Wednesday, February 28, 2018

The Turmoil And Conflagration In The Middle East Are The Results of Two Previous Administrations Unwise And Ill-Advised Policies


The Turmoil And Conflagration In The Middle East Are The Results of Two Previous Administrations Unwise And Ill-Advised Policies

مجیب خان
Besieged Syrian rebel held Eastern Ghouta
Aleppo, Syria  
War always brings suffering for the people, Eastern Ghouta
     شام میں مشرقی غوطہ کی تشویشناک صورت حال پر سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں جنگ بندی کی قرارداد پر بحث کے دوران برطانیہ کے مندوب Stephen Hickey نے کہا "شام میں شہریوں کے تکلیف دہ حالات ہم سب کے لئے باعث شرم ہیں۔" مشرقی غوطہ میں حالات جیسے "زمین پر دوزخ" ہے۔ فرانس کے سفیر Francois Delattre نے کہا " شہریوں کی اموات ناقابل برداشت ہیں۔" انہوں نے متنبہ کیا کہ فوری کاروائی نہ ہونے کی صورت میں یہ اقوام متحدہ کی قبر بن سکتا ہے۔ امریکہ کی سفیر Nikki Haley نے مشرقی غوطہ کی صورت حال پر کہا " کتنی مائیں بمباری اور شیلنگ میں اپنے بچے کھو چکی ہیں۔ کتنی اور تصویریں ہم دیکھیں گے کہ باپ اپنے مر دہ بچوں کو ہاتھوں میں تھامے ہیں۔" برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے یہ سفیر 2018 میں سلامتی کونسل میں شام کے درد ناک حالات اس طرح بیان کر رہے تھے کہ جیسے اس المناک صورت حال سے ان کے ملک کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور وہ شام میں لوگوں کے درد ناک حالات دیکھ کر دہل گیے ہیں۔ شام میں صرف ایک مشرقی غوطہ نہیں ہے۔ بلکہ سارا ملک مشرقی غوطہ بنا ہوا ہے۔ شام میں بیرونی meddling کے نتیجہ میں خانہ جنگی کا آغاز 2011 میں ہوا تھا۔ اور اس خانہ جنگی کو امریکہ فرانس اور برطانیہ organize کر رہے تھے۔ 2015 تک شام کے متعدد شہر مشرقی غوطہ بن چکے تھے۔ ہزاروں مائیں اپنے معصوم بچے کھو چکی تھیں۔ سینکڑوں باپ اپنے مر دہ بچوں کو ہاتھوں میں تھامے ہوۓ تھے اور ان کی تصویریں دنیا بھر کے اخبارات میں ہر ماں اور ہر باپ نے دیکھیں تھیں۔ ایک ملین لوگ اس وقت تک مار دئیے گیے تھے۔ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ شام ہر طرف کھنڈرات کا ملبہ نظر آ رہا تھا۔ شام کے لوگ اس کھنڈرات میں دبے ہوۓ تھے۔ یا کھنڈرات تلے دبنے کے خوف سے شام چھوڑ کر چلے گیے تھے۔ پھر دنیا نے شام کی سرحدوں کے باہر بہت دور یہ درد ناک مناظر بھی دیکھے تھے کہ جو شامی اپنے ملک میں خانہ جنگی سے اپنی جانیں بچا کر بھاگے تھے۔ ان کی کشتیاں بحر روم میں الٹ گئی تھیں۔ ہر طرف ان کی لاشیں سمندر میں تیرتی دیکھی جا رہی تھیں۔ اس معصوم شامی بچے کی لاش جسے بحر روم کی موجیں ساحل تک لے آئی تھیں۔ اس کی تصویر دنیا بھر کے اخبارات اور میگزینوں کے سر ورق پر شائع ہوئی تھی۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کے سفیر ان درد ناک مناظر کو شاید بھول گیے تھے۔ ان کی حکومتوں کو اس وقت فوری طور پر اس خانہ جنگی کی حمایت ترک کر دینا چاہیے تھا۔ یہ خانہ جنگی 100 فیصد دہشت گردی تھی۔ جس نے شام ایک قدیم تاریخی ملک کو ground zero بنا دیا تھا۔ جتنی ظالم یہ خانہ جنگی تھی۔ اس خانہ جنگی کی پشت پنا ہی کرنے والوں نے بھی خود کو اتنا ہی ظالم ثابت کیا تھا۔ ان نام نہا د باغیوں میں ایک بڑی تعداد القا عدہ  داعش  اور اسلامی انتہا پسندوں کی تھی۔ روس نے اس وقت تک شام کی سر زمین پر قدم نہیں ر کھے تھے۔ یہ خانہ جنگی کی تاریخ میں ایک انتہائی گھناؤنی خونی خانہ جنگی تھی۔ ان گروپوں میں کچھ کی امریکہ پشت پنا ہی کو رہا تھا اور وہ امریکہ  کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ اور کچھ گروپوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا تھا۔ القا عدہ باغیوں کے ساتھ اسد حکومت کے خلاف لڑ رہی تھی۔ پھر مقامی باغیوں کے ساتھ عالمی باغی بھی شامل ہو گیے تھے۔ اسد حکومت کے خلاف باغیوں کو امریکہ نے Rebel Army تسلیم کیا تھا۔ لیکن شام کے ہمساۓ میں حزب اللہ جو لبنان کی ملیشیا تھی اور جس نے جنوبی لبنان کو اسرائیلی فوجی قبضہ سے آزاد کرانے کی جنگ لڑی تھی امریکہ نے اسے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ فلسطینی جو اسرائیلی فوجی قبضہ کی بربریت کے خلاف لڑ رہے تھے اور اسد حکومت کی آمریت سے زیادہ بدتر تھی۔ فلسطینیوں کی Intifada تحریک کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔ حالانکہ Intifada تحریک میں فلسطینی Christians بھی شامل تھے۔
   شام اور افغانستان کی خانہ جنگی میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی Consistency نہیں ہے۔ افغانستان کی خانہ جنگی میں پاکستان کو یہ الزام دیا جاتا ہے کہ پاکستان طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن پھر شام میں امریکہ دمشق حکومت کے خلاف جن باغیوں کی حمایت کر رہا تھا۔ وہ طالبان سے زیادہ خوفناک تھے۔ انہوں نے 6 سالوں میں شام میں اتنی تباہی پھیلائی ہے اور بے گناہ لوگوں کو ہلاک کیا ہے کہ طالبان نے 20 سال میں افغانستان میں اتنے لوگ ہلاک کیے ہوں گے اور افغانستان میں تباہی کی ہو گی۔ افغانستان میں طالبان نے ہزاروں سال کے بتوں کے قدیم تاریخی مجسمہ تباہ کر دئیے تھے۔ جس پر دنیا چیخ اٹھی تھی۔ اور طالبان کے جاہل ہونے کی مذمت کی گئی تھی۔ لیکن شام میں باغیوں کی خانہ جنگی میں شام کی ہزاروں سال کی قدیم تاریخ تباہ کی جا رہی تھی۔ عیسائوں کے قدیم تاریخی چرچ تباہ کیے جا رہے تھے۔ عیسائوں کے اہم مقدس مذہبی مقامات تباہ کیے جا رہے تھے۔ ایسے عناصر کی خانہ جنگی کی حمایت کی جا رہی تھی۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ اوبامہ انتظامیہ کے واچ میں ہو رہا تھا۔ اور اسے صدر اوبامہ کی legacy کہا جاۓ گا۔ جو 6 سال سے انسانیت کی تباہی کی خانہ جنگی کی مسلسل پشت پنا ہی کر رہے ہیں۔ روس اور ایران کو disgrace کہنا دراصل نا انصافی ہے۔ روس اور ایران القا عدہ اور داعش کے خلاف تھے۔ ایران نے القا عدہ اور داعش کے خلاف عراق اور شام کی مدد کی ہے۔ ایران کے انقلابی گارڈ عراق اور شام میں ان کی فوج کے ساتھ ان سے لڑے ہیں۔ اور القا عدہ اور داعش سے عراق اور شام کے علاقہ آزاد کراۓ ہیں۔ روس نے بر وقت مداخلت کر کے اسد حکومت کو گرنے سے بچایا تھا۔ اگر اسد حکومت گر جاتی تو اس صورت میں القا عدہ اور داعش شام کے نئے حکمران ہوتے۔ لیکن شام میں دمشق حکومت کے خلاف اپوزیشن کے Intifada کی امریکہ برطانیہ اور فرانس بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ اور انہیں اسلحہ دے رہے ہیں۔ اور یہ hypocrisy  اور double standard ہے۔ شام کی جنگ ایک hodgepodge تھی۔ ترکی شام میں اپوزیشن کی حمایت کر رہا تھا۔ امریکہ شام کی Rebel Army کی پشت پنا ہی کر رہا تھا۔ جبکہ شمالی شام میں کرد ملیشیا کی بھی امریکہ حمایت کر رہا تھا۔ اور انہیں ہتھیار فراہم کیے جا رہے تھے۔ ترکی کے کرد شام کے کرد و ں کے قریب ہو رہے تھے۔ اردگان حکومت ترکی میں اپنے کرد و ں سے لڑ رہی تھی۔ استنبول میں بموں کے دھماکہ ہونے لگے تھے۔ سینکڑوں لوگ ان دھماکوں میں مارے گیے تھے۔ صدر اردگان استنبول کو خون میں دیکھ کر امریکہ پر چیخ پڑے تھے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کرد و ں کی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کیا ہے اور اوبامہ انتظامیہ اب ان کی پشت پنا ہی کر رہی تھی۔ امریکہ کے فوجی حملہ نے عراق کو عدم استحکام کیا تھا۔ اور 6 سال سے شام کی حکومت باغیوں کے خلاف جنگ میں گھری ہوئی تھی۔ کرد و ں نے اسے اپنی آزادی کے لئے ایک سنہرا موقعہ دیکھا تھا۔ امریکہ کا بھی یہ منصوبہ تھا کہ عراق اور شام کے ٹکڑے کر دئیے جائیں۔ اور کرد و ں کی آزاد ریاست بن جاۓ۔ یہ امریکی پالیسی مڈل ایسٹ کو destabilize کر رہی تھی۔ جس کا الزام ٹرمپ انتظامیہ میں ایران اور روس کو دیا جا رہا ہے۔ حقائق کو distort کرنے کی یہ پرانی عادت ہے۔
