Ambassador Nikki Haley’s “High
Heel” Threat To The World
In Israel, America is
standing, supporting, and defending those that murdered a peace-making Prime
Minister, Yitzhak Rabin; and then they Killed The peace. Since then, America has
destroyed the peace in Iraq, destroyed peace in Libya, destroyed peace in
Syria, and has destroyed peace in Yemen. President Donald J. Trump has
presented Jerusalem on a silver plate as a reward to Israel.
مجیب خان
The Security Council meeting to declare the U.S's Jerusalem decision unlawful, 14 to one |
U.S. Ambassador to the United Nations Nikki Haley vetoed an Egyptian-drafted resolution that called on countries to not establish diplomatic mission in Jerusalem |
اقوام
متحدہ میں امریکہ کی سفیر Nikki
Haley نے سلامتی کونسل میں یروشلم کو
اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر
امریکہ
کے فیصلے کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ سے قبل اپنے خطاب میں کہا کہ "امریکہ
اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کو سب سے زیادہ فنڈ ز دیتا ہے۔ اور اس کے عوض امریکہ
اپنے فیصلہ کی حمایت میں توقع کرتا ہے۔ اس پر پہلے ہی بحث ہو چکی ہے۔ یہ فیصلہ
1995 کے امریکی قانون کے مطابق ہے۔ اس فیصلہ میں کوئی آخری معاہدہ تجویز نہیں کیا
گیا ہے۔ اس فیصلہ سے امن کی کوششوں کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔" امریکی
سفیر نے کہا" امریکہ اس دن کو یاد ر کھے گا کہ جب اقوام متحدہ میں ہماری Sovereignty میں
عملی اقدام کرنے پر اسے تنہا کر دیا گیا تھا۔ یروشلم میں امریکہ کا سفارت خانہ بنے
گا۔ امریکی عوام بھی ہم سے یہ چاہتے ہیں۔" امریکی سفیر Nikki Haley نے
سلامتی کونسل کے 14 اراکین اور جنرل اسمبلی کے 193 اراکین کے سامنے اپنی انتظامیہ
کا فیصلہ تسلیم کروانے کے لئے جو دلیل دی ہے۔ وہ بالکل نا معقول دلیل ہے۔ اس کا
اصولوں اور قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ایسی کوئی شق
نہیں ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جو ملک اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کو سب سے
زیادہ فنڈ ز دے گا۔ اقوام متحدہ کے 193 اراکین اس ملک کے فیصلہ ماننے کے پابند ہوں
گے۔ امریکہ کے آئین میں بھی ایسی کوئی آرٹیکل نہیں کہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ
امریکہ کے ارب پتی اور کھرب پتی جو سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ امریکہ کے 300 ملین
لوگ ان کے فیصلہ ماننے کے پابند ہیں۔ اہم عالمی تنازعوں اور ایشو ز پر سلامتی
کونسل کی 80 فیصد قرار دادیں امریکہ نے اپنے خارجہ پالیسی مفاد میں استعمال کیا ہے
یا انہیں ویٹو کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ نہیں لکھا ہے کہ جو ملک اسے سب
سے زیادہ فنڈ ز دے گا اس کی پارلیمنٹ یا کانگرس عالمی تنازعوں پر جو قانون منظور کرے
گی۔ اقوام متحدہ کے رکن ملک اسے قبول کرنے کے پابند ہوں گے۔ امریکی سفیر Nikki Haley نے
شاید اقوام متحدہ کا چارٹر نہیں پڑھا ہے۔ جس میں تمام ملکوں کے اقتدار اعلی اور
آزادی کو مساوی اہمیت دی گئی ہے۔ بڑے اور چھوٹے، طاقتور اور کمزور، امیر اور غریب
ملکوں کی سلامتی کی ضمانت دی گئی ہے۔ امریکی سفیر Nikki Haley نے
کہا ہے " امریکہ کی کانگرس نے 1995 میں امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے
کا قانون منظور کیا تھا اور اب اس قانون پر عملدرامد ہو رہا ہے۔" لیکن اقوام
متحدہ کے رکن ممالک امریکی کانگرس کے منظور کردہ قانون کو نافذ کرانے کے پابند نہیں
ہیں۔ کانگرس نے یہ قانون اسرائیلی لابی کے زبردست influence میں
منظور کیا تھا۔ اور پھر صدر کلنٹن سے اس پر دستخط کرنے کا کہا گیا تھا۔ دنیا نے سو
ویت ایمپائر کو اس لئے ختم نہیں کیا تھا کہ اس کی جگہ امریکی ایمپائر قائم ہو جاۓ
گی اور پھر دنیا کو امریکی کانگرس کے قانون پر عملدرامد کرنا ہو گا۔
1998
