Wednesday, November 22, 2017

This Is Southeast Asia, Where Indonesia And Malaysia, Two Islamic Countries Are Among Communist, Buddhist and Christian Countries, Living With Peace, And Their Economic Development Is Remarkable

This Is Southeast Asia, Where Indonesia And Malaysia, Two Islamic Countries Are Among Communist, Buddhist and Christian Countries, Living With Peace, And Their Economic Development Is Remarkable       

While in Southwest Asia, all countries are Islamic, among them only Israel is a Jewish State. This region has no peace, always in turmoil and war, too much too long Israel’s warmongering, too much America’s meddling and collusion with repressive regimes      
مجیب خان
Vietnam

Vietnam aftermath by kai gunderse

Saigon today   Ho Chi Minh city


Saigon, Vietnam

Aleppo, Syria before war

Homs, Syria before war

Aleppo, after war of aggression

Homs, Syria
     صدر ٹرمپ جنوب مشرقی ایشیا کے پانچ ملکوں کے 12 روز کے دورے کے بعد واپس آۓ ہیں۔ اس دورے میں صدر ٹرمپ نے ویت نام میں APEC ملکوں کی اور بنکاک فلپائن میں ASEAN ملکوں کی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے جن جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کا دورہ کیا تھا ان میں جاپان جنوبی کوریا چین ویت نام  سنگاپور اور فلپائن شامل تھے۔ صدر ٹرمپ نے جنوبی کوریا اور ویت نام کی شاندار اقتصادی ترقی کو سراہا یا تھا۔ ویت نام کو سراہا تے ہوۓ صدر ٹرمپ نے کہا "یہ دنیا کے عظیم مجوزوں میں ایک ہے اور یہ واقعی دیکھنے کے قابل ہے" ویت نام جنگ کے 20 سال بعد جس میں لاکھوں لوگ مارے گیے تھے۔ ملک کی معیشت 1990 سے دنیا کے تیز تر ترقی کرنے والے ملکوں میں شمار کی جاتی ہے۔ و رلڈ بنک کے مطابق 2000 میں اس کا GDP 6.5 سالانہ تھا۔ امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر ایٹم گراۓ تھے۔ اور 50 کی دہائی میں کوریا پر حملہ کیا تھا۔ اور 60 کی دہائی میں ویت نام سے جنگ لڑی تھی۔ اور جس طرح آج شام کھنڈرات نظر آ رہا ہے 40 سال قبل ویت نام کو امریکی فوجیں کھنڈرات میں چھوڑ کر آئی تھیں۔ اور 50 سال قبل جنگ ختم ہونے کے بعد کوریا کے حالات عراق کے حالات سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ ویت نام جنگ کمیونزم کے خلاف تھی۔ 50 ہزار امریکی فوجی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ اور جو امریکی فوجی ابھی تک زندہ ہیں ان کے اس جنگ کے زخم ابھی تک بھرے نہیں ہیں۔ لیکن ویت نام آج بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے۔ اور ویت نام نے اس کمیونسٹ نظام میں حیرت انگیز صنعتی اور اقتصادی ترقی ہے۔ جس کی صدر ٹرمپ نے ہنوئی میں تعریف کی ہے۔ امریکہ کی بغل میں کیوبا کمیونسٹ ملک ہے۔ لیکن امریکہ نے کیوبا پر اقتصادی پابندیاں اس لئے لگائی ہیں کہ یہ کمیونسٹ ملک ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ کمیونزم اور سوشلزم فیل ہو چکے ہیں۔ لیکن چین اور ویت نام میں کمیونسٹ بہت کامیاب ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔
    جنوب مشرقی ایشیا کی یہ خوبی ہے کہ اس خطہ میں سیاسی نظام اور مذہبی عقیدے مختلف ہیں۔ لیکن اقتصادی ترقی سب کا ایک مذہب ہے۔ جاپان میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ اور جاپان کی Imperial سوچ نہیں ہے۔ جنوبی کوریا میں صدارتی جمہوری نظام ہے۔ چین اور ویت نام میں کمیونسٹ نظام ہے۔ فلپائن میں صدارتی نظام ہے۔ اور اکثریت کتھو لک  عیسائوں کی ہے۔ انڈونشیا اور ملائشیا اسلامی ملک ہیں۔ انڈونشیا میں صدارتی جمہوری نظام ہے۔ اور ملائشیا میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ لیکن ان ملکوں میں بعض اسلامی قوانین بھی رائج ہیں۔ سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس خطہ میں اسلامی ملکوں، عیسائی ملکوں، بدھ پرست اور کمیونسٹ ملکوں میں نظریاتی محاذ آ رائی نہیں ہے۔ اور یہ اس خطہ میں امن اور استحکام رکھنے کا پہلا اصول تھا۔ چین کی دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی عادت نہیں ہے۔ اس لئے چین کے اثر و رسوخ کا کسی کو خوف نہیں ہے۔ جاپان امریکہ کے ساتھ مل کر جنوبی کوریا یا ویت نام اور چین کے خلاف سازشیں نہیں کر رہا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے کی اقتصادی ترقی سے سب افادہ حاصل کر رہے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں اقتصادی ترقی کا عمل جاری رکھنے میں چین کا ایک بہت بڑا Contribution ہے۔ South China Sea کے مسئلہ پر جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ملکوں کے چین سے سخت اختلافات ہیں۔ لیکن چین نے ان ملکوں سے طاقت کی زبان میں محاذ آ رائی سے گریز کیا ہے۔ اور پرامن سفارت کاری کی مہذب زبان میں گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اور تنازعہ میں شامل ملکوں نے بھی اس سفارتی عمل سے اتفاق کیا ہے۔ حالانکہ امریکہ کی South China Sea تنازعہ میں پارٹی بننے کی بڑی کوشش اور خواہش ہے۔ لیکن جنوب مشرقی ایشیا کے یہ ملک اس تنازعہ کو حل کرانے کا Contract امریکہ کو دینا نہیں چاہتے ہیں۔ یہ ایک Regional مسئلہ ہے اور ان کے خیال میں اسے  Internationalize نہیں کیا جاۓ۔ انڈونشیا اور ملائشیا جنوب مشرقی ایشیا کے دو بڑے اسلامی ملک عربوں کی سیاست کے ساۓ سے دور کمیونسٹ ملکوں، بدھ پرست ملکوں اور عیسائی ملکوں کے درمیان بہت بہتر حالات میں ہیں۔ اور اسلامی دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اقتصادی ترقی میں بہت آگے ہیں۔
    نائن ایلون کے بعد بش چینی کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے منصوبہ میں انڈونشیا اور ملائشیا کو بھی شامل کیا تھا۔ انڈونشیا میں دہشت گردی کے کئی واقعہ بھی ہوۓ تھے۔ جن میں مقامی لوگوں کے علاوہ بڑی تعداد میں غیر ملکی سیاح بھی مارے گیے تھے۔ پھر ملائشیا میں بھی دہشت گردوں نے حملہ کیے تھے۔ اس کے بعد آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوۓ تھے۔ اور یہ سلسلہ پھیل رہا تھا۔ جس کے بعد آسٹریلیا نیوزی لینڈ جاپان  جنوبی کوریا چین انڈونشیا اور ملائشیا نے بش چینی انتظامیہ کو جنوب مشرقی ایشیا میں دہشت گردی کی جنگ پھیلانے سے روکا تھا۔ انڈونشیا اور ملائشیا نے بیرونی مداخلت کے بغیر اپنے ملکوں میں اسلامی انتہا پسندوں کو قابو کر لیا تھا۔ Regional ملکوں نے انڈونشیا اور ملائشیا کی مدد کی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک لمبی جنگ نہیں بننے دیا تھا۔ اسی طرح شمالی کوریا ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر بھی جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں بالخصوص جنوبی کوریا اور جاپان نے امریکہ کو فوجی کاروائی سے روک دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ دورے میں جنوبی کوریا کے صدر نے ان پر یہ واضح کر دیا تھا کہ ان کی حکومت کی اجازت کے بغیر شمالی کوریا کے خلاف فوجی کاروائی نہیں کی جاۓ۔ Regional ملک اپنے Region کے تنازعوں کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ اور انہیں حل کرنے میں امن اور استحکام کو بگڑنے نہیں دیتے ہیں۔ جبکہ غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت ان کے اپنے ایجنڈے کے مطابق ہوتی ہے۔ اور تنازعہ کے حل کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ بیرونی مداخلت تنازعہ کو حل کرنے کے بجاۓ اس تنازعہ سے نئے تنازعہ پیدا کر دیتی ہے۔
