Tuesday, February 6, 2018

Israel At Seventy: No Peace, Seventy-Years of The Bloodiest Wars

Israel At Seventy: No Peace, Seventy-Years of The Bloodiest Wars

Aggression against unarmed Palestinians, the longest brutal military occupation in mankind’s history. In seventy years, the policies Israelis are practicing have become an existential threat for Israel’s security.
America has supported every war of aggression by Israel. America has given every defense and security toy to Israel. Israel is now at seventy but America’s role to protect Israel is as a Nanny.

مجیب خان
Prime Minister Yitzhak Rabin and Chairman Yasser Arafat with US President Bill Clinton in White House, after signing Oslo accord 

Shimon Peres with Yasser Arafat 

Prime Minister Yitzhak Rabin and chairman Yasser Arafat
   اسٹیٹ آف اسرائیل کے قیام کے اب 70 سال ہو رہے ہیں۔ 14 مئی 1948 میں و ر لڈ Zionist آرگنائزیشن کے سربراہ David Ben-Gurion نے با ضابطہ طور پر اسرائیل کے قیام کا اعلامیہ جاری کیا تھا۔ کسی بھی ریاست کی تاریخ میں 70 سال ایک بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ 70 سال میں ریاست پختہ ہو جاتی ہے۔ ریاست کی سلامتی کے خطرے کم ہو جاتے ہیں۔ ریاست کا استحکام علاقہ کے استحکام سے منسلک ہو جاتا ہے۔ اور استحکام پھر علاقہ میں امن کو فروغ دیتا ہے۔ لیکن اسرائیل نے اپنے ہمسائیوں کو 70 سال جنگ کے حالات میں رکھ کر ایک نئی تاریخ بنائی ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ہمسائیوں یا خطہ کے ملکوں کے ساتھ 70 سال تک جنگ کے حالات فروغ دینے کی مثال نہیں ملتی ہے۔ اس کا ایک سبب شاید یہ بھی تھا کہ امریکہ اور یورپی طاقتوں نے اسرائیل بغیر سرحدوں کی ریاست بنا کر یہودیوں کو دی تھی۔ اور اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرنے کا فیصلہ Zionist یہودی قیادت پر چھوڑ دیا تھا۔ اسرائیلی قیادت نے یہودی ریاست کی سرحدوں کا تعین کرنے کے لئے عربوں کے ساتھ  نا ختم ہونے والی جنگوں کا جال پھیلا دیا تھا۔ اور عربوں کے ساتھ یہ جنگیں اسرائیل کے قیام کے ابتدائی ماہ میں شروع ہو گئی تھیں۔ پہلی اسرائیل عرب جنگ 1948 میں ہوئی تھی۔ اسرائیل عرب دوسری جنگ 1967 میں اور تیسری جنگ 1973 میں ہوئی تھی۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں عربوں کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ 50 سال بعد عربوں کے ان علاقوں پر ابھی تک اسرائیل کا فوجی قبضہ ہے۔ اسی طرح 1973 کی جنگ میں اسرائیل نے جن عرب علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ یہ بھی ابھی تک اسرائیل کے فوجی قبضہ میں ہیں۔ اور انہیں اسرائیل کی مستقل سرحدیں بنانے کا منصوبہ ہے۔ اسرائیل نے مصر کے سینائی علاقہ پر قبضہ کیا تھا۔ لیکن مصر اور اسرائیل میں امن معاہدہ ہونے کے بعد اسرائیل  سنیائی کے علاقہ سے دستبردار ہو گیا تھا۔ جبکہ لبنان کے وادی بقا کا علاقہ اسرائیلی قبضہ سے حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کر کے آزاد کرایا تھا۔ اسرائیلی فوج کو جنوبی لبنان سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ عرب دنیا میں حزب اللہ واحد ملیشیا تھی جس نے اسرائیل کو شکست دی تھی۔ اور لبنان کے علاقہ اسرائیلی فوجی قبضہ سے آزاد کراۓ تھے۔ لیکن شام کے گو لان کے علاقہ پر 50 سال سے اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اور اسرائیل شام کے علاقہ سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ 50 سال میں شام نے اپنے علاقہ واپس لینے کے لئے اسرائیل سے جنگ نہیں کی ہے۔ اسرائیل کے خلاف شامی دہشت گردی بھی نہیں کر رہے تھے۔ اسرائیل کی سلامتی کے خلاف شام نے کوئی خطرے بھی پیدا نہیں کیے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے شام کو دشمن بنایا تھا۔ مصر اور ار دن کے بعد اسرائیل کو شام کے ساتھ بھی امن معاہدہ کے لئے کوشش کرنا چاہیے تھی۔ اور شام کے گو لان علاقہ سے دستبردار ہونے کے ساتھ شام سے بھی امن سمجھوتہ ہو سکتا تھا۔ شام کے ساتھ امن سمجھوتہ سے اسرائیل کے اطراف ایران کا اثر و رسوخ ختم ہونے میں مدد ملتی اور لبنان میں حزب اللہ کو بھی counter کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اسرائیل میں warmongers لیڈر ہیں۔ جو سیاست اور ڈپلومیسی میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اور یہ عرب اسرائیل تنازعہ کی ایک بڑی tragedy  ہے۔ عرب دنیا میں dictators   ہیں اور اسرائیل میں warmonger leaders ہیں۔ 