میں کانگرس نے عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا قانون منظور کیا تھا۔ یہ Law of Sovereign Nations کی
خلاف ورزی کرتا تھا۔ صدر کلنٹن نے کانگرس کے اس قانون پر بھی دستخط کیے تھے۔
حالانکہ کسی بھی قانون کے تحت ایک خود مختار ملک میں حکومت تبدیل کرنے کا اختیار غیر ملکی طاقت کو نہیں ہے۔ یہ
صرف اس ملک کے لوگوں کو حاصل ہے۔ لیکن امریکہ نے اپنے قانون کے تحت عراق میں فوجی مداخلت
کی تھی اور عالمی قانون کی خلاف ورزی کر کے عراق میں حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔ اب
اگر صدر پو تن امریکی کانگرس کے اس قانون کے تحت جس پر صدر کلنٹن نے دستخط کیے
تھے، اور جس پر صدر بش نے عملدرامد کیا تھا اور عراق میں حکومت کو اقتدار سے ہٹایا
تھا، یو کر ین میں حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے استعمال کریں تو امریکہ اور اس
کے نیٹو اتحادیوں کا رد عمل کیا ہو گا؟ نائن الیون کے بعد عالمی قوانین جیسے معطل
ہو گیے تھے۔ اقوام متحدہ کو سائڈ لائن پر کر دیا گیا تھا۔ عالمی قیادتیں امریکہ کے
پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی تھیں۔ 17 سال سے دنیا کا نظام صدر امریکہ کے
ایگزیکٹو آ ڈر اور کانگرس جو قانون منظور کرتی تھی اس پر چل رہا تھا۔ بے شمار
ملکوں پر اقتصادی بندشیں لگ رہی تھیں۔ اسلامی ملکوں کو بلیک لسٹ کیا جا رہا تھا۔ اسلامی
ملکوں میں ناپسندیدہ حکومتوں کو تبدیل کرنے کی فہرستیں بن رہی تھیں۔ یعنی Law of Bully نیا
ورلڈ آ ڈر تھا۔ 17 سال میں امریکہ کی دو انتظامیہ نے دنیا میں امن کو فروغ نہیں
دیا تھا۔ بلکہ امن کو تباہ کرنے کی جنگوں کو فروغ دیا تھا۔ صدر بش نے عراق میں امن
کو تباہ کیا تھا۔ طالبان کے خلاف جنگ کی حکمت عملی ایسی تھی کہ اس خطہ میں امن
کبھی نہیں ہو گا۔ پھر امریکہ کے امن کا نوبل انعام یافتہ صدر اوبامہ نے بھی جن
پالیسیوں کو فروغ دیا تھا وہ امن کی دشمن تھیں۔ صدر اوبامہ نے لیبیا میں امن کو
تباہ کیا تھا۔ شام میں امن کو تباہ کرنے کے ساتھ اس ملک کو ایسا تباہ کیا ہے کہ
کئی نسلیں اس ملک کی تعمیر کرتی رہیں گی۔ یمن میں بھی امن کو تباہ کر دیا ہے۔ صدر
اوبامہ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کو half glass امن میں چھوڑ کر گیے ہیں۔
17
سال سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ کے حل کے لئے کوئی مذاکرات نہیں کیے
ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کو امن میں
کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر Nikki Haley نے
بھی اسرائیلی فوجی قبضہ میں فلسطینیوں کے
حالت زار پر کبھی کوئی بات نہیں کی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ میں اسرائیل Bashing پر
دنیا کو لیکچر دئیے ہیں۔ لیکن اسرائیل Bashing کا سبب نہیں بتایا تھا۔ دنیا کی تاریخ
میں فلسطینیوں کو 70 سال سے غلاموں کی طرح رکھا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس تاریخ
بنانے کا ایوارڈ اسرائیل کو چاندی کی طشتری میں یروشلم دیا ہے کہ یہ اب اسرائیل کا
دارالحکومت ہو گا۔ یہ ایوارڈ دینے کے ساتھ صدر ٹرمپ نے سلامتی کونسل کی ان تمام
قراردادوں کو Null and Void کر
دیا ہے۔ جو 1967 کی جنگ میں عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کے قبضہ کے نتیجے میں
سلامتی کونسل نے منظور کی تھیں جن میں اسرائیل سے عربوں کے علاقے واپس دینے کا کہا
گیا تھا۔ اس میں ایسٹ یروشلم بھی شامل تھا۔ سلامتی کونسل میں ان قراردادوں کی
فائلیں 50سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کھلی ہوئی ہیں۔ کیونکہ فلسطینیوں کے خلاف
اسرائیل کی فوجی کاروائیاں جاری ہیں۔ اور فلسطینیوں کے علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ
کرنے کا سلسلہ بھی 50 سال سے جاری ہے۔ اور 1967 سے ہر سال اقوام متحدہ کے سالانہ
اجلاس میں عرب اسلامی ملک اسرائیل سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرامد کرنے
اور ان کے علاقے انہیں واپس کرنے کا
مطالبہ کرتے ہیں۔ جسے امریکہ کی سفیر اسرائیل Bashing کہتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment