Friday, December 8, 2017

Middle East: America’s Peace Process For Arabs And War Process For Israel

Middle East: America’s Peace Process For Arabs And War Process For Israel  

Many Parts of The World, America Had Imposed Peace, But In The Middle East America Has Imposed War

مجیب خان
King Salman and President Trump in Riyadh

President Obama with Arab Leaders in Washington 

King Salman and President George Bush

Yemen, destruction by Saudi bombing 
    مسلمانوں کو صدر ٹرمپ کی Anti-Muslim Tweet سے بالکل Offended نہیں ہونا چاہیے۔ صدر ٹرمپ بڑے کھلے ذہن سے ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو صدر ٹرمپ کے خیالات کا احترام کرنا چاہیے۔ اور انہیں سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ان پر تنقید براۓ تنقید کرنے یا غصہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لحاظ سے صدر ٹرمپ کم از کم دوسرے صدروں سے بہت مختلف ہیں۔ اسلامی دنیا میں ہر کسی کو مسلمانوں کے بارے میں صدر ٹرمپ کے خیالات کا با خوبی علم ہے۔ اسلامی دنیا سے متعلق ایشو ز پر صدر ٹرمپ کہاں کھڑے ہیں۔ یہ بھی سب جانتے ہیں۔ اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ آج کی دنیا میں لیڈر  اپنے خیالات کا اگر کھل کر اظہار نہیں کریں گے تو Tweeter, Face Book, Google انہیں دریافت کر لیں گے۔ اور انہیں دنیا کے سامنے لے آئیں گے۔ صدر ٹرمپ نے اس اہمیت کو سمجھا ہے۔ اور اس لئے وہ کھل کر Tweet کے ذریعے اپنی سوچ اور موقف سے دنیا کو آگاہ کر دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے Anti-Muslim Tweet سے اب ایک بلین مسلمان واقف ہیں۔ صدر ٹرمپ اگر یہ Tweet نہیں کریں تو 52 اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو صدر ٹرمپ کے ان خیالات کا صرف سفارتی حلقوں کی حد تک علم ہو سکتا تھا۔
    لیکن صدر ٹرمپ سے قبل جو صدر تھے۔ وہ Anti-Muslim Tweet   نہیں کرتے تھے۔ لیکن انہوں نے جن پالیسیوں کو اختیار کیا تھا۔ وہ Anti-Muslim تھیں اور مسلمان ان سے Offended ہوۓ ہیں۔ مسلمانوں کے جو حکمران تھے وہ Stooges, Puppets, Poodles تھے۔ اور وہ امریکہ کے ہر صدر کی محبت بھری باتوں میں آ جاتے تھے۔ اور اس صدر کی پالیسیوں کے اتحادی بن جاتے تھے۔ اور ان پر عملدرامد کرنے لگتے تھے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی اسٹبلشمنٹ میں انہیں امریکہ کے اتحادی ہونے کا درجہ دیا جاتا تھا۔ ان اسلامی اتحادیوں نے آنکھیں بند کر کے امریکہ کی پالیسیوں کو گلے لگایا تھا۔ اور کبھی یہ سوال نہیں کیا تھا کہ امریکہ کی کون سی پالیسی اسلامی ملکوں کے مفاد اور سلامتی میں تھی۔ اور امریکہ کی کن پالیسیوں سے اسلامی ملکوں کی سلامتی خطرے میں آ رہی تھی۔ جو ان کے عوام کی زندگیوں کو متاثر کر سکتی تھیں۔ اسلامی لیڈروں میں یہ سوچ نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مر اکش سے افغانستان تک سارے اسلامی ملک تباہ حال ہیں۔ اقتصادی طور پر برباد ہیں۔ مشرق وسطی میں ہر طرف مردوں عورتوں اور بچوں کا خون بہہ رہا ہے۔ خاندان اجڑ گیے ہیں۔ اور گھر کھنڈرات بن گیے ہیں۔ اور یہ سابق انتظامیہ کی پالیسیوں کے Anti-Muslim ہونے کے ثبوت ہیں۔
   امریکہ اگر چاہتا تو عراق کا مسئلہ بھی اسی Middle East Peace Process کے تحت حل کر سکتا تھا جس کے ذریعے فلسطین اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ مشرق وسطی میں امن کے لئے ہر تنازعہ کا پرامن حل ہونا چاہیے تھا۔ امریکہ نے عربوں کو بیوقوف بنایا ہے۔ Middle East Peace Process کو فلسطین اسرائیل تنازعہ تک محدود رکھا تھا۔ اور عربوں کے اندرونی تنازعوں کو بھر پور طاقت سے حل کرنے کی پالیسیاں اختیار کی تھیں۔ اور اس پالیسی کے ذریعے عربوں کے داخلی تنازعوں کو ہتھیار فروخت کرنے کی مارکیٹ بنا لیا تھا۔ صدر کلنٹن اور وزیر اعظم ٹونی بلیر نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرامد کرانے کے لئے عراق پر 15 دن تک بمباری کی تھی۔ سینکڑوں بے گناہ عراقی اس بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہو گیے تھے۔ لیکن دوسری طرف امریکہ کے واچ میں اسرائیل نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرامد نہیں کیا تھا۔ اور فلسطینیوں کے مہاجر کیمپوں پر بمباری کر کے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اور پھر ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ وہاں نئی یہودی بستیاں تعمیر کر لی تھیں۔ اور یہ Middle East Peace Process تھا۔ جو فلسطینیوں کی زندگیاں Miserable بنا رہا تھا۔ لیکن امریکہ نے اس صورت حال سے منہ موڑ لیا تھا۔ اس سلسلے میں سلامتی کونسل میں جب بھی کچھ کرنے کے لئے کہا جاتا تھا امریکہ اسے ہمیشہ ویٹو کر دیتا تھا۔
