America’s $800 Billion
Dollar Trade Deficit, But What About Billions And Trillions of Dollars In Corporate
Profits
مجیب خان
ایک Globalize اور
Interconnected Economy میں
Trade war کی
ابتدا ایسی ہی ہو گی جیسے نیو کلیر میزائلوں کے دھماکہ کر کے دنیا سے کٹ کے رہنا ہوتا ہے۔ یہ Trade war
مالی، چڈ یا صو مالیہ سے نہیں ہو گی۔ بلکہ امریکہ کی یہ Trade war اس کے قریبی ٹریڈ پارٹنر ز سے ہو گی۔ جن کے ساتھ امریکہ کے خصوصی تعلقات
ہیں۔ یا جن ملکوں کو امریکہ نے Free Trade کا اعزاز دیا ہے۔ ان ملکوں میں G-7 اور
G-15 کے
ممالک بھی شامل ہیں۔ G-15 ملک
نئی ابھرتی اقتصادی طاقتیں ہیں۔ NAFTA معاہدہ امریکہ، کینیڈا اور
میکسیکو کے مابین تقریباً 24 سال قبل ہوا تھا۔ امریکہ کے 6 صدروں نے اس کی مکمل
حمایت کی تھی۔ اور اسے امریکہ کے مفاد میں ایک بہت اچھا معاہدہ قرار دیا تھا۔
کانگریس اور سینٹ کے اراکین کی ایک بھاری اکثریت نے اس معاہدے کو منظور کیا تھا۔
جن میں ڈیمو کریٹس بھی شامل تھے۔ امریکہ کی لیبر یونین نے NAFTA کی سخت مخالفت
کی تھی۔ اور اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اس معاہدے کے نتیجہ میں امریکہ سے
کمپنیاں اور فیکٹر یاں میکسیکو چلی جائیں گی۔ اور یہ بڑی تعداد میں بیروزگار لوگ
پیچھے چھوڑ جائیں گی۔ 4 سابق صدر جن میں فورڈ، کار ٹر، ریگن اور جارج ایچ بش شامل تھے، NAFTA منظور کرانے میں کلنٹن انتظامیہ کے فیصلہ کی حمایت اور اس کے لئے لابی کی
تھی۔ 4 سابق صدروں اور صدر کلنٹن نے NAFTA کو امریکہ کے
مفاد میں کہا تھا۔ امریکی عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ اس معاہدہ کے نتیجہ میں امریکہ
میں 2 لاکھ نئے Job create ہوں
گے۔ میکسیکو کے ساتھ امریکہ کی تجارت بڑھے گی۔ جو کمپنیاں اور فیکٹر یاں میکسیکو
چلی گئی تھیں۔ اور جو امریکی بیروزگار ہو گیے تھے۔ ان کے لئے صدر کلنٹن کا پیغام
یہ تھا کہ جو Jobs چلے
گیے ہیں وہ اب واپس نہیں آئیں گے۔ اور انہیں ایک نئی معیشت کے تقاضوں کے مطابق
تربیت لینا چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں تھا کہ NAFTA معاہدہ کمپنیوں کے مفاد میں تھا۔
امریکی عوام کو اس معاہدہ سے بیروزگاری ملی تھی۔ 24 سال بعد امریکہ کے 45ویں صدر
ڈونالڈ ٹرمپ NAFTA کو
امریکہ کے لئے انتہائی خراب معاہدہ بتا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ 24 سال قبل اس
وقت لیبر رہنماؤں نے اس معاہدہ کی مخالفت میں جو کچھ کہا تھا۔ وہ بالکل درست تھا۔
اور صدر ٹرمپ NAFTA کے خلاف لفظ بہ لفظ اب وہ ہی باتیں کر رہے ہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ نے NAFTA میں
ان خرابیوں کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ جن کی وجہ سے امریکہ کو اقتصادی اور تجارتی
فائدہ نہیں ہوا تھا۔ پھر دوسری طرف یہ بھی نہیں بتایا جا رہا ہے کہ جو کمپنیاں اور
فیکٹر یاں میکسیکو چلی گئی تھیں۔ ان کے کاروبار میں NAFTA کی وجہ سے کتنا
اضافہ ہوا تھا۔ اور ان کی آمدنی اور منافع میں کتنا اضافہ ہوا تھا۔ NAFTA کے
بارے میں صدر ٹرمپ کے دعووں کو سابق صدر کلنٹن نے بھی Rebuttal نہیں کیا ہے۔
80 کی دہائی میں امریکہ کو صرف جاپان سے تجارتی
خسارہ کا سامنا رہتا تھا۔ یہ تجارتی خسارہ 200بلین ڈالر سے کم تھا۔ اور کبھی
200بلین ڈالر سے زیادہ نہیں ہوا تھا۔ Jim Baker صدر ریگن کی انتظامیہ میں Treasury Secretary
تھے۔ امریکہ
میں جاپانی کاروں کا جیسے Flood تھا۔ امریکہ کے
تمام بڑے Auto manufacturers
امریکی مارکیٹ میں جاپانی کاروں کی بھر مار سے سخت پریشان تھے۔ امریکی کاروں کی
فروخت بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے Auto کمپنیوں کے CEO
سیکرٹیری خزانہ جم بیکر کے پاس گۓ اور ان سے جاپانی کاروں کی امریکہ میں درآمد
روکنے کے لئے اپیل کی تھی۔ سیکرٹیری خزانہ جم بیکر نے ان کی اپیل مسترد کرتے ہوۓ
انہیں جاپانی کاروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر کاریں بنانے اور ان سے Compete
کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ سیکرٹیری خزانہ نے کہا انہوں نے جاپانی کاروں کی درآمد پر
کوئی پابندی نہیں لگائی تھی۔ امریکی Auto manufacturers جاپانی کاروں کے
مقابلے پر بہتر کاریں بنانے لگے تھے۔ اور اب Global Economy میں
سارا کھیل Competition ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے شاید یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ Global Economy میں
امریکی کمپنیوں کے لئے Competition مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اور Competition کا substitute tariff میں دیکھا ہے۔
