40 فیصد علاقہ پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ اور امریکی فوجی ابھی تک اپنے ایجنڈہ کو حاصل کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔                                                                                                                    

         

No comments:

Post a Comment