Wednesday, November 15, 2017

Crown Prince Mohammed Bin Salman Should Not Be King of Saudi Arabia

Crown Prince Mohammed Bin Salman Should Not Be King of Saudi Arabia 

Saudi Arabia’s Survival Is In Conciliation, Not In Confrontation

مجیب خان
Saudi Arabia's King Salman with his son, Crown Prince Mohammed Bin Salman   

Ritz Carlton hotel in Riyadh, Guantanamo Bay of world's Corrupt wealthiest's Prison  

Prince Al-Waleed Bin Talal and Ameera Al-Taweel

Crown Prince Mohammed's Yacht
    اگر چند Rogue صومالی خلیج عدن میں گیارہ دولت مندوں، تاجروں اور سرمایہ کاروں کو اپنی تحویل میں لے لیتے جو اغوا کرنا ہوتا اور پھر ان سے لاکھوں ڈالر نکلواتے تو انہیں Pirate کہا جاتا۔ لیکن سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر 11 شہزادوں حکومت کے بعض اعلی حکام اور تاجروں سمیت 2 سو کے قریب افراد کو کرپشن کے الزامات میں حراست میں لیا گیا ہے۔ اور انہیں حراست میں لینے کے 48 گھنٹے بعد یہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ زیر حراست شہزادوں سے 800 بلین ڈالر نکلواۓ گیے ہیں۔ اور شہزادہ محمد کو امید ہے کہ ان لوگوں سے تقریباً ایک ٹیریلین ڈالر حکومت کے خزانے میں آئیں گے۔ صومالیہ اور سعودی عرب دونوں قبائلی معاشرے ہیں۔ تاہم سعودی عرب میں بادشاہت ہے اور صومالیہ میں غربت ہے۔ اس لئے مہذب قوموں کا رد عمل بھی مختلف ہے۔ دنیا صومالی Pirate کی مذمت کرتی۔ لیکن سعودی عرب میں جس طرح 210 لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ جن میں 11 شہزادے بھی شامل تھے۔ اور ان کے بنک اکاؤنٹ منجمد کیے گیے ہیں۔ ان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کرپشن کے خلاف شہزادہ محمد کے اقدامات کی حمایت کی ہے۔ لیکن جہاں تک کرپشن کا سوال ہے تو سعودی حکومت اور شہزادہ محمد بھی اسی کر پٹ نظام کا حصہ ہیں۔ سعودی عرب دنیا کا ایک انتہائی دولت مند ملک ہے۔ لیکن سعودی عرب میں غربت اور بیروزگاری دراصل حکومت کے کر پٹ ہونے کے ثبوت ہیں۔ سعودی شاہ غیرملکی سربراہوں کو لاکھوں ڈالر کے انتہائی قیمتی تحفہ دیتے ہیں۔ اور پھر اس کے عوض اس ملک کے سربراہ سے Favor لیتے ہیں۔ یہ بھی دراصل ایک طرح سے کرپشن ہے۔ 2013 میں سعودی شاہ نے ملیشیا کے وزیر اعظم نجیب رازق کو681 ملین ڈالر تحفہ  میں دئیے تھے۔ جو ملیشیا میں ایک بہت بڑا اسکنڈل بن گیا تھا۔ ملیشیا کے اٹارنی جنرل نے اس کی تحقیقات کرنے حکم دیا تھا۔ وزیر اعظم نجیب نے اسے سعودی حکومت کو واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن تحقیقات کے مطابق یہ ساری رقم واپس نہیں کی تھی۔ ملیشیا میں وزیر اعظم کا سعودی حکومت سے 681 ملین وصول کرنے کو کرپشن کہا گیا تھا۔ اور ان سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ شاہ عبداللہ مرحوم نے مصر میں فوجی حکومت کو اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ کرنے پر 20 بلین ڈالر دئیے تھے۔ یہ سعودی حکومت کی ایک خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت تھی۔ اور دوسری طرف یہ سعودی عرب کا کرپشن تھا۔ لیکن مصر کی فوجی حکومت نے جب شام کی خانہ جنگی میں صدر اسد کو اقتدار سے ہٹانے کی مخالفت کی تھی تو پھر سعودی حکومت نے 20 بلین ڈالر روک لئے تھے۔ اسی دوران سعودی شاہ نے لبنان کی حکومت کو 3 بلین ڈالر لبنا نی فوج بنانے کے لئے دئیے تھے۔ تاکہ حزب اللہ کی ملیشیا پر لبنان کا انحصار ختم کیا جاۓ۔ Saad Hariri لبنان کے وزیر اعظم تھے۔ حزب اللہ نے لبنان کی بقا اور سلامتی میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اور حزب اللہ کو لبنان کے سیاسی نظام سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم Saad Hariri اب سعودی عرب میں یرغمالی بنے ہوۓ ہیں۔ اور اطلاع یہ ہے کہ سعودی حکومت ان سے 3 بلین ڈالر واپس مانگ رہی ہے۔ وزیر اعظم کو خصوصی طور پر سعودی عرب بلایا گیا تھا۔
