“The New
Role of The Pakistani Army Is The Security And Implementation of CPEC”
Pakistan has wasted thirty-seven years in Afghanistan. Two million Afghan refugees are still in Pakistan. The people of Pakistan have given tremendous sacrifices for Afghanistan. What has Afghanistan given to Pakistan? Blame, disparaging, humiliation on Pakistan? Asking for the cooperation of Pakistan but working against Pakistan? Under these circumstances, Pakistan has only one option; to disassociate from Afghanistan’s internal insurgency. Close the border, enough is enough.
مجیب خان
پاکستان
میں چین کے 65 بلین ڈالر کے Infrastructures
پروجیکٹ CPEC کا
آغاز ہونے کے بعد پاکستان کی فوج کا رول بدل گیا ہے۔ CPEC پروجیکٹ کی
تکمیل اور سیکورٹی اب فوج کا نیا رول ہے۔ اس کے ساتھ بیرونی فوجی الائنس میں شامل
ہونے اور ان کے لئے فوجی مہم جوئیاں کرنے کا پاکستان کی فوج کا رول بھی بدل گیا
ہے۔ لہذا پاکستان کے لئے اب امریکہ کے ساتھ فوجی مہم جوئیوں میں شامل رہنے کے لئے
255 ملین ڈالر فوجی امداد زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان ایک ایٹمی
طاقت ہے۔ اور ایٹمی طاقت بیرونی فوجی امداد پر انحصار نہیں کرتی ہیں۔ ایٹمی طاقتیں
امن اور استحکام کو فروغ دینے میں تعاون کرتی ہیں۔ پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں
گھسیٹا گیا تھا جس میں پاکستان افغانستان سے بڑا محاذ بن گیا تھا۔ اور اس کی
پاکستان نے ایک بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ پاکستان نے 37 سال افغانستان میں برباد
کیے ہیں۔ اور افغان آج پاکستان کو اپنے حالات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اور امریکہ
اس سے اتفاق کرتا ہے۔ اور یہ امریکہ کے ساتھ فوجی مہم جوئیوں میں اتحادی بننے کا
المیہ ہے۔
صدر
ٹرمپ نے پاکستان کی صرف امداد معطل کی ہے۔ 90 کی دہائی میں افغان جنگ ختم ہونے کے
بعد امریکی کانگرس نے پاکستان کے خلاف اقتصادی اور فوجی بندشیں لگانے کا قانون
منظور کیا تھا۔ جو سینیٹر Larry
Pressler نے لکھا تھا۔ اور پھر صدر جارج
ایچ بش نے اس پر دستخط کیے تھے۔ یہ بندشیں پاکستان کے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی
کوششوں کے نتیجہ میں لگائی گئی تھیں۔ پاکستان پر تقریباً 90 کی دہائی ان بندشوں
میں گزری تھی۔ لیکن پاکستان نے ان بندشوں میں 1998 میں ایٹمی دھماکہ کیے تھے۔ ان
دھماکوں کے بعد صدر کلنٹن نے پاکستان پر نئی بندشیں لگائی تھیں۔ تاہم امریکہ کی ان
بندشوں کا پاکستان کو فائدہ ہوا تھا۔ پاکستان نے غیر ملکی امداد کے بغیر زندہ رہنا
سیکھا تھا۔ پاکستان فوجی ہتھیار بنانے لگا تھا۔ فوجی ہتھیاروں کی صنعت کا فروغ ہوا
تھا۔ پاکستان دوسرے ملکوں کو ہتھیار فروخت کرنے لگا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ
پاکستان کی سلامتی میں ایٹمی ہتھیار ایک موثر دفاع تھے۔ پاکستان کی ان حیرت انگیز
کامیابیوں کو دیکھ کر امریکہ کو پاکستان پر بندشیں لگانے کی غلطی کا احساس ہوا
تھا۔ اور ملال یہ تھا کہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ پاکستان میں ملوث
رہنا چاہیے تھا۔ نائن الیون کمیشن رپورٹ میں بھی بڑی تفصیل سے پاکستان اور سعودی
عرب میں امریکہ کے ملوث رہنے پر زور دیا گیا تھا۔ جبکہ اس مقصد میں بعض پیراگراف
سنسر کیے گیے تھے۔ اگر نائن الیون نہیں ہوتا تو پاکستان کے بارے میں امریکہ کی
پالیسی شاید تبدیل نہیں ہوتی۔ امریکی کانگرس کی بندشیں پاکستان پر لگی رہتی۔ صدر
ٹرمپ نے سابق صدر اوبامہ کی پیشتر پالیسیاں بدل دی ہیں۔ لیکن صدر اوبامہ کی
پاکستان سے حقانی نیٹ ورک اور پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے
دباؤ کی پالیسی کو صدر ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کی پالیسی بنایا ہے۔ حالانکہ سابقہ
دو انتظامیہ نے دنیا میں دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں اس پورے عرصہ
میں حقیقی معنوں میں دہشت گردوں گا خاتمہ کیا گیا ہے۔ ان کے ٹھکانے تباہ کیے ہیں۔
