How The World Liberates America From Warmongering Cold War Mentality
مجیب خان
"US Vice President Mike Pence warns North Korea "Sword Stands Ready |
Vice President Mike Pence and President Moon Jae-in |
North Korean leader Kim Jong Un's sister meets South Korean President at the 2018 Winter Olympics in South Korea |
جنوبی
کوریا میں winter
اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب میں امریکی وفد کی قیادت نائب صدر Mike Pence نے
کی تھی۔ نائب صدر نے اولمپک گیم ز کے موقعہ پر بھی شمالی کوریا کو جنگ کی دھمکیاں
دینے اور جنگ کی باتیں کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ شمالی کوریا نے اولمپک گیم ز
میں شرکت کرنے کی درخواست کی تھی۔ اور اس مقصد سے شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کی
حکومت سے اپنا ایک وفد Pyongyang
بھیجنے کی دعوت دی تھی۔ اولمپک گیم ز کے موقعہ پر شمالی کوریا نے اپنے نیو کلیر
تجربے بند کر دئیے تھے۔ صدر کم جونگ ان حکومت نے اولمپک گیم ز کامیاب بنانے میں
جنوبی کوریا کی حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ اس خیر سگالی کے جواب
میں جنوبی کوریا کی حکومت نے شمالی کوریا کے کھلاڑیوں کو اولمپک کھیلوں میں حصہ
لینے کے لئے جنوبی کوریا آنے کی اجازت دی تھی۔ اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب میں
صدر کم جونگ ان کی چھوٹی بہن Kim
Yo-jong 22 رکنی وفد کے ساتھ Seoul آئی
تھیں۔ جنوبی کوریا کے صدرMoon
Jae-in شمالی کوریا کے وفد کا خیر مقدم
کیا تھا۔ Winter
اولمپک نے شمالی اور جنوبی کوریا میں سیاسی کشیدگی کی گرمی کا درجہ حرارت بھی سرد
کر دیا تھا۔ لیکن Winter
اولمپک میں نائب صدر
Pence کا رد عمل بالکل مختلف تھا۔ شمالی کوریا کے خلاف
ان کی گرمی کا درجہ حرارت بہت اوپر تھا۔ Winter اولمپک شروع ہونے سے قبل نائب صدر
Pence نے
پہلے جاپان میں اور پھر جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں سے خطاب میں شمالی کوریا کو
سخت لہجہ میں جنگ کی دھمکیاں دی تھیں۔ شاید اس سخت لہجہ کا مقصد صدر کم جونگ ان کو
instigate کرنا تھا تاکہ پھر وہ اس کے جواب میں کوئی action
کرے۔ لیکن winter Olympic کی
وجہ سے شمالی کوریا کا رد عمل بھی سرد
تھا۔ نائب صدر Pence نے
ٹوکیو میں شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی نئی انتہائی سخت بندشیں لگانے کے منصوبہ
کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ شمالی کوریا پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی پہلے ہی اتنی
زیادہ بندشیں لگی ہوئی ہیں کہ اب شاید صرف ہوا اور پانی ان بندشوں سے مستثنی ہیں۔ جاپان کے وزیر اعظم کے ساتھ
کھڑے ہو کر نائب صدر Pence نے دنیا کو بتایا کہ "اس کرہ ارض پر شمالی کوریا کی حکومت انتہائی
جابر اور ظالم حکومت ہے۔" حالانکہ دنیا یہ با خوبی جانتی تھی۔ جنوبی کوریا
میں اولمپک گیم زکی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر دنیا کو یہ بتانا کیا ضروری تھا؟ جنوبی
کوریا میں شمالی کوریا کی سرحد کے قریب امریکی فوجیوں سے خطاب میں نائب صدر Pence نے
