“Russia’s
Gravest Error In The Past Fifteen Years, Placing Moscow’s Trust In The West” -President Vladimir Putin
مجیب خان
صدر
پو تن نے سوچی روس میں Valdai
Discussion Club کے مذاکرے میں کہا کہ "انہوں
نے مغرب پر بھرو سہ کرنے میں جلد بازی کی
تھی۔ جس کی انہیں مغرب سے یہ شکایت ہے کہ اس نے ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنے
مفادات فروغ دینے میں استعمال کیا تھا۔" صدر پو تن نے کہا " ہماری سب سے
بڑی غلطی تھی کہ ہم نے تم پر بھرو سہ کیا تھا۔ تم نے ہمارے بھرو سہ کا مطلب ہماری کمزوری
سمجھا تھا۔ اور تم نے اسے استحصال کیا تھا۔" صدر پو تن نے کہا "بد قسمتی
سے ہمارے مغربی پارٹنر ز کو سوویت یونین کی Geopolitical
تاریخ تقسیم کرتے ہوۓ اپنے پارسا ہونے میں اتنا زیادہ پختہ یقین تھا کہ خود سرد
جنگ کا فاتح ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔" صدر پو تن نے کہا "اور پھر مغرب
کے جمہوریت برآمد کرنے کی اہمیت کا سوویت یونین کے کمیونسٹ پھیلانے کے عزائم سے
موازنہ کرنے لگے تھے۔" صدر پو تن کو مغرب سے جو شکایتیں ہیں۔ اس میں کوئی
مبالغہ آرا ئی نہیں ہے۔ اور یہ بہت Genuine شکایتیں ہیں۔ سرد
جنگ ختم کر کے مغرب نے دنیا میں گرم جنگوں کے
دروازے کھول دئیے ہیں۔ اور یہ گرم جنگیں مغرب کے مفادات میں ہیں۔ دنیا کی
اکثریت کا ان جنگوں میں کوئی مفاد نہیں ہے۔ یہ جنگیں دنیا کے امن اور استحکام کے
لئے مسلسل خطرے پیدا کرنے کی مشین بن گئی ہیں۔ صدر پو تن نے Valdai Discussion Club کے
مذاکرے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ" روس کی سرحدوں کے قریب نیٹو فوجیں
تعینات ہونے کا جواب دینے کے لئے ماسکو کے منصوبہ کے باوجود ہر چیز کنٹرول میں
ہے۔" صدر پو تن نے مڈل ایسٹ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ جانتے
بوجھتے کہ یہاں پہلے ہی عدم استحکام کے حالات تھے۔ انہیں اور بدتر بنانے کا ذمہ
دار ٹھہرایا ہے۔ صدر پو تن نے مذاکرے میں موجودہ عالمی صورت حال کے بارے میں بڑی
اہم سوال اٹھاۓ ہیں۔ صدر پو تن کو اس پر خاصا ملال ہے کہ روس نے امریکہ پر بھرو سہ
کیا تھا۔ اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
سوویت یونین کے صدر میکائیل گار با چو ف سے صدر جارج ایچ بش نے یہ عہد کیا
تھا اور صدر گار با چو ف نے ان پراعتماد کیا تھا کہ نیٹو کو روس کی سرحدوں کے قریب
نہیں پھیلایا جا ۓ گا۔ صدر بش کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ جم بیکر نے بھی سو ویت یونین
کے رہنماؤں کو یہ یقین دلایا تھا کہ نیٹو روس کی سرحدوں کے قریب نہیں آۓ گا۔ لیکن
پھر سرد جنگ ختم ہونے کے صرف چند سالوں میں امریکہ نے نیٹو کو روس کی سرحدوں کے
قریب پھیلانے کا ایک گرینڈ منصوبہ پیش کر دیا تھا۔ سوویت یونین کے زیر اثر سابق مشرقی یورپ کی
ریاستوں کو نیٹو کی رکنیت دینے کا اعلان کیا تھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دکھتے نیٹو نے
روس کا گھراؤ کر لیا تھا۔ سوویت ایمپائر ٹوٹنے کے بعد روس شدید سیاسی انتشار میں
آگیا تھا۔ روس کی معیشت تباہ ہو گئی تھی۔ عجیب افراتفری کے حالات کا روس کو سامنا
تھا۔ بورس یلسن روس کے صدر تھے۔ حکومت انتہائی کمزور اور غیر موثر تھی۔ روس کی شمالی
Caucasus میں
علیحدگی کی تحریکوں نے خوفناک دہشت گردی کی صورت اختیار کر لی تھی۔ ماسکو دہشت
گردوں کے حملوں کی زد میں آگیا تھا۔ روس کو ان حالات میں دیکھ کر امریکہ میں عام
تاثر یہ تھا کہ روس اب تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ اور اسے ان حالات سے نکلنے میں ایک بڑا
عرصہ لگے گا۔ لہذا امریکہ اور نیٹو اس سوچ کے تحت دنیا کو Militarize
کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ روس نے اس صورت حال کا بڑے تحمل سے سامنا کیا
تھا۔ صدر پو تن کی قیادت میں روس نے اپنے تمام داخلی مسائل پر قابو پا لیا تھا۔ اور
روس دوبارہ عالمی سیاست کے اکھاڑے میں آ گیا تھا۔ تاہم صدر پو تن نے روس کی سرحدوں
کے قریب نیٹو کی موجودگی کے مسئلہ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ لیکن مغرب کے ساتھ
ایک نئی سرد جنگ شروع کرنے سے گریز کیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ روس کے اختلافات تھے۔