   مصر اسرائیل کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ میں مصری عوام کا کیا مفاد تھا؟ یا اس معاہدہ سے مصری عوام کو کیا ملا تھا؟ یہ معاہدہ امریکہ نے دو حکومتوں کے درمیان کرایا تھا۔ اور 39 سال میں یہ امن معاہدہ اسرائیل اور مصر کی حکومتوں سے نکل کر دونوں ملکوں کے عوام تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ یہ امن معاہدہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ناکام ہو گیا ہے۔ عرب دنیا کے درمیان اسرائیل کو ایک جمہوری ملک ہونے پر فخر ہے۔ لیکن اسرائیل نے مصری عوام کو جمہوریت دینے کو اپنی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھا ہے۔ مصری عوام بدستور اسرائیل کے دشمنوں کی فہرست میں ہیں۔ اور مصری فوجی جنرل اور فوجی حکومت اسرائیلی حکومت کی good book میں ہیں۔ صدر انور سادات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ صرف اس شرط پر کیا تھا کہ اسرائیل مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد فلسطین کا تنازعہ حل کرے گا۔ فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ کے حل میں اسرائیل کی پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں مصر کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ ختم کر دے گا۔ صدر انور سادات کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر قتل کر دیا تھا۔ اور صدر حسینی مبارک مصر کے صدر بن گیے تھے۔ صدر حسینی مبارک نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ برقرار رکھا تھا۔ لیکن اس معاہدہ پر مکمل عملدرامد نہیں کرایا تھا۔ اسرائیل نے فلسطین کا تنازعہ فراموش کر دیا تھا۔ امریکہ نے بھی صدر انور سادات سے اپنے اس عہد کو پورا نہیں کیا تھا کہ مصر کے کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ پر دستخط کرنے کے بعد فلسطین کا تنازعہ حل کیا جاۓ گا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی آزادی اور حقوق کی تحریک کو بھر پور طاقت سے کچل نے کی پالیسی جاری رکھی تھی۔ اسرائیلی فوج نے لبنان میں صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر ٹینک اور بلڈوزر چلا دئیے تھے۔ مہاجر کیمپوں میں بکھری ہوئی لاشوں کے مناظر فلسطینیوں کا Holocaust تھا۔
   فلسطائن لبریشن آرگنائزیشن [PLO] پروگریسو، لبرل، سوشلسٹ اور نیشنلسٹ نظریات کے فلسطینیوں کی تنظیم تھی۔ جس میں عیسائی اور مسلم فلسطینی چرمین یا سر عرفات کی قیادت میں متحد تھے۔ اور یہ فلسطینیوں کی ایک واحد تنظیم تھی۔ اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف اعلانیہ جنگ جاری تھی۔ اور اس کے جواب میں فلسطینیوں نے بھی اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں غیر ملکی فوجی قبضہ میں محکوم لوگوں کی جدوجہد کو قانونی تسلیم کیا گیا ہے۔ لہذا فلسطینیوں کی جدوجہد کو دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی کاروائیاں انتہائی ruthless تھیں۔ برسوں سے آباد فلسطینی کاشتکاروں کی زمینیں چھین لی جاتی تھیں۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی اسرائیلی پالیسی ابھی تک جاری ہے۔ ان کے گھروں کو تباہ کر کے اس کی جگہ انتہائی شاندار گھر یہودیوں کو آباد کرنے کے لئے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی یہ پالیسی ہے کہ فلسطینیوں کی زندگیوں کو اس قدر miserable بنا دیا جاۓ کہ یہ خود اپنے گھروں، بستیوں اور شہروں کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ لیکن فلسطینی بہادر قوم ہیں۔ یہ 70 سال سے اسرائیلی فوجی قبضہ کی بربریت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور یہ آئندہ 70 سال بھی اس کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن اپنے ابا و اجداد کی دھرتی چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔
   1991 میں پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان میڈرڈ معاہدہ ہوا تھا۔ پی ایل او نے اسرائیل کے خلاف تمام مسلح کاروائیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر 1993 میں پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان اوسلو امن معاہدہ ہوا تھا۔ پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا۔ اور پی ایل او کے چارٹر سے اسرائیل کا خاتمہ کرنے کے پیراگراف نکال دئیے تھے۔ اسرائیل نے بھی پی ایل او کو فلسطینیوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کر لیا تھا۔ اوسلو امن معاہدہ کے تحت غازہ اور مغربی کنارے میں Jericho میں ایک عبوری فلسطینی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ دیا گیا تھا۔ اسرائیل Jericho اور غازہ سے دستبردار ہو جاتا اور پھر مغربی کنارے کو فلسطین کی عبوری حکومت کے حوالے کر دیا جاتا۔ ان علاقوں میں فلسطینیوں کو پانچ سال کے لئے محدود انتظامی اختیار دئیے جاتے۔ 9 ماہ میں فلسطینی قانون ساز کونسل کے انتخاب کراۓ جاتے۔ فلسطینی پولیس قائم کی جاتی۔ یروشلم کا سوال مستقبل میں مذاکرات پر چھوڑ دیا تھا۔ اوسلو امن معاہدہ میں فلسطینیوں کی عبوری حکومت کے قیام کے اعلان سے  فلسطینی مسرت اور خوشی سے سڑکوں پر آ گیے تھے۔ فلسطینی جھنڈے ان کی کاروں پر لہرا رہے تھے۔ مغربی کنارے، رمالہ، غازہ اور بیت لحم میں ہر طرف جشن کا سماں تھا۔ صرف آزادی کا لفظ سن کر فلسطینیوں کو جیسے ایک نئی زندگی مل گئی تھی۔ لیکن نظریاتی انتہا پسند اسرائیلی gung-hos نے فلسطینیوں کا اپنی ایک آزاد ریاست میں اپنا مستقبل روشن بنانے کے تمام خواب پاش پاش کر دئیے۔ اور انہیں ماضی کے اندھیروں میں دھکیل دیا تھا۔ تاکہ وہ اسرائیل پر پتھروں سے حملہ کرتے رہیں اور اسرائیلی فوج ان کے گھروں کو ٹینکوں اور بلڈوزروں سے تباہ کرتے جائیں۔ اسرائیلی فوجی قبضہ کے 70 سال میں فلسطینیوں میں تعلیم کا تناسب کیا ہے؟ اور بے روز گار اور تعلیم سے محروم اسرائیلی فوج پر پتھر پھینکنے والے فلسطینیوں کا تناسب کیا ہے؟
   امریکہ اور یورپ کو شرم آنا چاہیے کہ وہ 70 سال سے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوجی قبضہ کی اندھی حمایت کر رہے تھے۔ بلکہ اسرائیل کی ہر عالمی قانون کی خلاف ورزی کی انہوں نے حمایت کی تھی۔ اسرائیل کی ہر جارحیت کو انہوں نے جائز قرار دیا تھا۔ اسرائیل نے عراق پر حملہ کر کے اس کے نیو کلیر پاور پلانٹ تباہ کیے تھے۔ اسرائیل کا یہ حملہ عراق کی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی تھا۔ لیکن امریکہ نے اس کی حمایت کی تھی۔ اسرائیل نے عراق کی فضائیہ کے طیاروں پر حملہ کر کے انہیں تباہ کیا تھا۔ لیکن امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کی حمایت کی تھی۔ عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کرنا اسرائیل کا قانون بن گیا تھا۔ اسرائیل نے شام پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پاور پلانٹ تباہ کیے تھے۔ اس پر بھی امریکہ اور یورپ نے منہ موڑ لیا تھا۔ لیکن دنیا بھر میں اسرائیلی پراپگنڈہ یہ ہے کہ عراق، شام، فلسطینی، حماس، ایران اور حزب اللہ اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ اسرائیل کا 70 سال کا ریکارڈ دنیا کے سامنے ہے کہ کون کس کے لئے خطرہ ہے؟ اسرائیلی مو ساد کے ایجنٹ جعلی پا سپورٹ پر دوبئی گیے تھے۔ اور وہاں ہوٹل میں فلسطینی لیڈر کا قتل کر کے چلے گیے تھے۔ قانون کی حکمرانی کے دعویداروں نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے extrajudicial killing کی مذمت تک نہیں کی تھی۔ امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کو جیسے قانون سے بالاتر رکھا تھا۔ 70 سال سے اسرائیل کی ان تمام کاروائیوں میں امریکہ کا رول Nanny کا تھا۔ امریکہ نے اسرائیل کی سلامتی اور دفاع میں اسے تمام Toys دئیے ہیں۔ اسے 800 ملین ڈالر قرضہ لینے کی گار نٹی دی ہے۔ امریکہ کی 4 انتظامیہ اسرائیلی حکومت سے نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کی پالیسی کے خلاف مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے اپنی اس پالیسی پر عملدرامد جاری رکھا ہے۔ نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کی کاروائیاں یو گینڈا میں عدی امین کی آمرانہ حکومت سے مختلف نہیں ہے۔ عدی امین کو سعودی عرب نے پناہ دی تھی۔ اور اسرائیل نے اب سعودی عرب کا ہاتھ تھام لیا ہے۔
Israeli soldiers detain a Palestinian, in the west bank




UN report reveals the war crimes of Israel's assault on Gaza in 2014

               


            

No comments:

Post a Comment