   عراق پر دس سال تک تاریخ کی انتہائی بدترین اقتصادی بندشیں لگائی تھیں۔ جن کے نتیجے میں 5 لاکھ معصوم بچے پیدائش کے ابتدائی چند ماہ میں دواؤں کی قلت کی وجہ سے مر گیے تھے۔ جبکہ عراقی ہسپتالوں میں علاج کی بنیادی ضرورتوں کی قلت سے ہزاروں عراقی مریض مر گیے تھے۔ لیکن امریکہ نے سلامتی کونسل میں عراق پر سے اقتصادی بندشیں ختم کرنے کی ہر قرارداد کو ویٹو کیا تھا۔ مسلمان امریکہ کی ان پالیسیوں سے Offended ہوتے تھے۔ صدر جارج بش نے عرب اسلامی ملکوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ عراق میں صد ام حسین کا مسئلہ حل کرنے کے بعد وہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کو حل کریں گے۔ کیونکہ صد ام حسین اس تنازعہ کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ تھے۔ صدر بش نے اسرائیل کے مفاد میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ لیکن عرب اسلامی ملکوں کے امن اور مفاد میں اسرائیل کے ساتھ تنازعہ کا حل اسرائیل کے مفاد میں نہیں سمجھا تھا۔ بش انتظامیہ نے عراق کو بھی صرف اسرائیل کے مفاد میں تباہ کیا تھا۔ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد مڈل ایسٹ جنت نہیں بلکہ دوزخ بن گیا ہے۔ صدر بش Anti-Muslim Tweet نہیں کرتے تھے۔ لیکن ان کی پالیسیاں اور فیصلے Anti-Muslim ثابت ہوۓ ہیں۔
   صدر اوبامہ عرب اسپرنگ تحریک میں Anti-Arab Allies  ہو گیے تھے۔ عرب اسپرنگ میں امریکہ کے قریبی عرب حکمران اتحادیوں کے بت یکے بعد دیگرے گرتے جا رہے تھے۔ اور عرب اسلامی ملکوں کے عوام کو یہ امید ہونے لگی تھی کہ امریکہ اب واقعی مسلم عوام دوست ہو رہا تھا۔ لیکن صدر اوبامہ نے پھر قلا بازی کھائی اور Pro-Arab Muslim Allies ہو گیے  تھے۔ مصر کی تاریخ میں پہلی منتخب جمہوری حکومت کا فوج نے تختہ الٹ دیا تھا۔ عراق کو ایک جمہوری ملک بنانے کے لئے کھربوں ڈالر خرچ اور لاکھوں لوگوں نے جانیں دی تھیں۔ لیکن مصر میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اس کے 9 سو لوگوں کو جیل بھیج دیا تھا۔ جنہیں بعد میں موت کی سزائیں دی گئی تھیں۔ جن میں مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی بھی شامل تھے۔ مصر میں جمہوریت کو ناکام بنا کر خلیج کے عرب حکمرانوں کے اقتدار کو نئی زندگی مل گئی تھی۔ مڈل ایسٹ ایک عجیب Hotchpotch امریکی پالیسی میں پھنسا ہوا تھا۔ عراق میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ مصر میں جمہوریت کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ لیبیا میں امریکہ اور نیٹو نے بمباری کر کے کرنل قد ا فی کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ اور لیبیا اسلامی انتہا پسندوں کو دے دیا تھا۔ شام میں اسد حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی جنگ شروع کر دی تھی۔ "اسد اقتدار چھوڑ دو۔ اسد  کے دن تھوڑے ہیں۔ اسد جلد جاۓ گا۔" صدر اوبامہ یہ کہتے کہتے چلے گیے۔ ایک ملین لوگ شام کی خانہ جنگی میں ہلاک ہو گیے تھے۔ اور جو شامی زندہ ہیں وہ اپنے ملک میں ہر طرف کھنڈرات دیکھ رہے ہیں۔ یہ انسانی تباہی امریکہ کی عالمی قیادت میں ہوئی ہے۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلامی دنیا کے لئے تیسری عالمی جنگ بن گئی ہے۔ صدر اوبامہ اور صدر جارج بش Tweet نہیں کرتے تھے۔ لیکن ان کے عراق لیبیا شام اور یمن کو تباہ کرنے کے  فیصلے اور پالیسیاں Anti-Muslim تھیں۔ صدر ٹرمپ نے پانچ اسلامی ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر صرف پابندی لگائی ہے۔ لیکن بش اور اوبامہ انتظامیہ میں چار اسلامی ملکوں میں خوفناک انسانی تباہیاں ہوئی ہیں۔ صد ام حسین، کرنل قد ا فی اور بشار اسد کی آمریت سے انسانیت کو بچانے کے نام پر انسانیت کا خون بہایا گیا ہے۔ اور یہ Middle East Peace
Palestinians carry their belongings after salvaging them from their destroyed homes in the heavily bombed town of Beit Hanoun, Gaza strip, close to the Israeli border



American Soldiers in Baghdad during Operation Iraqi Freedom, 2003-2011

Destructions in Syria


Process کاEnd Game   ہے۔              

No comments:

Post a Comment