Terror In America: From The Twenty-Two Year Ago Bombing In Oklahoma City To The Mandalay Bay Hotel Shooting In
Las Vegas
The Fight President Bush Took To The Terrorists Abroad, So We Don't
Have To Face Them Here At Home; Now President Trump Has To Fight Over Here And Over There
Have To Face Them Here At Home; Now President Trump Has To Fight Over Here And Over There
مجیب خان
لاس ویگس میں Mandalay bay ہوٹل شوٹنگ امریکہ کی تاریخ میں داخلی دہشت گردی
کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ جس میں 58 لوگ مارے گیے ہیں۔ 29 لوگوں کی حالت ابھی خطرے
میں بتائی جا رہی ہے۔ جبکہ 512 لوگ زخمی ہوۓ ہیں۔ 22 سال قبل 1995 میں اوکولوہوما
سٹی میں فیڈرل بلڈنگ میں بم کے دھماکے ہوۓ تھے۔ جس میں 168 لوگ مارے گیے تھے۔ جن
میں ایک بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ فیڈرل بلڈنگ کے ایک فلور پر بچوں کا Day care
تھا۔ اوکولوہوما سٹی میں اس دہشت گردی کا منصوبہ 29 سالہ Timothy McVeigh نے
بنایا تھا۔ جو 1991 میں پہلی عراق جنگ کا ایک فوجی تھا۔ 2001 میں اسے پھانسی ہو
گئی تھی۔ لاس ویگس میں Mandalay
bay ہوٹل اور Casino کی 32ویں منزل
کے 132 روم سے 500 یارڈ پر لوک موسیقی کے شائقین پر گولیوں کی بو چھار کر دی تھی۔
لوک موسیقی کے 25 ہزار شائقین یہاں جمع تھے۔ جو دوسری ریاستوں اور شہروں سے لوک
موسیقی فنکار کو سننے یہاں آۓ تھے۔ گن مین ایک رٹائرڈ 64 سال کا Stephen Paddock
تھا۔ بہت مالدار اور خوشحال تھا۔ پولیس کے اس کے کمرے تک پہنچنے سے پہلے اس نے خود
کو گولی مار کر ہلاک کر لیا تھا۔ اس دہشت گردی کے پیچھے اس کے کیا عزائم تھے۔ یہ
ابھی تک ایک معمہ ہے۔ گزشتہ جون میں ایلگزینڈریا ورجینیا میں کانگریشنل بیس بال
گیم جو خیرات جمع کرنے کے مقصد سے ہوتا ہے اور جس میں دونوں پارٹیوں کے سینیٹر اور
کانگرس مین حصہ لیتے ہیں۔ اس کی پریکٹس کے دوران ایک 60 سالہ شخص نے یہاں اندھا
دھند فائرنگ کی تھی۔ جس میں کئی کانگرس مین اور ان کے اسٹاف کے کچھ لوگ زخمی ہو
گیے تھے۔ ایک کانگرس مین بہت بری طرح زخمی ہوۓ تھے۔ گن مین پولیس کی فائرنگ میں
مارا گیا تھا۔ امریکہ میں داخلی دہشت گردی کے یہ نئے واقعات نہیں ہیں۔ جن کا مشرق
وسطی کے اسلامی دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکہ میں داخلی دہشت گردی کے
داخلی اسباب ہیں۔ جنہیں امریکی حکومتوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔ اور اپنے ریڈار
پر صرف عالمی اسلامی دہشت گردی کو فوکس کیا ہے۔
Timothy McVeigh کو
پھانسی دے دی تھی۔ لیکن واشنگٹن میں دونوں پارٹیوں کے سیاستدانوں نے ان اسباب کا
کبھی تدارک نہیں کیا تھا کہ اس نے اوکولوہوما سٹی میں یہ دہشت گردی کیوں کی تھی؟ Timothy جب امریکی فوج میں بھرتی ہوا تھا 21 سال کا تھا اور ایک محب وطن امریکی
تھا۔ اس نے عراق کے خلاف پہلی جنگ لڑی تھی۔ اس جنگ میں عراقیوں کے ساتھ امریکی فوج
نے بڑا برا بر تاؤ کیا تھا۔ ہزاروں عراقی اس جنگ میں مار دئیے تھے۔ Timothy اس سے خوش نہیں تھا اور اس کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ ہم ان عراقیوں کو