امریکہ
کا تجارتی خسارہ اب 800بلین ڈالر پر پہنچ گیا ہے۔ اور اس میں کمی ہونے کے بجاۓ
اضافہ کے امکانات زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ چین کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ
500بلین ڈالر ہے۔ اسے امریکی انتظامیہ چین کے ساتھ تجارت میں عدم توازن دیکھتی ہے۔
حالانکہ چین کے علاوہ تقریباً ایک درجن سے زیادہ ملکوں کے ساتھ امریکہ کو تجارتی
خسارہ کا سامنا ہے۔ تاہم چین ان ملکوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ صدر ٹرمپ کا
کہنا ہے کہ یہ ملک unfair
trade سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حقیقت
دراصل یہ ہے کہ دنیا میں اقتصادی، مالیاتی اور تجارتی نظام امریکہ اور مغرب نے
بنایا ہے۔ جو تقریباً ایک تہائ صدی سے دنیا میں رائج ہے۔ اور اس نظام میں دنیا کے
ایک تہائ ملکوں کا نصف صدی سے استحصال کیا جا رہا تھا۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا
نہیں تھا جو تجارتی خسارہ سے immune
تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ اپنے تجارتی خسارہ کی بات کی تھی۔ لیکن دوسرے ملکوں کو تجارتی
خسارہ دینے کی شہ سرخیاں کبھی نہیں بنتی تھیں۔ مغربی اور امریکی کمپنیاں ترقی پذیر
ملکوں میں اپنی اشیا dump
کرتی تھیں۔ ترقی پذیر ملکوں کا خام مال سستے داموں خریدا جاتا تھا۔ اور پھر ان کے
خام مال سے finish goods
انہیں مہنگے داموں میں فروخت کی جاتی تھیں۔ Globalization نے
اس unfair trade practice کو
تبدیل کر دیا ہے۔ اس تبدیلی کو دیکھ کر امریکی کمپنیاں اور فیکٹر یاں چین آ گئی
تھیں۔ چین میں سستی اور محنتی لیبر سے کمپنیوں اور کارپوریشن کے منافع میں زبردست Boom آیا
ہے۔ امریکہ کی Giant
کمپنیوں کے 3ٹریلین ڈالر off
shore بنکوں میں ر کھے ہیں۔ یہ 3ٹریلین
ڈالر امریکہ سے off shore
بنکوں میں جمع نہیں کراۓ گۓ تھے۔ Made in China اشیا جو امریکہ
میں آ رہی ہیں اور سٹوروں میں فروخت ہو رہی ہیں۔ ان سے سٹوروں کا 75، 80 فیصد بلکہ
الیکٹرونک اور بعض دوسری اشیا میں یہ 100فیصد سے 200فیصد منافع ہوتا ہے۔ امریکہ سے
زیادہ General Motors کی
کاریں چین میں فروخت ہوتی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق General Motors نے
چین میں 3.9ملین کاریں فروخت کی تھیں۔ جبکہ امریکہ میں صرف 3ملین کاریں
فروخت ہوئی تھیں۔ امریکہ کے مقابلے میں چین میں کاروں کی فروخت بہت مضبوط تھی اور
منافع بھی ریکارڈ ہوا تھا۔ GM’s کی
کاروں کی فروخت میں چین سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ گزشتہ سال چین میں GM’s کے
بزنس میں 13 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ 7سال قبل GM’s دیوالیہ ہو گئی تھی اور امریکی
انتظامیہ نے اسے bailout کیا
تھا۔ رپورٹ کے مطابق Ford
Motors نے گزشتہ سال چین میں 1.5بلین ڈالر کماۓ تھے۔ اور ایک اندازے کے مطابق چین کے مارکیٹ میں اس کا 4.2فیصد حصہ تھا۔ امریکی کمپنیوں کے لئے چین کی مارکیٹ اور بہت زیادہ منافع خصوصی
اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں چین کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ چین unfair trade کی وجہ سے دنیا کی دولت بٹور رہا ہے۔
چین
کے وزیر اعظم Zhu Rongji
1999 میں امریکہ آۓ تھے۔ اور اس دورے میں وزیر اعظم Zhu نے MIT میں
اسٹوڈنٹ سے خطاب کیا تھا۔ اور خطاب کے بعد اسٹوڈنٹس کے ساتھ سوال جواب کا سیشن ہوا
تھا۔ ایک اسٹوڈنٹ نے وزیر اعظم سے یہ سوال کیا تھا کہ Made in China کی
اشیا امریکہ میں بہت مہنگی فروخت ہوتی ہیں اور چین اس سے کتنا منافع بناتا ہے۔ وزیر
اعظم Zhu Rongji نے
اس کا جواب یہ دیا تھا
“In 1987, when I was the
executive vice minister of the State Economic Commission in China, I made a
research on that and I looked into the case of the Nike, Reebok, Adidas sports
footwear exported to the United States from China. Most of these factories are
set up in the coastal provinces, such as Fujian Province, so I went to Fujian
Province. At that time the factories producing such footwear in Fujian were
mostly run by Taiwan business people. The producer price for each pair of the
sports footwear is 20 US dollars but the retail price in the US market was 120
US dollars. I found that, out of the 20 US dollars, only 2 US dollars were paid
to the Chinese workers, but that 2 US dollars could support the life of two
Chinese workers.