شمالی اور جنوبی وزیر ستان سے مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا
گیا ہے۔ وادی سوات سے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کی گئی ہیں۔ اگر پاکستان میں
دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے۔ تو ان ٹھکانوں سے شام میں ISIS کے ساتھ لڑنے
کیوں نہیں گیے تھے۔ شام میں امریکہ اور یورپ سے ISIS میں شامل ہونے
آۓ تھے۔ لیکن پاکستان سے کوئی نہیں گیا تھا۔ دہشت گردی میں پاکستان میں اتنے زیادہ لوگ مارے گیے ہیں
کہ ہر گلی اور ہر گھر میں ان سے نفرت کرنے
والے ملیں گے۔
صدر
ٹرمپ نے امداد بند کی ہے اور اس سے قبل صدر اوبامہ نے بھی 800 ملین ڈالر کی امداد
معطل کی تھی۔ یہ امداد اس طرح معطل کی ہے کہ جیسے پاکستان کا “Court Martial” کیا
جا رہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں “not
doing enough” ۔ صدر اوبامہ نے یہ امداد ایسے
موقع پر معطل کی تھی کہ جب خونخوار دہشت گرد ہر طرف سے پاکستان پر حملہ کر رہے
تھے۔ پاکستان کی فوج سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی تھی۔ دہشت
گرد سیکورٹی کے حساس اداروں اور تنصیبات پر حملے کر رہے تھے۔ اس وقت یہ نظر آ رہا
تھا کہ جیسے دہشت گردوں کو پاکستان پر حملہ کرنے کی آزادی دی گئی تھی۔ امریکہ اور
نیٹو افغانستان میں سو ویت ایمپائر کے خلاف لڑنے کی سزا پاکستان دے رہے تھے۔ سو ویت یونین کی افغانستان میں شکست
بعد امریکہ کانگرس نے پاکستان کے خلاف بندشیں لگانے کا قانون بھی منظور کیا تھا۔
اور صدر جارج ایچ بش نے اس قانون پر دستخط کیے تھے۔ 37 سال سے پاکستان کی افغان
پالیسی غلط تھی۔ پاکستان نے افغانستان کو بچانے کے لئے اپنی سلامتی کو ہر طرف سے خطروں
میں ڈالا ہے۔ اور اب امریکہ کی دھونس دھمکیاں ان خطروں میں ایک نیا اضافہ ہے۔
37 سال
قبل پاکستان نے جو غلط فیصلے کیے تھے۔ 37 سال سے پاکستان ان کی ایک بھاری قیمت ادا
کر رہا ہے۔ اس وقت پاکستان اگر کابل میں
ماسکو نواز حکومت کو تسلیم کر لیتا اور اس کے ساتھ تمام تنازعہ طے کر لیتا تو
پاکستان بہت بہتر حالات میں ہوتا۔ ماسکو سے پاکستان کی سلامتی کے مفاد کی ضمانت
بھی مل جاتی۔ افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ سے سویت یونین کا اثر و رسوخ پھر
بھی بہتر ہوتا۔ لیکن پاکستان نے صرف مغربی طاقتوں کے مفاد میں افغانستان میں سو
ویت یونین کے خلاف یوٹرن لیا تھا۔ اور اب ان ہی مغربی طاقتوں نے افغانستان میں
پاکستان کے خلاف یو ٹرن لیا ہے۔ حالانکہ جن امریکی فوجیوں نے افغانستان میں وقت
گزارا ہے۔ ان میں بعض نے افغانستان کے حالات پر مضمون لکھے ہیں۔ اور انہوں نے افغانستان
کا مسئلہ داخلی بتایا ہے۔ وار لارڈ ز میں طاقت کی ر سہ کشی، افیون مافیا اور حکومت
میں کرپشن علاقائی ملیشیا خانہ جنگی کا
سبب ہیں۔ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں وار لارڈ ز کے علاقوں میں ہیں۔ وار لارڈ
ز انہیں کبھی کابل حکومت کے خلاف اور کبھی صوبہ کی حکومتوں کے خلاف استعمال کرتے
رہتے ہیں۔ افغانستان کے داخلی حقائق اور امریکہ کے علاقائی مفادات میں افغانستان
کے بارے میں حقائق میں بڑا تضاد نظر آتا ہے۔ اس ہفتہ 5 جنوری کے New York Times کے
صفحہ پانچ پر کابل میں افغان مارکیٹ پر خود کش بم دھماکہ کی سرخی تھی
ISIS Suicide Bomber Kills 20, Including Members of
Security, at an Afghan Market
اسی روز ڈیفنس سیکرٹیری Jim Mattis کا
یہ بیان بھی شائع ہوا تھا کہ
“Islamabad
is not doing enough to target Afghan Taliban and Haqqani group bases.”
17 سال
سے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوجوں کے آپریشن کا نتیجہ اب Rise of ISIS in Afghanistan میں سامنے آیا ہے۔ اور پاکستان سے کہا جا رہا کہ
وہ اب طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو ISIS سے لڑنے کے لئے
تیار کرے؟ What is the
Game Plan? Who is transporting ISIS from Iraq and Syria to Afghanistan?
پاکستان کو اس خطرناک گیم سے ہر قیمت پر دور
رکھنا ہو گا۔
No comments:
Post a Comment