کیوں مار رہے تھے؟ انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا تھا؟ جو ہم انہیں مار رہے تھے۔
عراق جنگ کے سین اس کے ذہن میں تھے۔ خلیج کی جنگ کے 3 سال بعد Waco Texas میں Branch
Davidian کا واقعہ ہوا تھا۔ 1993 میں وفاقی اور ریاست ٹیکساس کے قانون نافذ کرنے والوں اور امریکی فوج نے 28 فروری سے 19
اپریل تک Branch Davidian
Compound کا محاصرہ کر لیا تھا جس میں David Kuresh کے پیروکار جمع تھے۔ ان میں بڑی تعداد میں
عورتیں اور بچے بھی تھے۔ کمپاؤنڈ کو خالی کرانے کی کوششوں میں ناکامی ہونے کے بعد
کمپاؤنڈ پر حملہ کیا گیا تھا۔ دونوں طرف سے شدید فائرنگ ہونے لگی تھی۔ دونوں طرف
کچھ لوگ اس فائرنگ میں مارے گیے تھے۔ اور پھر کمپاؤنڈ کو آگ لگا دی تھی۔ Timothy
نے یہ سارے مناظر دیکھے تھے ۔ آگ کے شعلوں
میں چیخ و پکار کی آوازیں سنی تھیں۔ اور اسے حکومت کے ان اداروں پر سخت غصہ تھا۔
عراق میں لوگوں کی ہلاکتوں کے منظر بھی اس کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ اوکولوہوما سٹی
میں دہشت گردی کے یہ اسباب تھے۔ کمپاؤنڈ کو آگ لگانے پر بہت سے لوگوں کو حکومت کے
اس اقدام پر سخت غصہ تھا۔ لیکن پھر اوکولوہوما سٹی میں دہشت گردی سے لوگوں کا یہ
غصہ حکومت سے ہمدردی میں بدل گیا تھا۔ لیکن یہ بہت واضح تھا کہ اکثر حکومت اپنی
پالیسیوں یا فیصلوں سے بھی لوگوں کو مشتعل کرتی ہے۔
Chelsea Manning اور Edward Snowden بھی بالترتیب 22 اور 29 سال کے تھے۔ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن کمپیوٹر پروفیشنل اور سی آئی اے میں تیکنیکل اسسٹنٹ تھا۔ Chelsea Manning امریکی فوج میں تھی اور عراق میں تھی۔ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن کی سی آئی اے اور نیشنل سیکورٹی ایجنسی میں انتہائی اہم فائلوں تک پہنچ تھی۔ امریکی جاسوسی پروگرام این ایس اے Surveillance کے بارے میں اسے تمام معلومات تھیں۔ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن نے جب یہ دیکھا کہ امریکی انٹیلی جینس بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ اور ٹیلی فون Surveillance کر رہی تھی۔ این ایس اے لاکھوں امریکیوں کا ٹیلی فون ریکارڈ جمع کر رہی تھی۔ ایڈ ورڈ کے مطابق این ایس اے نے دنیا بھر میں 61,000 سے زیادہ hacking آپریشن کیے تھے۔ اور کس طرح غیرملکی حکومتوں کی جاسوسی کی جاتی تھی۔ ان کے آفس میں فون ٹیپ کرنے کے خفیہ آلات نصب کیے گیے تھے۔ ان غیر ملکی حکومتوں میں جرمن چانسلر بھی شامل تھیں۔ براز یل کی صدر، ارجنٹائن، فرانس کی بھی جاسوسی کی جا رہی تھی۔ امریکی حکومت کی ان خفیہ کاروائیوں کے بارے میں دستاویز کے ساتھ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن ہانگ کانگ چلا گیا تھا۔ جہاں اس نے امریکی حکومت کے Un-American اقدامات دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دئیے تھے۔ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن نے 350 ملین امریکیوں کی آزادی اور حقوق کو بچایا تھا۔ لیکن امریکی حکومت کی پالیسیوں کی خاصی Casualties ہوئی تھیں۔ خارجہ پالیسی اور سیکورٹی اسٹبلشمینٹ کو ان انکشاف سے زبردست دھچکا پہنچا تھا۔