    جنوب مغربی ایشیا کی جغرافیہ اور سیاست جنوب مشرقی ایشیا سے بہت مختلف ہے۔ جنوب مغربی ایشیا عرب اسلامی ملکوں کی ایک Belt ہے۔ جس پر تقریباً 26 عرب اسلامی ملک ہیں۔ اور ان کے درمیان کمیونسٹ ملک ہے اور نہ ہی عیسائی ملک ہے۔ صرف ایک یہودی ریاست ہے۔ امن نام کی کوئی شہ اس خطہ میں نہیں ہے۔ اس خطہ میں استحکام کی جب ضرورت ہوتی ہے آ جاتا ہے۔ اور جب ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے استحکام چلا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی طاقتوں نے یہودیوں کو یورپ سے نکال کر عربوں کے درمیان ریاست بنا کر اس میں بیٹھا دیا تھا۔ اور دوسری طرف فلسطینیوں کو ان کے ابا ؤ اجداد کی سرزمین سے یہودی ریاست کے نئے مکینوں نے نکال دیا تھا۔ ان فلسطینیوں میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی بھی شامل تھے۔ عرب اسرائیل تنازعہ نے اس خطہ میں بیرونی مداخلت کو Permanent بنا دیا تھا۔ پھر اس خطہ کو بحرانوں میں رکھنے میں عرب بادشاہوں، امیر اور ڈکٹیٹروں کا بھی ایک رول ہے۔ مفاد پرست اور Greedy نوآبادیاتی اور سامراجی طاقتیں اس خطہ کی انسانیت سے زیادہ تیل اور گیس کی دولت میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ یہ خطہ بھی جنوب مشرقی ایشیا کی طرح ہو سکتا تھا اگر اس خطہ میں یہودی ریاست نہیں ہوتی۔ اگر اس خطہ میں تیل اور گیس کی دولت نہیں ہوتی۔ اگر اس خطہ میں عرب بادشاہتیں نہیں ہوتی۔ اگر اس خطہ میں سامراجی اور نوآبادیاتی  طاقتوں کی Meddling نہیں ہوتی۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس دنیا میں سب زیادہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ تھے۔ لیکن جنوب مغربی ایشیا میں ان کی پالیسیوں اور فیصلوں نے انہیں سب سے بڑا جاہل ثابت کیا تھا۔ اس خطہ کے ہر ملک سے انہوں نے جھوٹ اور مکاری کی تھی اور انہیں ایک دوسرے لڑایا تھا۔ اس خطہ میں ان کے کوئی اصول تھے اور نہ ہی کوئی اخلاقی قدریں تھیں۔ اور نہ ہی مثبت پالیسیاں تھیں۔ اس خطہ کی دولت کو انسانی بربادی کے کاموں میں برباد کرنا تھا۔ اس لئے جنوب مشرقی ایشیا کے تمام عرب اسلامی ملک جنہیں امریکہ کا اتحادی کہا جاتا ہے وہ سب تباہ حال ہیں۔ اور گردن تک تباہیوں کے مسائل میں دھنسے ہوۓ ہیں۔      جنوب مغربی ایشیا میں جو حکومتیں 40 سال سے اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف لڑنے کا تجربہ رکھتی تھیں۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے پہلے انہیں اقتدار سے ہٹایا تھا۔ اور جو حکومتیں 50 برس سے سرد جنگ میں اسلامی انتہا پسند تنظیموں کی سرپرستی کر رہی تھیں۔ امریکہ نے اسلامی انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں ان ملکوں کو اتحادی بنایا تھا۔ اور ان کے ساتھ  اسلامی انتہا پسندی کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ پھر جنوب مغربی ایشیا میں صدیوں سے آباد عیسا ئیوں پر اسلامی انتہا پسندوں کے حملہ ہوتے تھے تو اسے عیسا ئیوں سے مسلمانوں کی نفرت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن فلسطین میں عیسائی فلسطینی اور اسلامی حما س دونوں اسرائیلی فوجی بربریت کا سامنا کر رہے ہیں تو امریکہ برطانیہ اور فرانس حما س کو دہشت گرد تنظیم کہتے ہیں۔ حالانکہ حما س نے امریکہ کے خلاف کبھی دہشت گردی نہیں کی ہے۔ جبکہ لبنان میں عیسائی، شیعہ حزب اللہ اور سنی سب ایک مخلوط حکومت میں شامل ہیں۔ اور اس حکومت نے ایک طویل خانہ جنگی کے بعد جس میں ہزاروں عیسائی شیعہ اور سنی مارے گیے تھے، لبنان کو امن دیا ہے۔ اور استحکام دیا ہے۔ لیکن امریکہ کو لبنان میں عیسا ئیوں شیعہ حزب اللہ اور سنیوں کا اتحاد بھی پسند نہیں ہے۔ امریکہ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ اب امریکہ کو جو اسلامی انتہا پسند عیسا ئیوں پر حملہ کر رہے ہیں وہ بھی پسند نہیں ہیں۔ اور جو مسلمان لبنان میں عیسا ئیوں کے ساتھ  مخلوط حکومت میں شامل ہو کر عیسا ئیوں کے ساتھ امن سے رہ رہے ہیں وہ بھی امریکہ کو پسند نہیں آ رہا ہے۔ امریکہ نے جنوب مغربی ایشیا میں خود Realities accept کی ہیں اور نہ ہی اسرائیل اور سعودی عرب سے یہ کہا ہے کہ Now enough is enough, accept the realities and live with them.     
              
Baghdad before Iraq war in 2002


Another view of Baghdad before war

Iraq after war in 2004

Destruction of Iraq
Libya before and after Nato's war of regime change


No comments:

Post a Comment