Friday, February 23, 2018

How The World Liberates America From Warmongering Cold War Mentality

How The World Liberates America From Warmongering Cold War Mentality

مجیب خان
"US Vice President Mike Pence warns North Korea "Sword Stands Ready

Vice President Mike Pence and President Moon Jae-in
North Korean leader Kim Jong Un's sister meets South Korean President at the 2018 Winter Olympics in South Korea

   جنوبی کوریا میں winter اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب میں امریکی وفد کی قیادت نائب صدر Mike Pence نے کی تھی۔ نائب صدر نے اولمپک گیم ز کے موقعہ پر بھی شمالی کوریا کو جنگ کی دھمکیاں دینے اور جنگ کی باتیں کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ شمالی کوریا نے اولمپک گیم ز میں شرکت کرنے کی درخواست کی تھی۔ اور اس مقصد سے شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کی حکومت سے اپنا ایک وفد Pyongyang بھیجنے کی دعوت دی تھی۔ اولمپک گیم ز کے موقعہ پر شمالی کوریا نے اپنے نیو کلیر تجربے بند کر دئیے تھے۔ صدر کم جونگ ان حکومت نے اولمپک گیم ز کامیاب بنانے میں جنوبی کوریا کی حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ اس خیر سگالی کے جواب میں جنوبی کوریا کی حکومت نے شمالی کوریا کے کھلاڑیوں کو اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے جنوبی کوریا آنے کی اجازت دی تھی۔ اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب میں صدر کم جونگ ان کی چھوٹی بہن Kim Yo-jong 22 رکنی وفد کے ساتھ Seoul آئی تھیں۔ جنوبی کوریا کے صدرMoon Jae-in شمالی کوریا کے وفد کا خیر مقدم کیا تھا۔ Winter اولمپک نے شمالی اور جنوبی کوریا میں سیاسی کشیدگی کی گرمی کا درجہ حرارت بھی سرد کر دیا تھا۔ لیکن Winter اولمپک میں نائب صدر Pence  کا رد عمل بالکل مختلف تھا۔ شمالی کوریا کے خلاف ان کی گرمی کا درجہ حرارت بہت اوپر تھا۔ Winter اولمپک شروع ہونے سے قبل نائب صدر Pence نے پہلے جاپان میں اور پھر جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں سے خطاب میں شمالی کوریا کو سخت لہجہ میں جنگ کی دھمکیاں دی تھیں۔ شاید اس سخت لہجہ کا مقصد صدر کم جونگ ان کو instigate  کرنا تھا تاکہ پھر وہ اس کے جواب میں کوئی action کرے۔ لیکن winter Olympic کی وجہ سے  شمالی کوریا کا رد عمل بھی سرد تھا۔ نائب صدر Pence نے ٹوکیو میں شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی نئی انتہائی سخت بندشیں لگانے کے منصوبہ کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ شمالی کوریا پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی پہلے ہی اتنی زیادہ بندشیں لگی ہوئی ہیں کہ اب شاید صرف ہوا اور پانی ان بندشوں  سے مستثنی ہیں۔ جاپان کے وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہو کر نائب صدر Pence نے دنیا کو بتایا کہ "اس کرہ ارض پر شمالی کوریا کی حکومت انتہائی جابر اور ظالم حکومت ہے۔" حالانکہ دنیا یہ با خوبی جانتی تھی۔ جنوبی کوریا میں اولمپک گیم زکی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر دنیا کو یہ بتانا کیا ضروری تھا؟ جنوبی کوریا میں شمالی کوریا کی سرحد کے قریب امریکی فوجیوں سے خطاب میں نائب صدر Pence نے کہا "شمالی کوریا کی حکومت کو کسی غلط فہمی میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی ہر شرانگیزی کا جواب دینے کے لئے امریکی فوجیں تیار ہیں۔ اور بھر پور طاقت سے اس کا جواب دیا جاۓ گا۔" جنوبی کوریا میں نائب صدر Pence شمالی کوریا کے defectors سے ملے تھے- اور انہوں نے نائب صدر کو ان کے ساتھ حکومت نے جو سلوک کیا تھا اس کی داستان بتائی تھی۔