As for the raw materials,
some of them were imported from Japan and some from the United States. And the
cushion—That’s the main part—was worth 2 US dollars; that may be a patent
product that was from the United States. So that you can see very clearly, that
kind of shoes were sold for 120 US dollars in the United States and the producer
price in China was 20 US dollars, but the Chinese workers only got 2 US dollars,
but that anyway was beneficial to China because that provided job opportunities
for Chinese.
Then what is the situation
now? Recently I received a major shoe producer from Taiwan. According to him,
he has the largest sale of sports shoes worldwide and all of his products are
produced in China. And I asked him, how are your factories doing as compared
with 1987? He said, almost the same situation, and this time when I came to the
United States I instructed my secretary to go to the nearest department stores in Chicago and to find out the
prices of these shoes and I found that the average retail price of these sports
shoes ranged from 80 to 120 US dollars, maybe a little bit lower then the price
of 1987, and if you looked inside, you can see that they are all made in China.”
امریکی کمپنیوں نے چین میں اربوں ڈالر کے کاروبار سے کھربوں ڈالر بناۓ ہیں۔
چین سے امریکہ کی تجارت دراصل چین میں امریکی کمپنیوں سے ہوتی ہے۔ جن کی سستا اشیا
امریکہ میں آتی ہیں۔ اور امریکہ میں مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔ یہ کمپنیاں منافع
امریکہ سے لے جاتی ہیں۔ اور تجارتی خسارہ امریکی حکومت کے لئے چھوڑ جاتی ہیں۔
امریکی حکومت پھر اپنے عوام کو یہ بتاتی ہے کہ اسے چین سے تجارت میں 500بلین ڈالر
کا خسارہ ہوا ہے۔ اس خسارہ میں امریکی کمپنیوں کے رول کو پس پردہ کر دیا جاتا ہے۔
لیکن چین میں امریکی کمپنیوں کے تجارتی منافع کا کبھی نہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ
چین سے تجارتی خسارے سے کتنا گنا زیادہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اقتصادی
استحکام چین کی اقتصادی ترقی پر منحصر کرتا
ہے۔ چین نے یورپ اور امریکہ میں مڈل کلاس کو سہارا دیا ہے۔ جو لکھ پتی تھے انہیں
ارب پتی بنایا ہے۔ اور جو غریب تھے انہیں زندہ رکھا ہے۔ اور یہ چین کی اقتصادی طاقت
ہونے کے ثبوت تھے۔
لیکن اس کے باوجود امریکہ میں چین کو بدنام کرنے
کی ایک مہم جاری ہے۔ چین کو کبھی Currency manipulator کہا جاتا ہے۔ کبھی
چین کو Cheating
کرنے کا الزام دیا جاتا ہے۔ اور کبھی چین کو امریکہ کی ٹیکنالوجی چوری کرنے کا الزام
دیا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ چین کی
عظیم تاریخ ہے جس نے چین کو عظیم بنایا ہے۔ امریکہ دنیا کے 70 ملکوں میں 17سال سے
جنگیں لڑ رہا ہے۔ جو دنیا کی تاریخ میں شاید طویل ترین جنگیں ہیں۔ لیکن عالمی
معیشت ان تباہ کن جنگوں کے اثرات سے ابھی تک محفوظ ہے۔ دنیا بھر میں صارفین پر ان
جنگوں کے اثرات نہیں ہوۓ ہیں۔ اور یہ صرف چین کی عالمی معیشت کی وجہ سے ممکن ہوا
ہے۔
No comments:
Post a Comment