کہا "شمالی کوریا کی حکومت کو کسی غلط فہمی میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی ہر
شرانگیزی کا جواب دینے کے لئے امریکی فوجیں تیار ہیں۔ اور بھر پور طاقت سے اس کا
جواب دیا جاۓ گا۔" جنوبی کوریا میں نائب صدر Pence شمالی کوریا کے
defectors سے
ملے تھے- اور انہوں نے نائب صدر کو ان کے ساتھ حکومت نے جو سلوک کیا تھا اس کی
داستان بتائی تھی۔
جنوبی
کوریا کی حکومت کو اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر نائب صدر Mike Pence کے warmongering
روئیے سے مایوسی ہوئی ہو گی۔ دنیا بھر سے کھلاڑی اور کھیلوں کے شائقین یہاں کھیلوں
کے مقابلوں میں حصہ لینے اور انہیں دیکھنے آۓ تھے۔ اور یہاں جنگوں کی باتوں نے انہیں ضرور Bore کیا
ہو گا۔ اور یہ دنیا کے لئے بڑا المیہ ہے۔ سرد جنگ کو ختم ہوۓ 28 سال ہو گیے ہیں۔
لیکن امریکہ ابھی تک خود کو سرد جنگ ذہنیت سے آزاد نہیں کر سکا ہے۔ اور یہ ابھی تک
دنیا کو 20ویں صدی کی سرد جنگ کے ذہن سے دیکھتا ہے۔ اور یہ امریکہ کی پالیسی ہے۔
جو شمالی کوریا کو سرد جنگ سے نکلنے کا راستہ نہیں دے رہی ہے۔ اور اس خطہ میں ایک
نئی جنگ کے لئے جاپان کو warmonger
بننے کی ترغیب دے رہا ہے۔ امریکہ کم جونگ ان کو اسی سرد جنگ ذہنیت سے دیکھ رہا ہے
جس طرح امریکہ نے 50 کی دہائی میں اس کے Grand Father Kim Il Sung سے محاذ آرا ئی
کی تھی۔ شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی آج کی پالیسی 50 کی دہائی کی اس پالیسی سے
مختلف نہیں ہے۔ Winter
اولمپک کے موقعہ پر صدر کم جونگ ان نے جنوبی کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ اور
جنوبی کوریا کے صدر Moon
Jae-in
نے اس کا مثبت جواب دیا ہے۔ تو امریکہ کو بھی اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے
تھا۔ اور اولمپک گیم ز کی افتتاحی تقریب کو شمالی کوریا کے خلاف فوجی دھمکیوں کے
لئے پلیٹ فارم نہیں بنانا چاہیے تھا۔ نائب صدر Pence کے چہرے کے
تاثر سے ایسا نظر آ رہا تھا کہ وہ یہ دیکھ
کر خوش نہیں تھے کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے کھلاڑی افتتاحی تقریب میں ایک پرچم
تلے مارچ کر رہے تھے۔ اور unification کے
گیت گا رہے تھے۔ شمالی کوریا کے صدر کی چھوٹی بہن Kim Yo Jong جو
اپنے ملک کے وفد کی قیادت کر رہی تھیں۔ نائب صدر Pence اگر اس سے ہاتھ
ملاتے اور صرف Hello
کہتے تو یہ جنوبی اور شمالی کوریا کے لوگوں کے لئے ایک بڑی خبر ہوتی۔ اور اس خطہ
میں اسے ایک Diplomatic move
دیکھا جاتا۔ Kim Yo Jong 25
یا 26 سال کی ہو گی۔ اس کے لئے یہ ایک تاریخی یاد گار ہوتا اور وہ اسے ساری زندگی
یاد رکھتی۔ صرف Hello
کرنے سے بھی دشمن کا رویہ soft ہو
جاتا ہے۔ یہ صورت حال کو پرامن بنانے کی ڈپلومیسی ہے۔ لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ
نائب صدر Mike Pence نے
اولمپک گیم ز کے موقعہ پر بھی شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کے سخت موقف کا مظاہرہ
کیا تھا۔
جنوبی
کوریا کے صدر Moon Jae-in نے “Neighbor First” کی
پالیسی کو اہمیت دی ہے۔ اور شمالی کوریا کو اولمپک گیم ز میں شرکت کی دعوت دینے کے
لئے خصوصی وفد پیانگ یونگ بھیجا تھا۔ یہ صدر Moon کا ایک اچھا
