President Trump’s Message To The Nation Of Iran: We Hate You, You Hate Us
Has The Law Of Hate Justified The Preemptive War?
مجیب خان
President Trump's address on Iran Nuclear deal |
صدر
ٹرمپ کی نئی ایران پالیسی تقریر جس نے
لکھی ہے۔ اسے ایران کی تاریخ، ثقافت اور اسلامی حکومت کے بارے میں کوئی علم تھا۔
اور نہ ہی وہ مڈل ایسٹ کے بارے میں کچھ جانتا تھا۔ تقریر میں Factual Errors ہیں۔ صدر ٹرمپ کی نئی ایران پالیسی اور 15 سال قبل صدر بش کی عراق پالیسی
پر Axis of evil
تقریر میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ صدر بش کی تقریر میں عراق سے اور صدر ٹرمپ کی تقریر
میں ایران سے سخت نفرت کا اظہار بہت نمایاں تھا۔ جب ذہن میں نفرت بھری ہوتی ہے تو
زبان پر سچ کبھی نہیں آتا ہے۔ نفرت پھر Fabrication کو فروغ دیتی ہے۔
جیسا کہ یہ عراق کے ساتھ ہوا تھا۔ عراق کے مسئلہ پر تقریروں میں جھوٹ بولا جاتا
تھا اور غلط بیانی کی جاتی تھی۔ اصل حقائق توڑ موڑ کر بیان کیے جاتے تھے۔ صد ام
حسین سے صرف نفرت کی بنیاد پر جنگ کی فضا بنائی گئی تھی۔ اور پھر عراق پر Preemptive حملہ کیا گیا تھا۔ اور اب صدر ٹرمپ نے بھی ایران کے خلاف نفرت کا راستہ
اختیار کیا ہے۔ اور ایران کے بارے میں زبردست غلط بیانی کی ہے۔ اصل حقائق سے منہ موڑ لیا ہے۔ اور مڈل ایسٹ میں
اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا ہے۔ صد ام حسین کے بارے
میں یہ کہا گیا تھا کہ القا عدہ کے ساتھ
صد ام حسین کے رابطے تھے۔ اور اب ایران کے
بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ایران نے القا عدہ کے لوگوں کو تربیت دی تھی۔ اور پھر
یہ عراق میں امریکی فوج پر حملے کرتے تھے۔ 20 سال قبل مڈل ایسٹ، کینیا اور تنزانیہ
میں امریکی سفارت خانوں پر دہشت گردوں کے حملوں کو بھی ایران کے سر تھوپا ہے۔
حالانکہ اس وقت کلنٹن انتظامیہ نے اسامہ بن لادن اور القا عدہ کو ان حملوں کا ذمہ
دار ٹھہرایا تھا۔ اسی طرح 25 جون 1996 میں دھرن سعودی عرب میں Khobar Towers barrack میں
بم کے دھماکہ جس میں 19 امریکی فوجی ہلاک ہوۓ تھے۔ اس کی ذمہ داری القا عدہ نے
قبول کی تھی۔ بن لادن نے سعودی عرب سے امریکی فوج کو نکالنے کے لئے جہاد کا اعلان
کیا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اس دہشت گردی کا الزام بھی ایران کو دیا ہے۔ اور
افغانستان میں ایران کو طالبان کی مدد کرنے کا الزام دیا ہے جو سنی طالبان ہیں۔ لیکن
عراق اور شام میں ایران کو شیعہ ملیشیا کی سنیوں کے خلاف لڑائی میں مدد کرنے کا
دعوی کیا ہے۔ حالانکہ یہ شیعہ ملیشیا عراق پر امریکہ کے فوجی قبضہ کے دوران القا
عدہ کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وجود میں لاۓ گیے تھے۔ انہیں امریکہ نے مسلح
کیا تھا۔ جنگ کی فضا بنانے کے لئے جھوٹے الزامات گڑھے جاتے ہیں۔ جن سے پھر نفرت
ہونے لگتی ہے۔ نفرتیں پھر جنگ کو بھڑکا دیتی ہیں۔ عراق اور شام میں ایران نے داعش
کے خلاف لڑائی میں اپنے فوجی بھیجے تھے۔ ایران کے بہت سے فوجی اس لڑائی میں مارے
گیے تھے۔ اور صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اسے عراق اور شام میں ایران کی مداخلت
کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ ایران مشرق وسطی کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ جس کشتی میں
عربوں کے ساتھ ایران بھی سوار ہے۔ اس کشتی میں ایران سوراخ کیوں کرے گا؟ امریکہ نے
ہزاروں میل دور سے جا کر عراق میں سوراخ کر دئیے ہیں۔ اور اب عرب اور ایران شیعہ
اور سنی سب غرق ہو رہے ہیں۔
