Most American Middle East Envoys Were Jewish, Pro-Israel And Zionist. They Had wasted Palestinian Time. They Had Given More Time To Israel To Expand Deep In The Palestinian Land
مجیب خان
President Mahmoud Abbas |
Israeli riot and undercover police arrest an Arab-Israeli protester in Umm Al-Fahm |
Israeli Forces arresting a Palestinian boy |
ٹرمپ
انتظامیہ کا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلہ پر عربوں کے
انتہائی پھسپھسا رد عمل پر ترکی نے شدید تنقید کی ہے کہ بعض عرب ممالک واشنگٹن کو
ناراض کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ ترکی نے یہ تنقید استنبول میں اسلامی ملکوں کے
سربراہوں کی ایک ہنگامی کانفرنس کے موقعہ پر کی ہے۔ جو یروشلم کے مسئلہ پر اسلامی
ملکوں کا ایک مشترکہ موقف واضح کرنے کے لئے بلائی گئی تھی۔ ترکی اسلامی ملکوں کے
سربراہوں کی کانفرنس کا صدر ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ Mevlut Cavusoglu نے
کہا کہ "بعض عرب ملکوں کا رد عمل بہت کمزور ہے۔ یہ نظر آتا ہے کہ بعض ممالک
امریکہ سے خوفزدہ ہیں۔" استنبول میں اسلامی سربراہوں کی ہنگامی کانفرنس میں
مصر اور متحدہ عرب امارات نے صرف وزیر خارجہ بھیجے تھے۔ سعودی عرب یہ فیصلہ نہیں
کر سکا تھا کہ اس کانفرنس میں کیا کہنے کے لئے شرکت کی جاۓ؟ ترکی کی حکومت کے
مطابق دوسرے اسلامی ملکوں نے بھی یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کسے بھیجیں گے۔ جن
رہنماؤں نے کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ ان میں فلسطینی صدر محمود عباس، اردن کے شاہ
عبداللہ، لبنان کے صدر Michel
Aoun ، ایران کے صدر حسن روحانی، کویت
اور قطر کے امیر شامل تھے۔ ترکی کے صدر طیب ارد گان نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں
اسلامی ملکوں سے مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا کہا۔ صدر ارد
گان نے کہا "تمام اسلامی ممالک فوری طور پر فلسطین کو ایک آزاد اور خود مختار
ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔" ایران کے صدر حسن روحانی نے اسرائیل کے
خلاف فلسطینیوں کی تحریک کی حمایت کرنے کا کہا۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے
امریکہ کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ صدر محمود عباس نے کہا "
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلہ سے امریکہ کی غیر جانبداری
ختم ہو گئی ہے۔ اس تنازعہ کو حل کرنے میں امریکہ اب مخلص نہیں ہے۔ اور فلسطینی
امریکہ کے ساتھ اب کوئی مذاکرات نہیں کریں گے۔ صدر محمود عباس نے کہا
"اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں فلسطینی امریکہ کا رول بھی قبول نہیں کریں گے۔
یروشلم ہمیشہ فلسطین کا دارالحکومت ہے اور رہے گا۔ صدر محمود عباس نے کہا امریکہ
اسے ایسے دے رہا تھا کہ جیسے یہ امریکہ کا شہر تھا۔ امریکہ کے اس فیصلہ سے تمام
سرخ لائنیں بھی عبور ہو گئی ہیں۔" صدر محمود عباس کا Frustration اور
فلسطینیوں میں Anger امریکہ اور اسرائیل کی کبھی سمجھ میں نہیں آیا
ہے اور وہ انہیں صرف دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ اور ان کے نزدیک یہ تنازعہ کا سب سے
آسان حل ہے۔ لیکن دنیا میں جنہیں انسانیت سے ہمدردی ہے۔ اور جو انصاف، انسانی حقوق
اور قانون میں واقعی یقین رکھتے ہیں۔ وہ صدر محمود عباس کے Frustration اور
فلسطینیوں کے Anger کو
سمجھتے ہیں۔
امریکہ
برطانیہ فرانس اور اسرائیل نے فلسطینیوں کو اتنے زیادہ Bullshit دئیے ہیں کہ اب
ان کے پاس فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات میں Bullshit دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ 90 کی