فیصلہ تھا۔ دونوں کے ملکوں کے درمیان تعلقات کا سلسلہ بحال ہونا چاہیے۔ اور People to People
رابطوں کو تعلقات بہتر بنانے کے مقصد میں فروغ دیا جاۓ۔ جب دونوں ملکوں کے تعلقات
میں اعتماد آۓ گا۔ تو شمالی کوریا کے نیو کلیر ہتھیاروں کے تجربے کرنے کا سلسلہ
بھی ختم ہو جاۓ گا۔ اور جنوبی کوریا کا امریکہ اور جاپان کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے
کا سلسلہ بھی ختم ہو گا۔ اس خطہ پر 60 سال سے فوجی مشقوں اور نیوکلیر ہتھیاروں کا
جنون سوار ہے۔ اس خطہ کو 20ویں صدی کی تباہیاں پھیلانے والی جنگوں سے نکلنا چاہیے۔
اور 21صدی کی اقتصادی، معاشی اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں انسانی خوشحالی کو فروغ
دینے کے کام کرنا چاہیے۔ جن طاقتوں نے 20ویں صدی میں جنوب مشرقی ایشیا میں انسانی
تباہی پھیلائی تھی۔ وہ ہی طاقتیں 21ویں صدی میں مغربی ایشیا میں انسانی تباہیاں
پھیلانے میں مصروف ہیں۔ 2 ملین سے زیادہ لوگ اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ انسانی
تباہیاں غیر ملکی مداخلت کا سبب ہے۔ 20ویں کی آخری دہائیوں میں یہاں جن ملکوں نے
انسانی فلاح و بہبود کے جن شعبوں میں ترقی کی تھی۔ وہ سب اب 50 سے 70 سال پیچھے
چلے گیے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ اور ہر طرف بچوں کو ہتھیاروں کو استعمال کرنے
اور جنگیں کرنے کے تربیتی کیمپ قائم ہیں۔ کوریا
اور ویت نام کے لوگ جنگ کی تباہیوں سے پیچھے جانا نہیں چاہیں گے۔ ان کے بڑوں نے
اپنے بچوں کا مستقبل بنانے کے لئے قربانیاں دیں تھیں۔ اور اب وہ اپنے ملک اور اپنے
خطہ کو غلیظ جنگوں سے دور ر کھے گے۔
سرد
جنگ ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ کی سر زمین پر تقریباً 50 برس لڑی گئی تھی۔
اور پھر یہ جنگ افغانستان پہنچ کر ختم ہوئی تھی۔ لیکن چین نے صرف 40 سال میں حیرت
انگیز اقتصادی ترقی ہے۔ لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکال کر مڈل کلاس بنایا ہے۔ اور
پھر انہیں مڈل کلاس سے دولت مند طبقہ بنایا ہے۔ چین اب 21ویں صدی کی اقتصادی طاقت
بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور اپنی اقتصادی ترقی کے ساتھ چین دنیا میں Economization کو فروغ دے رہا ہے۔ چین 21ویں صدی کی اقتصادی کامیابی دنیا میں مضبوط اقتصادی سرگرمیوں میں
دیکھ رہا ہے۔ جبکہ امریکہ نے 20ویں صدی کی فوجی طاقت کی کامیابی دنیا کو Militarize
کرنے کی سرگرمیاں فروغ دینے میں دیکھی تھیں۔ اور 21ویں صدی میں بھی امریکہ نے اپنی فوجی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ دنیا کو Militarize
کرنے میں یورپی ملکوں کا فوجی اتحاد نیٹو یورپ سے نکل کر دنیا کے مختلف خطوں اور
ملکوں کی طرف مارچ کر رہا ہے۔ حالانکہ یورپ سے باہر نیٹو کی فوجی سرگرمیوں کا کوئی
قانونی جواز نہیں ہے۔ یہ فوجی الائنس صرف مغربی یورپ کے دفاع کے لئے وجود میں آیا
تھا۔ اور مغربی یورپ سے باہر اس کا کوئی قانونی رول نہیں تھا۔ نیٹو اب مڈل ایسٹ میں قدم جمانے کی کوشش میں ہے۔
ایشیا اور افریقہ کے 70 ملکوں میں امریکہ
کی فوجی کاروائیاں جاری ہیں۔ جبکہ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکہ کے 800