   صدر اوبامہ سے کسی نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ ایک انتہائی خونی خانہ جنگی کے نتیجہ میں اسد حکومت کا زوال ہونے کے بعد شام کا سیاسی نقشہ کیا ہو گا اور خونی خانہ جنگی کیا اور زیادہ خونی ہو گی؟ جبکہ نصف درجن سے زیادہ گروپوں کے اپنے سیاسی ایجنڈے تھے۔ صدر اوبامہ نے بھی اسد کے بعد شام کے سیاسی نقشہ کے بارے میں شاید سوچا بھی نہیں ہو گا۔ صدر بش صد ام حسین کے بعد عراق کے بارے میں Hunky dory باتیں کرتے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے عراق میں صد ام حسین کے بعد خطرناک نتائج سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔ شام اسد حکومت کے بعد عراق سے زیادہ خوفناک ہو گا۔  سب سے پہلے Orthodox Christians کا شام سے صفایا ہو جاۓ گا۔ شام میں Orthodox Christianity کی ہزار سال کی ایک تاریخ ہے۔ قدیم تاریخی Church’s ہیں۔ عراق میں صد ام حسین کے بعد عراقی Orthodox Christians کی ایک بڑی تعداد نے شام میں پناہ لی تھی۔ اسد حکومت کے بعد شام میں Alawites  شیعہ زیادہ vulnerable ہوں گے۔ سنی یہاں اکثریت میں ہیں۔ شام کی خانہ جنگی کا دوسرا round مذاہب کے درمیان جنگ ہو گا۔ سعودی عرب نے پہلے ہی شیعاؤں کے خلاف 1400 سال پرانی جنگ  کو اختتام پر پہنچانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ شام میں شیعہ اسلام کے بھی انتہائی مقدس مقامات ہیں۔ ان کے عقیدہ کی یہاں ایک تاریخ ہے۔ امریکیوں کو شام اور عراق میں مذاہب کی تاریخ کے بارے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ان کے لئے یہ کہنا سب سے آسان ہے کہ ایران اور روس شام میں مداخلت کر رہے ہیں۔ لیکن اس مداخلت کا مذہبی پس منظر کا انہیں کو ئی علم نہیں ہے۔ روس Orthodox Christian ملک ہے۔ ایران شیعہ ملک ہے۔ اور شام دونوں مذہبی عقیدہ کی بقا کا سوال ہے۔ اسد حکومت کے بعد یہ حالات کی ایک تصویر ہے۔ امریکہ نے شام میں meddling کی ہے۔ لیکن ترکی اسرائیل شام میں اپنی فوجیں بھیجنے کے لئے بالکل تیار کھڑے تھے۔ جبکہ روس اور ایران کے شام میں اہم مفادات ہیں۔ اسرائیل کی فوجیں گو لان کے راستہ شام میں داخل ہونے لئے تیار تھیں۔ ترکی کی فوجیں شام میں کرد و ں کے علاقہ پر قبضہ کرنے کے لئے تیار کھڑی ہیں۔ اس صورت میں صدر اوبامہ نے شام میں امریکی فوجیں نے  بھیجنے سے اختلاف کیا تھا۔ اور صرف یہ کہتے رہے کہ “Assad has to go” کیا واقعی یہ شام کے مسئلہ کا حل تھا؟
    شام کی خانہ جنگی کے بارے میں امریکی میڈیا کا کوریج صرف یکطرفہ ہے۔ تمام کوریج اسد حکومت کی فوج کے حملوں اور اپوزیشن کے حملوں کے گرد  ہے۔ 7 سال میں امریکی میڈیا نے شام میں عیسائوں، شیعاؤں اور قوم پرست عرب سنیوں کا موقف پیش نہیں کیا ہے کہ وہ امریکی meddling کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ اور خانہ جنگی کے بارے میں ان کے خیالات کیا ہیں؟ بلاشبہ ان لوگوں کی حمایت حاصل ہے جب ہی صدر اسد اقتدار میں ہیں۔ اور خانہ جنگی کا بڑی کامیابی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ صدر اسد  نے شام  میں عیسائوں کو   Persecutions سے بچایا ہے۔ اور روس نے اسد حکومت کا زوال ہونے سے بچایا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ روس کی بر وقت Meddling تھی جس نے ناز یوں کی شکست کو یقینی بنایا تھا۔                       

No comments:

Post a Comment