لیکن امریکہ سے تصادم اور محاذ آرا ئی کی پالیسی اختیار نہیں کی تھی۔ اگر روس
چاہتا تو امریکہ کے لئے مسائل پیدا کر سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود صدر پو تن نے
امریکہ سے تعاون کیا تھا۔
عراق
کے خلاف اینگلو امریکہ کی Preemptive جنگ
کی روس نے حمایت نہیں کی تھی۔ اور سائڈ لائن پر کھڑے ہو کر اس جنگ کے نتائج دیکھنے
کا انتظار کیا تھا۔ لیبیا کے خلاف امریکہ کی قیادت میں فوجی مداخلت اور صدر قد ا
فی کو اقتدار سے ہٹانے کے فیصلہ کی روس نے مخالفت کی تھی۔ لیکن اسے بھی مغرب کے
ساتھ تصادم کا پوائنٹ نہیں بنایا تھا۔
امریکہ کی قیادت میں مغرب کی جارحیت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں مسلسل پھیلتی
جا رہی تھیں۔ با سنیا میں انسانیت کے خلاف کرائم کے بعد جس میں تقریباً ایک ملین
لوگ مارے گیے تھے۔ شام کی خانہ جنگی میں با سنیا سے زیادہ انسانیت کے خلاف کرائم
کیے گیے ہیں۔ ایک انتہائی خوب صورت ملک کی ہزار سال کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی
گئی تھی۔ اور سارے ملک کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔ یہ شام کے لوگوں کے لئے 911 ہے۔
عراق لیبیا شام یمن خانہ جنگی دہشت گردی
مڈل ایسٹ کو ایک خوفناک تباہی کی طرف لے جا رہے تھے۔ روس نے مداخلت کر کے
مڈل ایسٹ کو اس تباہی سے بچایا ہے۔
جس
طرح صدر پو تن نے امریکہ پر بھرو سہ کرنے میں جلد بازی کی تھی۔ اسی طرح صدر کرنل
قد ا فی نے عراق کے خلاف امریکہ کی فوجی کاروائی سے خوفزدہ ہو کر اپنے سلامتی کے
تمام ہتھیار امریکہ کے حوالے کرنے میں جلد بازی کی تھی۔ اور اپنے اقتدار کی سلامتی
میں امریکہ پر بھرو سہ کر لیا تھا۔ اور صدر جارج بش نے انہیں یہ یقین دلایا تھا کہ
ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو گی اور وہ اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ قد ا فی حکومت
کے ساتھ مہلک ہتھیاروں کے بارے میں بش انتظامیہ کا یہ سمجھوتہ ایسا تھا کہ جیسے
اوبامہ انتظامیہ کا ایران کے ایٹمی پروگرام پر معاہدہ تھا۔ لیکن فرق صرف یہ تھا کہ
یہ ایک عالمی معاہدہ تھا۔ اور سلامتی کونسل نے اس معاہدے کو ایک قانونی درجہ دیا
ہے۔ اگر یہ سمجھوتہ اوبامہ انتظامیہ اور ایران میں ہوتا تو صدر ٹرمپ اس سمجھوتہ کو
بہت پہلے منسوخ کر چکے ہوتے۔ اور لیبیا کی طرح ایران میں بھی حکومت تبدیل کرنے کا
منصوبہ بن جاتا۔
ان
حالات کو دیکھ کر دنیا کے ملکوں کا امریکہ پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ
کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔ اور اس میں امریکہ کی داخلی سیاست کا ایک بڑا رول ہے۔ جو
دراصل داخلی سیاست سے زیادہ مختلف ملکوں کے مفادات کی نمائندہ لابیوں کا سیاسی رول
ہے۔ جن کا امریکی کانگرس پر گہرا اثر و رسوخ ہے۔ اور کانگرس پھر ان کے مفادات میں
قانون منظور کرتی ہے۔ دنیا یہ با خوبی سمجھتی ہے کہ ایران کے خلاف کانگرس نے جو
قانون منظور کیے ہیں وہ کس کے مفاد میں ہیں؟ انتظامیہ جو سمجھوتہ کرتی ہے اور
جنہوں نے انتظامیہ پر بھرو سہ کیا ہے کانگرس ان کا کوئی احترام نہیں کرتی ہے۔ جیسے
صدر بش کی ری پبلیکن انتظامیہ نے صدر قد افی سے مہلک ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کے
بعد انہیں جو یقین دہانیاں کرائی تھیں اور ان سے جو عہد کیا تھا۔ اور پھر صدر قد ا
فی نے امریکہ پر بھرو سہ کیا تھا۔ لیکن
پھر ڈیمو کریٹ کی انتظامیہ نے سابقہ انتظامیہ کے اس عہد اور یقین دہانیوں کی کوئی
پرواہ نہیں کی تھی۔ اور ری پبلیکن اراکین کانگرس نے بھی اس سے منہ موڑ لیا تھا۔ اس
سے امریکہ کی ساکھ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ جیسے صد ام حسین نے کویت میں اپنی فوجیں
بھیجنے سے پہلے بش سینیئر کی انتظامیہ سے یہ پوچھا تھا کہ امریکہ کا اس پر کیا رد
عمل ہو گا؟ صدر صد ام حسین نے ایک دیانتدارانہ جواب کے لئے امریکہ پر بھرو سہ کیا
تھا۔ جس پر بش سینیئر کی انتظامیہ نے بغداد میں امریکہ کی سفیرApril Glaspie کے ذریعے صد ام
حسین کو یہ جواب دیا تھا کہ ‘[We]
have no opinion on the Arab-Arab conflicts, like your border disagreement with
Kuwait.’ The U.S. State Department had earlier told Saddam That Washington had
‘no special defense or security
commitments to Kuwait.’
