Thursday, December 14, 2017

Palestine-Israel Conflict: Is America’s Two State Solution Policy Pushing Israel Toward A One State Solution?

Palestine-Israel Conflict: Is America’s Two State Solution Policy Pushing Israel Toward A One State Solution?  

مجیب خان
Al-Aqsa Mosque was the first Qibla of Muslims

Anti-Zionist Orthodox Jews participate in Al-Quds day rallies

Palestinians protest against U.S. President Trump decision to recognize Jerusalem as Israel's capital




    یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے صدر ٹرمپ نے صرف اپنا انتخابی وعدہ پورا کیا ہے۔ لیکن یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اس تنازعہ کا حل نہیں ہے۔ یروشلم بدستور تنازعہ رہے گا۔ صدر ٹرمپ نے خود اپنے خطاب میں یہ کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین بات چیت سے اپنی سرحدوں کا تعین کریں گے۔ اور فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت میں یروشلم اب سر فہرست ہو گا۔ ایسٹ یروشلم فلسطین کا دارالحکومت ہو گا۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں ایسٹ یروشلم پر قبضہ کیا تھا۔ اور اسے ویسٹ یروشلم میں شامل کر کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنا لیا تھا۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور عالمی قوانین کے مطابق ایسٹ یروشلم پر اسرائیل کا فوجی قبضہ غیر قانونی ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں میں 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے عربوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا انہیں خالی کرنے اور عربوں کو واپس دینے کا کہا گیا تھا۔ ایسٹ یروشلم پر اسرائیل کا فوجی قبضہ اور کویت پر صد ام حسین کے فوجی قبضہ کا کیس مختلف نہیں ہے۔ لیکن امریکہ کے انصاف اور قانون کی قدریں صرف مختلف ہیں۔ اسرائیل نے 50 سال تک عربوں کے علاقوں پر فوجی قبضہ برقرار رکھنے کے بعد انہیں اب اسرائیل میں شامل کر لیا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے بھی اسرائیل کو عربوں کے علاقوں پر 50 سال تک قبضہ رکھنے کا موقعہ دیا تھا۔
   50 سال تک عربوں کے علاقوں پر فوجی قبضہ رکھنے کے بارے میں اسرائیل نے شاید یہ دیکھا تھا کہ امریکہ نے بھی میکسیکو کے ساتھ جنگ میں اس کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ امریکہ نے وہ میکسیکو کو واپس نہیں دئیے تھے۔ اور انہیں   امریکہ میں شامل کر لیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اب فلسطینیوں کے ایسٹ یروشلم پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کر لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل نے 50 برس قبل عربوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ وہ بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلہ  سے اسرائیل کا حصہ ہونے کی justified کرتے ہیں؟ صدر ٹرمپ نے اپنے اس خطاب میں عربوں کے علاقوں پر اسرائیلی فوجی قبضہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے۔ تاہم فلسطین کے تنازعہ کے حل کے لئے Two state solution  پر زور دیا ہے۔ امریکہ کی 8 انتظامیہ بھی Two state solution کی باتیں کرتی تھیں۔ لیکن اس کے کوئی مثبت نتائج نہیں دئیے تھے۔
   امریکہ کی 8 انتظامیہ کی فلسطین اسرائیل تنازعہ کے بارے میں Two state solution کی باتوں سے یہ نظر آتا ہے کہ  یہ امریکی پالیسی اسرائیل کو One state solution  کی طرف لے جا رہی ہے۔ یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم ہونے کے بعد ایسٹ یروشلم میں آباد لاکھوں فلسطینی اسرائیل کے شہری ہو جائیں گے۔ اور اسرائیل کو انہیں مساوی حقوق دینا ہوں گے۔ اور اگر فلسطین تنازعہ کا One state solution ہو گا تو اس صورت میں فلسطینی اسرائیل کے شہری بن جائیں گے۔ اسرائیل کو انہیں حکومت میں شامل کرنا ہو گا۔ انہیں بھی جمہوری اور سیاسی  حقوق دینا ہوں گے۔ انہیں پارلیمانی انتخاب میں حصہ لینا کا حق ہو گا۔ جو حقوق اور اختیارات اسرائیلیوں کے ہیں وہ فلسطینیوں کے بھی حقوق اور اختیارات ہوں گے۔ ویسے بھی اسرائیلی فوجی قبضہ میں نصف صدی سے رہنے کے بعد فلسطینی اسرائیلی شہری ہونے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ فلسطینیوں کی تین نسلیں اسرائیلی فوجی قبضہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ عالمی قانون کے مطابق یہ اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کو تمام بنیادی انسانی ضرورتیں فراہم کرے۔ امریکہ نے میکسیکو کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ ان کے تمام شہریوں کو امریکی شہری تسلیم کیا تھا۔ اور امریکی آئین اور قانون کے مطابق انہیں مساوی حقوق دئیے تھے۔ صدر ٹرمپ کا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے سیاسی فیصلے کا یہ ایک پہلو ہے۔
   ڈونالڈ ٹرمپ Evangelical Christians کے پہلے صدر ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں Christianity کے ساتھ America first مذہبی قوم پرستی کا ایک سیاسی تصور دیا تھا۔ اور اس مذہبی قوم پرستی سے متاثر ہو کر امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دئیے تھے۔ اور انہیں امریکہ کا صدر منتخب کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں مڈل ایسٹ میں عیسا یوں کے Persecution کی بات کی تھی۔ ان کے ساتھ غیر  انسانی سلوک کی مذمت کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے عراق اور شام کے عیسا یوں کو امریکہ میں پہلے پناہ دینے کا کہا تھا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ ایک عیسائی ملک ہے اور امریکہ میں صرف عیسائی قدروں کو فروغ دیا جاۓ گا۔ کرسمس پر Happy Holiday کہنے کی بجاۓ صرف Merry Christmas کہا جاۓ گا۔ پہلی مرتبہ امریکہ میں Evangelical  اور Catholic میں اتحاد بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ مختلف عیسائی فرقہ ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ چند سالوں سے امریکہ اور یورپ میں یہودیوں کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ عرب اسلامی دنیا میں فلسطینیوں کے مسئلہ پر اسرائیل کے خلاف پہلے ہی زبردست مزاحمت جاری ہے۔  سعودی عرب اور خلیج کے حکمران اندرونی اور بیرونی، ہر طرف سے خطروں میں گھرے ہوۓ ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل امریکہ کے ساتھ مڈل ایسٹ میں ایک عرصہ سے جو کھیل کھیل رہے تھے۔ وہ اب بیک فائر ہو رہا ہے۔ اور اس بیک فائر کی شدت کو دیکھ کر سعودی عرب اور اسرائیل ایک دوسرے قریب آ گیے ہیں۔ اسرائیل نے سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں سے ایران کو اپنا مشترکہ دشمن تسلیم کرا لیا ہے۔ اور خلیج کے ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے غیر اعلانیہ رابطوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یا ہو نے خلیج کے عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کا اعتراف کرتے ہوۓ کہا کہ " آج عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اتنے اچھے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی ایسے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ امریکہ اور یورپ میں سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے بڑھتے تعلقات کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے بعض سفارتی ایکشن اور پالیسیوں سے اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
   صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں یہودی بھی ہیں۔ ان کے داماد یہودی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے داماد کو فلسطین اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کا ایجنڈا یہودی لابیوں کا ایجنڈا نہیں ہے۔ Christianity اور America First مذہبی قوم پرستی صدر ٹرمپ کا ایجنڈا ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، پنٹا گان، سی آئی اے اور بعض دوسرے اداروں سے بڑے پیمانے پر چھانٹیاں ہو رہیں۔ اور بعض اعلی سفارت کار استعفا دے کر جا رہے ہیں۔ ان اداروں میں جو لابیوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے تھے شاید ان سے اداروں کو صاف کیا جا رہا ہے۔ اس لئے بھی صدر ٹرمپ کو میڈیا کے ذریعہ کئی طرف سے اسکنڈل میں گھیر دیا ہے۔ اور یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ شاید اپنی میعاد پوری نہیں کر سکیں گے۔ اور صدر نکسن کی طرح انہیں بھی استعفا دینا پڑے گا۔ لیکن صدر ٹرمپ کی Evangelical میں مقبولیت تقریباً 85 فیصد ہے۔ صدر ٹرمپ ان کے پہلے صدر ہیں جو ان کے ایجنڈے پر عملدرامد کرنے کے وعدے پورے کر رہے ہیں۔ Evangelical اسرائیل کے زبردست حامی ہیں۔ اور یہ ہر امریکی انتظامیہ سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ نے ان کا مطالبہ بھی پورا کر دیا ہے۔ اسرائیل اور واشنگٹن میں اس کی لابیوں کو اب صدر ٹرمپ کے کڑوے فیصلے نگلنا ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کو اقتدار سے ہٹانے کا مطلب Evangelical Christians کی مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا ہو گا۔
   صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اب اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے۔ اسرائیل اس فیصلے سے خوش  ہے۔ لیکن سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے فروغ کو اس فیصلے سے کاری ضرب لگی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلہ کے خلاف عرب اسلامی دنیا میں شدید رد عمل ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے خلاف بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یورپی یونین، چین، روس، جاپان نے صدر ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سلامتی کونسل نے امریکہ کے علاوہ دوسرے تمام اراکین نے یروشلم کی متنازعہ حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں Churches نے صدر ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی مخالفت کی ہے۔ پوپ Francis نے یروشلم کے Status quo کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ جبکہ مصر میں Coptic Church نے امریکہ کے نائب صدر Mike Pence سے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ جو مڈل ایسٹ کا دورہ پر جا رہے ہیں۔ صرف بحرین کا ایک وفد اسرائیل کا دورہ کر رہا ہے۔
   سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر جو مڈل ایسٹ میں ایران کے بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ پر خاصا واویلا کرتے رہتے ہیں۔ عربوں کے معاملات میں ایران کی مداخلت پر شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔ جس سے اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی وزیر خارجہ جیسے اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہیں۔ لیکن عالم اسلام کے اتنے اہم مسئلہ پر کہ امریکہ نے یروشلم اسرائیل کو دے دیا ہے۔ یا یروشلم پر اسرائیل کے فوجی قبضے کو تسلیم کر لیا ہے۔ سعودی عرب کا رد عمل انتہائی مایوس اور سرد ہے۔ سعودی عرب کی اس خاموشی سے کیا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے میں صدر ٹرمپ کو سعودی عرب کی خاموش حمایت حاصل تھی؟ عالم اسلام کے ایک بلین مسلمان جن  میں ایران کے مسلمان بھی شامل تھے، یہ توقع کر رہے تھے کہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج میں امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کے سمجھوتے معطل کر دیں گے۔ اثر و رسوخ چاندی کی طشتریوں میں رکھ کر دینے سے نہیں آتا ہے۔ اثر و رسوخ عوام کے جذبات کے ساتھ کھڑے ہونے سے آتا ہے۔ اور سعودی عرب نے ہمیشہ عالم اسلام کو در پیش اہم ایشو ز پر عوام کے جذبات سے منہ موڑا ہے۔                                                   

       

No comments:

Post a Comment