Friday, January 26, 2018

Mr. President, Respect Your Predecessor’s Iran Nuclear Deal

Mr. President, Respect Your Predecessor’s Iran Nuclear Deal

This Is Not “Obama Care” “Repeal” and “Replace”. The Iran Nuclear Deal Is An International Agreement, Two-Hundred American Nuclear Experts Have Supported The Iran Nuclear Deal. IAEA Has Certified That Iran Is Complying With Nuclear Accord. Then What Is the Problem?

مجیب خان
Iran Nuclear deal between Iran, and six World powers- the US, UK, Russia, France, China, and Germany 

US, Israel Secret deal to derail Iran Nuclear deal

    صدر ٹرمپ نے ایران نیو کلیر سمجھوتہ کی 120 دن کے لئے توثیق کر دی ہے۔ اور اس سمجھوتہ کے تحت ایران پر سے اقتصادی بندشیں بھی ہٹا لی ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ نے بڑے دو ٹوک لفظوں میں یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس سمجھوتہ کی آئندہ توثیق نہیں کریں گے۔ کانگرس اور اتحادیوں کو ایران نیو کلیر سمجھوتہ میں زیادہ سخت تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ معاہدہ میں نمایاں خامیاں ہیں۔ امریکہ اس معاہدے میں شامل رہنے کے لئے ایران پر سے بندشیں دوبارہ ترک نہیں کرے گا۔ یہ سمجھوتہ امریکہ کی سرگرم کوششوں کے نتیجہ میں عمل میں آیا تھا۔ سابق اوبامہ انتظامیہ کے اعلی حکام نے اس سمجھوتہ کی تیاری میں بھر پور ذمہ داری سے حصہ لیا تھا۔ ایران کے نیوکلیر پروگرام کو روکنے کے لئے تمام شرائط کا بغور جائزہ لیا گیا تھا۔ سمجھوتہ کے ڈرافٹ میں کئی مرتبہ رد و بدل کیا گیا تھا۔ اس سمجھوتہ میں ایسی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی تھی کہ جس سے ایران کو نیو کلیر پروگرام جاری رکھنے کا موقعہ مل سکتا تھا۔ اس سمجھوتہ سے مکمل طور پر مطمئین ہونے کے بعد صدر اوبامہ نے اس سمجھوتہ پر دستخط کیے تھے۔ لیکن ایران کا نیو کلیر سمجھوتہ “Obama Care” نہیں ہے جسے صدر ٹرمپ Repeal اور Replace کرنا چاہتے ہیں۔ ایران کا نیو کلیر سمجھوتہ ایک عالمی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی اکثریت نے حمایت کی ہے۔ صدر ٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو اور سعودی عرب اس معاہدہ کے خلاف ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران نیویارک میں اسرائیل کے Die hard حامیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد ایران نیو کلیر سمجھوتہ ختم کر دیں گے۔ اور اب ایک سال سے اس معاہدہ کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس معاہدہ کی جگہ ایک ایسا معاہدہ لانے چاہتے ہیں جس میں امریکہ کے لئے ایران میں Regime Change کے دروازے ہوں اور جو عراق سے مہلک ہتھیاروں کو ختم کرنے کا کاربن کاپی ہو۔ ایران ایسا معاہدہ قبول کرے گا اور شاید عالمی برادری بھی ایسے معاہدہ کی تائید نہیں کرے گی۔
   ایران کے خلاف مڈل ایسٹ میں نام نہاد مداخلت کرنے کا پراپگنڈہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیلی اور سعودی حکومت کی طرف سے جاری ہے۔ جو صد ام حسین کی اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے انتفا دہ کی حمایت کرنے اور ان کی مالی معاونت کرنے کا الزام اور مداخلت سے مختلف نہیں ہے۔ اس وقت امریکہ اور اسرائیل نے دنیا سے یہ کہا تھا کہ جب تک صد ام حسین عراق میں اقتدار میں ہیں۔ اس وقت تک فلسطین کا تنازعہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔ صد ام حسین کا اقتدار ختم ہوۓ 15 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ میں ایک انچ کی پرو گریس نہیں ہوئی ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں ایران کے Behavior اور مداخلت کو تمام مسائل کا سبب ثابت کیا جا رہا ہے۔ ایران یمن میں ہوتیوں کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ ایران شام میں مداخلت کر رہا ہے۔ یمن اور شام میں انسانیت کو بچانے کے لئے مداخلت انسانی بنیادوں پر کی گئی ہے۔ اور اسے جارحیت نہیں کہا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کا اتحاد اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ شام میں حکومت کا خاتمہ کرنے کی جنگ میں کھربوں ڈالر انویسٹ کر رہے تھے۔ ایک خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں یہ غیر ملکی مداخلت جارحیت  تھی۔ اور عالمی قانون کی خلاف ورزی تھی۔ جبکہ اسرائیل شام کی تباہی سے خوشیاں منا رہا تھا۔ انہوں نے اس وقت صورت حال کو پھیلنے سے روکا کیوں نہیں تھا۔ سعودی حکومت مڈل ایسٹ کے ملکوں کو عدم استحکام کرنے کی امریکی پالیسی کو فروغ دینے میں مدد کر رہی تھی۔ اسرائیل جو مڈل ایسٹ میں ایران کے اثر و رسوخ سے عربوں کو خوفزدہ کر رہا ہے۔ اسرائیل نے ہر صورت حال کو اپنے مفاد میں Exploit کیا ہے۔ مڈل ایسٹ کے امن میں اسرائیل کو خطرے ںظر آتے ہیں۔ اس لئے مڈل ایسٹ میں جنگیں فروغ دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔
   عراق کے نیو کلیر ہتھیاروں کے خلاف عالمی سمجھوتوں کے نتائج  اور تجربے کے بعد ایران کے نیو کلیر ہتھیاروں کے معاہدہ کو سیاست سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔ اور اسے نیو کلیر سائنس کی حدود میں رہتے ہوۓ حل کیا ہے۔ علاقائی سیاست میں ایران کے کردار کو اس سمجھوتہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جس کی اسرائیل اور سعودی عرب کو خاصی پریشانی ہے۔ اور صدر ٹرمپ اس لئے ایران نیو کلیر معاہدہ کو ختم کر کے ایک نیا معاہدہ چاہتے ہیں۔ جس میں نیو کلیر ہتھیاروں کو مکمل طور پر منجمد کیا جاۓ اور ایران کے علاقائی سیاست میں کردار کو محدود رکھا جاۓ۔ ایران نیو کلیر ہتھیاروں سے دستبردار ہو جاۓ گا۔ لیکن علاقائی سیاست میں ایران اپنا کردار برقرار ر کھے گا۔ جبکہ ایران کے اس خطہ کے کسی ملک کے خلاف کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں۔ مظلوم انسانیت کی حمایت اور مدد بھی ایک عبادت ہے۔ یمنی دنیا کی انتہائی غریب ترین قوم ہے۔ مالدار قوموں کی یمن کے خلاف جارحیت کی مذمت کی جاۓ گی۔ ان ملکوں نے اپنی دولت کی طاقت سے یمن کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ لہذا اس مداخلت کے خلاف ہوتیوں کی حمایت کوئی جرم نہیں ہے۔ ایران کو اس کے علاقائی رول سے کوئی محروم نہیں کر سکتا ہے۔ ایران کی 80 ملین کی آبادی ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور اسرائیل کی آبادی تقریباً 30 ملین ہے۔ بڑی آبادی کے ملکوں کے سلامتی اور استحکام کے مسائل بھی زیادہ ہیں۔ با لخصوص ایران کو نقصان پہنچانے کے انتظار میں دشمن تیار بیٹھے ہیں۔ دنیا نے اس کی ایک جھلک ایران میں حالیہ مظاہروں کے دوران دیکھی ہے۔ کہ کتنی جلدی صدر ٹرمپ نے ایرانی حکومت کے خلاف مظاہرین کی حمایت میں بیانات دئیے تھے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے عالمی پلیٹ فارم کو ایران میں حکومت تبدیل کرنے کے مقصد سے استعمال کیا تھا۔ یہ اقوام متحدہ کے Law of Sovereignty کی خلاف ورزی تھی۔ پھر ایرانی حکومت کے خلاف مظاہرین کے بارے میں جب اصل صورت حال واضح ہوئی کہ یہ اعتدال پسند ایرانی حکومت کے خلاف سخت گیر انتہا پسندوں کے درمیان طاقت آزمائی کا مظاہرہ تھا۔ مظاہرین میں اس پر اتفاق تھا کہ وہ ایران کو عراق اور شام بنانا نہیں چاہتے ہیں۔ اعتدال پسند حکومت کے خلاف سخت گیر انتہا پسندوں میں سابق صدر احمدی نژاد بھی شامل تھے۔ جنہیں حکومت نے حراست میں لے لیا تھا۔ ایران میں حکومت کے خلاف مظاہرین کی پشت پنا ہی کرنے والے اصل چہرے سامنے آنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے لئے  یہ بڑی رسوائی کا باعث تھا۔ اگر ISIS ایران میں حکومت کے خلاف کاروائیاں کرنے لگے گی تو امریکہ اور اسرائیل ISIS کی حمایت کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ لیبیا میں قد ا فی حکومت اپیلیں کر رہی تھی کہ القا عدہ ان کی حکومت کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے اور لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن قد ا فی سے نفرت میں اوبامہ انتظامیہ القا عدہ کے ساتھ کھڑی تھی۔ لیکن پھر بن غازی میں القا عدہ نے امریکی کانسلیٹ پر حملہ کر کے امریکی سفیر اور چار دوسرے امریکیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد دنیا کو یہ کہا گیا کہ لیبیا میں القا عدہ اور ISIS اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ عراق اور شام کے علاقوں کو ISIS سے آزاد کرانے کی لڑائی میں ایران نے عراق اور شام کی مدد کی ہے۔ لیکن امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب اسے شام اور عراق میں ایران کی مداخلت کہتے ہیں؟ امریکہ اور اسرائیل نے اس خطہ میں جنگوں سے تباہیاں پھیلائی ہیں بلکہ اس خطہ کے ملکوں کے تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ اس خطہ کو شیعہ، سنی اور عیسائوں میں تقسیم کیا ہے۔ اور امریکہ 70 سال سے صرف اسرائیلی ایجنڈے کو فروغ دیتا رہا ہے۔ 300 ملین آبادی کے خطہ پر 6 ملین کی آبادی کا تسلط ہے۔ اس خطہ میں امریکہ کی Respect ناانصافیوں میں دھنس گئی ہے۔ امریکہ کی ساکھ صرف بادشاہوں کے محلوں میں نظر آتی ہے۔ عرب دنیا کی سڑکوں پر تباہ حال انسانیت اور جنگوں کا ملبہ نظر آتا ہے۔ ایرانی قوم بلاشبہ اس عرب دنیا کا حصہ بننا پسند نہیں کرے گی۔

                     

No comments:

Post a Comment