21ویں
صدی کی پہلی دو دہائیوں میں جو جنگیں ہو رہی ہیں۔ وہ صرف نفرت کے نتیجہ میں ہو رہی
ہیں۔ اور جب تک نفرت کا سد باب نہیں ہو گا۔ جنگیں ختم نہیں ہوں گی۔ افغانستان میں
جس جنگ کی ابتدا طالبان سے نفرت کے نتیجہ میں ہوا تھا۔ وہ جنگ افغانستان میں اب
علاقائی ثقافتوں کے درمیان نفرتوں میں بدل گئی ہے۔ اسی طرح عراق میں صد ام حسین سے
نفرت کے نتیجہ میں جنگ اب شیعاؤں اور سنیوں میں نفرت بن گئی ہے۔ اور اب سارا مشرق
وسطی اس نفرت کے تصادم کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ اور سعودی عرب نے اس نفرت کو یہ کہہ
کر اور بھڑکا دیا ہے کہ سنیوں کی شیعاؤں کے خلاف 14 سو سال سے جنگ جاری ہے۔ سعودی
اس نفرت میں ابھی تک 14 سو سال سے نہیں نکلے ہیں۔ شام میں اوبامہ انتظامیہ نے
حکومت سے مٹھی بھر لوگوں کی نفرت کی آگ کو شعلوں میں بدل دیا تھا۔ صدر بشر ا لا
اسد سے نفرت کو اس قدر بھڑکایا گیا کہ شام اب کھنڈرات بن گیا ہے۔ سعود یوں کو ہوتیوں سے نفرت ہو گئی ہے۔ اور اس
نفرت میں سعود یوں نے یمن تباہ کر دیا ہے۔ اور امریکہ نفرت کی اس جنگ میں سعود یوں
کی مدد کر رہا ہے۔ لیکن یہ الزام ایران کو دیا جا رہا ہے کہ ایران یمن میں مداخلت
کر رہا ہے۔ لیبیا میں کرنل قدافی کو بھی
صرف نفرت کے نتیجہ میں اقتدار سے ہٹایا
گیا تھا۔ اور اب لیبیا بن غازی اور ترپیو لی میں تقسیم ہو گیا ہے۔ اسرائیل کو 50
سال سے فلسطینیوں سے نفرت ہے اور فلسطینیوں کو اسرائیل سے نفرت ہے۔ لیکن اسرائیل
کے لئے یہ نفرت بہت اچھی ثابت ہوئی ہے۔ 50 سال سے اسرائیل بڑی کامیابی سے حالت جنگ
میں ہے۔ اسرائیل اقتصادی طور پر خوشحال ہے۔ فوجی طور پر بہت طاقتور ہے۔ اسرائیل کا
عربوں کے علاقوں پر ابھی تک قبضہ ہے۔ اور اسرائیل Expand ہو رہا ہے۔ اسرائیل
کی 50 سال سے فلسطینیوں سے نفرت کا یہ کامیاب تجربہ اب مشرق وسطی میں آزمایا جا
رہا ہے۔ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کے اس کامیاب ماڈل کو اختیار کر لیا
ہے۔
صدر
ٹرمپ نے ایران کو اسرائیل کے خلاف حما س اور حزب اللہ کی حمایت کرنے کا الزام دیا
ہے۔ جنہیں اسرائیل اور سعودی عرب دہشت گرد تنظیمیں قرار دیتے ہیں۔ حما س اور حزب
اللہ کو القا عدہ یا داعش کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔ یہ اسرائیلی فوجی قبضہ سے
آزادی کے لئے اسی طرح مزاحمت کر رہے ہیں کہ جیسے شام میں حکومت کے باغی لڑ رہے
تھے۔ اور امریکہ سعودی عرب خلیج کے حکمران اور اسرائیل ان باغیوں کی حمایت اور
ہتھیاروں سے ان کی مدد کر رہے تھے۔ یہ بڑی نا انصافی ہے کہ جن کی حمایت کرنے کا
اسرائیل سارٹیفیکٹ دے گا۔ دنیا انہیں دہشت گرد نہیں کہے گی انہیں باغی کہا جاۓ گا۔
یا وہ Freedom Fighters
ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل نے قطر کی حکومت پر حما س دہشت گرد تنظیم کی مدد کرنے
کا الزام لگایا ہے۔ غازہ میں تقریباً دو ملین فلسطینی گوتانوموبے نظر بندی کیمپ کی
طرح رہتے ہیں۔ جن میں ایک بڑی اکثریت حما س کی ہے۔ 2014 میں غازہ کی جنگ میں
اسرائیل نے اندھا دھند بمباری کر کے غازہ میں ہسپتال اسکول گھروں غرض کہ سب کچھ
تباہ کر دیا تھا۔ پھر یہ قطر تھا جس نے غازہ میں فلسطینیوں کی مدد کی تھی۔ اور
غازہ کو دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ ہسپتال اور
اسکول تعمیر کیے ہیں۔ ایپارٹمنٹ کمپلیکس تعمیر کیے ہیں اور فلسطینیوں کو ان میں
آباد کیا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب اسے دہشت گردوں کی مدد کہتے ہیں۔ قطر کے خلاف
لڑائی میں سعود یوں کا ایک مطالبہ یہ بھی