    سعودی شاہ کے انتہائی Lavish بیرونی دورے جن پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی کرپشن ہے۔ شاہ سلمان کے حالیہ تین روزہ روس کے دورے پر تقریباً 3 ملین ڈالر خرچ ہوۓ تھے جو سعودی خزانہ سے ادا کیے گیے تھے۔ جبکہ اس سال شاہ سلمان کے ایسٹ ایشیائی ملکوں جاپان، انڈونشیا، ملیشیا اور چین کے دوروں پر دس ملین ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔ شاہ کے ساتھ دو سے تین سو لوگ جاتے ہیں۔ جن میں شاہی خاندان کے لوگ، بزنس سے وابستہ سعودی، شاہ کا ذاتی عملہ شامل ہوتا ہے۔ شاہ سلمان ایک ماہ کی موسم سرما کی تعطیلات گزارنے مراکش  آۓ تھے۔ شاہ کے ساتھ ان کے ایک ہزار مہمان بھی آۓ تھے۔ جن میں ان کے رشتہ دار، وزرا اور سیکورٹی کا عملہ بھی شامل تھا۔ ان کے لئے خصوصی طور پر ہوٹل میں 800 کمرے حاصل کیے گیے تھے۔ 200 کاریں Leased کی گئی تھیں۔ شاہ سلمان کی ایک ماہ کی تعطیلات پر 100 ملین ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ اور یہ اخراجات بھی کرپشن میں شمار ہوتے ہیں۔
    گزشتہ سال اکتوبر میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کفایت شعاری اسکیم کے تحت بجٹ میں کٹوتی کی تھی۔ حکومت کے ہر شعبہ میں اخراجات کم کرنے کے اقدامات کیے تھے۔ سرکاری کنٹریکٹ منجمد کر دئیے تھے۔ سول ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کر دی تھی۔ شاہی خاندان کی مراعات میں بھی کمی کی تھی۔ ولی عہد شہزادہ محمد بجٹ میں Austerity کے فیصلے کرنے کے بعد فرانس کے جنوب میں تعطیلات گزارنے چلے گیے تھے۔ یہاں ساحل کے کنارے پر شہزادہ محمد نے اپنے محل سے 440 فٹ کا Yacht دیکھا جو شہزادہ کو پسند آ گیا تھا۔ شہزادہ محمد نے اپنے معاون کو Yacht کا سودا کرنے کے لئے بھیجا۔ Yacht ایک روسی Yuri Shefler کا تھا جو Vodka Tycoon تھا۔ چند گھنٹوں میں Yacht کا سودا ہو گیا تھا۔ Yuri Shefler کے ایک قریبی ساتھی اور سعودی شاہی خاندان کے ذرائع کے مطابق Yacht 550 ملین ڈالر میں خریدا تھا۔ اور اس کی ادائیگی بھی اسی وقت کی گئی تھی۔ اور روسی نے بھی اسی روز Yacht خالی کر دیا تھا۔ اور یہ شہزادہ محمد کی ملکیت بن گیا تھا۔ ولی عہد شہزادہ محمد  نے سعودی بجٹ میں Austerity پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ شاہی خاندان کے مراعات میں کمی کی تھی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کر دی تھی۔ لیکن پھر فرانس میں شہزادہ کی تعطیلات پر اخراجات کے علاوہ 550 ملین ڈالر کا Yacht خریدا تھا۔ یہ Yacht بھی محل کی طرح ہیں۔ اور اس کے اخراجات بھی محل سے کم نہیں ہوں گے۔ اس کا بھی ایک عملہ ہو گا۔ اس کی سیکورٹی کے بھی اخراجات ہوں گے۔ شہزادہ محمد کے اس Behavior میں کرپشن تھا۔ اور اس کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ گزشتہ اگست میں Yacht کو Red Sea میں حادثہ کے نتیجہ میں اس کے ڈھانچہ کو زبردست نقصان پہنچا تھا۔
    شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے مسائل کا حل نہیں ہیں بلکہ سعودی عرب کا مسئلہ ہیں۔ 2015 میں وزیر دفاع بننے کے بعد شہزادہ محمد نے یمن سے جنگ شروع کر دی تھی۔ یہ جنگ سعودی عرب نے اپنی مرضی سے شروع کی تھی۔ لیکن اس جنگ کو تین سال ہو گیے ہیں اور ابھی تک جنگ میں کامیابی نہ ہونے کا الزام ایران کو دیا جا رہا ہے۔ 10 ہزار یمنی اس جنگ میں مارے گیے ہیں۔ سعودی بمباری نے ایک قدیم تاریخ کے ملک کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔ یمن کی جنگ ابھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہی تھی کہ داعش کے خلاف جنگ کا محاذ کھل گیا تھا۔ شام کی خانہ جنگی میں امریکہ فرانس سعودی عرب بحرین کویت  ترکی کے ملوث ہونے سے یہ ایک خوفناک جنگ بن گئی تھی۔ داعش کے خلاف جنگ بھی شام کی جنگ میں merge ہو گئی تھی۔ ان جنگوں میں کردوں کی اپنی جنگ شروع ہو گئی تھی۔ کرد  ترکی پر حملہ کرنے لگے تھے۔ اس خطہ میں یہ سعودی عرب کی قیادت تھی جو امریکہ کے ساتھ یہ جنگیں آرگنائز کرنے میں معاونت کر رہی تھی۔ 6 سال اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ اتحادی بن کر اس خطہ میں تباہیوں کو فروغ دیا ہے۔ اس خطہ میں یہ سعودی عرب کا اثر و رسوخ ہے۔ جو قبائلی کلچر ہے۔ ہر طرف قبائلی ذہنیت لڑائیوں میں مصروف ہے۔
    سعودی عرب نے قطر سے بھی تعلقات خراب کر لئے ہیں۔ اور قطر کے ساتھ کشیدگی جنگ کے حالات بنا رہی ہے۔ اور اب  سعودی مداخلت لبنان کو عدم استحکام کر رہی ہے۔ حزب اللہ کے خلاف ایک نئی جنگ کی سازش ہو رہی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ  ایران کو مداخلت کا الزام دیتے ہیں۔ لیکن ان کی حکومت خطہ میں ہر طرف مداخلت کر رہی ہے۔ ہر ملک میں انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔ اس خطہ کے انتشار میں ایران کا کیا مفاد ہے؟ یا حزب اللہ کو انتشار سے کیا حاصل ہو گا؟ سعودی عرب کی بھی اسرائیل کی طرح اگر یہ حکمت عملی ہے کہ Permanent Enemy اس کی سلامتی کے مفاد میں ہیں۔ تو پھر سعودی عرب بہت جلد تنہا رہے جاۓ گا۔ شہزادہ محمد بن سلمان  2030 تک سعودی عرب کو ترقی یافتہ صنعتی ملک بنانا چاہتے ہیں۔ 500 بلین ڈالر سے  Silicon Valley کی طرز پر ایک نیا شہر بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن دوسروں کے شہروں اور ملکوں کو تباہ کر کے یہ کیسے ممکن ہو گا؟ سعودی عرب کے بقا اور سلامتی میں حکومت کو Confrontation کی پالیسی ترک کرنا ہو گی۔ اور Conciliation کی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ ایران اور سعودی عرب کا مفاد مشترکہ ہے کہ اس خطہ کا امن اور استحکام بحال کیا جاۓ۔ دونوں ملکوں میں اس ایک نقطہ پر تعاون ہو سکتا ہے۔ پھر اس خطہ کے ملکوں میں ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں سیاسی مداخلت نہ کرنے اور خطہ کے کسی بھی ملک میں بیرونی مداخلت کی اجازت نہیں دینے پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ اقتصادی ترقی اور تجارت کا فروغ خطہ کے تمام ملکوں کی پہلی ترجیح تسلیم کی جاۓ۔ یہ فیصلے سعودی عرب کی قیادت کو کرنا ہیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ خطہ کے چند ملکوں پر اقتصادی بندشیں لگا کر اور چند ملکوں کو جنگوں کے حالات میں رکھ کر صرف سعودی عرب اور اسرائیل میں امن ہو گا اور صرف وہ  ترقی کریں گے۔                       

No comments:

Post a Comment