Tuesday, February 13, 2018

If You Can’t Convince The People, Confused Them: And Now Americans Are Confused That Trump Is President By Russian Meddling, Not By Their Votes?

If You Can’t Convince The People, Confused Them. And Now Americans Are Confused That Trump Is President By Russian Meddling, Not By Their Votes?

In Iraq’s Neighbor, Former President George Bush Has Said In Abu Dhabi ‘There’s Clear Evidence Russians Meddled In Election’

مجیب خان
George Bush says "Clear evidence Russians meddle in Election", Abu Dhabi, UAE

Election 2016: Voters wait in a queue to cast their ballots in the presidential election, New Hampshire

Americans vote during elections 
   عراق کے ہمسایہ  متحدہ عرب امارت کے دارالحکومت ابو دہا بی میں سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا ہے کہ "یہ ثبوت بہت واضح ہیں کہ روس نے امریکہ میں 2016 کے انتخاب میں مداخلت کی تھی۔ آیا وہ اس کے نتیجہ پر اثر انداز ہوۓ تھے۔ یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔" صدر بش نے کہا "یہ ایک مسئلہ ہے کہ ایک فارن ملک  ہمارے انتخابی نظام میں ملوث ہوا ہے۔ ہماری جمہوریت صرف اس لئے اچھی ہے کہ لوگ اس کے نتائج پر اعتماد کرتے ہیں۔" امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اب یہ تاثر دے رہی ہیں کہ روس نے 2016 کے انتخاب میں مداخلت ٹرمپ کو کامیاب کرانے کے مقصد سے کی تھی۔ اس سلسلے میں کئی تحقیقات صرف یہ تعین کرنے کے لئے ہو رہی ہیں کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں کریملن نے کس طرح معاونت کی تھی؟ یہ وہ ہی  انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں جنہوں نے عراق کے بارے میں یہ تحقیقاتی رپورٹیں صدر بش کو دی تھیں کہ صد ام حسین نیو کلیر ہتھیار بنا رہے تھے۔ اور عراق میں مہلک ہتھیاروں کے ڈھیر تھے۔ صدر بش نے انٹیلی جنس کی ان رپورٹوں پر عراق کے خلاف preemptive فوجی کاروائی کی تھی۔ لیکن جب عراق میں مہلک ہتھیاروں کے ڈھیر نہیں ملے تھے۔ اور نہ ہی نیو کلیر ہتھیار بنانے کی لیباٹریاں ملی تھیں تو صدر بش یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے بری ہر گیے تھے کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انہیں تمام رپورٹیں انٹیلی جنس نے دی تھیں۔ اور اب عراق کے ہمسایہ متحدہ عرب امارت میں صدر بش نے کہا ہے کہ "اس کے بہت واضح ثبوت ہیں کہ روس نے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کی ہے۔"
   صدر بش نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دعووں پر اب بڑے وثوق سے یہ کہا ہے کہ امریکہ کے انتخاب میں روس کی مداخلت کے واضح ثبوت ہیں۔ 2016 کے انتخاب کو اب 15 ماہ ہو گیے ہیں۔ لیکن روس کی مداخلت کے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آۓ ہیں۔ اس سلسلے میں کانگرس نے ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر اور سابق پراسیکیوٹرRobert Mueller  کو اسپیشل کونسل نامزد کیا ہے۔ جو ٹرمپ انتخابی مہم اور روس کے درمیان collusion کے بارے میں ایف بی آئی کی تحقیقات کی نگرانی کریں گے۔ اور روس کی انتخاب میں مداخلت کی تفتیش کریں گے۔ اسپیشل کونسل کی تحقیقات کے جو ابتدائی نتائج سامنے آۓ ہیں۔ ان میں ٹرمپ انتخابی مہم کے بعض اراکین نے جس جرم کا اعتراف کیا ہے۔ وہ نجی نوعیت کے ہیں۔ انہوں نے اپنے کاروبار میں کچھ خرد برد کیا تھا۔ Off shore بنکوں میں لاکھوں ڈالر جمع کراۓ تھے۔ اور اسے ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے چھپایا تھا۔ ٹرمپ انتخابی مہم کے چیرمین Paul Manafort یوکرین کی سابق حکومت میں صدر Viktor Yanukovych کے لئے لابی کرتے تھے۔ اور اس سے انہوں نے لاکھوں ڈالر بناۓ تھے۔ ان کی یہ سرگرمیاں 2014 میں تھیں۔ اس کے علاوہ ان کے روسی Oligarchs سے بھی تعلقات تھے۔ اس سلسلے میں ان کا روس آنا جانا رہتا تھا۔ اسی طرح جن دوسرے لوگوں کے نام آ رہے ہیں۔ روسیوں کے ساتھ ان کے تعلقات بھی بزنس نوعیت کے تھے۔ یہ روسی امریکہ میں بھی بزنس کرتے تھے۔ لیکن پو تن حکومت کے اعلی حکام کے ساتھ ٹرمپ انتخابی مہم کے collusion کا کیس ابھی تک ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ بلکہ اس تحقیقات کے نتیجہ میں بعض نئے انکشاف ہوۓ ہیں۔ 2016 کے انتخاب میں برطانویMI6   کے ایک سابق ایجنٹ Christopher Steele کا کردار تحقیقات کے ریڈار پر آیا ہے۔ جسے ڈیمو کریٹک پارٹی نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف Dossier لکھنے کے لئے Hire کیا تھا۔ اور ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے فنڈ سے اسے تقریباً  ڈھائی لاکھ ڈالر دئیے گیے تھے۔ اس Dossier میں 17Memos تھے۔ جو 2016 میں جون سے دسمبر کے دوران لکھے گیے تھے۔ جس میں 2016 کے انتخاب سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ انتخابی مہم اور روسی حکومت کے درمیان رابطوں کی تفصیل بتائی گئی تھی۔ اور ایف بی آئی نے اس Dossier کی بنیاد پر ٹرمپ انتخابی مہم کے ایک رکن کی surveillance کے لئے خصوصی کورٹ سے اجازت مانگی تھی۔ یہ سکینڈل کے اندر ایک نیا سکینڈل سامنے آیا ہے۔ جس میں ایف بی آئی نے MI6 کے ایک ایجنٹ کے Dossier کو جو ڈیمو کریٹک پارٹی کی درخواست پر لکھا گیا تھا۔ اسے پھر ٹرمپ انتخابی کمیٹی کے ایک رکن کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔
   انتخاب میں روس کی مداخلت کی تحقیقات میں اب یہ نئے سوال سامنے آۓ ہیں جن کے جواب مانگے جا رہے ہیں۔ ان سوالوں نے اس تحقیقات کو اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ایف بی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر Andrew McCabe جو 23 سال سے اس ادارے سے وابستہ تھے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ استعفا دے دیا ہے۔ جبکہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر James Comey کو گزشتہ سال جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی درخواست پر صدر ٹرمپ نے برطرف کیا تھا۔ ڈائریکٹر ایف بی آئی کی برطرفی اور اب ڈپٹی ڈائریکٹر ایف بی آئی کے استعفا سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ 2016 کے انتخاب میں ایف بی آئی کا کیا سیاسی رول تھا؟ ایف بی آئی میں اعلی عہدوں پر بعض ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن اور ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان تقسیم تھی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر Andrew McCabe کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی affiliation ہلری کلنٹن سے تھی۔ جبکہ ڈائریکٹر ایف بی آئی James Comey ری پبلیکن پارٹی کے قریب تھے۔ ایف بی آئی ایک انتہائی قدامت پسند ادارہ ہے۔ اس کے زیادہ تر ڈائریکٹر ری پلیکن انتظامیہ میں نامزد کیے گیے ہیں۔ اور یہ دس سال کے لئے نامزد ہوتے ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی کے اعلی قائدین  انتخاب سے صرف چند ماہ قبل یہ بیان دے رہے تھے کہ ہلری کلنٹن کو صدر نہیں بننے دیا جاۓ گا۔ اور اگر وہ صدر منتخب ہو جاتی ہیں تو ان کو impeachment کا سامنا کرنا ہو گا۔ ان لیڈروں میں اسپیکر Paul Ryan، سینٹ میں ری پبلیکن پارٹی کے اکثریتی لیڈر Mitch McConnell سابق صدارتی امیدوار Mitt Romney اور بعض سینیٹر ز نمایاں تھے۔ اس وقت ہلری کلنٹن کو ڈونالڈ ٹرمپ پر 8 اور 9 پوائنٹ کی برتری حاصل تھی۔ اور صدارتی انتخاب میں ہلری کلنٹن کی کامیابی یقینی نظر آ رہی تھی۔ اس یقینی کامیابی کو محسوس کرتے ہوۓ انتخاب سے صرف چند روز قبل ڈائریکٹر ایف بی آئی James Comey نے یہ اعلان کر کے دھماکہ کر دیا کہ انہیں ہلری کلنٹن کی E-Mail دریافت ہوئی ہیں۔ اور ایف بی آئی ان کا جائزہ لے رہی ہے۔ ہلری کلنٹن نے سیکرٹیری آف سٹیٹ کی حیثیت سے classified امور کے بارے میں اپنے نجی E-Mail server کا استعمال کیا تھا۔ اور اس کی تحقیقات بن غازی میں امریکی کونسل خانے میں دہشتگردوں کے حملہ میں امریکی سفیر اور چار دوسرے امریکیوں کے ہلاک ہونے میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی غفلت اور امریکی سفیر کو مناسب سیکورٹی فراہم نہ کرنے کے بارے میں تھی۔ بہرحال ڈائریکٹر ایف بی آئی کے اس دھماکہ خیز بیان نے انتخاب کا نقشہ پلٹ دیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو ہلری کلنٹن پر 3 اور 4 پوائنٹ کی برتری حاصل ہو گئی تھی۔ اس وقت ڈیمو کریٹک پارٹی نے اسے ڈائریکٹر ایف بی آئی کی انتخاب میں مداخلت قرار دیا تھا۔ اور صدر اوبامہ سے ڈائریکٹر ایف بی آئی کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اب اگر روس انتخاب میں مداخلت کر رہا تھا۔ تو ڈائریکٹر ایف بی آئی نے یہ مداخلت کر کے کیا روس کی معاونت کی تھی؟
   2016 کے انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کا اہم سبب یہ تھا، جس کا ریپبلیکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی اعتراف کرنے سے کترا رہی ہیں۔ کہ امریکی عوام صدر جارج بش اور صدر اوبامہ کے 8 سال دور اقتدار سے سخت مایوس ہوۓ تھے۔ 16 سال کی جنگوں سے سخت پریشان تھے۔ 2008 کے انتخاب میں لوگوں نے صدر اوبامہ کو جنگیں ختم کرنے کے وعدہ پر ووٹ دئیے تھے۔ عالمی برادری نے صدر اوبامہ کو امن کا نوبل ایوارڈ بھی تھا۔ لیکن صدر اوبامہ سابق صدر جارج بش کے 60 ملکوں میں جنگیں کرنے کے منصوبہ پر عمل درآمد کرنے لگے تھے۔ ہلری کلنٹن کے بارے میں امریکی عوام کی یہ سوچ تھی کہ انہوں نے صدر بش کی عراق کے خلاف preemptive جنگ کی حمایت کی تھی۔ اور پھر سیکرٹیری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے ہلری کلنٹن نے صدر اوبامہ کی لیبیا اور شام میں جنگوں کی حمایت کی تھی۔ امریکی عوام اس مرتبہ hawkish کو وائٹ ہاؤس میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے صدارتی امیدوار ہونے کے اعلان کے پہلے روز سے جنگوں کی مخالفت کی تھی۔ اور صدر بش کی عراق جنگ اور صدر اوبامہ کی لیبیا اور شام کی جنگوں کی سخت مذمت کی تھی۔ ٹرمپ جتنا زیادہ جنگوں کے خلاف بات کرتے تھے۔ اتنے ہی زیادہ لوگ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لئے سوچنے لگتے تھے۔ امریکی عوام کی راۓ یہ تھی کہ ٹرمپ کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ٹرمپ پیشہ ور سیاستدان نہیں ہیں۔ واشنگٹن insider نہیں ہیں۔ امریکی عوام کا کہنا تھا کہ ٹرمپ واشنگٹن کو لابیوں کے سیاسی شکنجہ سے نجات دلائیں گے۔ اور امریکہ کے Broken system کو Fix کریں گے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کامیاب بزنس مین ہیں۔ اور وہ امریکہ کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ انتخاب کے آخری ہفتہ میں امریکی عوام کا ٹرمپ کے بارے میں ذہن بن گیا تھا۔ انتخابی نتائج دیکھ کر سیاسی پنڈت سکتہ میں آ گیے تھے۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سارے Polls الٹے ہو گیے تھے۔ جمہوری نظام کی یہ خوبصورتی ہے کہ عوام طاقت کا سر چشمہ  ہوتے ہیں۔ اب امریکی عوام کے اس فیصلہ میں روس کی مداخلت کہاں Fit ہوتی ہے۔
   روس اگر ڈونالڈ ٹرمپ کو صدر بنانے کے لئے مداخلت کرتا تو اس کی ابتدا پھر 2016 میں ری پبلیکن پارٹی کی پرائم ریز سے ہوتی۔ ری پبلیکن پارٹی کے 17 صدارتی امیدوار پرائم ریز میں حصہ لے رہے تھے۔ اور ٹرمپ سواۓ چند ریاستوں کے تقریباً  ہر ریاست میں بھاری اکثریت سے 16 امیدواروں پر برتری حاصل کرتے جا رہے تھے۔ ری پبلیکن پارٹی کی تاریخ میں پرائم ریز میں ٹرمپ نے سب سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ اس وقت روس کی مداخلت کا کوئی سوال نہیں تھا۔ یہ باتیں کہ روس نے انتخاب میں مداخلت کر کے امریکہ کے جمہوری نظام کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور ا سا مہ بن لادن امریکہ کی اقتصادی خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اور ISIS امریکہ میں Caliphate قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب Nonsense ہے۔                                              

No comments:

Post a Comment