   جنوبی کوریا کی حکومت کو اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر نائب صدر Mike Pence کے warmongering روئیے سے مایوسی ہوئی ہو گی۔ دنیا بھر سے کھلاڑی اور کھیلوں کے شائقین یہاں کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے اور انہیں دیکھنے  آۓ تھے۔ اور یہاں جنگوں کی باتوں نے انہیں ضرور Bore کیا ہو گا۔ اور یہ دنیا کے لئے بڑا المیہ ہے۔ سرد جنگ کو ختم ہوۓ 28 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن امریکہ ابھی تک خود کو سرد جنگ ذہنیت سے آزاد نہیں کر سکا ہے۔ اور یہ ابھی تک دنیا کو 20ویں صدی کی سرد جنگ کے ذہن سے دیکھتا ہے۔ اور یہ امریکہ کی پالیسی ہے۔ جو شمالی کوریا کو سرد جنگ سے نکلنے کا راستہ نہیں دے رہی ہے۔ اور اس خطہ میں ایک نئی جنگ کے لئے جاپان کو warmonger بننے کی ترغیب دے رہا ہے۔ امریکہ کم جونگ ان کو اسی سرد جنگ ذہنیت سے دیکھ رہا ہے جس طرح امریکہ نے 50 کی دہائی میں اس کے Grand Father Kim Il Sung سے محاذ آرا ئی کی تھی۔ شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی آج کی پالیسی 50 کی دہائی کی اس پالیسی سے مختلف نہیں ہے۔ Winter اولمپک کے موقعہ پر صدر کم جونگ ان نے جنوبی کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اور جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in  نے اس کا مثبت جواب دیا ہے۔ تو امریکہ کو بھی اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے تھا۔ اور اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب کو شمالی کوریا کے خلاف فوجی دھمکیوں کے لئے پلیٹ فارم نہیں بنانا چاہیے تھا۔ نائب صدر Pence کے چہرے کے تاثر سے ایسا نظر آ رہا تھا کہ وہ یہ  دیکھ کر خوش نہیں تھے کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے کھلاڑی افتتاحی تقریب میں ایک پرچم تلے مارچ کر رہے تھے۔ اور unification کے گیت گا رہے تھے۔ شمالی کوریا کے صدر کی چھوٹی بہن Kim Yo Jong جو اپنے ملک کے وفد کی قیادت کر رہی تھیں۔ نائب صدر Pence اگر اس سے ہاتھ ملاتے اور صرف Hello کہتے تو یہ جنوبی اور شمالی کوریا کے لوگوں کے لئے ایک بڑی خبر ہوتی۔ اور اس خطہ میں اسے ایک Diplomatic move دیکھا جاتا۔ Kim Yo Jong 25 یا 26 سال کی ہو گی۔ اس کے لئے یہ ایک تاریخی یاد گار ہوتا اور وہ اسے ساری زندگی یاد رکھتی۔ صرف Hello کرنے سے بھی دشمن کا رویہ soft ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال کو پرامن بنانے کی ڈپلومیسی ہے۔ لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ نائب صدر Mike Pence نے اولمپک گیم ز کے موقعہ پر بھی شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کے سخت موقف کا مظاہرہ کیا تھا۔
   جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے “Neighbor First” کی پالیسی کو اہمیت دی ہے۔ اور شمالی کوریا کو اولمپک گیم ز میں شرکت کی دعوت دینے کے لئے خصوصی وفد پیانگ یونگ بھیجا تھا۔ یہ صدر Moon کا ایک اچھا فیصلہ تھا۔ دونوں کے ملکوں کے درمیان تعلقات کا سلسلہ بحال ہونا چاہیے۔ اور People to People رابطوں کو تعلقات بہتر بنانے کے مقصد میں فروغ دیا جاۓ۔ جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں اعتماد آۓ گا۔ تو شمالی کوریا کے نیو کلیر ہتھیاروں کے تجربے کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو جاۓ گا۔ اور جنوبی کوریا کا امریکہ اور جاپان کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گا۔ اس خطہ پر 60 سال سے فوجی مشقوں اور نیوکلیر ہتھیاروں کا جنون سوار ہے۔ اس خطہ کو 20ویں صدی کی تباہیاں پھیلانے والی جنگوں سے نکلنا چاہیے۔ اور 21صدی کی اقتصادی، معاشی اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں انسانی خوشحالی کو فروغ دینے کے کام کرنا چاہیے۔ جن طاقتوں نے 20ویں صدی میں جنوب مشرقی ایشیا میں انسانی تباہی پھیلائی تھی۔ وہ ہی طاقتیں 21ویں صدی میں مغربی ایشیا میں انسانی تباہیاں پھیلانے میں مصروف ہیں۔ 2 ملین سے زیادہ لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ انسانی تباہیاں غیر ملکی مداخلت کا سبب ہے۔ 20ویں کی آخری دہائیوں میں یہاں جن ملکوں نے انسانی فلاح و بہبود کے جن شعبوں میں ترقی کی تھی۔ وہ سب اب 50 سے 70 سال پیچھے چلے گیے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ اور ہر طرف بچوں کو ہتھیاروں کو استعمال کرنے اور جنگیں کرنے کے تربیتی کیمپ قائم ہیں۔  کوریا اور ویت نام کے لوگ جنگ کی تباہیوں سے پیچھے جانا نہیں چاہیں گے۔ ان کے بڑوں نے اپنے بچوں کا مستقبل بنانے کے لئے قربانیاں دیں تھیں۔ اور اب وہ اپنے ملک اور اپنے خطہ کو غلیظ جنگوں سے دور ر کھے گے۔
   سرد جنگ ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ کی سر زمین پر تقریباً 50 برس لڑی گئی تھی۔ اور پھر یہ جنگ افغانستان پہنچ کر ختم ہوئی تھی۔ لیکن چین نے صرف 40 سال میں حیرت انگیز اقتصادی ترقی ہے۔ لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکال کر مڈل کلاس بنایا ہے۔ اور پھر انہیں مڈل کلاس سے دولت مند طبقہ بنایا ہے۔ چین اب 21ویں صدی کی اقتصادی طاقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور اپنی اقتصادی ترقی کے ساتھ چین دنیا میں Economization کو فروغ دے رہا ہے۔ چین 21ویں صدی کی اقتصادی  کامیابی دنیا میں مضبوط اقتصادی سرگرمیوں میں دیکھ رہا ہے۔ جبکہ امریکہ نے 20ویں صدی کی فوجی طاقت کی کامیابی دنیا کو Militarize کرنے کی سرگرمیاں فروغ دینے میں دیکھی تھیں۔ اور 21ویں صدی میں بھی امریکہ نے  اپنی فوجی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ دنیا کو Militarize کرنے میں یورپی ملکوں کا فوجی اتحاد نیٹو یورپ سے نکل کر دنیا کے مختلف خطوں اور ملکوں کی طرف مارچ کر رہا ہے۔ حالانکہ یورپ سے باہر نیٹو کی فوجی سرگرمیوں کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ یہ فوجی الائنس صرف مغربی یورپ کے دفاع کے لئے وجود میں آیا تھا۔ اور مغربی یورپ سے باہر اس کا کوئی قانونی رول نہیں تھا۔  نیٹو اب مڈل ایسٹ میں قدم جمانے کی کوشش میں ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے 70 ملکوں میں امریکہ  کی فوجی کاروائیاں جاری ہیں۔ جبکہ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکہ کے 800 فوجی اڈے ہیں۔ چین اور روس امریکہ کے ساتھ فوجی اڈوں کی دوڑ میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ یہ 20ویں صدی کی دنیا میں دوبارہ جانا نہیں چاہتے ہیں۔ چین کا One Belt     One Road منصوبہ ملکوں کے درمیان اقتصادی فاصلے ختم کر رہا ہے۔ جیسے جیسے یہ منصوبہ مکمل ہوتا جاۓ دنیا کے ملک اقتصادی ترقی میں ایک ساتھ قدم آ گے بڑھانے کے قابل ہوتے جائیں گے ۔ 20ویں صدی کی طاقتوں پران کا انحصار ختم ہوتا جاۓ گا۔ اور وہ 19ویں صدی کی نوآبادیاتی اور 20ویں صدی کی استحصالی طاقتوں سے بھی مکمل  طور پر آزاد ہو جائیں گے۔
   اقتصادی ترقی کو مستحکم بنانے اور One Belt One Road اقتصادی منصوبہ کا حصہ بننے والے ملکوں کی سلامتی میں نئے عالمی اداروں کا قیام اب ضروری ہو گیا ہے۔ 20ویں صدی کے عالمی ادارے 21ویں صدی کی ایک بالکل مختلف دنیا میں obsolete نظر آ رہے ہیں۔ یہ عالمی ادارے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور مغربی طاقتوں نے صرف اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات میں بناۓ تھے۔ اس وقت دنیا بہت چھوٹی تھی۔ آج دنیا میں 194 ملک ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو ملک وجود میں آۓ تھے۔ آج وہ 70 برس کے ہو گیے ہیں۔ جو ملک 50 اور 60 کی دہائیوں میں وجود میں آۓ تھے۔ وہ بھی اب 50 اور 60 برس کے ہو گیے ہیں۔ اور یہ عالمی ادارے ان ملکوں کی سلامتی اور مفاد میں کام نہیں کرتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے انہیں دھونس دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ انہیں Bully کیا جاتا ہے۔ مالیاتی ادارے انہیں قرضے دیتے ہیں۔ اور یہ ادارے انہیں  مقروض رکھنے کا کام کرتے  ہیں۔ یہ عالمی ادارے دنیا میں ایک منصفانہ نظام فروغ دینے میں ناکام ہوۓ ہیں۔ بلکہ مغربی طاقتوں نے ان اداروں کو اپنا لوٹ کھسوٹ کا نظام قائم کرنے میں استعمال کیا ہے۔ ان اداروں کے ناکام ہونے کے ثبوت یہ ہیں کہ امریکہ برطانیہ فرانس اور اٹلی کے طیارے لیبیا کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ لیبیا پر ہزاروں بم گراۓ۔ حکومت کو dislodge کر دیا۔ ملک تباہ کر دیا۔ خاندان برباد کر دئیے۔ بچوں کی دنیا تاریک کر دی۔ عالمی ادارے ان کی پشت پر کھڑے یہ نظارہ کرتے رہے۔ دنیا کے طاقتور آۓ بم گراۓ تباہی پھیلائی اور چلے گیے۔ جس کے پاس طاقت اور دولت ہے یہ عالمی ادارے بھی ان کے ہیں۔ یہ عالمی ادارے کیا لیبیا، عراق، شام، یمن، فلسطین کے مفاد میں ہیں؟ لیبیا کے لوگوں نے 40 سال کی انتھک محنت سے اپنا ملک تعمیر کیا تھا۔ 4 ملکوں کے طیاروں نے 4 گھنٹے میں ان کے ملک کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ اور ان کے تیل کی دولت میں حصہ لے لیا۔ ان عالمی اداروں میں دنیا کے 180 ملکوں کے کوئی قانونی اختیارات نہیں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جن ملکوں نے یہ عالمی ادارے بناۓ تھے۔ 70 سال سے یہ ان کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ جو ادارے 70 سال سے فلسطینیوں کو انصاف دینے میں ناکام  ہیں۔ وہ ناکام ادارے ہیں۔  دنیا میں اب نئے عالمی اداروں کی اشد ضرورت ہے۔ Obsolete عالمی ادارے دنیا میں امن اور استحکام نہیں رکھ سکتے ہیں۔   
  


           

No comments:

Post a Comment