22
سالہ Chelsea Manning
آرمی میں انٹیلی جینس analyst تھی۔
اس نے جن خفیہ معلومات کا انکشاف کیا تھا۔ وہ محاذ جنگ کے بارے میں نچلی سطح کی
رپورٹوں پر تھیں۔ اور عراق اور افغانستان کی صورت حال پر تھیں۔ ان رپورٹوں میں عراق
اور افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں، گو تا نو مو بے کیمپ میں قیدیوں کے حالات
اور سفارتی خط و کتابت تھی۔ جو ملٹری دستاویز Chelsea نے لیکس کی
تھیں ان میں مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات تھیں۔ جن میں زیادہ تر اموات،
تباہی اور انارکی بیان کی گئی تھی۔ Chelsea نے تقریباً 700,000 حکومت کی دستاویز ویکی لیکس کو دی تھیں۔ ان میں وڈیو بھی تھے۔ حکومت کے
خفیہ دستاویز لیک کرنے کے الزام میں Chelsea Manning کا
کورٹ مارشل ہوا تھا۔ اور اسے 35 سال کی سزا دے کر جیل بھیج دیا تھا۔ فوج میں یہ
مرد بھرتی ہوا تھا۔ اور اس کا نام Bradley Manning تھا۔ لیکن جیل
میں اس نے اپنی جنس بدلنے کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد یہ Chelsea Manning بن
گئی تھی۔ صدر اوبامہ نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں Chelsea Manning کو
صدارتی معافی دے دی تھی۔ اور اب یہ ایک آزاد شہری ہے۔
دہشت
گردی کے خلاف نائن الیون کے بعد جس جنگ کا آغاز ہوا تھا 16 سال بعد اس جنگ کے
نتائج دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ دنیا بھر میں ایک سال کی عمر کے بچوں
سے لے کر 20 اور 30 سال کی عمروں کے نوجوانوں کا مستقبل Bleak کرنے میں ثابت
ہوئی ہے۔ اور انہیں اس جنگ نے تباہ کیا ہے۔ 20 سے 30 سال کی عمروں کے امریکی
فوجیوں کی ایک بڑی تعداد عراق اور افغانستان میں ماری گئی ہے۔ یا اس جنگ میں وہ
عمر بھر کے لئے آپاہج ہو گیے ہیں۔ لیکن یہ جنگ ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی
ہے۔ اس جنگ کے ابتدا میں صدر بش نے کہا تھا “We’re
taking the fight to the terrorists abroad, so we don’t have to face them here
at home.” George Bush
یہ جنگ اب گھر میں پہنچ گئی ہے۔ لاس ویگس میں 58
لوگ مارے گیے ہیں۔ اور 522 لوگ زخمی ہوۓ ہیں۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ میں دہشت
گردی کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ لوگ اب امریکہ میں انتہا پسند ہوتے جا رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں حکومت اور دنیا کی قیادت کرنے کا
کوئی تجربہ نہیں ہے۔ لیکن صدر بش اور ان کی ٹیم کی دنیا کے بارے میں کوئی معلومات
نہیں تھیں۔ ایک گلوبلائز ور لڈ میں جس کی سرحدیں سکیڑتی جا رہی تھیں۔ جس میں
رابطوں کے فاصلے ختم ہو رہے تھے۔ اس میں دہشت گردی کی جنگ ان کی سرزمین پر لے جانے
کی باتیں انتہائی نا معقول تھیں۔ اور اب 45 ویں پریذیڈنٹ کو یہ جنگ وہاں اور یہاں
دونوں جگہ لڑنا پڑ رہی ہے۔ صدر بش اور ان کی وار کابینہ اگر 1944 میں امریکہ میں
اقتدار میں ہوتے تو شاید ناز یوں کو کبھی شکست نہیں ہوتی۔
No comments:
Post a Comment