صدر صد ام حسین نے اسے امریکہ کی طرف سے گرین
لائٹ سمجھا تھا اور اپنی فوجوں کو کویت پر قبضہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ عراقی
فوجوں نے کویت پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور بش سینیئر انتظامیہ نے کہا “gotcha” صد ام حسین امریکہ کے عزائم میں پھنس گیے تھے۔
پاکستان
نے بھی بش انتظامیہ پر بھرو سہ کرنے میں جلد بازی کی تھی۔ حالانکہ ماضی میں
پاکستان کو امریکہ پر بھرو سہ کرنے کا تلخ تجربہ تھا۔ لیکن بش انتظامیہ نے پاکستان
کو یہ یقین دلایا تھا کہ ماضی میں عہد اور یقین دہانیوں کی جو خلاف ورزیاں ہوئی
تھیں انہیں اب نہیں دہرایا جاۓ گا۔ اور اس یقین دہانی کے بعد پاکستان نے امریکہ پر
بھرو سہ کرتے ہوۓ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ میں 80 فیصد حصص قبول کر
لئے تھے۔ پاکستان کو طالبان کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر کھڑا کر کے طالبان کو
شکست دینے کے مشورے بھارت سے کیے جاتے تھے۔ افغانستان میں بھارت کا مفاد امریکہ کے
مفاد سے بہت مختلف تھا۔ اس لئے افغانستان میں بھارت کامیاب ہے۔ اور امریکہ اور
پاکستان ناکام ہیں۔ بش انتظامیہ نے پاکستان سے بھارت کے ساتھ مشرقی سرحدوں سے اپنی فوجیں ہٹا کر شمال مغرب
میں افغانستان کے ساتھ سرحدوں پر لگانے کا کہا تھا۔ تاکہ پاکستانی فوجیں افغانستان
سے بھاگ کر آنے والے دہشت گردوں کا مقابلہ کریں۔ بش انتظامیہ کی اس تجویز پر
پاکستان نے اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ بھارت اس صورت سے فائدہ اٹھا کر
پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ اس لئے پاکستان مشرقی سرحدوں سے اپنی فوجیں نہیں ہٹا
سکتا ہے۔ صدر بش کی اس یقین دہانی کے بعد کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ وہ اس کی ضمانت دیتے ہیں۔ پاکستان نے مشرقی سرحدوں
سے 70 ہزار فوجیں ہٹا کر شمال مغرب میں افغان سرحد پر لگا دی تھیں۔ صدر بش کے دور
میں بھارت نے مشرقی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ میں یہ چھیڑ
چھاڑ بھارتی گولہ باری میں بدل گئی تھی۔ بھارتی فوجیں روزانہ پاکستانی علاقوں پر
گولہ باری کر رہی تھیں۔ پاکستانی فوجی بھی اس بھارتی گولہ باری سے ہلاک ہوۓ تھے۔ اور
پاکستان کی سرحد میں دیہات اور قصبوں کے لوگ بھی ہلاک ہو رہے تھے۔ لیکن اوبامہ
انتظامیہ نے سابقہ انتظامیہ کی اس یقین دہانی کو پورا نہیں کیا تھا کہ پاکستان جب
تک دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہا ہے بھارت مشرقی سرحدوں پر امن ر کھے گا۔ لیکن بھارت
نے مشرقی سرحدوں سے خود بھی حملے کیے تھے اور تخریب کاروں کو بھی ان سرحدوں سے
پاکستان کے اندر حملے کرنے کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ لہذا اب امریکہ پر کون بھرو سہ
کرے گا؟
No comments:
Post a Comment