Saturday, November 4, 2017

Two Hundred Million People of Pakistan Are Fed Up From The Bullshit War Of Terror

   

Two Hundred Million People of Pakistan Are Fed Up From The Bullshit War Of Terror
      
This Is A War of Nonsense Blames, Not The Commonsense Fact  
     
Mujeeb Khan

        October 22, 2017
     Secretary of State Rex Tillerson “Washington has long been frustrated by Pakistan’s willingness to offer cross-border safe havens to Taliban factions and armed jihadist groups fighting US troops and their Afghan allies. The US has given Pakistan a list of “very specific request” for action against the Taliban and other relations with Islamabad will be ‘conditions-based’.”
     January 23, 1980
     Pravda “The Pakistani leaders are not only doing their best to support the units of anti-Afghan saboteurs but have actually begun to organize the subversive activities against Afghanistan. With their connivance Afghan counter-revolution organizations have set up an extensive network of base and arms depots on Pakistan’s territory. Efforts are being made to pool the Afghan counter revolutionary armed units based on Pakistan’s territory into a single strike force. Five groupings have already united. Activities have been stepped up the base and camps at Parachinar, Miran shah, Chitral, Job, Cherat, Kohat, Warsak, Quetta and some other places where saboteurs and terrorist are being trained with the help of Americans and Pakistani instructors.”
   پاکستان کو 37 سال قبل افغان جنگ میں جن الزامات کا سامنا سو ویت یونین سے تھا۔ 37 سال بعد ان الزامات کا سامنا پاکستان کو اب امریکہ سے کرنا پڑ رہا ہے۔ سو ویت فوجوں اور کابل میں انقلابی حکومت کو مجاہدین کی مسلح مزاحمت کا سامنا تھا جن کی امریکہ اور پاکستان پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ قدامت پسند مجاہدین کابل میں پروگریسو انقلابی حکومت کا خاتمہ کر کے افغانستان میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ امریکی فوجیں اب افغانستان میں سابقہ مجاہدین جو اب طالبان کے بھیس میں ہیں ان سے لڑ رہی ہیں۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں جو ماڈریٹ حکومت قائم کی ہے۔ طالبان اس حکومت کو ہٹا کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں مداخلت کرنے کی سیاست کے نتیجہ میں پاکستان کو تین مرتبہ سزا ملی ہے۔ پہلے سو ویت فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کی جنگ لڑنے کی سزا ملی تھی۔ پھر طالبان کو افغانستان میں حکومت میں لانے کی سزا ملی تھی۔ اور اب افغانستان میں ہر جنگ میں امریکہ سے تعاون کرنے کی سزا ہر طرف سے مل رہی ہے۔ پاکستان کے عوام کو یہ الزام اپنے رہنماؤں کو دینا چاہیے جنہوں نے یہ حالات انہیں دئیے ہیں۔ نوآبادیاتی اور سامراجی طاقتیں اپنے مفاد میں چھوٹے ملکوں کو استعمال کرتی ہیں۔ اور ان کے مفادات جب پورے ہو جاتے ہیں تو وہ انہیں Bully کرنے لگتی ہیں۔ یہ حالات پاکستان کے گلے میں اٹک گیے ہیں۔ جنہیں اب نگلنا اور اگلنا مشکل ہو گیا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے اسلام آباد میں اعلی حکام سے ملاقات میں پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے پر اصرار کیا ہے۔ جبکہ دہلی میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقات میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے خطہ میں انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں بھارت کا امریکہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر شکر یہ ادا کیا ہے۔ اور اس شکر یہ کے ساتھ سیکرٹیری آف اسٹیٹ نے بھارتی وزیر خارجہ سے  شمالی کوریا سے تعلقات منقطع کرنے کے لئے کہا تھا لیکن وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس سے انکار کر دیا تھا۔
   37 سال قبل افغانستان میں سو ویت فوجوں کے خلاف مزاحمت میں امریکہ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا تھا۔ اور افغانستان میں پاکستان کے رول کو سہرا یا جاتا تھا۔ حالانکہ اس وقت وزیر اعظم اندرا گاندھی کا افغانستان میں سو ویت فوجوں کے خلاف جہادیوں کو تربیت دینے کی مخالفت میں موقف بہت درست تھا۔ اندرا گاندھی نے ریگن انتظامیہ کو اس کے خطرناک نتائج سے متنبہ کیا تھا کہ یہ جہادی جنہیں سی آئی اے تربیت دے رہی تھی۔ ہمارے لئے اور اس خطہ کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن جائیں گے۔ امریکہ اگر ان جہادیوں کو سو ویت فوجوں کے خلاف استعمال کرنا بند کر دے تو سو ویت فوجیں افغانستان سے چلی جائیں گی۔ لیکن امریکہ اس وقت پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا تھا۔ اور بھارت کے موقف کو سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ جس طرح آج امریکہ بھارت کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور پاکستان کی سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور اب المیہ یہ ہے کہ 1980 کی دہائی میں پاکستان میں تخریب کاروں کے تربیتی کیمپوں کے بارے میں سو ویت وزارت خارجہ کے بیانات کو اب امریکہ کا محکمہ دفاع  اور محکمہ خارجہ Recycling کر رہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے Save havens ہونے کے دعوی کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ چھوٹے ملکوں کا بڑے ملکوں کے مفادات میں کام کرنے کا المیہ ہے۔ یہ درست ہے کہ حالات بدل جاتے ہیں اور تعلقات بھی حالات کے مطابق بدل جاتے ہیں۔ لیکن تعلقات کی تاریخ کبھی نہیں بدلتی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف جو جنگ لڑی تھی۔ وہ اس جنگ میں دونوں ملکوں کے رول کی تاریخ ہے۔
   حیرت کی بات ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی افغان پالیسی میں پاکستان میں دہشت گردوں کے safe havens کے دعوی کیے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اس پانچ رکنی کانگریشنل وفد سے بریفنگ لی تھی نہ ہی وفد سے اصل صورت حال کے بارے میں رپورٹ مانگی تھی۔ جو گزشتہ جون میں اسلام آباد آیا تھا۔ اور پاکستان کی فوج کے اعلی حکام نے کانگریشنل وفد کو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فوج کی کاروائیوں کے نتیجہ میں زبردست پرو گریس کی تفصیل بتائی تھی۔ فوج کے اعلی حکام پھر کانگریشنل وفد کو افغان سرحد کے ساتھ FATA میں شمالی وزیر ستان اور جنوبی وزیر ستان میں زندگی معمول پر آنے کے حالات دکھانے لے گیے تھے۔ پاکستانی فوج نے یہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں مکمل طور پر صاف کر دی ہیں۔ کانگریشنل وفد نے ان علاقوں میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لیا تھا۔ اور یہاں دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے پر پاکستان کی فوج کی کوششوں اور قربانیوں کو سہرا یا تھا۔ وفد میں شامل سینیٹر John McCain نے کہا                
                           “My colleagues from the United States Senate and I have a very informative and important visit, under-stating the challenges, the successes and remaining challenges that require close  coordination and assistance from us and with us,” Senator McCain said “We had talked about many issues, including the importance of Afghan-Pakistan cooperation in relationship on the border and we are confident that with the right cooperation and the right strategy, we can see success here in this very long struggle.”  
 کانگریشنل وفد میں Senator John McCain, Senator Lindsey Graham, Senator Sheldon Whitehouse, Senator David Perdue, Senator Elizabeth Warren  شامل تھے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کو بھی افغانستان پاکستان اور بھارت کا دورہ کرنے سے پہلے ان سینٹروں سے صورت حال کے بارے میں معلومات لینا چاہیے تھی۔ افغانستان پاکستان اور دہشت گردوں کے بارے میں صرف بھارت کی معلومات پر افغان پالیسی doomed to fail ہو گی۔ کیونکہ  بھارت کی معلومات تنگ نظری پر ہیں۔ اور biased, prejudiced ہیں۔ بھارت کے ساتھ امریکہ کی یہ رٹ کہ "پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گا ہیں۔"  کسی بھی معقول سوچ رکھنے والے کے لئے یہ تسلیم کرنا مشکل ہو گا۔ اس کے ذہن میں یہ سوال آئیں گے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ حملہ ہوۓ ہیں۔ دہشت گردی میں سب سے زیادہ لوگ مارے گیے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف فوج کی مہم میں سب سے زیادہ فوجی مارے گیے ہیں۔ دہشت گردوں کے حملوں میں اور دہشت گردوں کے خلاف مہم میں پاکستان کے اخراجات کے علاوہ تقریباً 100 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ان تمام  حقائق کے بعد کون بیوقوف اپنے ملک کی سرزمین کو دہشت گردوں کے لئے safe havens بھی بناۓ گا۔ پاکستان کی حکومت نے یہ blunder ضرور کی ہے کہ 3ملین افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی ہے۔ ان افغان مہاجرین کو کرزائی حکومت کے دور میں افغانستان بھیج دینا چاہیے تھا۔ پاکستان میں ابھی تک افغان مہاجرین کی موجودگی دیکھ کر امریکہ اور بھارت اسے دہشت گردوں کی safe havens کہنے لگتے ہیں۔
   افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں ازبک اور تا جک  امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں۔ اور یہ بھارت کے  بھی قریب تر ہیں۔ لیکن امریکہ نے کبھی افغانستان کے شمال میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ ازبکستان اور تاجکستان کی سرحدیں بھی افغانستان سے ملتی ہیں اور یہاں بھی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں۔ جس طرح پشتون افغانستان اور پاکستان میں آتے جاتے رہتے ہیں اسی طرح ازبک اور تا جک  بھی افغانستان میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ ازبک اسلامی تحریک کے طالبان اور القا عدہ سے قریبی رابطہ تھے۔  اسلامی تحریک ازبک کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں طالبان کے ساتھ تھے اور امریکہ اور نیٹو کے خلاف لڑ رہے تھے۔ شمالی وزیر ستان میں جن غیر ملکی دہشت گردوں نے پناہ لی تھی ان میں ایک بڑی تعداد اسلامی تحریک ازبک کے دہشت گرد تھے۔ جو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے۔ کراچی انٹرنیشنل ایرپورٹ پر دہشت گردی کے حملہ میں بھی اسلامی تحریک ازبک ملوث تھی۔ پاکستانی فوج نے شمالی وزیر ستان میں ملٹری آپریشن کر کے تمام غیر ملکی اور مقامی دہشت گردوں کے safe havens تباہ کر دئیے تھے۔ بہت سے دہشت گرد مارے گیے تھے اور کچھ افغانستان بھاگ گیے تھے۔ پھر چند ماہ بعد اسلامی تحریک ازبک نے کراچی میں نیول بیس پر حملہ کیا تھا۔ اور پاکستان کی سیکورٹی کی اہم تنصیبات تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ پاکستانی فوج کے ساتھ اسلامی تحریک ازبک کے دہشت گردوں کی کئی گھنٹوں تک جھڑپ کے بعد جس میں تمام دہشت گرد ہلاک ہو گیے تھے۔ اس وقت امریکہ اور بھارت سائڈ لائن پر کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ اور یہ  کہتے تھے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی safe havens ہیں۔ افغان ازبک اور تا جک امریکہ اور بھارت کے قریبی اتحادی ہیں۔ اور افغانستان کی شمالی سرحدیں ازبکستان اور تاجکستان سے ملتی ہیں۔ اور یہاں سے یہ ازبک اور تا جک افغانستان میں داخل ہوتے ہیں اور افغان ازبک اور تا جک میں گھل مل جاتے ہیں۔ ان میں جن کا اسلامی تحریک سے تعلق نہیں ہے۔ وہ افغان ازبک اور تا جک کے ساتھ پشتونوں سے لڑنے لگتے ہیں۔ اور جو ازبک اور تا جک اسلامی تحریک سے تعلق رکھتے ہیں وہ طالبان کے ساتھ  افغان حکومت اور غیر ملکی فوجوں پر حملہ کرتے ہیں۔ امریکہ نے افغان جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ایک معما بنا دیا ہے۔ اس لئے 16 سال میں امریکہ کو کسی جنگ میں کوئی کامیابی نہیں ہو رہی ہے۔ دہشت گردی اسامہ بن لادن اور القا عدہ کر رہے تھے۔ لیکن امریکہ نے دہشت گردی کے الزامات میں صد ام حسین کا عراق، قدافی کا لیبیا، اور اسد کا شام تباہ و برباد کر دیا۔ پاکستان پر دہشت گردوں کے شمال جنوب مغرب مشرق سے حملہ ہو رہے تھے۔ لیکن پاکستان پر   “Harboring agents of chaos” کا الزام ہے۔
                                                         
                                              
Bomb blast in Quetta, killed 14 people

Terror bloodbath at the army Public school in Peshawar, Pakistan. December 17, 2014  

A damaged building at Jinnah International Airport Karachi, after terrorist attack 

Jinnah International Airport Karachi, another terror attack

Terrorists shot dead by the Pakistani security forces after terrorists stormed the the PAF Minhas Airbase
                                         





                                                                                                                                                                                         

No comments:

Post a Comment