ہے کہ قطر حما س کی مدد کرنا بند کرے۔ اب ایران اور حزب اللہ کے تعلقات کا سوال
ہے۔ اسرائیل اور امریکہ حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ حزب اللہ کی
حمایت کرنے کا الزام ایران کو دینے سے پہلے یہ مطالبہ لبنان کی حکومت سے کرنا
چاہیے۔ حزب اللہ لبنان کی ایک بڑی سیاسی تنظیم ہے۔ حزب اللہ لبنان کی حکومت میں
عیسائوں اور سنیوں کے ساتھ شریک ہے۔ اور یہ لبنان میں شیعاؤں کی نمائیندگی کرتی
ہے۔ لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے منتخب نمائندے ہیں۔ اور لبنان کی حکومت حزب
اللہ کو ھوم لینڈ سیکورٹی کے لئے ایک ادرہ سمجھتی ہے۔ جس نے جنوبی لبنان کو
اسرائیلی فوجی قبضہ سے آزاد کرایا تھا۔ اور حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا دفاع کرتی ہے۔
President Trump on Iran: “In 1996, the regime directed another bombing of American military housing in Saudi Arabia murdering 19 American in cold blood. Iranian proxies provided training to operatives who were later involved in al Qaeda’s bombing of the American embassies in Kenya, Tanzania and two years later, killing 224 people, and wounding more than 4000 others.”
Secretary of State Madeleine Albright; in Iran
April 1, 2000 “Well, our two countries have been in conflict for many many
years. As you may know, President Khatami and President Clinton have expressed a
desire to improve relations. And it’s been my pleasure to come to Iran to
personally extend a hand of friendship on behalf of the American people to the
good people of this ancient and important country. I’ve had very constructive
meetings with President Khatami and Foreign minister Kharrazi. We discussed ways
to move Iran-U.S. relations forward. One of the things we agreed was to resume
diplomatic relations in early 2001.”
President George W. Bush,
March 6,2003 “Iraq is a part of the war on terror. Iraq is a country that has
got terrorist ties. It’s a country with wealth. It’s country that could arm
terrorist. There’s a lot of facts which make it clear to me and many others
that Saddam (Hussein) is a threat.”
President Donald Trump, October 13,2017
“The regime remains the World’s leading State sponsor of terrorism and provides
assistance to al-Qaeda, the Taliban, Hezbollah, Hamas and other terrorist
networks.”
President George W. Bush, March 16, 2003 “The
dictator of Iraq and his weapons of mass destruction are a threat to the
security of free nations. He is a danger to his neighbors. He’s a sponsor of
terrorism. He’s an obstacle to progress in the Middle East. For decades he has
been the cruel, cruel oppressor of the Iraq people.”
President Donald Trump,
October 13, 2017 “History has shown the longer we ignore a threat, the more
dangerous that threat becomes. For this reason, upon taking office, I have
order a complete strategic review of our policy toward the rogue regime in
Iran, that review is now complete. Our policy is based on a clear-eyed
assessment of the Iranian dictatorship, and its continuing aggression in the
Middle East and all around the World.”
No comments:
Post a Comment