دہائی میں امریکہ برطانیہ فرانس فلسطینیوں کو یہ دلاسے دیتے تھے کہ صبر کرو “at the end of the tunnel there
is a light” اس سرنگ کے آخر میں روشنی کے
انتظار میں ہزاروں فلسطینیوں کی زندگیاں اسرائیل نے ہمیشہ کے لئے تاریک کر دی تھیں۔ عرب دنیا کے
دریاؤں کا پانی سرخ ہونے کے بعد اب امریکہ کا رول لوگوں کی سمجھ میں آ رہا ہے۔ صدر
محمود عباس کا اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات میں امریکہ کا رول قبول نہ کرنے کا
فیصلہ بہت معقول ہے۔ صدر عباس کو یہ فیصلہ بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔ ان کے سامنے
چیرمین یا سر عرفات کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا اور پھر ان کا جو حشر کیا گیا تھا وہ
بھی تھا۔ کسی بھی انتظامیہ کو فلسطینیوں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ 70 سال سے
فلسطینی جن حالات میں ہیں وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی
فوجی بربریت اور غیر انسانی سلوک کی مذمت میں ہر قرارداد کو امریکہ نے سلامتی
کونسل میں ویٹو کیا ہے۔ یہاں امریکہ کی اخلاقی قدروں میں انصاف اور نا انصافیوں میں فرق نظر نہیں آتا تھا۔ اگر اس میں ذرا بھی
فرق ہوتا تو فلسطینیوں کے ساتھ ضرور انصاف ہوتا۔
نہ
صرف یہ بلکہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل کے لئے امریکہ نے جتنے بھی خصوصی سفیر
نامزد کیے تھے ان میں زیادہ تر Jewish تھے۔ اسرائیل نواز تھے۔ اور Zionist
تھے۔ یہ فلسطینیوں کا صرف وقت برباد کرتے تھے اور اسرائیل کو انہوں نے فلسطینیوں
کے علاقوں میں پھیلنے کا وقت دیا تھا۔ فلسطینی اسرائیل کے ساتھ جو امن معاہدے کرتے
تھے۔ عالمی میڈ یا میں ان کی سرخیاں لگتی تھیں۔ اسرائیلی رہنما فلسطینیوں کو گلے
لگاتے تھے۔ اس کی تصویریں صفحہ اول پر شائع ہوتی تھیں۔ فلسطینی اپنے مقبوضہ گھروں
میں سرنگ کے آخر میں روشنی دیکھنے کا انتظار کرتے تھے۔ اسرائیلی حکومت کو کچھ ماہ
بعد فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدوں سے نفرت ہونے لگتی تھی اور وہ اسے ردی کی ٹوکری
میں پھینک دیتے تھے۔ فلسطینی یہ دیکھ کر گھروں سے نکل آتے تھے اور اسرائیلیوں پر
پتھر پھینکنے لگتے تھے۔ یہ دیکھ کر امریکہ اسرائیل کی حمایت میں فلسطینی رہنماؤں
سے اسرائیل کے خلاف دہشت گردوں کو روکنے کا مطالبہ کرنے لگتا تھا۔ امریکہ جو انسان
کو چاند پر بھیج سکتا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ فلسطینیوں کو جب امن ملے گا تو اسرائیل بھی
امن سے رہے گا۔ Peace is
Reciprocal۔ سرد جنگ میں مغربی یورپ نے مشرقی
یورپ میں امن اور استحکام رکھا تھا۔ اس کے
جواب میں مشرقی یورپ نے بھی مغربی یورپ میں امن اور استحکام رکھنے میں تعاون کیا
تھا۔
اسرائیلی مذہبی نظریاتی قدامت پسند فلسطینیوں کے ساتھ امن نہیں چاہتے ہیں۔ اور موجودہ Status quo انہیں Suit کرتا ہے۔ اور
وہ اسے اسرائیل کے مفاد میں سمجھتے ہیں۔ یہ نظریاتی قدامت پسند اسرائیلی 15 سال سے
اسرائیل کی سیاست پر قابض ہیں۔ اور فلسطینیوں پر ان کا فوجی قبضہ ہے۔ انہوں نے
اپنے ایک وزیر اعظم اسحاق رابین کو فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتہ کرنے کی سزا یہ
دی تھی کہ انہیں قتل کر دیا تھا۔ یہ اسحاق رابین کا قتل نہیں تھا یہ امن کا قتل تھا۔
اور امریکہ امن کے قاتلوں کا اتحادی تھا۔ صدر جارج بش نے وزیر اعظم جنرل ایریل
شرون کو Man of Peace کہا
تھا۔ جنرل شرون نے اتنی ہی بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو ہلاک کیا تھا کہ جتنا صد ام
حسین کو اپنے مخالفین کو ہلاک کرنے کا الزام دیا جاتا تھا۔ 17 سال سے فلسطین
اسرائیل تنازعہ کے حل میں کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ لیکن عرب ملکوں کے
آپس کے تنازعوں کو حل کرنے میں امریکہ نے بڑی تیزی کے ساتھ فوجی پیش رفت کی ہے۔ فلسطینیوں
کو امن دینے کے بجاۓ عرب عوام سے ان کا امن چھین کر اسرائیل کو دے دیا۔
فلسطین اسرائیل تنازعہ کو 70 سال ہو گیے ہیں۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے
عربوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ اس قبضہ کے 50 سال ہو گیے ہیں۔ عرب حکمران
فلسطین کا تنازعہ حل کر سکے ہیں اور نہ ہی اسرائیل سے اپنے علاقوں کو واپس لے سکے
ہیں۔ اور یہ ان کے نااہل اور Impotent
ہونے کے ثبوت ہیں۔ افغانستان میں سو ویت یونین کی فوجوں کے خلاف جنگ اسلامی دنیا
کے لئے صرف تباہی لائی ہے۔ سرد جنگ سے اسلامی دنیا کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وسط
ایشیا کی اسلامی تہذیب جو سو ویت کمیونزم کے Orbit میں تھے۔ ان
عربوں کی اسلامی تہذیب سے بہت بہتر تھی جو امریکہ کے Orbit میں تھے۔ افغانستان کی اب کوئی اسلامی تہذیب
نہیں ہے۔ جن عرب حکم رانوں نے اپنے نوجوانوں کو افغانستان میں آزادی کی جنگ لڑنے
بھیجا تھا۔ 17 سال سے وہ ان نوجوانوں کا دہشت گردی کے نام پر خاتمہ کرنے کی جنگ لڑ
رہے ہیں۔
صد ام
حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد مڈل ایسٹ کیا جنت بن گیا ہے؟ سعودی اور خلیج کے حکم
رانوں کو کیا یہ عقل نہیں تھی کہ وہ کس کے ایجنڈہ پر کام کر رہے تھے؟ اور اب ایران
سے کشیدگی پیدا کرنے میں سعودی عرب کا کیا مفاد ہے؟ جو خطہ کو شیعہ سنی میں تقسیم
کر دیا ہے۔ یہ اس خطہ کے بارے میں Zionists کے منصوبوں پر سے توجہ ہٹانے کی
سیاست ہے۔ سعودی عرب، بحرین، اومان، کویت، متحدہ عرب امارات میں شیعاؤں کی ایک بڑی
آبادی ہے۔ جو عرب شیعہ ہیں۔ یہ شیعہ سنی کی لڑائی ان کے ملکوں کو Rwanda بنا
دے گی۔ مشرق وسطی میں امریکہ کے Jingoism کے در پردہ اسرائیل کے مقاصد ہوتے
ہیں۔ اور عرب حکمران 70 سال سے صرف اس
Jingoism کے Allies ہیں۔ جس دن ان عرب حکم رانوں کا
اقتدار ختم ہو جاۓ گا۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ بھی اسی دن حل ہو جاۓ گا۔ اس لئے
اسرائیل بھی ان عرب حکم رانوں کو اقتدار میں رکھنے لئے اب فرنٹ لائن میں آگیا ہے۔
اور یہ عرب حکمران اسرائیل کے لئے ایران کے خلاف فرنٹ لائن پر آ گیے ہیں۔ اور
سعودی عرب کو اس فرنٹ کا لیڈر بنا دیا ہے۔
ایسی سیاست میں فلسطین اسرائیل تنازعہ کبھی حل ہو گا اور یروشلم اسرائیل کا
دارالحکومت ہو گا؟ سعودی عرب کو اپنے
مرحوم شاہ عبداللہ کا امن پلان جو انہوں نے مارچ 2002 میں بیروت عرب لیگ کانفرنس
میں دیا تھا۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں اسے بنیاد بنانا چاہیے۔ سعودی
عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر جو مرحوم شاہ عبداللہ کے مشیر تھے۔ وہ بھی شاہ
عبداللہ کے امن پلان پر عملدرامد کے لئے کوششیں کرنے کے بجاۓ ایران کے خلاف مہم
چلانے میں مصروف ہیں۔ اور وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہم سے خطہ میں سعودی عرب
کا اثر و رسوخ بڑھے گا۔
صدر
ٹرمپ نے امریکہ کی سیکورٹی Strategy پر تقریر میں یہ درست کہا ہے کہ “We recognize that weakness is the surest path to conflict.” اور
مڈل ایسٹ weak حکم
رانوں کی وجہ سے ہر طرف سے conflicts میں
گھیرا ہوا ہے۔
Protest in southern Beirut, Lebanon |
Yemen, mass demonstration to reject US decision, solidarity with Jerusalem |
Protest in the Jordanian capital Aman |
No comments:
Post a Comment