Friday, November 10, 2017

Bush-Cheney Administration’s Meddling In Pakistan’s 2008 Election And Collusion With Asif Zardari, Is The Model Of Russian Meddling In America’s 2016 Election And Collusion With Trump

Bush-Cheney Administration’s Meddling In Pakistan’s 2008 Election And Collusion With Asif Zardari, Is The Model Of Russian Meddling In America’s 2016 Election And Collusion With Trump     

مجیب خان
President Bush and President Zardari, Sept 23, 2008  

Prime Minister Raza Gillani with President Bush at the White House, July 28, 2008

Prime Minister Manmohan Singh and President Asif Zardari
     امریکہ میں آج کل اس پر بڑا ہنگامہ اور شور ہے کہ روس نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں meddling کی تھی۔ اور روس کا ٹرمپ کے ساتھ collusion تھا۔ 7 نومبر کو امریکہ میں صدارتی انتخاب کا ایک سال ہو گیا ہے۔ لیکن صدارتی انتخاب ابھی تک سیاسی حلقوں اور میڈ یا کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اور یہ موضوع صدارتی انتخاب میں روس کی meddling اور ڈ ونالڈ ٹرمپ کے ساتھ روس کا collusion ہے۔ اس پر بحث میں صدر ٹرمپ کا پہلا سال تقریبا  گزر گیا ہے۔ اس سلسلے میں بیک وقت کئی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ایک خصوصی کمیٹی اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ جبکہ کانگرس اور سینٹ میں بھی یہ تحقیقات ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے عصا ب ان تحقیقات کی تلواروں کے شدید دباؤ میں ہیں۔ روس کی حکومت امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کے الزام کی تردید کر چکی ہے۔ صدر پو تن اس بکواس بحث کو کئی مرتبہ یہ کہہ کر مستر د کر چکے ہیں کہ امریکہ Banana Republic نہیں ہے۔ خود صدر ٹرمپ کے لئے بھی یہ الزام باعث شرم ہے کہ وہ روس کی مداخلت کے نتیجہ میں منتخب ہوۓ ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد گزشتہ 28 سالوں میں ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ روس نے مشرقی یورپی ملکوں میں جو سرد جنگ میں اس کے orbit میں تھے۔ ان کی داخلی سیاست میں مداخلت کی تھی۔ اور ان ملکوں کے انتخابات میں اپنی پسند کے امیدواروں کو اقتدار میں لانے کی کوشش کی تھی۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ نے سرد جنگ ختم ہو نے کے بعد  اپنی اس روایت کو برقرار رکھا تھا۔ صدر جارج بش کے دور میں دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں By hook or By crook مداخلت ہو رہی تھی۔ روس اب کمیونسٹ ملک نہیں ہے۔ صدر پو تن نے سرد جنگ دور کی تمام پالیسیاں تبدیل کر دی ہیں۔ روس میں کل جو کمیونسٹ تھے وہ آج بڑے سرمایہ دار کمپنیوں کے مالک اور ارب پتی اور کھرب پتی بن گیے ہیں۔ انہوں نے یورپ اور امریکہ میں بھی کاروبار خرید لئے ہیں۔ یہاں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ امریکہ کے معاشی نظام میں روسیوں کے داخل ہونے  پر امریکہ نے اسے مداخلت نہیں سمجھا تھا۔ امریکہ کو قرضہ دینے والے ملکوں میں روس ساتویں نمبر پر ہے۔ امریکہ روس کا تقریباً دو سو بلین ڈالر کا مقروض ہے۔ امریکہ جب کسی ملک کو قرضہ یا مالی امداد دیتا ہے تو اس ملک میں سیاسی مداخلت بھی کرنے لگتا ہے۔ لیکن صدر پو تن کا Political Economy کا تصور مداخلت یا اس ملک سے اپنی سیاسی پالیسیوں پر عملدرامد کرانا نہیں ہے۔ روس کی نئی سوچ اور امریکہ کی پرانی سوچ کا یہ تصادم ہے جسے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت دیکھا جا رہا ہے۔ اور روس کا ٹرمپ سے Collusion کہا جا رہا ہے۔
     صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی قوم پرستی کو ابھارا ہے۔ اپنی انتظامیہ کی پالیسیوں میں America First کی بات کی ہے۔ فری ٹریڈ اور ٹریڈ الائنس کو امریکہ کے مفاد میں تبدیل کرنے کا کہا ہے۔ اب یہ سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ایسے صدارتی امیدوار کے لئے جس کے یہ خیالات تھے۔ انتخابات میں مداخلت کرنے میں روس کا کیا مفاد ہو سکتا تھا؟ امریکی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت نے ڈونالڈ ٹرمپ کو صرف اس لئے ووٹ دئیے تھے کہ وہ جنگوں کے خلاف تھے۔ اور ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکہ کو جنگوں سے نکالنے کی بات کی تھی۔ جبکہ ہلری کلٹن کے بارے میں امریکی عوام میں تاثر تھا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد صدر بش اور صدر اوبامہ کی جنگجو نہ پالیسیوں کو جاری رکھیں گی۔ اور صدر پو تن بھی امریکی عوام کے ان خیالات سے اتفاق کرتے تھے۔ صدر پو تن امریکہ کو دہشت گردوں کے Networks کی جنگوں سے نکالنے میں صدر ٹرمپ کی مدد کرنا چاہتے ہوں گے۔ امریکی عوام صدارتی انتخاب میں روس کی Meddling اور روس کا ٹرمپ سے  Collusion ہونے کے دعووں پر یقین نہیں کر رہے ہیں۔
    یوں تو دوسرے ملکوں کی داخلی سیاست میں Meddling اور ان ملکوں میں اپنی پسند کے لیڈروں سے Collusion کی امریکہ کی پرانی عادت ہے۔ اور اس کی حال ہی میں پاکستان ایک مثال ہے۔ جہاں 2008 کے انتخابات میں امریکہ نے ‏Meddling کی تھی۔ اور بش چینی کا آصف زر داری سے Collusion تھا۔ امریکہ کے انتخاب میں روس کی Meddling کی باتیں کرنے والے پنڈت ذرا پاکستان کے 2008 کے انتخابات میں بش چینی ایڈمنسٹریشن کی Meddling کا جائزہ لیں تو انہیں پتہ چلے گا کہ Meddling کسے کہتے ہیں؟ انہیں پھر روس کی Meddling ایک Penny نظر آۓ گی۔ امریکہ کے میڈیا اور کانگرس سے یہ سوال ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا تھا کہ انتہائی کر پٹ امریکی لیڈر کے غیر ملکی بنکوں میں منجمد فنڈ ز اور اس کے خلاف عدالتوں میں کرپشن کے کیس ملکہ برطانیہ کی سفارش پر صدر امریکہ نے ختم کر دئیے تھے۔ اور قانون کی بالا دستی کو برقرار رکھا تھا۔ اور وہ پھر امریکہ کا صدر بن گیا تھا۔ لیکن یہ پاکستان کے ساتھ ہوا تھا۔ جہاں بش چینی ایڈمنسٹریشن نے پاکستان کی داخلی سیاست میں Meddling اور کر پٹ لیڈروں کے خلاف ایک عدالتی عمل کو Quash کرایا تھا۔ اور انہیں سیاست میں سرگرمی سے اچھل کود کرنے کے سرٹیفکیٹ دلواۓ تھے۔ زر داری کے 60 ملین ڈالر جو سوئس بنکوں میں حکومت پاکستان کی درخواست پر کرپشن کے الزامات میں منجمد کیے گیے تھے۔ بش چینی ایڈمنسٹریشن نے وہ بھی بحال کروا دئیے تھے۔ اور پاکستان کی داخلی سیاست میں یہ امریکہ کی Meddling اور بش چینی کا زر داری سے Collusion تھا۔
    بے نظیر بھٹو کے المناک سانحہ سے پیپلز پارٹی کو جو زبردست مقبولیت ملی تھی۔  پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ آصف زر داری نے بے نظیر بھٹو کے انتخابی ایجنڈے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا۔ اور 60 ملین ڈالر کے عوض جو Assignment دیا گیا تھا۔ وہ زر داری حکومت کا ایجنڈا بن گیا تھا۔ بش چینی کا زر داری کے ساتھ  Collusion  دراصل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو Fit کرنا تھا۔ پاکستان جو یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی ہے۔ اور زر داری گیلانی حکومت نے اسے پاکستان کی جنگ تسلیم کر لیا تھا۔
    یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے واشنگٹن پہنچے تھے۔ اور وائٹ ہاؤس میں صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی سے وزیر اعظم گیلانی کی ملاقات ہوئی تھی۔ حسین حقانی بھی اس ملاقات میں وزیر اعظم کے ساتھ تھے۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ اور طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اور وزیر اعظم گیلانی نے بش چینی سے اتفاق کرتے ہوۓ طالبان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کا یقین دلایا تھا۔ وزیر اعظم کے بعد پھر صدر آصف زر داری واشنگٹن پہنچے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں زر داری بھی صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی سے ملے تھے۔ اس ملاقات میں بھی حسین حقانی  صدر زر داری کے ساتھ کھڑے تھے۔ بش چینی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا جو پیغام وزیر اعظم گیلانی کو دیا تھا۔ وہ ہی پیغام صدر زر داری کو دیا گیا تھا۔ اور صدر زر داری سے یہ عہد لیا گیا تھا۔ وہ جنگ جاری رکھیں گے اور اس جنگ میں Short Cut نہیں لیں گے۔ فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑے گی۔ پھر نائب صدر ڈک چینی نے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے صدر زر داری کی طرف دیکھتے ہوۓ حسین حقانی کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنانے کے لئے کہا کہ مسڑ حقانی دونوں ملکوں کے تعلقات کو قریبی رکھنے میں بہتر ثابت ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس میں اس ملاقات کے بعد صدر زر داری بڑے مطعمین واپس اسلام آباد آۓ تھے۔ صدر زر داری کو یہ پختہ یقین ہو گیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اگر وہ جنگ جاری رکھیں گے تو اس مرتبہ  اقتدار کے پانچ سال ضرور مکمل کر لیں گے۔
    یہ پاکستان کے Short-sighted لیڈر تھے۔ ان کے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ بش انتظامیہ چند ماہ کے بعد چلی جاۓ گی۔ اور ہمیں دہشت گردی کی جنگ میں پھنسایا جا رہا تھا۔ اور اس جنگ کی تباہیوں کا ہمیں سامنا کرنا ہو گا۔ امریکہ میں انتخاب ہونے والے تھے۔ وزیر اعظم گیلانی اور صدر زر داری نے امریکہ کے دورے میں انتخابی مہم کی سرگرمیاں بھی دیکھی تھیں۔ لیکن زر داری گیلانی حکومت نے بش چینی پلان کے مطابق فیصلے کیے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ تسلیم کر لیا تھا۔ جنرل کیانی کو صدر زر داری نے دہشت گردوں کے خلاف  کاروائی کرنے کا مکمل اختیار دے دیا تھا۔ اور حسین حقانی کو واشنگٹن میں سفیر بنا دیا تھا۔ سفیر بننے کے بعد حقانی نے کہا کہ میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی ایسی بنیاد رکھوں گا کہ میرے بعد اسے کوئی تبدیل نہیں کر سکے گا۔ جنرل ضیا کی پالیسیوں کی حمایت کرنے کے بارے میں بھی حقانی کا یہ ہی کہنا تھا کہ جنرل ضیا کی پالیسیوں سے پاکستان کبھی نکل نہیں سکے گا۔
    وزیر اعظم گیلانی اور صدر آصف زر داری کے بعد جسٹس چودھری افتخار محمد کی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی کرسی بحال ہونے کے بعد امریکہ کے دورے پر آۓ تھے جہاں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی تھی۔ نیویارک بار کی طرف سے جسٹس چودھری کو پاکستان میں قانون کی بالا دستی قائم کرنے پر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ امریکہ سے واپس آنے کے بعد چیف جسٹس صدر زر داری کے سر پر جیسے تلوار بن کر لٹک گیے تھے۔ وزیر اعظم گیلانی کو چیف جسٹس چودھری نے سوئس حکومت کو آصف زر داری کے خلاف کرپشن کیس دوبارہ کھولنے کے لئے خط لکھنے کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس کا یہ حکم دراصل امریکہ کے لئے اس کی ضمانت تھا کہ صدر زر داری 60 ملین لینے کے بعد بش چینی سے اپنے Commitment سے پھر نہیں سکتے تھے۔ چار سال تک صدر زر داری کو اس عصا بی دباؤ میں رکھا تھا کہ چیف جسٹس چودھری کا اب کیا فیصلہ ہو گا؟
    پشتونوں کے لیڈر اسفندر یار ولی بھی واشنگٹن آۓ تھے۔ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بنا لیا تھا۔ سرحد کے دونوں طرف پشتونوں کے علاقہ دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے محاذ بنے ہوۓ تھے۔ پشتون مر رہے تھے۔ لیکن اسفندر یار ولی کی خاموشی مجرمانہ تھی۔ پشاور میں دہشت گردوں کے حملوں میں پشتون بچوں عورتوں اور مردوں کے خون سے سڑکیں سرخ ہو گئی تھیں۔ لیکن اسفندر یار ولی نے سرحد کے دونوں طرف پشتونوں کو پشتونوں کے خلاف دہشت گردی کرنے سے روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ یہ پشتونوں کے لیڈر تھے۔ انہیں پشتونوں کو بچانے کے لئے باہر نکلنا چاہیے تھا۔ پشتونوں کو ایسے مفاد پرست لیڈروں کے کردار کو یاد رکھنا چاہیے۔ ان کی شعلہ انگیز تقریروں سے متاثر ہو کر انہیں کندھوں پر اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں میں لے جانے کی سیاست اب ختم کی جاۓ۔ جمہوری عمل کا مطلب سیاست سے گندہ خون نکالنا اور سیاست کو نیا خون دنیا ہوتا ہے۔ یہ بڑے حیرت کی بات تھی کہ 2008 کے انتخابات میں امریکہ کی پاکستان میں Meddling  اور بش چینی کا زر داری سے Collusion کا پاکستان میں کوئی نوٹس نہیں لیا گیا تھا۔ پاکستان کے سیاسی حلقوں اور میڈیا نے بھی اسے اہم نہیں سمجھا تھا۔ حالانکہ یہ مشرقی پاکستان کے سانحہ سے کم المیہ نہیں تھا۔   

                        

No comments:

Post a Comment