فوجی اڈے ہیں۔ چین اور روس امریکہ کے ساتھ فوجی اڈوں کی دوڑ میں دلچسپی نہیں رکھتے
ہیں۔ یہ 20ویں صدی کی دنیا میں دوبارہ جانا نہیں چاہتے ہیں۔ چین کا One Belt
One Road
منصوبہ ملکوں کے درمیان اقتصادی فاصلے ختم کر رہا ہے۔ جیسے جیسے یہ منصوبہ مکمل
ہوتا جاۓ دنیا کے ملک اقتصادی ترقی میں ایک ساتھ قدم آ گے بڑھانے کے قابل ہوتے
جائیں گے ۔ 20ویں صدی کی طاقتوں پران کا انحصار ختم ہوتا جاۓ گا۔ اور وہ 19ویں صدی
کی نوآبادیاتی اور 20ویں صدی کی استحصالی طاقتوں سے بھی مکمل طور پر آزاد ہو جائیں گے۔
اقتصادی ترقی کو مستحکم بنانے اور One Belt One Road اقتصادی منصوبہ
کا حصہ بننے والے ملکوں کی سلامتی میں نئے عالمی اداروں کا قیام اب ضروری ہو گیا
ہے۔ 20ویں صدی کے عالمی ادارے 21ویں صدی کی ایک بالکل مختلف دنیا میں obsolete نظر آ رہے ہیں۔
یہ عالمی ادارے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور مغربی طاقتوں نے صرف اپنے سیاسی
اور اقتصادی مفادات میں بناۓ تھے۔ اس وقت دنیا بہت چھوٹی تھی۔ آج دنیا میں 194 ملک
ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو ملک وجود میں آۓ تھے۔ آج وہ 70 برس کے ہو گیے ہیں۔
جو ملک 50 اور 60 کی دہائیوں میں وجود میں آۓ تھے۔ وہ بھی اب 50 اور 60 برس کے ہو
گیے ہیں۔ اور یہ عالمی ادارے ان ملکوں کی سلامتی اور مفاد میں کام نہیں کرتے ہیں۔ ان
اداروں کے ذریعے انہیں دھونس دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ انہیں Bully کیا جاتا ہے۔
مالیاتی ادارے انہیں قرضے دیتے ہیں۔ اور یہ ادارے انہیں مقروض رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ یہ عالمی ادارے دنیا میں ایک منصفانہ نظام
فروغ دینے میں ناکام ہوۓ ہیں۔ بلکہ مغربی طاقتوں نے ان اداروں کو اپنا لوٹ کھسوٹ
کا نظام قائم کرنے میں استعمال کیا ہے۔ ان اداروں کے ناکام ہونے کے ثبوت یہ ہیں کہ
امریکہ برطانیہ فرانس اور اٹلی کے طیارے لیبیا کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ لیبیا
پر ہزاروں بم گراۓ۔ حکومت کو dislodge کر دیا۔
ملک تباہ کر دیا۔ خاندان برباد کر دئیے۔ بچوں کی دنیا تاریک کر دی۔ عالمی ادارے ان
کی پشت پر کھڑے یہ نظارہ کرتے رہے۔ دنیا کے طاقتور آۓ بم گراۓ تباہی پھیلائی اور
چلے گیے۔ جس کے پاس طاقت اور دولت ہے یہ عالمی ادارے بھی ان کے ہیں۔ یہ عالمی ادارے
کیا لیبیا، عراق، شام، یمن، فلسطین کے مفاد میں ہیں؟ لیبیا کے لوگوں نے 40 سال کی
انتھک محنت سے اپنا ملک تعمیر کیا تھا۔ 4 ملکوں کے طیاروں نے 4 گھنٹے میں ان کے
ملک کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ اور ان کے تیل کی دولت میں حصہ لے لیا۔ ان عالمی
اداروں میں دنیا کے 180 ملکوں کے کوئی قانونی اختیارات نہیں ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے
بعد جن ملکوں نے یہ عالمی ادارے بناۓ تھے۔ 70 سال سے یہ ان کے مفاد میں کام کر رہے
ہیں۔ جو ادارے 70 سال سے فلسطینیوں کو انصاف دینے میں ناکام ہیں۔ وہ ناکام ادارے ہیں۔ دنیا میں اب نئے عالمی اداروں کی اشد ضرورت ہے۔ Obsolete
عالمی ادارے دنیا میں امن اور استحکام نہیں رکھ سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment